اجاڑ رات ہے، تنہائی ہے، قیامت ہے
وہ سامنے ہے کہ جذبوں میں اتنی شدت ہے
کل اس کے لفظ پڑھے تو مجھے کچھ ایسا لگا
زبانِ غیر میں لکھی ہوئی عبارت ہے
جو میری مانگ میں کچھ زخم جگمگاتے ہیں
میں اپنے آپ کو بھی بھول ہی چکی ہوں اب
کسی کی یاد کی مجھ پر بڑی عنایت ہے
ہوا کے سنگ اسے دور تک ہی جانا ہے
کہ پھول سے بھلا خوشبو کی کیا رفاقت ہے
یہ جلتی ریت تِری یاد کی بچھی ہے اور
میں پوچھتی ہوں کہ کتنی ابھی مسافت ہے
مجھے جو دیکھ رہے ہو تم ایسے حیرت سے
خود اپنے آپ پہ مجھ کو بھی اتنی حیرت ہے
ہے کرب جو مِری تخلیق میں اسے سمجھو
یہ شاعری مِرا اظہار ہے،۔ عبادت ہے
میں زخم سہہ کے بھی شاہینؔ مسکراتی ہوں
کہ دردِ دل کا چھپانا تو میری عادت ہے
نجمہ شاہین کھوسہ
No comments:
Post a Comment