Thursday, 30 June 2016

بیتے ہوئے دنوں کی کوئی بات چھیڑ دے

بیتے ہوئے دنوں کی کوئی بات چھیڑ دے
زلفیں بکھیر،۔ اور حکایات چھیڑ دے
غم ہائے روزگار کی نیت خراب ہے
چپکے سے اٹھ کے سازِ خرابات چھیڑ دے
ایسی کمند پھینک جو رحمت کو کھینچ لائے
ایسی نگاہ ڈال،۔ جو برسات چھیڑ دے

ہم گئے تو ملنے کو صرف ایک خار آیا

ہم گئے تو ملنے کو صرف ایک خار آیا
دھوم تھی گلستاں میں موسمِ بہار آیا
آج ان کی نیت پر مجھ کو بدگمانی ہے
آج میری باتوں پر ان کو اعتبار آیا
لے کے شیشہ و بربط آ بھی جاؤ اے یارو
موسمِ 🎕بہار آیا،  موسمِ🎕 بہار آیا

ستارے بے خود و سرشار تھے کل شب جہاں میں تھا

ستارے بیخود و سرشار تھے کل شب جہاں میں تھا
اندھیرے رو کشِ انوار تھے، کل شب جہاں میں تھا
مسائل زندگی کے جو کبھی سیدھے نہ ہوتے تھے
سراسر سہل اور ہموار تھے، کل شب جہاں میںتھا
اگرچہ محتسب بھی ان گنت تھے اس شبستان میں
مگر سب میکشوں کے یار تھے، کل شب جہاں میں تھا

میرا ہی سب گناہ ہے تم بے قصور ہو

میرا ہی سب گناہ ہے تم بے قصور ہو
میری وفا گواہ ہے، تم بے قصور ہو
تم نے تو روشنی کا کیا تھا کچھ اہتمام
دنیا اگر سیاہ ہے،۔ تم بے قصور ہو
جینا تمہارا قرضِ نظر کب تھا جانِ من
جینا اگر گناہ ہے،۔ تم بے قصور ہو

ہزار گردش شام و سحر سے گزرے ہيں

ہزار گردشِ شام و سحر سے گزرے ہيں 
وہ قافلے جو تِری رہگزر سے گزرے ہيں
ابھی ہوس کو ميسر نہيں دلوں کا گداز 
ابھی يہ لوگ مقامِ نظر سے گزرے ہيں
ہر ايک نقش پہ تھا تيرے نقشِ پا کا گماں 
قدم قدم پہ تِری رہگزر سے گزرے ہيں

مسافران محبت کی داستاں ہے عجیب

مسافرانِ محبت کی داستاں ہے عجیب
جو سو گئی کہیں منزل تو جاگ اٹھے نصیب
نہ پوچھ مرحلۂ شوق دور ہے کہ قریب
جہاں ہو دشتِ تمنا وہیں دیارِ حبیب
دعانہ مانگ کہ ہو آرزو قبول تِری
دعا یہ مانگ کوئی آرزو ہو تجھ کو نصیب

ستم دیکھتے ہیں کرم دیکھتے ہیں

ستم دیکھتے ہیں، کرم دیکھتے ہیں
محبت کے ہم زیر و بم دیکھتے ہیں
بہت سن چکے نعرۂ لن ترانی
اٹھا دو یہ پردہ، کہ ہم دیکھتے ہیں
جبیں کو میسر کہاں سجدہ ریزی
ابھی تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں

اگرچہ آنکھ بہت شوخیوں کی زد میں رہی

اگرچہ آنکھ بہت شوخیوں کی زد میں رہی
مِری نگاہ ہمیشہ ادب کی حد میں رہی
سمجھ سکا نہ کوئی زندگی کی ارزش کو
یہ جنسِ خاص ترازوئے نیک و بد میں رہی
ازل سے ابھری تو موجِ ابد میں ڈوب گئی
یہ سیلِ زیست لکد کوبِ جزر و مد میں رہی

مل جائے مے تو سجدۂ شکرانہ چاہئے

مل جائے مے تو سجدۂ شکرانہ چاہیے
پیتے ہی ایک لغرشِ مستانہ چاہیے
ہاں احترامِ کعبہ و بت خانہ چاہیے
مذہب کی پوچھئے تو جداگانہ چاہیے
رندانِ مے پرست سیہ مست ہی سہی
اے شیخ! گفتگو تو شریفانہ چاہیے

وہ ہوئے پردہ نشیں انجمن آرا ہو کر

وہ ہوئے پردہ نشیں انجمن آرا ہو کر
رہ گیا میں ہمہ تن چشمِ تمنا ہو کر
حسن نے عشق پہ حیرت کی نگاہیں ڈالیں
خود تماشا ہوئے ہم محوِ تماشا ہو کر
آنکھ کمبخت سے اس بزم میں آنسو نہ رکا
ایک قطرے نے ڈبویا مجھے دریا ہو کر

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات، یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھُلا دیا، ہم نہ تمہیں بھُلا سکے
تم ہی نہ سن سکے اگر، قصۂ غم سنے گا کون
کس کی زباں کھُلے گی پھر، ہم نہ اگر سنا سکے
ہوش میں آ چکے تھے ہم، جوش میں آ چکے تھے ہم
بزم کا رنگ دیکھ کر، سر نہ مگر اٹھا سکے

اب وہ نوید ہی نہیں صوت ہزار کیا کرے

اب وہ نوید ہی نہیں صوتِ ہزار کیا کرے
نخلِ امید ہی نہیں،۔ ابر بہار کیا کرے
دن ہو تو مہر جلوہ گر، شب ہو تو انجم و قمر
پردے ہی جب ہوں پردہ در، روئے نگار کیا کرے
عشق نہ ہو تو دل لگی، موت نہ ہو تو خودکشی
یہ نہ کرے تو آدمی آخرِ کار کیا کرے

Monday, 27 June 2016

جب بھی آنکھوں میں اشک بھر آئے

جب بھی آنکھوں میں اشک بھر آئے
لوگ کچھ ڈوبتے نظر آئے
چند لمحے جو لوٹ کر آئے
رات کے آخری پہر آئے
اپنا محور بدل چکی تھی زمیں
ہم خلا سے جو لوٹ کر آئے

کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید

کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید
وقت میں پڑ گیا بل شاید
لب پہ آئی مِری غزل شاید
وہ اکیلے ہیں آج کل شاید
دل اگر ہے تو درد بھی ہو گا
اس کا کوئی نہیں ہے حل شاید

آنکھوں میں ساون چھلکا ہوا ہے

آنکھوں میں ساون چھلکا ہوا ہے
آنسو ہے کوئی اٹکا ہوا ہے
آنکھوں کی ہچکی رکتی نہیں ہے
رونے سے کب دل، ہلکا ہوا ہے
سینے میں ٹوٹی ہے چیز کوئی
خاموش سا ایک کھٹکا ہوا ہے

بیتے رشتے تلاش کرتی ہے

بیتے رشتے تلاش کرتی ہے
خوشبو غنچے تلاش کرتی ہے
جب گزرتی ہے اس گلی سے صبا
خط کے پرزے تلاش کرتی ہے
اپنے ماضی کی جستجو میں بہار
پیلے پتے تلاش کرتی ہے

ذرا سا امکان کس قدر تھا

ذرا سا امکان کس قدر تھا
فضا میں ہیجان کس قدر تھا
میں کس قدر تھا قریب اس کے
وہ میری پہچان کس قدر تھا
لباس پر تھا ذرا سا اک داغ
بدن پریشان کس قدر تھا

