باس طاقت کے نشے میں جس کا بھی نمرُود ہے
ایک مچھر کی اُسے خدمت ابھی مقصُود ہے
دانت میں کیڑوں نے ہیں کیونکر بنا رکھے پلاٹ
سات پُشتوں سے اگر آبائی گھر امرُود ہے
چار چھ اچھے عمل شاید کیے ہوں گے مگر
قیس جی کی بونگیوں کی لِسٹ لامحدُود ہے
رات دن ہلمٹ پہن، سر کی حفاظت کے لیے
آسماں گِرنے کا خطرہ گھر میں بھی موجُود ہے
پِس رہی ہے خوب مہنگائی کی چکی میں عوام
حکمرانوں کی طرف سے بس اُچھل ہے کُود ہے
بھائی! تُو نے کس طرح آسان سا رکھا حساب
سات سالوں میں تِرے ہاں ساتواں مولُود ہے
شادیانے شادیوں میں تو بجانے چاہییں
بِین بجانا بھیس کے آگے مگر بے سُود ہے
مجھ سے اردو کے پروفیسر نے پُوچھی ہے یہ بات
مرد ہے واحد تو اس کی جمع کیا مردُود ہے
لیڈروں نے مال اپنی جیب میں بھر کر کہا
مُدعا اس سے ہمارا قوم کی بہبُود ہے
چائے پانی مانگ لے، رشوت نہیں لینی اگر
اور بھی رستے ہیں گر اک راستہ مسدُود ہے
شاعرہ نے داد پائی جس غزل پر بے بہا
بحر غوطے کھا رہی ہے، قافیہ نابُود ہے
کیجیے مت بحث بیگم سے کہ جل جائیں گے آپ
صاف ظاہر ہے کہ ڈھیری میں چُھپا بارُود ہے
گرد جھاڑی ہے مِرے محبوب نے چہرے سے آج
اس لیے ملتان کا موسم غُبار آلُود ہے
آپ لے کر آ گئے ہیں ڈیڑھ درجن بالکے
میزبانی کی ہماری پیشکش محدُود ہے
شاعرہ کا ہے جو شاعر اور ملکہ کا ملک
ہم سمجھتے ہیں کہ فالُودہ کا وہ فالُود ہے
عرفان قادر
No comments:
Post a Comment