زعفرانی غزل
نکل گیا میرے منہ سے تائی، تو میں نے دیکھا
بِپھر گئی بِھڑ کی طرح مائی تو میں نے دیکھا
مریضِ ہِجراں نے غسلِ صحت کو مانگا نیسلے
دوائے وصلِ صنم پلائی تو میں نے دیکھا
اُتار دے جیسے کوئی بھینسوں کو ڈاٹسن سے
گھنیر مونچھ اس نے جب کٹائی تو میں نے دیکھا
چمٹ گئے ڈر کے مارے ماؤں سے تین بچے
جہازی منہ نے جو لی جمائی تو میں نے دیکھا
کھسک گئے سب رقیب کُوچے سے دائیں بائیں
وہ چھت پہ وَٹوں سمیت آئی تو میں نے دیکھا
سکورٹی میری پھر سے گھر میں ڈبل ہوئی ہے
ملازمہ یہ بھی جب سے آئی تو میں نے دیکھا
سٹیلہ" تعریف سُن کے ہوتی ہے موم فورآ"
ذرا سی میں نے بھی کی ٹرائی تو میں نے دیکھا
میاں نے چینل بدل کے ریموٹ توڑ ڈالا
وہ جونہی ٹی وی پہ دندنائی، تو میں نے دیکھا
عزیز فیصل
No comments:
Post a Comment