راکھ کر دے گی یہ چمن سائیں
اب کے بھڑکی ہے جو اگن سائیں
چند لمحوں میں کیسے اُترے گی
یہ جو صدیوں کی ہے تھکن سائیں
دیکھنے سے تِرے سنورتے ہیں
حُسن،۔ تقدیر،۔ بانکپن سائیں
میری آنکھوں کو نُور بخشے گی
جلوۂ یار کی کرن سائیں
سانس لینے کی اب اجازت ہو
جان لیوا ہے یہ گُھٹَن سائیں
شاعری صرف مشغلہ کب ہے
میری پہچان ہے یہ فن سائیں
مالکِ کُل ہے مہرباں مجھ پر
اوج پر ہے مِرا سُخَن سائیں
جانے کس سَمت لے کے جائے گی
من کو لاگی ہے جو لگن سائیں
تُجھ کو عنبر تلاش کرتی ہے
مست پاگل سی اِک پوَن سائیں
فرحانہ عنبر
No comments:
Post a Comment