Tuesday, 30 June 2020

پھول سا کچھ کلام اور سہی

پھول سا کچھ کلام اور سہی
اک غزل اس کے نام اور سہی
اس کی زلفیں بہت گھنیری ہیں
ایک شب کا قیام اور سہی
زندگی کے اداس قصے ہیں
ایک لڑکی کا نام اور سہی

بڑے تاجروں کی ستائی ہوئی

بڑے تاجروں کی ستائی ہوئی
یہ دنیا دلہن ہے جلائی ہوئی
بھری دوپہر کا کھلا پھول ہے
پسینے میں لڑکی نہائی ہوئی
کرن پھول کی پتیوں میں دبی
ہنسی اس کے ہونٹوں پہ آئی ہوئی

کوئی لشکر کہ دھڑکتے ہوئے غم آتے ہیں

کوئی لشکر کہ دھڑکتے ہوئے غم آتے ہیں 
شام کے سائے بہت 'تیز قدم' آتے ہیں 
دل وہ درویش ہے جو آنکھ اٹھاتا ہی نہیں 
اس کے دروازے پہ سو اہلِ کرم آتے ہیں 
مجھ سے کیا بات لکھانی ہے کہ اب میرے لیے 
کبھی سونے، کبھی چاندی کے قلم آتے ہیں 

جب تک نگار دشت کا سینہ دکھا نہ تھا

جب تک نگارِ دشت کا سینہ دکھا نہ تھا
صحرا میں کوئی "لالۂ صحرا" کھلا نہ تھا
دو چھیلیں اس کی آنکھوں میں لہرا کے سو گئیں
اس وقت میری عمر کا "دریا چڑھا" نہ تھا
جاگی نہ تھیں نسوں میں تمنا کی ناگنیں
اس گندمی شراب کو جب تک چکھا نہ تھا

خود فریبی ہی محبت کا صلہ ہو جیسے

ایک مانوس سی خوشبو ہے فضا میں اب تک
پاس سے اٹھ کے ابھی کوئی گیا ہو جیسے
رونقِ زیست سے کچھ یوں ہے تعلق مجھ کو
پھول گلشن میں تہہِ شاخ پڑا ہو جیسے
آدمی جان کے کھاتا ہے محبت میں فریب
خود فریبی ہی محبت کا صلہ ہو جیسے

اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے

محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہوں میں
شاید کہیں قریب کوئی 'دوسرا' بھی ہے
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ "لہو بولتا" بھی ہے
یہ حسنِ اتفاق ہے،۔ یا حسنِ اہتمام
ہے جس جگہ فرات وہیں کربلا بھی ہے

نا خداؤں کی اطاعت نہیں ہو گی ہم سے

اپنے ماضی سے جو ورثے میں ملے ہیں ہم کو
ان اصولوں کی تجارت نہیں ہو گی ہم سے
عہدِ حاضر کی ہر اک بات ہمیں دل سے قبول
صرف 'توہینِ روایت' نہیں ہو گی ہم سے
جهوٹ بهی بولیں، صداقت کے پیامبر بهی بنیں
ہم کو بخشو یہ سیاست نہیں ہو گی ہم سے

سنتے ہیں دل کا درد بہت عام ہو گیا

ہم مر گئے تو ایک بڑا "کام" ہو گیا
سنتے ہیں دل کا درد بہت عام ہو گیا
ایک اور شب بغیر تمہارے گزر گئی
ایک اور داستان کا "انجام" ہو گیا
مخلوق ہو نہ کس لیے خارج کہ مولوی
لاٹھی سمیت "داخلِ اسلام" ہو گیا

مرنا تو کسی کو بھی گوارا نہیں ہوتا

مرنا تو کسی کو بھی گوارا نہیں ہوتا
کمبخت محبت میں مگر کیا نہیں ہوتا
ہم تیرے سہی، وقت کسی کا نہیں ہوتا
کس بھول میں ہے تُو کہ ہمارا نہیں ہوتا
اس حال کو پہنچائے ہوئے آپ کے ہیں ہم
پہچان ہی لیں آپ سے "اتنا" نہیں ہوتا

گم ہوئے خود بھی محبت کی نشانی کی طرح

تنگ ندی کے تڑپتے ہوئے پانی کی طرح
"ہم نے ڈالی ہے نئی ایک روانی کی "طرح
ڈھلتے ڈھلتے بھی غضب ڈھائے گیا ہجر کا دن
کسی کافر کی "جنوں خیز جوانی" کی طرح
ایسی وحشت کا برا ہو کہ ہم اپنے گھر سے
گم ہوئے خود بھی محبت کی نشانی کی طرح

آنکھ کے نیر میں نہیں رہے ہم

آنکھ کے نِیر میں نہیں رہے ہم
غم کی تشہیر میں نہیں رہے ہم
ہم اسے سانحہ سمجھتے ہیں
اپنی تصویر میں نہیں رہے ہم
خواب میں رکھ کے کیا کرو گے ہمیں؟
جبکہ تعبیر میں نہیں رہے ہم

اس نے اتنا تو کر لیا ہوتا

اس نے اتنا تو کر لیا ہوتا
بات بڑھنے سے روک لی ہوتی
تیری زلفیں نصیب تھیں ورنہ
میں کہیں اور الجھ گیا ہوتا
تجھ سے بچھڑے تو ہو گئی فرصت
وقت نے کتنی جلد بازی کی

