آس ٹوٹی تو دل و جاں مِیں کئی زنگ لگے
خواب کے جُھولے پہ جب اُوس گری زنگ لگے
دل وہ گاڑی ہے جو بارش مِیں زدِ آب رہی
ایسی بارش مِیں تو گاڑی بھی کھڑی زنگ لگے
آرزو پوری نہ ہو، خواب کی تعبیر نہ ہو
کشتئ شوق کو اس رنج سے بھی زنگ لگے
دل کے آنگن مِیں گِرے، آنکھ سے تارے، جگنو
غم کی برکھا جو کواڑوں پہ پڑی، زنگ لگے
ایک بس تُو ہی نہیں، ورنہ میسّر ہیں سبھی
زیست کی ریل مِیں بس تیری کمی زنگ لگے
پھر وہی تشنہ لبی ہے، وہی آشفتہ سری
یاد کے در پہ ملے نقش سبھی زنگ لگے
زندگی ہار ہے وہ جس کو سبیلہ ہر وقت
کاٹتی ہے کوئی تلوار، کبھی زنگ لگے
سبیلہ انعام صدیقی
No comments:
Post a Comment