دوستو کیا ہے تکلف مجھے سر دینے میں

دوستو کیا ہے تکلف مجھے سر دینے میں
سب سے آگے ہوں میں کچھ اپنی خبر دینے میں
پھینک دیتا ہے ادھر پھول وہ گاہے گاہے
جانے کیا دیر ہے دامن مِرا بھر دینے میں
سیکڑوں گمشدہ دنیائیں دکھادیں اس نے
آ گیا لطف اسے لقمۂ تر دینے میں

Saturday, 25 June 2016

کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے​
کسی کی آس بغیر از خدا نہیں‌ رکھتے​
نہ روئے بیٹوں‌ کے غم میں‌ حسین، واہ رے صبر​
یہ داغ، ہوش بشر کے بجا نہیں رکھتے​
کسی کو کیا ہو دلوں‌ کی شکستگی کی خبر​
کہ ٹوٹنے میں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے​

دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اس کا

دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اس کا
ذرا سے لمس نے روشن کیا بدن اس کا
وہ خاک اڑانے پہ آئے تو سارے دشت اس کے
چلے گداز قدم تو چمن چمن اس کا
وہ جھوٹ سچ سے پرے رات کچھ سناتا تھا
دلوں میں راست اترتا گیا سخن اس کا

دل کی بستی کو نہ ویران بنائے رکھنا

دل کی بستی کو نہ ویران بنائے رکھنا
کچھ نہ ہو اور تو یادوں سے سجائے رکھنا
رشتۂ درد سے پائندہ نہیں رشتہ کوئی
مِری اس بات کو سینے سے لگائے رکھنا
بجھ گئے اب کے تو شاید نہ جلیں پھر یہ کبھی
ان چراغوں کو ہواؤں سے بچائے رکھنا

نہ پوچھو جب بہار آئی تو دیوانوں پہ کیا گزری

نہ پوچھو جب بہار آئی تو دیوانوں پہ کیا گزری
ذرا دیکھو تو اس موسم میں فرزانوں پہ کیا گزری
بہار آتے ہی ٹکرانے لگے کیوں ساغر و مینا
بتا اے پیر مے خانہ! یہ مے خانوں پہ کیا گزری
فضا میں ہر طرف کیوں دھجیاں آوارہ ہیں ان کی
جنونِ سرفروشی! تیرے افسانوں پہ کیا گزری

کیا جانے کس آنے والے دور کی یہ تیاری ہے

کیا جانے کس آنے والے دور کی یہ تیاری ہے
حال کا لمحہ لمحہ ماضی کی صدیوں پر بھاری ہے
فصلِ بہاراں کے چہرے پر جس کے سبب گلکاری ہے
درد سوز وہی ہر موجِ خزاں میں جاری ساری ہے
اپنا جینا راز ہوا جاتا ہے کیوں اے اہلِ چمن
لوگ اسے مجبوری جانیں ہم سمجھیں مختاری ہے

کیا خوب سودا نقد ہے اس ہات دے اس ہات لے

دنیا دار المکافات ہے

دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی سات لے
نیکی کا بدلہ نیک ہے، بد سے بدی کی بات لے
میوہ کھلا میوں ملے پھل پھول دے پھل پات لے
آرام دے آرام لے دکھ درد دے آفات لے
کلجگ نہیں کر جگ ہے یہ، یاں دن کو دے اور رات کو لے
کیا خوب سودا نقد ہے اس ہات دے، اس ہات لے

کدھر ہے آج الٰہی وہ شوخ چھل بلیا

کدھر ہے آج الٰہی وہ شوخ چھل بلیا
کہ جس کے غم سے مِرا دل ہوا ہے باولیا
تمام گوروں کے حیرت سے رنگ اڑ جاتے
جو گھر سے آج نکلتا وہ میرا سانولیا
تجھے خبر نہیں بلبل کے باغ سے گل چیں
بڑی سی پھولوں کی اک بھر کے لے گیا ڈلیا

کہتے ہیں یاں کہ مجھ سا کوئی مہ جبیں نہیں

کہتے ہیں یاں کہ مجھ سا کوئی مہ جبیں نہیں
پیارے جو ہم سے پوچھو تو یاں کیا، کہیں نہیں
تجھ سا تو کوئی حسن میں یاں نازنیں نہیں
یوں نازنیں بہت ہیں،۔ یہ ناز آفریں نہیں
ساقی کی جام دینے میں، اس خوش نگہ کو آہ
ہر دم اشارتیں ہیں کہ اس کے تئیں نہیں

ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے

ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے
اور پاس جو بیٹھوں تو سناتا ہے سرک بے
کہتا ہوں کبھی گھر مِرے آ، تو ہے کہتا
چوکھٹ پہ ہماری کوئی دن سر تو پٹک بے
جب بدر نکلتا ہے تو کہتا ہے وہ مغرور
کہہ دو اسے یاں آن کے اتنا نہ چمک بے

Thursday, 23 June 2016

چین سے ہم کو کبھی آپ نے جینے نہ دیا

فلمی گیت

چین سے ہم کو کبھی آپ نے جینے نہ دیا
زہر بھی چاہا اگر پینا تو پینے نہ دیا
چین سے ہم کو کبھی آپ نے۔۔

چاند کے رتھ میں رات کی دلہن جب جب آئے گی
یاد ہماری آپ کے دل کو تڑپا جائے گی

ایسی محبت سے ہم باز آئے

فلمی گیت

ایسی محبت سے ہم باز آئے
جو دل کو جلائے ستائے دکھائے
ایسی محبت سے ہم باز آئے

بنا کر تمہیں اپنا کیا ہم نے پایا
خوشی لٹ گئی، چین دل کا گنوایا
بڑے غم سہے اور بہت دکھ اٹھائے
ایسی محبت سے ہم باز آئے

Tuesday, 21 June 2016

خنجر چمکا رات کا سینہ چاک ہوا

خنجر چمکا رات کا سینہ چاک ہوا
جنگل جنگل سناٹا سفاک ہوا
زخم لگا کر اس کا بھی کچھ ہاتھ کھلا
میں بھی دھوکا کھا کر کچھ چالاک ہوا
میری ہی پرچھائیں در و دیوار پہ ہے
صبح ہوئی نیرنگ تماشا خاک ہوا

عالم سے فزوں تیرا عالم نظر آتا ہے

عالم سے فزوں تیرا عالم نظر آتا ہے
ہر حسن مقابل میں کچھ کم نظر آتا ہے
چمکا ہے مقدر کیا اس تیرہ نصیبی کا
سورج بھی شب غم کا پرچم نظر آتا ہے
ہے تیری تمنا کا بس ایک بھرم قائم
اب ورنہ مِرے دل میں کیا دم نظر آتا ہے

بیکراں دشت بے صدا میرے

بیکراں دشت بے صدا میرے
آ کھلے بازوؤں میں آ میرے
صاف شفاف سبز فرش تِرا
گرد آلودہ دست و پا میرے
سرکش و سر بلند بام تِرا
سرنگوں شہپر ہوا میرے

کب میں ڈوبا تھا ترے غم میں ذرا یاد نہیں

کب میں ڈوبا تھا تِرے غم میں ذرا یاد نہیں
دن فراموش ہوئے عہدِ وفا یاد نہیں
رزم میں ٹوٹتی تلوار تو یاد آتی ہے
تیرا چہرہ ہو سراپا کہ ادا، یاد نہیں
اس خرابے میں کئی آشنا رہتے تھے مِرے
نام، چہرہ تو کجا صوت و صدا یاد نہیں

