Sunday, 4 May 2025

دیکھا نہیں وہ آدمی تنہا کہوں جسے

 دیکھا نہیں وہ آدمی تنہا کہوں جسے

وہ آج تک ملا نہیں اپنا کہوں جسے

صدیوں سے انتظار ہے اس ایک شخص کا

آئے ہو کتنی دیر سے اتنا کہوں جسے

نظریں ترس کے رہ گئیں تا عکس آبشار

دیکھا نہیں ہے پانی کا قطرہ کہوں جسے

کون و مکاں میں موجزن ہے تیری آگہی

اک لمحہ بھی ملا نہیں تیرا کہوں جسے

دریا ہوں موج بن کے رواں ہوں تری طرف

اس پار کوئی گھر بھی ہے اپنا کہوں جسے

افسونِ انتظارِ تمنا کا نام ہے

حسنِ طلب میں آرزو گویا کہوں جسے


غالب احمد

No comments:

Post a Comment