ہم شکوہ ہائے چرخ ستمگار کیا کریں
فطرت ہو جس کی کج اسے ہموار کیا کریں
دل میں خیالِ عارضِ جاناں ہے جاگزیں
پھر ہم تصورِ گل و گلزار کیا کریں
دیتے ہیں جان جب وہ رقیبوں پہ رات دن
ہم جان دیں نہ اپنی تو ناچار کیا کریں
آنکھوں کو تیری مان لیں بیمار ہم اگر
پھر یہ علاج مردمِ بیمار کیا کریں
بولیں نہ منہ سے اور نہ ہاتھوں سے لیں سلام
پھر اب بتوں سے عشق کا اظہار کیا کریں
وہ بت کبھی ہوا ہے نہ اب ہو سکے گا رام
کاندھے پہ اپنے ڈال کے زنّار کیا کریں
بسمل! تماشا گاہِ دو عالم ہے اپنا دل
بہر تماشا رخ سُوئے بازار کیا کریں
بسمل گیاوی
No comments:
Post a Comment