Thursday, 17 December 2020

سلگنا اندر اندر مصرعۂ تر سوچتے رہنا

 سلگنا اندر اندر مصرعۂ تر سوچتے رہنا

بدن پر ڈال کر زخموں کی چادر سوچتے رہنا

نہیں کم جاں گسل یہ مرحلہ بھی خود شناسی کا

کہ اپنے ہی معانی لفظ بن کر سوچتے رہنا

زباں سے کچھ نہ کہنا باوجود تاب گویائی

کھلی آنکھوں سے بس منظر بہ منظر سوچتے رہنا

کسی لمحے تو خود سے لا تعلق بھی رہو لوگو

مسائل کم نہیں پھر زندگی بھر سوچتے رہنا

چراغ زندگی ہے یا بساط آتش رفتہ

جلا کر روشنی دہلیز جاں پر سوچتے رہنا

عجب شے ہے فضا ذہن و نظر کی یہ اسیری بھی

مسلسل دیکھتے رہنا، برابر سوچتے رہنا


فضا ابن فیضی

No comments:

Post a Comment