سوزِ درون، ذات کی آواز بن گیا
تارِ نفس، نفس نہ رہا ساز بن گیا
چرچا اس طرح ہوا تیرے خصال کا
ہر ظلم ناروا تیرا انداز بن گیا
ہر اک ستم جواز ستم ڈھونڈنے لگا
فتنہ جو تھا وہ فِتنہ پرداز بن گیا
کچھ حوصلوں نے، وقت نے کچھ ساتھ دے دیا
اک پر شکستہ قابل پرواز بن گیا
ہم کو تو آشکار کیا رنگ و نور سے
خود پردہ خیال میں اک راز بن گیا
جھونکا ہوا کا زیست کا عرفان دے گیا
شاعر یہ میرے واسطے اعزاز بن گیا
سید مجتبیٰ داودی
No comments:
Post a Comment