میں یہاں ہوں وہ وہاں تنہا
ہے رواں زیرِ لب فُغاں تنہا
گُلشنوں کی بہار کر کے تباہ
رقص کرتی ہے اب خِزاں تنہا
تُو بچا لے خدا سفینہ کو
زورِ طوفاں ہے بادباں تنہا
رُوٹھ کر تُو گیا ہے جب مجھ سے
میرے دل کا ہے یہ مکاں تنہا
جب زباں اُس نے کاٹ لی میری
آنکھ کرتی ہے پھر بیاں تنہا
زخم چُھو کر جو تُو نے دیکھا تھا
ہے معطر وہی نشاں تنہا
جانے کس کی نظر لگی اُن کو
"چاند تنہا ہے، آسماں تنہا"
زِیست کیسے حیا گزارے گی
ہجر کے غم میں جانِ جاں تنہا
نفیسہ حیا
نفیس سلیم
No comments:
Post a Comment