کیوں خطا ہیں تِرے اوسان مِری جان بتا
ہو نہ ہو تو ہے پریشان مری جان بتا
دیکھ چہرہ یہ تِرا کھا بھی رہا ہے چُغلی
یوں نہ بن بے وجہ انجان مری جان بتا
سن چکا بس میں بہت اور نہیں سننی ہے
کچھ نہیں ہے کی یہ گردان مری جان بتا
امتحاں ہے تو میں آسان کئے دیتا ہوں
چھوڑ قصہ فقط عنوان مری جان بتا
دیکھ میں چھوڑ کے گھر بار یہاں پہنچا ہوں
ہو رہا ہے مِرا نقصان مری جان بتا
گو مِرا نام ہے تعریف بھی لیکن مجھ پہ
کر گزر آج یہ احسان! مری جان بتا
احسان سبز
No comments:
Post a Comment