آبرو اس کی روز گھٹتی ہے
جس پہ مرضی انا کی چلتی ہے
ہاتھ آئے کو کھو دیا اُس نے
اِس لیے اب وہ ہاتھ ملتی ہے
یہ کوئی بات ہے، اجی چھوڑیں
بے سبب کائنات جلتی ہے؟
اب جگہ ظُلمتوں کی باقی نہیں
سچ کی بستی میں شمع جلتی ہے
اس لیے دُور بھاگتے ہیں عبید
زندگی امتحان لیتی ہے
عبید رضا عباس
No comments:
Post a Comment