مخلص نہیں ہیں آپ شکایت نہ کیجیۓ
ایسے تو آپ اپنی فضیحت نہ کیجیۓ
کہتے ہیں آپ ہم سے محبت نہ کیجیۓ
ظاہر یہ ظلم کر کے قیامت نہ کیجیۓ
میں جانتی ہوں آپ کی ہر چال کو، مگر
خاموش ہوں تو مجھ سے سیاست نہ کیجیۓ
آپس کے جب تمام مسائل سلجھ گئے
کیسے سلجھ گئے؟ یہ وضاحت نہ کیجیۓ
بے شک تعلقات ہیں ان سے بڑے خراب
اس بات کی بھی آپ اشاعت نہ کیجیۓ
جو بھی ہمارے ساتھ کرے وہ ستم شعار
جی چاہتا ہے اس کی شکایت نہ کیجیۓ
نیکی ہے نیک کام تو بہرِ خدا کریں
لیکن یہ کام بہرِ اشاعت نہ کیجیۓ
آئے ہیں آپ؟ شکریہ، غم ہو گیا فزوں
بیمارِ دل سے ایسی عیادت نہ کیجیۓ
رکھنا ہے عشبہ ہم سے اگر فاصلہ طویل
پھر رنج و غم میں میرے شراکت نہ کیجیۓ
عشبہ تعبیر
No comments:
Post a Comment