Sunday, 24 October 2021

یہ ہوا پوچھتی ہے اے مرے سالار چراغ

 یہ ہوا پوچھتی ہے اے مِرے سالار چراغ

کتنے باقی ہیں شہادت کے طلبگار چراغ

دل سے اب عشق کا تابوت برآمد کیا جائے

آ گئے ہیں مِری پلکوں پہ عزادار چراغ

جنگ اب وحشی ہواؤں سے مجھے لڑنی ہے

اس لیے رکھا ہے لشکر کا علمدار چراغ

صرف اک رات جلا، پھر جلا چودہ صدیاں

تُو نے دیکھا ہے کبھی اتنا سمجھدار چراغ

روشنی جسم کی محتاج نہیں ہوتی ہے

دیکھ نیزے پہ بھی روشن ہے وہ سردار چراغ

یہ تمہیں شام کی دہلیز پہ رکھ آئے گی

آؤ، زنجیر پہن لو مِرے بیمار چراغ

صاحبِ تخت بھی لرزاں ہے حواری چُپ ہیں

خطبہ دینے کو کھڑا ہے سرِ دربار چراغ

باپ دادا کی وراثت میں مجھے حصہ ملا

تیغ، مشکیزہ، زِرہ، نیزہ و رہوار چراغ

روشنی چاہیۓ مجھ کو بھی تبرّک کی طرح

تیری چوکھٹ پہ کھڑا ہوں سخی سرکار چراغ

تھک کے سو جاتا ہے جب دور افق میں سورج

پھر مِری آنکھ سے ہوتا ہے نمودار چراغ

ہونے والی ہے اذاں صبر کے صحرا میں نوید

کر لیا جائے گا خیمے سے گرفتار چراغ


نوید حیدر ہاشمی

No comments:

Post a Comment