سہ نہ پاؤ گے زمانے کے نئے آزار تم

سہ نہ پاؤ گے زمانے کے نئے آزار تم
بچ کے نکلو شہر کہ گلیوں سے میرے یار تم
حوصلہ رکھو نئی قدروں میں جینے کا میاں
مِٹ گئی تہذیب ساری،. ہو گئے بیمار تم
روز و شب ماضی پرستی بزدلی کا نام ہے
صفحۂ ہستی پہ آج کند سی تلوار تم

زندگی تیرے لئے خاک بہت چھانی ہےٍ

زندگی تیرے لیے خاک بہت چھانی ہے
تُو بھی میرے لیے اک وجہِ پریشانی ہے
میں نے بھی دیکھ لیا نقش و نگارِ دنیا
دیدنی اتنی نہیں جتنی ثنا خوانی ہے
غرق ہوتا ہے دریاؤں میں صحرائے وجود
بے زمیں کرتا ہوا چاروں طرف پانی ہے

دیکھتا ہوں تجھ کو اکثر اے سمندر اے سمندر

دیکھتا ہوں تجھ کو اکثر، اے سمندر، اے سمندر
جیسے ہو تُو میرے اندر، اے سمندر، اے سمندر
تیرے طوفانوں نے کی یلغار چٹانوں پہ شب بھر
شور تھا بامِ فلک پر، اے سمندر، اے سمندر
ڈھونڈتی ہے آنکھ سطحِ آپ پر چہرہ کسی کا
تُو بنا دے اس کا پیکر، اے سمندر، اے سمندر

کوئی حساب ہی رکھا نہیں ہے اب کے ساتھ

کوئی حساب ہی رکھا نہیں ہے اب کے ساتھ
بچھڑ گئے ہیں نہ جانے کہاں پہ کب کے ساتھ
خود اپنی راہ نکالی ہے میں نے پتھر سے
تمام عمر گزاری ہے اپنے ڈھب کے ساتھ
خدا کو چھوڑ دیا ہے فلک پہ انساں نے
کِیا ہے ظلم بہت اس نے اپنے رب کے ساتھ

سرائے چھوڑ کے وہ پھر کبھی نہیں آیا

سرائے چھوڑ کے وہ پھر کبھی نہیں آیا
چلا گیا جو مسافر، کبھی نہیں آیا
ہر اک شے مِرے گھر اسی کے ذوق کی ہے
جو میرے گھر میں بظاہر کبھی نہیں آیا
یہ کون مجھ کو ادھورا بنا کے چھوڑ گیا
پلٹ کے میرا مصور کبھی نہیں آیا

رات کو باہر اکیلے گھومنا اچھا نہیں

رات کو باہر اکیلے گھومنا اچھا نہیں
چھوڑ آؤ اس کو گھر تک راستا اچھا نہیں
غیر ہو کوئ تو اس سے کھل کر باتیں کیجیۓ
دوستوں کا دوستوں سے ہی گِلہ اچھا نہیں
اتفاقاً مل گیا ہے تو پوچھ لو موسم کا حال
کیوں نہیں مِلتا وہ اس سے پوچھنا اچھا نہیں

ہمارے بارے میں کیا کیا نہ کچھ کہا ہو گا

ہمارے بارے میں کیا کیا نہ کچھ کہا ہو گا
چلیں گے ساتھ تو دنیا کا سامنا ہو گا
وہ ایک شخص جو پتھر اٹھا کے دوڑا تھا
ضرور خواب کی کڑیاں ملا رہا ہو گا
ہمارے بعد اک ایسا بھی دور آئے گا
وہ اجنبی ہی رہے گا جو تیسرا ہو گا

کسے بتاتے کہ منظر نگاہ میں کیا تھا

کسے بتاتے کہ منظر نگاہ میں کیا تھا
ہر ایک رنگ میں اپنا ہی بس تماشا تھا
ہم آج تک تو کوئی امتیاز کر نہ سکے
یہاں تو جو بھی ملا ہے وہ تیرے جیسا تھا
عجیب خواب تھا، تعبیر کیا ہوئی اس کی
کہ ایک دریا ہواؤں کے رخ پہ بہتا تھا

بھینی خوشبو سلگتی سانسوں میں

بھینی خوشبو سلگتی سانسوں میں
بجلیاں بھر گئی ہیں ہاتھوں میں
صرف تیرا بدن چمکتا ہے
کالی لمبی اداس راتوں میں
کیا کیا چھینے گا اے امیرِ شہر
اتنے منظر ہیں میری آنکھوں میں

Monday, 20 June 2016

جو دکھ ملنے کا یہ عالم رہے گا

جو دکھ ملنے کا یہ عالم رہے گا
خزانہ آنسوؤں کا کم رہے گا
دعاۓ گریہ مانگی اور نہ سوچا
اب آنکھوں میں یہی موسم رہے گا
کشیدہ سر قلم ہوتے رہیں گے
بچے گا سر وہی جو خم رہے گا

اب کریں کس سے عرضِ حال یہاں

اب کریں کس سے عرضِ حال یہاں
دل ہیں سب خانۂ ملال یہاں
عشق دنیا سے اٹھتا جاتا ہے
یہ کسی کو نہیں خیال یہاں
دیکھ کر رخ ہوا کا کھلتے ہیں
لوگ ہیں بادباں مثال یہاں

اے بھٹکتے ہوئے بجرے دل کے

اے بھٹکتے ہوئے بجرے دل کے
دیکھ پھر خواب کسی ساحل کے
بھول بیٹھا تھا میں اس کو پا کر
اک حقیقت ہے بچھڑنا مل کے
خواہشیں، آرزوئیں، مایوسی
ہوں گے تحفے یہی مستقبل کے

دھوپ میں تھا جو سائباں کی طرح

دھوپ میں تھا جو سائباں کی طرح
دور تھا مجھ سے آسماں کی طرح
دی صدا کن سمندروں نے مجھے
دل کھلا میرا بادباں کی طرح
ایک چہرے کا عکس ہے دل پر
کسی مٹتے ہوئے نشاں کی طرح

دل ہوا جاتا ہے آسودۂ ارماں مددے

دل ہوا جاتا ہے آسودۂ ارماں مددے
نکہتِ زلفِ رواں! جنبشِ مژگاں مددے
موسمِ گل کا تقاضا ہے کہ دیوانہ بنوں
مددے دستِ جنوں! چاکِ گریباں مددے
برق سر سے نہ گزر جائے تڑپ اور تڑپ
ہمتے شاخِ نشیمن، بہ دل و جاں مددے

دونوں ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے بھاری پتھر

دونوں ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے بھاری پتھر
مارنے آئے ہیں عیسیٰ کو حواری پتھر
میں نے جو تیرے تصور میں تراشے تھے کبھی
لے گئے وہ بھی مرے گھر سے پجاری پتھر
آدمی آج کہیں جائے تو کیوں کر جائے
سر پہ صحرا تو زمیں ساری کی ساری پتھر

کیا کریں تذکرۂ دور جوانی یارو

کیا کریں تذکرۂ دورِ جوانی یارو
بھولتی جاتی ہے اب تو یہ کہانی یارو
ناگ بن بن کے دل و جاں کو ڈسا کرتی ہے
یاد ہوتی نہیں کوئی بھی سہانی یارو
تشنگی لالہ و گل کی نہیں دیکھی جاتی
اشک برساؤ کہ درکار ہے پانی یارو

