ایک تو ہجر میں اعصاب کا یوں شل ہونا
اور پھر وصل کی وحشت کا مسلسل ہونا
ہم نے ڈر ڈر کے گزاری ہے جوانی ساری
ہم نے سیکھا ہی نہیں پیار میں پاگل ہونا
ہم نہ بُھولے ہیں نہ بُھولیں گے تِری آنکھ کا نم
اور اس آنکھ کا چوبارے سے اوجھل ہونا
ہم نے اس خوف سے پلکیں نہیں جھپکی اپنی
سیکھ جائیں نہ کہیں خواب مقفّل ہونا
اے جنوں! سیکھ مِرے یار، یہ پتھر رکھ دے
کچھ ضروری بھی نہیں جھیل میں ہل چل ہونا
اے ستارے! مِری آوارہ مزاجی کے گواہ
یاد رکھنا یہ سڑک، یوں میرا پیدل ہونا
میں نے پہچان کے پوچھا کہ؛ اداسی ہو نا تم؟
مجھ سے کہنے لگی؛ تم درد کا جنگل ہو نا؟
وجیہ ثانی
No comments:
Post a Comment