عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
وہ رات جب امام کی گونجی تھی یہ صدا
اے دوستانِ صادق و یارانِ با صفا
باقی نہیں رہا ہے کوئی اور مرحلہ
اب سامنا ہے موت کا اور صرف موت کا
آنے ہی پر بلائیں ہیں اب تحت و فوق سے
جانا جو چاہتا ہے، چلا جائے شوق سے
اور سنتے ہی یہ بات بصد کرب و اضطراب
شبیرؑ کو دیا تھا یہ انصار نے جواب
دیکھیں جو ہم یہ خواب بھی اے ابنِ بُوترابؑ
واللہ! فرطِ شرم سے ہو جائیں آب آب
قرباں نہ ہو جو آپؑ سے والا صفات پر
لعنت اس امن و عیش پہ تُف اس حیات پر
کیا آپؑ کا خیال ہے یہ شاہِ ذی حشم
ہم ہیں اسیر سُود و زیاں صید کیف و کم
خود دیکھ لیجیے گا کہ گاڑیں گے جب قدم
ہٹنا تو کیا، ہلیں گے نہ دشت وغا سے ہم
پُتلے ہیں ہم حدید کے پیکر ہیں سنگ کے
انساں نہیں، پہاڑ ہیں میدانِ جنگ کے
جوش ملیح آبادی
No comments:
Post a Comment