تو کر چکا صنم و سومنات کی باتیں

تُو کر چکا صنم و سومنات کی باتیں 
تجھے سناؤں حسینؓ و فرات کی باتیں
کہاں یہ زہرِ نفاق و سمِ غمِ دوراں
کہاں وہ چشمئہ آبِ حیات کی باتیں
کہاں یہ دیدۂ روشن یہ نور صبحوں کا
یہاں چراغ کی حاجت نہ رات کی باتیں

بتان شہر سے اب کوئی سلسلہ بھی نہیں

بتانِ شہر سے اب کوئی سلسلہ بھی نہیں
خدا گواه کہ دل کو یہ حوصلہ بھی نہیں
کبھی تو بام سے آغوش میں اتر آؤ
کوئی سفر تو نہیں کوئی فاصلہ بھی نہیں
یہ کن کو زخم دکھاتے ہو اپنے سینوں کے
یہ جن کے پاؤں میں اک آدھ آبلہ بھی نہیں

Sunday, 19 June 2016

وہ ستا کر مجھے کہتے ہیں کہ غم ہوتا ہے

وہ ستا کر مجھے کہتے ہیں کہ غم ہوتا ہے
یہ ستم اور بھی بالائے ستم ہوتا ہے
جل کر مرنا بھی بڑا کارِ اہم ہوتا ہے
یہ تو اک چھوٹے سے پروانے کا دم ہوتا ہے
قصۂ برہمن و شیخ کو بس رہنے دو
آج تک فیصلۂ دیر و حرم ہوتا ہے

ان کی تجلیوں کا اثر کچھ نہ پوچھیے

ان کی تجلیوں کا اثر کچھ نہ پوچھیے
وہ میرے سامنے تھے مگر کچھ نہ پوچھیے
از شامِ ہجر تا بہ سحر کچھ نہ پوچھیے
کٹتے ہیں کیسے چار پہر کچھ نہ پوچھیے
بجلی جو شاخِ گل پہ گری اس کا غم نہیں
لیکن وہ اک غریب کا گھر کچھ نہ پوچھیے

ان کے جاتے ہی وحشت کا اثر دیکھا کئے

ان کے جاتے ہی وحشت کا اثر دیکھا کیے
سوئے در دیکھا تو پہروں سوئے در دیکھا کیے
دل کو وہ کیا دیکھتے، سوزِ جگر دیکھا کیے
لگ رہی تھی آگ جس گھر میں وہ گھر دیکھا کیے
ان کی محفل میں انھیں سب رات بھر دیکھا کیے
ایک ہم ہی تھے کہ اک اک کی نظر دیکھا کیے

تجھ پر بھی نہ ہو گمان میرا

تجھ پر بھی نہ ہو گمان میرا
اتنا بھی کہا نہ مان میرا
میں دکھتے ہوئے دلوں کا عیسیٰ
اور جسم لہو لہان میرا
کچھ روشنی شہر کو ملی تو
جلتا ہے جلے مکاں میرا

سکوت شام خزاں ہے قریب آ جاؤ

سکوتِ شامِ خزاں ہے، قریب آ جاؤ
بڑا اداس سماں ہے، قریب آ جاؤ
نہ تم کو خود پہ بھروسا نہ ہم کو زعمِ وفا
نہ اعتبارِ جہاں ہے، قریب آ جاؤ
رہِ طلب میں کسی کو کسی کا دھیان نہیں
ہجومِ ہم سفراں ہے، قریب آ جاؤ

عاشقی بیدلی سے مشکل ہے

عاشقی بے دلی سے مشکل ہے
پھر محبت اسی سے مشکل ہے
عشق آغاز ہی سے مشکل ہے
صبر کرنا ابھی سے مشکل ہے
ہم کو آساں ہیں اور ہمارے لیے
دشمنی دوستی سے مشکل ہے

وفا کے خواب محبت کا آسرا لے جا

وفا کے خواب، محبت کا آسرا لے جا
اگر چلا ہے تو جو کچھ مجھے دیا لے جا
مقامِ سُود و زیاں آ گیا ہے پھر جاناں
یہ زخم میرے سہی، تِیر تو اٹھا لے جا
یہی ہے قسمتِ صحرا، یہی کرم تیرا
کہ بوند بوند عطا کر، گھٹا گھٹا لے جا

چاند آ بیٹھا ہے پہلو میں ستارو تخلیہ

چاند آ بیٹھا ہے پہلو میں، ستارو! تخلیہ
اب ہمیں درکار ہے خلوت، سو یارو! تخلیہ
دیکھنے والا تھا منظر جب کہا درویش نے
کج کلاہو! بادشاہو! تاجدارو!۔۔۔۔ تخلیہ
غم سے اب ہو گی براہِ راست میری گفتگو
دوستو! تیمار دارو! غمگسارو!۔۔۔ تخلیہ

خواب کدھر چلا گیا یاد کہاں سما گئی

خواب کدھر چلا گیا، یاد کہاں سما گئی
چشم و چراغِ عشق کو کون ہوا بجھا گئی
ہجر تو جاگتا رہا روح کے درد زار میں
جسم کی خوابگاہ میں وصل کو نیند آ گئی
وقت نے ختم کر دیے سارے وسیلے شوق کے 
دل تھا، الٹ پلٹ گیا، آنکھ تھی، بجھ بجھا گئی

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

یہ جو مجھ پر نکھار ہے، سائیں 
آپ ہی کی بہار ہے، سائیں 
آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں
آپ کو اختیار ہے، سائیں 
تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو
ایک میرا بھی یار ہے، سائیں 

Saturday, 18 June 2016

کہیں جو دل نہ لگاویں تو پھر اداس پھریں

کہیں جو دل نہ لگاویں تو پھر اداس پھریں
وگر لگاویں تو مشکل کہ بے حواس پھریں
ہمیں بھی ہوئے اجازت کہ شمع رو تجھ پر
پتنگ کی نمط اک دم تو آس پاس پھریں
تِری گلی میں بھلا اتنی تو ہمیں ہو راہ
کہ جب تک اپنا وہاں جی ہو بے ہراس پھریں

سیر ہے تجھ سے مری جان جدھر کو چلیے

سیر ہے تجھ سے مِری جان، جدھر کو چلئے
تُو ہی گر ساتھ نہ ہووے تو کدھر کو چلئے
خواہ کعبہ ہو کہ بت خانہ غرض ہم سے سن
جس طرف دل کی طبیعت ہو، ادھر کو چلئے
زلف تک رخ سے نگہ جاوے نہ اک دن کے سوا
شام کو پہنچئے منزل، جو سحر کو چلئے

آتش غم نے ملک دل پھونک دیا جلا دیا

آتشِ غم نے ملکِ دل پھونک دیا، جلا دیا
باقی جو کچھ کہ رہ گیا اشک نے لے بہا دیا
کہتے تھے ہم کہ روزِ ہجر کہتے ہیں کس کو کیا ہے چیز
ہائے فلک نے سو وہ دن آج ہمیں دِکھا دیا
ایک یہی چراغِ دل جلتا تھا میرے حال پر
آہِ سحر نے میری آہ اس کو بھی اب بجھا دیا

