Friday, 16 December 2022

تم اور میں کسی دن ساتھ چلیں

 تم اور میں کسی دن ساتھ چلیں

جب شام آسمان کی جانب بڑھتی جا رہی ہو

جب گلیاں آدھی ویران ہوں

جب راتیں بے چین ہوں  اور سڑکیں ہمارا 

بے ہنگم سوالوں کی طرح پیچھا کر رہی ہوں

اور میں تمہیں کہوں؛ مت پوچھو یہ کیا ہے

اندر چل کر دیکھتے ہیں

اندر چل کر دیکھتے ہیں اس کمرے کو

جہاں ایک عورت ابھی بھی "مائیکل اینگلو" کی باتیں کرتی ہے

جہاں پیلی دھند اپنی کمر

کمرے کی کھڑکی کے شیشوں کے ساتھ رگڑ رہی ہے

اپنی زبان سے شام کے کونوں کو چاٹتے ہوئے 

اور جھکتے ہوئے ان تالابوں پر جو نالے کے قریب واقع ہیں

ٹیرس سے پھسل کر اچانک چھلانگ لگاتے ہوئے

اور یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ اکتوبر کی ایک اداس شب ہے

جو گھر کے گرد اپنی بانہیں پھیلا کر سونے لگی ہے

ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ

اس پیلی دھند کا وقت ضرور آئے گا 

جو اپنی کمر کھڑکی کے شیشوں کے ساتھ رگڑتی رہی

اور گلیوں کے ساتھ پھسلتی رہی

ایک وقت ضرور آئے گا 

وہ چہرہ بنانے میں جو ان لوگوں سے ملے گا جس سے تم ملے

وہ وقت ضرور آئے گا جب ہم بنا یا مٹا سکیں گے

اور کڑیل دنوں کا وقت بھی آئے گا

جن کے ہاتھ تمہاری پلیٹ میں 

سوال رکھنے اور اٹھانے کی ہمت رکھتے ہیں

تمھارا اور میرا بھی وقت آئے گا

اور وہ گھڑی آئے گی 

جب ہم ہزار نظریات رکھنے اور اتنے ہی فیصلے 

نہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے

چائے پینے اور ٹوسٹ کھانے سے پہلے

اور وہ وقت ضرور آئے گا

جب میں اس سوال پر تعجب کر سکوں گا

کہ میرے اندر اتنی جرأت ہے کہ

میں پیچھے پلٹ سکوں اور سیڑھی پر الٹے قدم چلوں

میرے اندر اتنی جرأت ہے کہ میں 

کائنات میں انتشار پھیلا سکوں

اور ایک ہی منٹ میں اتنا وقت ضرور چھپا ہوتا ہے 

کہ جس میں ہم فیصلے اور نظر ثانی کر سکیں 

اس منٹ کے بارے جو ریورس ہو سکتا ہے

جہاں تک مجھے یاد ہے 

مجھے ان چیزوں کا پہلے سے پتہ ہے

میں بہت پہلے جان چکا تھا صبح، دوپہر اور شام کی رمز

میں نے چائے کے چمچوں میں اپنی زندگی ناپی

میں ان آوازوں کا ڈوبنا جانتا ہوں 

جو دور کسی کمرے میں 

کسی گیت کے نیچے آ کر دب گئیں

اس سب کے باوجود میں زندگی کو کیسے فرض کروں


تنویر حسین

No comments:

Post a Comment