Saturday, 14 December 2024

صداؤں کے جنگل میں وہ خامشی ہے

 صداؤں کے جنگل میں وہ خامشی ہے

کہ میں نے ہر آواز تیری سنی ہے

اداسی کے آنگن میں تیری طلب کی

عجب خوشنما اک کلی کھل رہی ہے

نیا رنگ تھا اس کا کل وقت رخصت

کہ جیسے کسی بات پر برہمی ہے

اسے دے کے سب کچھ میں یہ سوچتا ہوں

اسے اور کیا دوں ابھی کچھ کمی ہے

وہی لمحہ لمحہ لہکنا ابھی تک

ابھی تک اسی یاد کی شعلگی ہے

سبیلیں مِرے نام کی اور بھی ہیں

مگر پیاس مجھ کو تِری بوند کی ہے

تِرا نام لوں سامنے سب کے حالی

یہ چاہت مِرے دل کو اب کاٹتی ہے


علیم اللہ حالی

No comments:

Post a Comment