خود کو سمجھا ہے فقط وہم و گماں بھی ہم نے
خود کو پایا ہے دل کون و مکاں بھی ہم نے
دیکھ پھولوں سے لدے دھوپ نہائے ہوئے پیڑ
ہنس کے کہتے ہیں گزاری ہے خزاں بھی ہم نے
شفقِ صبح سے تابندہ سمن زار سے پوچھ
رات کاٹی سُوئے گردوں نگراں بھی ہم نے
دیکھ کر ابر بھر آئی ہیں خوشی سے آنکھیں
سوکھتے ہونٹوں پہ پھیری ہے زباں بھی ہم نے
جن کے گیتوں میں ہے نکہت کی لپک، پھول کا رس
سالہا سال سنی ان کی فغاں بھی ہم نے
اب امنگیں ہیں، ترنگیں ہیں ترنم افشاں
خواہشیں دیکھی ہیں محرومِ زباں بھی ہم نے
اب نظر آئے ہیں آسودۂ منزل تو کیا
دیکھی کیا کیا تپشِ ریگِ رواں بھی ہم نے
ضیا جالندھری
No comments:
Post a Comment