سحر کے انتظار میں
سحر کے انتظار میں تمام خواب سو گئے
چراغ بجھ گئے طویل رات کے حصار میں
کہیں پہ ٹمٹمائی گر کسی نظرکی روشنی
مہیب آندھیوں نے اک غبار میں بدل دیا
کہیں پہ جھلملائی یاد کی کوئی کرن اگر
تو خامشی کے اژدہوں نے اس کو بھی نگل لیا
سحر کے انتظار میں مگر یہ دل تھا پُر یقیں
کہ آئے گا نظر ابھی ترے جمال کا قمر
نثار ہو گا دل تِرے رخِ حسیں کی تاب پر
فگار ہوں گی انگلیاں بس اک نگہ کی آب پر
چمک اٹھے گی تیرے لب کی احمریں شگفتگی
جلے گی دل کی انجمن میں پھر سے شمعِ وصال
سحر تو آ گئی یقیں کی روشنی چلی گئی
بہم تو ہم ہوئے مگر وہ دلکشی چلی گئی
خرم خرام صدیقی
No comments:
Post a Comment