خلوص دل نہ ہو جس میں وہ سجدہ ہو نہیں سکتا
ریا کاری سے کوئی کام سچا ہو نہیں سکتا
جو اپنی گفتگو سے بھی مجھے تکلیف دیتا یے
مسیحا خود کو کہتا ہے، مسیحا ہو نہیں سکتا
مجھے تو حکم تم نے دے دیا ترکِ محبت کا
مگر کیسے بتاؤں، مجھ سے ایسا ہو نہیں سکتا
تُو یوسف سے کرے تمثیل دلبر کی تِرے لیکن
تِرا دلبر مِرے دلبر سے سے اچھا ہو نہیں سکتا
جو اوروں کی خوشی میں اپنی خوشیاں ڈھونڈ لیتا ہے
مِرا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا میں تنہا ہو نہیں سکتا
کسی کو حالِ دل اپنا سنا لیتے تو اچھا تھا
چھپانے سے حیا یہ زخم اچھا ہو نہیں سکتا
نفیسہ حیا
نفیس سلیم
No comments:
Post a Comment