بڑھائی شیخ نے جب سے عقیدتیں مجھ سے
چمٹ گئی ہوں کہ جیسے حزیمتیں مجھ سے
میں شب گزار کے ساقی جو میکدے سے چلوں
تو جھک کے ملتی ہیں ساری ہی جنتیں مجھ سے
اوقات یاد دلاوے یہ خاک اڑتی ہوئی
نہ پوچھ حضرتِ انساں کی عظمتیں مجھ سے
جب سے روٹھا ہے مجھ سے وہ میکدہ و سبو
کیوں ایسا لگتا ہے روٹھیں ہیں رحمتیں مجھ سے
کہوں گا میں نے گزاری ہے غربتوں میں حیات
بروزِ حشر جو پوچھیں عبادتیں مجھ سے
انا پرستی، فصاحت، یہ بھولنے کا مرض
یہی تو ملتی ہیں چند اس کی عادتیں مجھ سے
میں اپنی غزلیں بڑھاتا ہوں ان کی سمت سبھی
جو لوگ پوچھتیں ہیں میری دولتیں مجھ سے
ملا ہے کچھ تو ثمر میری قربتوں کا اسے
کہ اس نے سیکھی ہیں کرنی محبتیں مجھ سے
تھی جن کے بعد بھری زندگی سہل صاحب
کری گئیں نہ کچھ ایسی ریاضتیں مجھ سے
فاروق بلوچ
بے حد تشکر پیارے بھائی
ReplyDeleteMashAllah beautifully decorated with modern realities and dilemmas! Perfect piece of writing ❤️
ReplyDeleteThanks for appreciating, credit goes to the poet.
Delete