Wednesday, 7 May 2025

لوگ کیوں ہراساں ہیں کیوں سکوت طاری ہے

 لوگ کیوں ہراساں ہیں کیوں سکوت طاری ہے

حادثوں کی سرخی میں آج کس کی باری ہے

بزم کی وہ بد نظمی، تم نے میرے سر ڈالی

شہر کا یہ ہنگامہ کس کی ذمہ داری ہے

بار جھوٹ کا لے کر جب چلا تو میں خوش تھا

تب یہ کتنا ہلکا تھا، آج کتنا بھاری ہے

بن کے چارہ گر یارو! چھیننے کو آئے ہو

ہم نے زخم بوئے ہیں، یہ زمیں ہماری ہے

رفتہ رفتہ لوگوں کو بھولے کام یاد آئے

بھید کھل گیا شاید سوچ میں مداری ہے

سچ تو یہ ہے اے کاظم نعمتوں سے محرومی

خود ہمیں نے ڈھونڈی ہے جبرِ اختیاری ہے


محمود اقبال کاظم

No comments:

Post a Comment