Monday, 7 October 2024

شہر میں اولے پڑے ہیں سر سلامت ہے کہاں

 شہر میں اولے پڑے ہیں سر سلامت ہے کہاں

اِس قدر ہے تیز آندھی، گھر سلامت ہے کہاں

رات نے ایسی سیاہی اب بکھیری چار سُو

آنکھ والوں کے لیے منظر سلامت ہے کہاں

آپ کہتے ہیں چھُپا لوں اپنی عُریانی، مگر

جسم سے لِپٹی ہوئی چادر سلامت ہے کہاں

قُلقلِ مِینا سے اپنی پیاس تو بُجھتی نہیں

چور سب شیشے ہوئے ساغر سلامت ہے کہاں

ریزہ ریزہ ہو گئی ہر شخص کی پاکیزگی

سنگساری کے لیے پتھر سلامت ہے کہاں

کوئی چہرہ اصل صُورت میں رہے باقی تو کیوں

بُت شکن کے عہد میں آذر سلامت ہے کہاں

ہر طرف اک جنگ کا ماحول ہے اعظم یہاں

آدمی اب گھر کے بھی اندر سلامت ہے کہاں


امام اعظم

No comments:

Post a Comment