دل خدا جانے کس کے پاس رہا

دل خدا جانے کس کے پاس رہا
ان دنوں جی بہت اداس رہا
کیا مزا مجھ کو وصل میں اس کے
میں رہا بھی تو بے حواس رہا
یوں کھلا، اپنا یہ گلِ امید
کہ سدا دل پہ داغِ یاس رہا

کچھ پاس جب رہا نہ انہیں رسم و راہ کا

کچھ پاس جب رہا نہ انہیں رسم و راہ کا
جاتا رہا خیال ہمیں بھی نباہ کا
ہوتا نہیں ہے کچھ بھی اثر میری آہ کا
کیا دل سیاہ ہے فلکِ روسیاہ کا
تم آج یوں بدل گئے یہ کل کی بات ہے
کھا کھا کے قسمیں عہد کیا تھا نباہ کا

جنت کی آرزو ہے نہ حوروں کی چاہ ہے

جنت کی آرزو ہے نہ حوروں کی چاہ ہے
محشر میں بھی تمہیں پہ ہماری نگاہ ہے
اب ان سے دور دور کی کچھ رسم و راہ ہے
یہ دوستی نہیں ہے فقط اک نباہ ہے
صبحِ شبِ وصال ہے غصہ بھی شرم بھی
ترچھی نگاہ ہے، کبھی نیچی نگاہ ہے

میری بدخوئی کے بہانے ہیں​

میری بدخوئی کے بہانے ہیں​
رنگ کچھ اور ان کو لانے ہیں​
رحم اے اضطراب رحم کہ آج​
ان کو زخمِ جگر دکھانے ہیں​
کیسی نیند اور پاسباں کس کا​
یاں نہ آنے کے سب بہانے ہیں​

کس سے تسکین دل ناشاد ہو

کس سے تسکینِ دلِ ناشاد ہو
ان کو گر بھُولیں تو کس کی یاد ہو
دلربائی کون سکھلائے تمہیں
تم تو ان باتوں کے خود استاد ہو
کچھ نہیں لذت پرانے جور میں
اب تو ظلمِ نو کوئی ایجاد ہو

خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا

خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ، مگر بنا نہ گیا
پیامِ زیرِ لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا
اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی، رہا نہ گیا
گناہِ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لیے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا

انوکھی معرفت اندھوں کو حاصل ہوتی جاتی ہے

انوکھی معرفت اندھوں کو حاصل ہوتی جاتی ہے
حقیقت تھی جو کل تک آج باطل ہوتی جاتی ہے
بلندی کیا ہے، پستی کیا، ہوا کی کارفرمائی
سراسر موجِ دریا غرقِ ساحل ہوتی جاتی ہے
برائی میں بھلائی دیکھتا جاؤں مگر کب تک
یہ کیسی دولتِ عرفاں کہ نازل ہوتی جاتی ہے

کیا چل سکے گی باد مخالف مزار میں

کیا چل سکے گی بادِ مخالف مزار میں
جلتا ہے دل جلوں کا چراغ اس دیار میں
بجلی سی دوڑنے لگی پھر جسمِ زار میں
دیواریں پھاندنے لگے وحشی بہار میں
الٹی ہوا زمانے میں چلتی ہے آج کل
فرق آ گیا ہے گردشِ لیل و نہار میں

پیش خیمہ موت کا خواب گراں ہو جائے گا​

پیش خیمہ موت کا خوابِ گراں ہو جائے گا​
سیکڑوں فرسنگ آگے کارواں ہو جائے گا​
قالبِ خاکی کہاں تک ساتھ دے گا روح کا​
وقت آ جاۓ دو اک دن امتحاں ہو جائے گا​
چپکے چپکے ناصحا، پچھلے پہر رو لینے دے​
کچھ تو ظالم، چارۂ دردِ نہاں ہو جائے گا​

Friday, 17 June 2016

آنکھ سے آنکھ ملا بات بناتا کیوں ہے

آنکھ سے آنکھ ملا بات بناتا کیوں ہے 
تُو اگر مجھ سے خفا ہے تو چھپاتا کیوں ہے
غیر لگتا ہے نہ اپنوں کی طرح ملتا ہے 
تُو زمانے کی طرح مجھ کو ستاتا کیوں ہے
وقت کے ساتھ خیالات بدل جاتے ہیں 
یہ حقیقت ہے مگر مجھ کو سناتا کیوں ہے

نہ گھر بار نہ کوئی ٹھکانہ خانہ بدوش ہیں

نہ گھر بار نہ کوئی ٹھکانہ، خانہ بدوش ہیں 
اپنا کام ہے چلتے جانا، خانہ بدوش ہیں 
چاند اور سورج ساتھی صدیوں صدیوں کے
دونوں سے رشتہ ہے پرانا، خانہ بدوش ہیں
رنگ بدلتے موسم جیسی اپنی ہستی ہے
بارش و دھوپ سے کیا گھبرانا، خانہ بدوش ہیں 

یوں ان کی بزم خاموشیوں نے کام کیا

یوں ان کی بزمِ خاموشیوں نے کام کیا
سب نے میری محبت کا احترام کیا
ہمارا نام بھی لینے لگے وفا والے
ہمیں بھی آ کے فرشتوں نے اب سلام کیا
پھر یہی خط، تیری تصویر لے کے بیٹھ گئے
یہ ہم نے کام یہیں صبح و شام کیا

ایسے تو کوئی جی کو بناتا نہیں پتھر

ایسے تو کوئی جی کو بناتا نہیں پتھر
بے وجہ تو کبھی ہاتھ میں آتا نہیں پتھر
ڈرتا ہے اپنا ہی گھر زَد میں نہ آئے
اک شخص اندھیرے میں چلاتا نہیں پتھر
کچھ شیشہ بدن لوگوں میں تجویز یہی تھی
دیوانہ تیرے شہر میں کھاتا نہیں پتھر

تم مری آنکھوں کے تیور نہ بھلا پاؤ گی

تضمین بر سرقہ شاہ

تم مِری آنکھوں کے تیور نہ بھلا پاؤ گی
سردی میں کپڑے دھوو گی تو میں یاد آؤں گا
ہم نے خوشیوں کی طرح کئی دکھ بھی اکٹھے دیکھے ہیں
بیٹا کبھی بہو سے پِٹے گا تو میں یاد آؤں گا

سید شہزاد ناصر

جاگتی آنکھوں کے خواب

جاگتی آنکھوں کے خواب

نقشِِ خیال کی رہگزر پر
بیتے لمحوں کی آہٹیں
تنہائی کی گرد میں لپٹی ہوئی
کچھ یادوں کا ہجوم
جیسے بادلوں کی اوٹ میں
اداس ماہتاب کا عکس

سہرے کے پھول

سہرے کے پھول

دیکھ کر نوشہ کا میک اپ ہنس دئیے سہرے کے پھول
کھلکھلا کر مثلِ غنچہ گل ہوئے سہرے کے پھول
دیکھو قدرت کا تماشا آج سہرے میں سجے
عقدِ ثالث کی گواہی کے لیے سہرے کے پھول
ایک بیوی سات بچے آٹھواں تخلیق میں
دشمن اتنے دوستوں کے ہو گئے سہرے کے پھول

Sunday, 12 June 2016

بدلا ترے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے

بدلا تِرے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے
اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے
قاتل ہماری نعش کو تشہیر ہے ضرور
آئندہ تا کوئی نہ کسی سے وفا کرے
اتنا لکھائیو مرے لوحِ مزار پر
یاں تک نہ ذی حیات کو کوئی خفا کرے

