Thursday, 17 December 2020

کوئی پوچھے میرے مہتاب سے میرے ستاروں سے

 کوئی پوچھے میرے مہتاب سے میرے ستاروں سے

چھلکتا کیوں نہیں سیلاب میں پانی کناروں سے

مکمل ہو تو سچائی کہاں تقسیم ہوتی ہے

یہ کہنا ہے محبت کے وفا کے حصہ داروں سے

ٹھہر جائے در و دیوار پر جب تیسرا موسم

نہیں کچھ فرق پڑتا پھر خزاؤں سے بہاروں سے

بگولے آگ کے رقصاں رہے تادیر ساحل پر

سمندر کا سمندر چھپ گیا اڑتے شراروں میں

میری ہر بات پس منظر سے کیوں منسوب ہوتی ہے

مجھے آواز سی آتی ہے کیوں اجڑے دیاروں سے

جہاں تک حد بینائی مسافر ہی مسافر ہوں

نشاں قدموں کے مٹ جاتے ہیں ایسی رہگزاروں سے


یاسمین حمید

No comments:

Post a Comment