Tuesday, 30 June 2020
پھول سا کچھ کلام اور سہی
بڑے تاجروں کی ستائی ہوئی
کوئی لشکر کہ دھڑکتے ہوئے غم آتے ہیں
جب تک نگار دشت کا سینہ دکھا نہ تھا
خود فریبی ہی محبت کا صلہ ہو جیسے
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
نا خداؤں کی اطاعت نہیں ہو گی ہم سے
سنتے ہیں دل کا درد بہت عام ہو گیا
مرنا تو کسی کو بھی گوارا نہیں ہوتا
گم ہوئے خود بھی محبت کی نشانی کی طرح
آنکھ کے نیر میں نہیں رہے ہم
اس نے اتنا تو کر لیا ہوتا
جس گھڑی میرے شہروں کی بستی ہوئی بستیاں قتل کر دی گئیں
اور بھی سخت ذرا اس کی سزا ہو جائے
پھر سے عہد کاذب کا اعتبار کر لیں گے
اس کی پائل اگر چھنک جائے
دیکھ کر دلکشی زمانے کی
Monday, 29 June 2020
چاک اپنا ہی گریباں کر لیں
مشکل زیست کو آسان بنانا چاہا
ہم کو آتا نہیں جفا کرنا
ہار سے بھی امید لیتے ہیں
بات میری اسی تاکید تلک رہتی ہے
دیکھو آہستہ چلو
کوہ پر آسمان کھلتا ہے
آپ جو سزا بھی دیں ٹھیک ہے مناسب ہے
مکان بیچ دئیے ہیں مکین بیچ دئیے
عید آئی مگر خوشی کے بغیر
ملا بھی زیست میں کیا رنج رہگزر سے کم
یہ غنیمت ہے وہ دروازہ کھلا ملتا ہے
اس سے اب اور برا کیا ہو یہی صدمہ ہے
Sunday, 28 June 2020
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
جو صدائیں سن رہا ہوں مجھے بس انہیں کا غم ہے
یہ کہہ رہا ہے دل بیقرار تیز چلو
بجٹ آیا پیغام مرگ لایا
ہر اک چراغ سے بڑھ کر جدا چراغ بنے
باغ کو رویا گرفتار پرندوں سے ملا
مر جانے سے پہلے کوٸی زندہ شعر کہو
جیسے ہی زینہ بولا تہہ خانے کا
آنکھ میں نم تک آ پہنچا ہوں
جیسے ہر ذہن کو زنجیر سے ڈر لگتا ہے
پیر و مرشد مجھے ہر پیر سے ڈر لگتا ہے
مکتبِ فکر کی "بہتات" جہاں ہوتی ہے
ترجمہ ٹھیک ہے،۔ تفسیر سے ڈر لگتا ہے
بات کہہ دوں گا تو کل اس سے مکر سکتا ہوں
ہاتھ روکو، مجھے "تحریر" سے ڈر لگتا ہے
تیرے ہونے سے سمجھتا تھا کے دنیا تم ہو
Saturday, 27 June 2020
میں اس زنداں کا قیدی ہوں
اگر تم ذہنیت اپنی زمیندارانہ رکھو گے
شبستان حکومت میں عوامی انقلاب آیا
Thursday, 25 June 2020
دیکھتا رہتا ہوں میں تیری غزالی آنکھیں
اس قدر اس کی مدارات ہے ویرانے میں
Wednesday, 24 June 2020
آج اک افسروں کے حلقے میں
یوں تو اس وقت کے پھیلے ہوئے سناٹے میں
سر بازار بهی خود دار ہوئے بیٹهے ہیں
جانے کتنی اڑان باقی ہے
گھر سے نکلے تھے حوصلہ کر کے
Monday, 22 June 2020
بجٹ میں کیوں خسارہ ہے
آج بھی تو عذاب ہو تم ہی
دس روپے کا سوال ہے بابا
Sunday, 21 June 2020
کب کون کہاں کس لیے زنجیر بپا ہے
سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے
تم جو مر جاؤ تو خالق کی رضا نے مارا
سائیاں ذات ادھوری ہے
محبت کی ادھوری نظم
نئے شہروں کی جب بنیاد رکھنا
نئے رستوں پہ چلنا چاہتا ہوں
Saturday, 20 June 2020
اپنوں نے غم دئیے تو مجھے یاد آ گیا
پیار بھرے دو شرمیلے نین جن سے ملا میرے دل کو چین
تمہی ہو محبوب میرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں
یہ منصف بھی تو قیدی ہیں ہمیں انصاف کیا دیں گے
Friday, 19 June 2020
اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
طعنہ زن تھا ہر کوئی ہم پر دل ناداں سمیت
جنوں میں جرم وفا بار بار ہم نے کیا
رات کے پچھلے پہر رونے کے عادی روئے
رفاقتوں میں پشیمانیاں تو ہوتی ہیں
میں اسے دیکھ رہی ہوں بڑی حیرانی سے
جز ترے کچھ بھی نہیں اور مقدر میرا
جب سے زندانی ہوا دل گردش تقدیر کا
اونچا مری آواز کو دیوار نہ کر دے
Thursday, 18 June 2020
وہ نہ آئے تو ہوا بھی نہیں آیا کرتی
مجھ کو یہ وقت وقت کو میں کھو کے خوش ہوا