گر کیجیے انصاف تو کی زور وفا میں

گر کیجیے انصاف تو کی زور وفا میں
خط آتے ہی سب چل گئے اب آپ ہیں یا میں
تم جن کی ثنا کرتے ہو کیا بات ہے ان کی
لیکن ٹک اِدھر دیکھیو اے یار! بھلا میں
رکھتا ہے برہمن بچہ کچھ ایسی وہ رفتار
بت ہو گیا دھج دیکھ کے جس کی بخدا میں

تجھ قید سے دل ہو کر آزاد بہت رویا

تجھ قید سے دل ہو کر آزاد بہت رویا
لذّت کو اسیری کی کر یاد بہت رویا
تصویر مِری تجھ بِن مانی نے جو کھینچی تھی
انداز سمجھ اس کا بہزاد بہت رویا
نالے نے تِرے بلبل نم چشم نہ کی گُل کی
فریاد مِری سن کر صیّاد بہت رویا

ساقیاعید ہے لا بادے سے مینا بھر کے

ساقیا! عید ہے لا بادے سے مینا بھر کے
کہ مۓ آشام پیاسے ہیں مہینا بھر کے
آشناؤں سے اگر ایسے ہی بے زار ہو تُم
تو ڈبو دو انہیں دریا میں سفینا بھر کے
عقدِ پرویں ہے کہ اس حقۂ پرویں میں ملک
لاتے ہیں اس رخِ روشن سے پسینا بھر کے

کب حق پرست زاہد جنت پرست ہے

کب حق پرست زاہدِ جنت پرست ہے
حوروں پہ مر رہا ہے، یہ شہوت پرست ہے
دل صاف ہو تو چاہیے معنی پرست ہو
آئینہ خاک صاف ہے، صورت پرست ہے
درویش ہے وہی جو ریاضت میں چست ہو
تارک نہیں فقیر بھی، راحت پرست ہے

بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو

بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو 
زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
عزیزو! اسکو نہ گھڑیال کی صدا سمجھو 
یہ عمرِ رفتہ کی اپنی صدائے پا سمجھو
نہ سمجھو دشتِ شفا خانۂ جنوں ہے یہ 
جو خاک سی بھی پڑے پھانکنی دوا سمجھو

ہے تیرے کان زلف معنبر لگی ہوئی

ہے تیرے کان زلفِ معنبر لگی ہوئی
رکھے گی یہ نہ بال برابر لگی ہوئی
بیٹھے بھرے ہوئے ہیں خُمِ مے کی طرح ہم
پر کیا کریں کہ مہر ہے منہ پر لگی ہوئی
چاٹے بغیر خون کوئی رہتی ہے تیری تیغ
ہے یہ تو اس کو چاٹ ستمگر لگی ہوئی

ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا

ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا
کہ بزمِ مے میں کوئی پارسا اب تک نہیں آیا
ستم بھی لطف ہو جاتا ہے بھولے پن کی باتوں میں
تجھے اے جان! اندازِ جفا اب تک نہیں آیا
گیا تھا کہہ کے یہ قاصد کہ الٹے پاؤں آتا ہوں
کہاں کم بخت جا کر مر رہا، اب تک نہیں آیا

کل مرقعے ہیں ترے چاک گریبانوں کے

کُل مرقعے ہیں تِرے چاکِ گریبانوں کے
شکل معشوق کی، انداز ہیں دیوانوں کے
کعبہ و دیر میں ہوتی ہے پرستش کس کی
مے پرستو! یہ کوئی نام ہیں مے خانوں کے
جامِ مے توبہ شکن، توبہ مِری جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے

تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں

 تیس دن کے لیے ترک مے و ساقی کر لوں 

واعظِ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں

پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں فضل و کمال 

ورنہ حاسد تِری خاطر سے میں یہ بھی کر لوں

اے نکیرین قیامت ہی پہ رکھو پرسش 

میں ذرا عمرِ گزشتہ کی تلافی کر لوں

ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو

 ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو 

غم اٹھانے کا بھی باقی نہیں یارا ہم کو

دردِ فرقت سے ترے ضعف ہے ایسا ہم کو 

خواب میں ترے دشوار ہے آنا ہم کو

جوشِ وحشت میں ہو کیا ہم کو بھلا فکرِ لباس 

بس کفایت ہے جنوں دامنِ صحرا ہم کو

پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا

 پوچھتے کیا ہو جو حالِ شبِ تنہائی تھا

رخصتِ صبر تھی یا ترکِ شکیبائی تھا

شبِ فرقت میں دلِ غمزدہ بھی پاس نہ تھا

وہ بھی کیا رات تھی، کیا عالمِ تنہائی تھا

میں تھا یا دیدۂ خوننابہ فشاں تھی شبِ ہجر

ان کو واں مشغلۂ انجمن آرائی تھا

اگر میں جانتا ہے عشق میں دھڑکا جدائی کا

اگر میں جانتا ہے عشق میں دھڑکا جدائی کا
تو جیتے جی نہ لیتا نام ہرگز آشنائی کا
جو عاشق صاف ہیں دل سے انہیں کو قتل کرتے ہیں
بڑا چرچا ہے معشوقوں میں عاشق آزمائی کا
کروں اک پل میں برہم کارخانے کو محبت کے
اگر عالم میں شہرہ دوں تمہاری بے وفائی کا

ملنے کی تیرے دل میں ہیں گی ہوائیں کیا کیا

ملنے کی تیرے دل میں ہیں گی ہوائیں کیا کیا
مانگی ہیں تیرے حق میں حق سے دعائیں کیا کیا
دکھ درد ٹیس جلنا رہ رہ کے پھر لپکنا
پھوڑا ہے دل نہیں ہے تجھ کو سنائیں کیا کیا
خوفِ رقیب و حسرت عجز و نیاز و منت
جیوڑے پہ یہ اذیت آفت اٹھائیں کیا کیا

لخت جگر جو آنکھ سے نکلے اٹک اٹک

لختِ جگر جو آنکھ سے نکلے اٹک اٹک
بے چین کر دیا مِرے دل کو کھٹک کھٹک
میری بھی مشتِ خاک کا ٹک پاس ہے ضرور
اے جامہ زیب! چلیو نہ دامن جھٹک جھٹک
یہ ناز اور کرشمہ کہاں ہے تدرو میں
چلتا ہے جس ادا سے وہ پیارا لٹک لٹک

اہل ایماں سوز کو کہتے ہیں کافر ہو گیا

اہلِ ایماں سوز کو کہتے ہیں کافر ہو گیا
آہ یا رب! رازِ دل ان پر بھی ظاہر ہو گیا
میں نے جانا تھا صحیفہ عشق کا ہے میرے نام
واہ، یہ دیوان بھی نقلِ دفاتر ہو گیا
ناصحا! بے زار دل سوزی سے تیری دور ہو
دل کو کیا روتا ہے لے جی بھی مسافر ہو گیا

ہے اس کے گرد یہ محفل جو اک سوال میں چپ

ہے اس کے گرد یہ محفل جو اک سوال میں چُپ
لگی ہے اس کو بھی ایسے کسی خیال میں چپ
ہے اک طرفہ تماشہ طبیعتِ عشّاق
کبھی فراق میں باتیں، کبھی وصال میں چپ
خبر ہے اس کو بہت وقت کے گزرنے کی
ہے حسن اپنے ہی اندوہِ لازوال میں چپ

