Wednesday, 7 May 2025

کیوں شہر میں ہر سمت سے اٹھتا ہے دھواں دیکھ

 کیوں شہر میں ہر سمت سے اٹھتا ہے دھواں دیکھ

کیا حال محلے کا ہے جا اپنا مکاں دیکھ

آفاق اڑانوں کے ابھی اور بہت ہیں

اے طائر پرواز کبھی اپنا جہاں دیکھ

دیتا نہیں نفرت کا شجر دھوپ میں سایہ

بہتر ہے کوئی سایۂ دیوار اماں دیکھ

آکاش یہ تاروں کی ضیا دیکھنے والے

اگلے ہے زمیں چاند بھی سورج بھی یہاں دیکھ

لگتا ہے کوئی تیر جگر چیر کے نکلے

لچکے ہے ستم گر تِرے ابرو کی کماں دیکھ

کیوں کہتے ہیں سب مجھ کو بزرگ آپ بزرگ آپ

آ تو بھی مِرے ماتھے پہ سجدوں کے نشاں دیکھ

کہنا ہی پڑا نور کے اشعار کو سن کر

کیا خوب ہے ظالم کا بھی انداز بیاں دیکھ


نور منیری

قاضی عمر ابراہیم

No comments:

Post a Comment