خزاں سے جوڑ کے رشتہ بہار کا کوئی
خوشی نہیں نہ سہی غم تو دے گیا کوئی
نہ شکریہ نہ شکایت یہ ربط ہے کیسا
کسے نصیب تھی فرصت کہ سوچتا کوئی
نہ کوئی دوست نہ دشمن تو پھر یہ الجھن کیوں
تمام عمر اسی کرب میں رہا کوئی
عجیب دور سے وابستگی رہی میری
کہ مل سکا نہ مجھے اپنا ہمنوا کوئی
حقیقتوں کے بھی رخ سے نقاب اٹھ جاتا
کبھی جو اپنے گریباں میں جھانکتا کوئی
گزر گیا تو حریفوں کے وار سے بچ کر
خود اپنی تیغ انا سے نہ بچ سکا کوئی
زباں سے کچھ نہ کہا وہ سمجھ گیا لیکن
مِری نگاہ میں تھا حرف التجا کوئی
ناز قادری
No comments:
Post a Comment