Sunday, 8 November 2020

اب یہ آنکھیں کسی تسکین سے تابندہ نہیں

 اب یہ آنکھیں کسی تسکین سے تابندہ نہیں

میں نے رفتہ سے یہ جانا ہے کہ آئندہ نہیں

تیرے دل میں کوئی غم میرا نمائندہ نہیں

آگہی! تیری مژہ پر ابھی رخشندہ نہیں

دل ویراں! دمِ عیسیٰ ہے گئے وقت کی یاد

کون سا لمحۂ رفتہ ہے کہ پھر زندہ نہیں

تُو بھی چاہے تو نہ آئے گی وہ بیتی ہوئی رات

ہے وہی چاند مگر ویسا درخشندہ نہیں

ابرِ آوارہ سے مجھ کو ہے وفا کی امید

برق بے تاب سے شکوہ ہے کہ پائندہ نہیں

کبھی غنچے کو مہکنے سے کوئی روک سکا

شوق اگر ہے تو پھر اظہار سے شرمندہ نہیں


ضیا جالندھری

No comments:

Post a Comment