کوئی پوچھے میرے مہتاب سے میرے ستاروں سے
چھلکتا کیوں نہیں سیلاب میں پانی کناروں سے
مکمل ہو تو سچائی کہاں تقسیم ہوتی ہے
یہ کہنا ہے محبت کے وفا کے حصہ داروں سے
ٹھہر جائے در و دیوار پر جب تیسرا موسم
نہیں کچھ فرق پڑتا پھر خزاؤں سے بہاروں سے
بگولے آگ کے رقصاں رہے تادیر ساحل پر
سمندر کا سمندر چھپ گیا اڑتے شراروں میں
میری ہر بات پس منظر سے کیوں منسوب ہوتی ہے
مجھے آواز سی آتی ہے کیوں اجڑے دیاروں سے
جہاں تک حد بینائی مسافر ہی مسافر ہوں
نشاں قدموں کے مٹ جاتے ہیں ایسی رہگزاروں سے
یاسمین حمید
No comments:
Post a Comment