Friday 11 October 2024

آبرو اس کی روز گھٹتی ہے

 آبرو اس کی روز گھٹتی ہے 

جس پہ مرضی انا کی چلتی ہے 

ہاتھ آئے کو کھو دیا اُس نے 

اِس لیے اب وہ ہاتھ ملتی ہے 

یہ کوئی بات ہے، اجی چھوڑیں

بے سبب کائنات جلتی ہے؟

اب جگہ ظُلمتوں کی باقی نہیں 

سچ کی بستی میں شمع جلتی ہے 

اس لیے دُور بھاگتے ہیں عبید 

زندگی امتحان لیتی ہے


عبید رضا عباس

No comments:

Post a Comment