دل کو حال قرار میں دیکھا

دل کو حالِ قرار میں دیکھا
یہ کرشمہ بہار میں دیکھا
جس کو چاہا خمار میں چاہا
جس کو دیکھا غبار میں دیکھا
خواہشوں کو بہت ہوا دینا
وصف یہ ہم نے یار میں دیکھا

کیا خبر کیسی ہے وہ، سودائے سر میں زندگی

کیا خبر کیسی ہے وہ، سودائے سر میں زندگی
اک سرائے رنج میں ہے یا سفر میں زندگی
ظلم کرتے ہیں کسی پر اور پچھتاتے ہیں پھر
ایک پچھتاوا سا ہے اپنے نگر میں زندگی
ہم ہیں جیسے اک گناہِ دائمی کے درمیاں
کٹ رہی ہے مستقل خاموش ڈر میں زندگی

دنیا ہے کتنی ظالم ہنستی ہے دل دکھا کے

دنیا ہے کتنی ظالم ہنستی ہے دل دکھا کے
پھر بھی نہیں بجھائے ہم نے دِیے وفا کے
ہم نے سلوک یاراں دیکھا جو دشمنوں سا
بھر آیا دل ہمارا، روئے ہیں منہ چھپا کے
کیونکر نہ ہم بٹھائیں پلکوں پہ ان غموں کو
شام و سحر یہی تو ملتے ہیں مسکرا کے

بڑھائیں گے نہ کبھی ربط ہم بہاروں سے

بڑھائیں گے نہ کبھی ربط ہم بہاروں سے
ٹپک رہا ہے لہو اب بھی شاخساروں سے
کہیں تو اپنی محبت پہ حرف آتا ہے
کچھ ایسے داغ بھی ہم کو ملے ہیں یاروں سے
نگاہِ دہر میں ذرے سہی، مگر ہم لوگ
ضیا کی بھیک نہیں مانگتے ستاروں سے

میر و غالب بنے یگانہ بنے

میر و غالب بنے یگانہ بنے
آدمی اے خدا! خدا نہ بنے
موت کی دسترس میں کب سے ہیں
زندگی کا کوئی بہانہ بنے
اپنا شاید یہی تھا جرم اے دوست
با وفا بن کے بے وفا نہ بنے

ہم سے ملے نہ آپ تو ہم بھی نہ مر گئے

ہم سے ملے نہ آپ تو ہم بھی نہ مر گئے
کہنے کو رہ گیا یہ سخن دن گزر گئے
کہتے ہیں خوشدلی ہے جہاں میں یہ سب غلط
رنج و تعب ہی ہم نے تو دیکھا جدھر گئے
بھٹکا پھِروں ہوں یاں میں اکیلا ہر ایک سمت
اے ہمرہانِ پیش قدم! تم کِدھر گئے

گہ ہوئی صبح گاہ شام ہوئی

گہ ہوئی صبح، گاہ شام ہوئی
عمر انہیں قصوں میں تمام ہوئی
رنجش آگے جو خاص تھی ہم سے
وائے طالع! کہ وہ بھی عام ہوئی
کس گرفتار پر ہوا ہے یہ قہر
جو بلا مجھ پہ زیرِ دام ہوئی

تہ خنجر بھی جو بسمل نہیں ہونے پاتے

تہِ خنجر بھی جو بسمل نہیں ہونے پاتے
مر کے شرمندۂ قاتل نہیں ہونے پاتے
حرم و دَیر کی گلیوں میں پڑے پھرتے ہیں
بزمِ رِنداں میں جو شامل نہیں ہونے پاتے
تُو کہاں ہے کہ تِری راہ میں یہ کعبہ و دَیر
نقش بن جاتے ہیں منزل نہیں ہونے پاتے

بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا

بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا 
مل کے پلٹی تھیں نگاہیں کہ دھواں دل سے اٹھا   
جلوہ محسوس سہی، آنکھ کو آزاد تو کر 
قید آداب تماشا بھی تو محفل سے اٹھا
پھر تو مضرابِ جنوں، سازِ انا لیلیٰ چھیڑ 
ہائے وہ شور انا قیس کے محمل سے اٹھا

ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے

ہے غلط، گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے
بے خبر تیغِ یار! کہتے ہیں 
باقی اس نیم جان میں کچھ ہے

تجھ ہی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا

تجھ ہی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا
مِرا غنچۂ دل ہے وہ دل گرفتہ
کہ جس کو کسو نے کبھو وا نہ دیکھا
یگانہ ہے تُو آہ بے گانگی میں
کوئی دوسرا اور ایسا نہ دیکھا

یوں تو جو چاہے یہاں صاحب محفل ہو جائے

یوں تو جو چاہے یہاں صاحبِ محفل ہو جائے
بزم اس شخص کی ہے تُو جسے حاصل ہو جائے
نا خدا اے مِری کشتی کے چلانے والے
لطف تو جب ہے کہ ہر موج ہی ساحل ہو جائے
اس لیے چل کے ہر اک گام پہ رک جاتا ہوں
تا نہ بے کیف غمِ دورئ منزل ہو جائے

لے لے کے تری زلف نے ایمان ہزاروں

لے لے کے تِری زلف نے ایمان ہزاروں
کر ڈالے زمانہ میں مسلمان ہزاروں
اس غم کا برا ہو کہ زمانے میں ابھی تک
پھرتے ہیں تِرے غم کے پریشان ہزاروں
اے جانِ بہاراں! تجھے معلوم نہیں ہے
تیرے لیے پرزے ہیں گریبان ہزاروں

پریشاں ہوں اور قلب گھبرا رہا ہے

پریشاں ہوں اور قلب گھبرا رہا ہے
مجھے آج پھر کوئی یاد آ رہا ہے
دہائی ہے حسنِ بتاں کی دُہائی
مِرا قلبِ مضطر مٹا جا رہا ہے
مِرے دستِ الفت میں ہے ان کا دامن
زمانے کا دامن چھٹا جا رہا ہے

Saturday, 11 June 2016

تو نے بت ہرجائی کچھ ایسی ادا پائی

تُو نے بتِ ہرجائی، کچھ ایسی ادا پائی
تکتا ہے تیری صورت ہر ایک تماشائی
پہلے سے نہ سوچا تھا انجام محبت کا
تب ہوش میں آئے ہیں جب جان پہ بن آئی
جی بھر گیا دنیا سے، اب دل میں یہ حسرت ہے
میں ہوں یا تیرا جلوہ، اور گوشۂ تنہائی

نہ بے وفائی کا ڈر تھا نہ غم جدائی کا

نہ بے وفائی کا ڈر تھا نہ غم جدائی کا
مزا میں کیا کہوں آغازِ آشنائی کا
کہاں نہیں ہے تماشا تِری خدائی کا
مگر جو دیکھنے دے رعب کبریائی کا
وہ ناتواں ہوں اگر نبض کو ہوئی جنبش
تو صاف جوڑ جدا ہو گیا کلائی کا

Monday, 6 June 2016

پردہ اٹھا کر رخ کو عیاں اس شوخ نے جس ہنگام کیا

پردہ اٹھا کر رخ کو عیاں اس شوخ نے جس ہنگام کیا
ہم تو رہے مشغول ادھر، یاں عشق نے دل کا کام کیا
آ گئے جب صیاد کے بس میں سوچ کیے پھر حاصل کیا
اب تو اسی کی ٹھہری مرضی جن نے اسیرِِ دام کیا
چشم نے چھینا پلکوں نے چھیدا، زلف نے باندھا دل کو آہ
ابرو نے ایسی تیغ جڑی جو قصہ ہے سب اتمام کیا

