شام آئی ہے روتی ہوئی تیری یادیں لے کر
ہجر کٹنا ہے پھر سسکتی ہوئی آہیں لے کر
جانے کیوں کُوچۂ یار سے صدا آتی ہے
جلتے چراغوں کو بُجھاؤ اب دیوانہ بن کر
کیوں گردشِ دوراں نے آ پکڑا ہے مجھے؟
کیا گُھوم رہے ہیں سب کے سب نیکیاں لے کر
دل شکستہ ہوں مگر پھر سے لوٹ آیا ہوں
تیرے کُوچے میں بھیک لینے سوالی بن کر
کاسۂ بھیک میں اپنی دید کا اک سِکہ رکھ دے
گزرے گی زندگی اسی دید کا سہارا لے کر
نعیم جاوید
No comments:
Post a Comment