ہر آن یاس بڑھنی،۔ ہر دم امید گھٹنی
دن حشر کا ہے اب تو فُرقت کی رات کٹنی
پو پھاٹنا نہیں یہ مجھ سینہ چاک کے ہے
ہر صبح بارِ غم سے چھاتی فلک کی پھٹنی
کُوچے میں اس کے باقی مجھ خاکسار پر اب
یا آسماں ہے گرنا،۔ یا ہے زمین پھٹنی
مژگاں کی برچھیوں نے دل کو تو چھان مارا
اب بوٹیاں ہیں باقی ان پر جگر کی بٹنی
خط کی سیاہی نے آ گھیری صباحتِ حُسن
اس روم سے ہے مشکل یہ فوجِ زنگ ہٹنی
زُلفِ سیہ میں اے دل بکھرا نہ مایۂ جاں
یہ جنس تیرہ شب میں مشکل ہے پھر سمٹنی
خون جگر کا کھانا دل پر نہیں گوارا
ان ترش ابروؤں کی جب تک نہ ہوئے چٹنی
آئینہ کہہ رہا ہے خوبوں کے صاف منہ پر
ہیں ایک دن یہ شکلیں سب خاک بیچ اٹنی
رنگیں ہے یوں بُتوں کی کیفِ نِگہ کی گردش
جوں برج کی پھرے ہے ہولی میں مست جٹنی
کیا پست فطرتوں کو بخشے ہے سر بلندی
دنیا کے شعبدے سے تعلیم ہوئے نٹنی
تُو نے محب بٹھائے یہ قافیے وگرنہ
پائے قلم کو یکسر ہے یہ زمیں رپٹنی
ولی اللہ محب
No comments:
Post a Comment