Sunday, 26 July 2020

لب ساحل سمندر کی فراوانی سے مر جاؤں

لب ساحل سمندر کی فراوانی سے مر جاؤں
مجھے وہ پیاس ہے شاید کہ میں پانی سے مر جاؤں
تم اس کو دیکھ کر چھو کر بھی زندہ لوٹ آئے ہو
میں اس کو خواب میں دیکھوں تو حیرانی سے مر جاؤں
میں اتنا سخت جاں ہوں دم بڑی مشکل سے نکلے گا
ذرا تکلیف بڑھ جائے تو آسانی سے مر جاؤں
غنیمت ہے پرندے میری تنہائی سمجھتے ہیں
اگر یہ بھی نہ ہوں تو گھر کے ویرانے سے مر جاؤں
نظر انداز کر مجھ کو ذرا سا کھل کے جینے دے
کہیں ایسا نہ ہو تیری نگہبانی سے مر جاؤں
بہت سے شعر مجھ سے خون تھکواتے ہیں آمد پر
بہت ممکن ہے میں ایک دن غزل خوانی سے مر جاؤں
تِری نظروں سے گر کر آج بھی زندہ ہوں میں کیا خوب
تقاضا ہے یہ غیرت کا پشیمانی سے مر جاؤں

محشر آفریدی

No comments:

Post a Comment