قاصد صنم نے خط کو مرے دیکھ کیا کہا

قاصد صنم نے خط کو مِرے دیکھ کیا کہا
حرفِ عتاب،۔۔ یا سخنِ دل کشا کہا
تجھ کو قسم ہے کیجو نہ پوشیدہ مجھ سے تُو
کہیو وہی،۔۔ جو اس نے مجھے برملا کہا
قاصد نے جب تو سن کے کہا، کہا کہوں میں یار
پہلے مجھی کو اس نے بہت ناسزا کہا

وہ مجھ کو دیکھ کچھ اس ڈھب سے شرمسار ہوا

وہ مجھ کو دیکھ کچھ اس ڈھب سے شرمسار ہوا
کہ میں حیا ہی پر اس کی فقط نثار ہوا
سبھوں کو بوسے دیے ہنس کے اور ہمیں گالی
ہزار شکر! بھلا اس قدر تو پیار ہوا
ہمارے مرنے کو، ہاں، تم تو جھوٹ سمجھے تھے
کہا رقیب نے، لو، اب تو اعتبار ہوا

اس کے شرار حسن نے شعلہ جو اک دکھا دیا

اس کے شرارِ حسن نے شعلہ جو اک دکھا دیا
طور کو سر سے پاؤں تک، پھونک دیا جلا دیا
پھر کے نگاہ چار سو، ٹھہری اسی کے رو برو
اس نے تو میری چشم کو،۔ قبلہ نما بنا دیا
میرا اور اس کا اختلاط، ہو گیا مثلِ ابر و برق
اس نے مجھے رلا دیا، میں نے اسے ہنسا دیا

Wednesday, 1 June 2016

بہکی بہکی ہیں نگاہوں کو نہ جانے کیا ہوا

بہکی بہکی ہیں، نگاہوں کو نہ جانے کیا ہوا 
کھوئی کھوئی سی ہیں، راہوں کو نہ جانے کیا ہوا 
دل کی رگ رگ میں رواں تھا جن سے خون زندگی 
ان تمنّاؤں کو، چاہوں کو نہ جانے کیا ہوا 
نا مکمّل تھا فسانہ دِہر کا جن کے بغیر 
ان گداؤں، بادشاہوں کو نہ جانے کیا ہوا 

نظر سے نظر ملانا کوئی مذاق نہیں

نظر سے نظر ملانا کوئی مذاق نہیں
ملا کے آنکھ چرانا کوئی مذاق نہیں
پہاڑ کاٹ تو سکتا ہے تیشۂ فرہاد
پہاڑ سر پہ اٹھانا کوئی مذاق نہیں
اڑانیں بھرتے رہیں لاکھ طائران خیال
ستارے توڑ کے لانا کوئی مذاق نہیں

لو آج سمندر کے کنارے پہ کھڑا ہوں

لو آج سمندر کے کنارے پہ کھڑا ہوں
غرقاب سفینوں کے سسکنے کی صدا ہوں
اک خاک بہ سر برگ ہوں ٹہنی سے جدا ہوں
جوڑے گا مجھے کون کہ میں ٹوٹ گیا ہوں
اب بھی مجھے اپنائے نہ دنیا تو کروں کیا
ماحول سے پیمانِ وفا باندھ رہا ہوں

صنم بنا تو خدائی کا مجھ کو کیا نہ ہوا

صنم بنا تو خدائی کا مجھ کو کیا نہ ہوا
ہزار شکر کہ تُو بُت ہوا خدا نہ ہوا
کباب ہو گیا آخر کو کچھ بُرا نہ ہوا
عجب یہ دل ہے جلا تو بھی بے مزہ نہ ہوا
شگفتگی سے ہے غنچہ کے تئیں پریشانی
بھلا ہوا کبھی کافر تو مجھ سے وا نہ ہوا

خون آنکھوں سے نکلتا ہی رہا

خون آنکھوں سے نکلتا ہی رہا
کاروانِ اشک چلتا ہی رہا
اس کفِ پا پر تِرے رنگِ حنا
جن نے دیکھا ہاتھ مَلتا ہی رہا
صبح ہوتے بجھ گئے سارے چراغ
داغِ دل تا شام جلتا ہی رہا

اے تجلی کیا ہوا شیوہ تری تکرار کا

اے تجلی! کیا ہوا شیوہ تِری تکرار کا
مر گیا آخر کو یہ طالب تِرے دیدار کا
کیا بِنائے خانۂ عشاق بے بنیاد ہے
ڈھل گیا سر سے مِرے سایہ تِری دیوار کا
روز بہ ہوتا نظر آتا نہیں یہ زخمِ دل
دیکھیے کیا ہو خدا حافظ ہے اس بیمار کا

کبریائی تری بدنام ہوئی جاتی ہے

کبریائی تِری بدنام ہوئی جاتی ہے
بندگی تجھ پہ اک الزام ہوئی جاتی ہے
تیری بیگانہ نگاہی کا یہ انجام اے دوست
کہ محبت ہوسِ خام ہوئی جاتی ہے
اس میں موسم کی نہیں قید کہ اب آپکی یاد 
فاتحِ گردش ایام ہوئی جاتی ہے

دانش و دیں یا دین و سیاست سب کی ایک دکان

دانش و دیں یا دین و سیاست سب کی ایک دکان
کس کس کا یہ مال خریدے ایک غریب کسان
اک بھوکے چرواہے کا دل جیسے چولھا سرد
اک بنتِ دہقاں کی جوانی جیسے سوکھا دھان
عشق کے تپتے بَن میں کیا ہے روپ کی چڑھتی دھوپ
اس صحرا سے دور نہیں ہے عقل کا نخلستان

ان سے گو بول چال بند نہیں

ان سے گو بول چال بند نہیں
پھر بھی شکوے ہمیں پسند نہیں
ہے وہی شاخِ آشیاں اپنی
اس چمن میں جو سربلند نہیں
دیر و کعبہ کے ناز بردارو
ہم کسی کے نیازمند نہیں

دل کو احساس کی شدت نے کہیں کا نہ رکها

دل کو احساس کی شدت نے کہیں کا نہ رکها
خود محبت کو محبت نے کہیں کا نہ رکها
بوۓ گل اب تجهے احساس ہوا بهی کہ تجهے
تیری آوارہ طبعیت نے کہیں کا نہ رکها
ہم کو ہے ان سے مروت کی توقع اب بهی
گو ہمیں ان کی مروت نے کہیں کا نہ رکها

رئیس امروہوی

یا دل کی سنو دنیا والو یا مجھ کو ابھی چپ رہنے دو

فلمی گیت

یا دل کی سنو دنیا والو
یا مجھ کو ابھی چپ رہنے دو
میں غم کو خوشی کیسے کہہ دوں
جو کہتے ہیں‌ ان کو کہنے دو

یہ پھول چمن میں کیسا کھلا
مالی کی نظر میں‌ پیار نہیں

میری آواز سنو پیار کے راز سنو

فلمی گیت

میری آواز سنو، پیار کے راز سنو
میں نے ایک پھول جو سینے پہ سجا رکھا تھا
اس کے پردے میں تمہیں دل سے لگا رکھا تھا
تھا جدا سب سے میرے عشق کا انداز سنو
میری آواز سنو، پیار کے راز سنو