سارا باغ الجھ جاتا ہے ایسی بے ترتیبی سے
کیا تمہارا بھی کہیں جان سے پیارا کوئی ہے
زندگی تو نے لہو لے کے دیا کچھ بھی نہیں
یہ جو زندگی کی کتاب ہے یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
Wednesday, 17 June 2020
اسے ہی ٹھیک سے آیا نہیں بلانا دوست
تو میرے ضبط سے ڈر تو نہیں گیا مرے دوست
وہاں وکیل قطاروں میں جب قطارے گئے
کہ ہم کو چھو کے گیا ہے ترا خیال ابھی
کہیں کہیں سے محبت وصول ہونے لگی
میں نے بالکل نہیں چاہا کہ کوئی بات بڑھے
بدن کو کاٹتا ہے دکھ ملال نوچتے ہیں
ہم ایسے لوگ جب باغوں کے پھول ہو جائیں
Monday, 15 June 2020
حرف بے صوت و بے صدا ہوں میں
اک سمندر ہے سرمئی اور میں
ادھر ادھر کے حوالوں سے مت ڈراؤ مجھے
اِدھر اُدھر کے حوالوں سے مت ڈراؤ مجھے
سڑک پہ آؤ، سمندر میں آزماؤ مجھے
مِرا وجود اگر راستے میں حائل ہے
تم اپنی راہ نکالو، پھلانگ جاؤ مجھے
سوائے میرے نہیں کوئی جارحانہ قدم
میں اک حقیر پیادہ سہی، بڑھاؤ مجھے
خنجر سے سوا کاٹ ہے اب تار نفس میں
کم نصیبوں کو ستانے کی سزا پائے گا
خوشیوں کی آرزو میں غموں سے نڈھال ہیں
Sunday, 14 June 2020
کیوں ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
بکھرے بکھرے سہمے سہمے روز و شب دیکھے گا کون
اسی تھکے ہوئے دستِ طلب سے مانگتے ہیں
Saturday, 13 June 2020
خدا نے حسن دیا ہے تمہیں شباب کے ساتھ
خدا نے حسن دیا ہے تمہیں شباب کے ساتھ
سبو و جام کھنکتے ہوئے رباب کے ساتھ
نگاہ و زلف اگر کفر ہے تو ایماں رو
شراب ان کو عطا کی گئی کتاب کے ساتھ
زباں پہ حرفِ شکایت بھی لے نہیں سکتے
عنایتیں بھی وہ کرتے ہیں کچھ عتاب کے ساتھ
مل کر وہ اتفاق سے کیا کام کر گئی
مل کر وہ اتفاق سے کیا کام کر گئی
”دل سے تِری نگاہ جگر تک اتر گئی“
آ کر ہوا کے جھونکے میں جانے کدھر گئی
مجھ کو رہی تلاش، جہاں تک نظر گئی
تن من جلا نفاق سے بھٹی میں ہجر کی
وہ آئی بھی تو دیکھ کے بندے کو ڈر گئی
فلاح آدمیت میں صعوبت سہہ کے مر جانا
فلاحِ آدمیت میں صعوبت سہہ کے مر جانا
یہی ہے کام کر جانا، یہی ہے نام کر جانا
جہاں انسانیت وحشت کے ہاتھوں ذبح ہوتی ہو
جہاں تذلیل ہے جینا، وہاں بہتر ہے مر جانا
یونہی دیر و حرم کی ٹھوکریں کھاتے پھرے برسوں
تِری ٹھوکر سے لکھا تھا مقدر کا سنور جانا
دامن یار کو کانٹوں سے بچا کر رکھنا
نازک ہمارے دل سے محبت کے پھول تھے
وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں
تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
بکھر ہی جاؤں گا میں بھی ہوا اداسی ہے
شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے
خاک سے لہر سی اٹھتی ہے لہو کی صورت
بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
Friday, 12 June 2020
چراغ یاد کی لو ہمسفر کہاں تک ہے
صبح منسوخ ہوئی شب کے اشارے نہ گئے
تارے جو کبھی اشک فشانی سے نکلتے
لہجہ و لفظ کو اک ساتھ بدل سکتا ہوں
آزر رہا ہے تیشہ مرے خاندان میں
کب تک پھروں گا ہاتھ میں کاسہ اٹھا کے میں
فائدہ کیا ہے زمانے میں خسارہ کیا ہے
Thursday, 11 June 2020
میرا ہمدم مجھے ہی جفائیں نہ دے
سچ پہ غالب ہوا جھوٹ یارب سنو
معاشی بے ثباتی کون جانے کب بدلتی ہے
درد کی انتہا نہیں معلوم
حشر کیونکر اٹھا نہیں معلوم
کون ہے آشنا نہیں معلوم
کون دے گا دغا نہیں معلوم
وہ تو رخصت ہوئے گلے مل کر
کب ٹلے گی بلا نہیں معلوم
مرا دیوانگی پر اس قدر مغرور ہو جانا
کہ رفتہ رفتہ حد آگہی سے دور ہو جانا
پتہ دیتا ہے گمراہیِ رہگیرِ محبت کا
بچھڑنا اور بچھڑ کر قافلے سے دور ہو جانا
کہیں دنیائے الفت کو تہ و بالا نہ کر ڈالے
غرورِ حسن کے آئین کا دستور ہو جانا