جس گھڑی میرے شہروں کی بستی ہوئی بستیاں قتل کر دی گئیں

الم تر کیف

کیا وہ لمحہ بھی تیری ہی تخلیق تھا؟
جس گھڑی
میرے شہروں کی بستی ہوئی بستیاں
قتل کر دی گئیں
خوں سے بھر دی گئیں

اور بھی سخت ذرا اس کی سزا ہو جائے

اور بھی سخت ذرا اس کی سزا ہو جائے
وہ مِری قید سے چاہے تو رہا ہو جائے
جانے کس وقت یہاں اذنِ قضا ہو جائے
زندگی فرض کرو ہے، تو ادا ہو جائے
مجھ سے وہ ترکِ تعلق کے طریقے پوچھے
میں جو خاموش رہوں، اور خفا ہو جائے

پھر سے عہد کاذب کا اعتبار کر لیں گے

انتظار

پھر سے عہدِ کاذب کا
اعتبار کر لیں گے
ہم تمہارے آنے کا
انتظار کر لیں گے
خواہشوں کے موسم تک

اس کی پائل اگر چھنک جائے

اس کی پائل اگر چھنک جائے
گردشِ آسماں ٹھٹک جائے
اس کے ہنسنے کی کیفیت، توبہ
جیسے بجلی چمک چمک جائے
اس کے سینے کا زیرو بم، توبہ
دیوتاؤں کا دل دھڑک جائے

دیکھ کر دلکشی زمانے کی

دیکھ کر دلکشی زمانے کی
آرزو ہے فریب کھانے کی
اے غمِ زندگی! نہ ہو ناراض
مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی
ظلمتوں سے نہ ڈر کہ رستے میں
روشنی ہے شراب خانے کی

Monday, 29 June 2020

چاک اپنا ہی گریباں کر لیں

چاک اپنا ہی گریباں کر لیں
ساری دنیا کو بیاباں کر لیں
کریں کچھ ایسا، کوئی کر نہ سکے
اپنے دشمن کو اپنی جاں کر لیں
ہوئے رخسار سرخ انگارہ
ان پہ  زلفوں کو سائباں کر لیں

مشکل زیست کو آسان بنانا چاہا

مشکل زیست کو آسان بنانا چاہا
اپنے ماتھے کی لکیروں کو چھپانا چاہا
شاید ان کے ہی بدلنے سے میرے کام بنیں
لاکھ ہاتھوں کی لکیروں کو مٹانا چاہا
مجھ سے روٹھےنہ میرے چاہنے والےاک پل
میں نے کتنا ہی انہیں، دل سے ستانا چاہا

ہم کو آتا نہیں جفا کرنا

ہم کو آتا نہیں، جفا کرنا
تم سکھا دو ذرا، وفا کرنا
آج دشوار ہے زمانے میں
بھلے لوگوں سے بھی نبھا کرنا
اپنی نظروں میں آپ گر جاؤ
کبھی ایسی نہیں خطا کرنا

ہار سے بھی امید لیتے ہیں

ہار سے بھی امید لیتے ہیں
جیتنے کی نوید لیتے ہیں 
زندگی زہر بھی ہے شہد بھی ہے
ہم پہ ہے کیا کشید لیتے ہیں
کتنے احساس لفظ ہیں رکھتے
ہم ہی مطلب شدید لیتے ہیں

بات میری اسی تاکید تلک رہتی ہے

بات میری اسی تاکید تلک رہتی ہے
زندگی، زندگی امید تلک رہتی ہے
رات بس آمدِ خورشید تلک رہتی ہے
آنکھ روشن یہ تِری دید تلک رہتی ہے
حسن والوں سے نہیں بحث کیا کرتے ہیں
ان کی تائید تو تقلید تلک رہتی ہے

دیکھو آہستہ چلو

احتیاط

دیکھو آہستہ چلو
اور بھی آہستہ ذرا
دیکھنا سوچ سمجھ کر ذرا پاؤں رکھنا
زور سے بج نہ اٹھے پیروں کی آواز کہیں
کانچ کے خواب ہیں بکھرے ہوئے تنہائی میں

کوہ پر آسمان کھلتا ہے

کوہ پر آسمان کھلتا ہے
جیسے کپڑے کا تھان کھلتا ہے
کھٹکھٹاتا ہوں ایک اک در
دیکھیۓ کب مکان کھلتا ہے
بہہ چلی ہے زمیں کی کشتی
صبح کا بادبان کھلتا ہے

آپ جو سزا بھی دیں ٹھیک ہے مناسب ہے

آپ جو سزا بھی دیں ٹھیک ہے مناسب ہے
ہاں میں ایک باغی ہوں میرا قتل واجب ہے
شاعروں سے مت پوچھو رہنماؤں سے پوچھو
رنگ کیوں سیاست کا شاعری پہ غالب ہے
باوقار رہنے کو،۔۔ برقرار رہنے کو
جنگ بھی ضروری ہے صلح بھی مناسب ہے

مکان بیچ دئیے ہیں مکین بیچ دئیے

مکان بیچ دیئے ہیں، مکین بیچ دیئے
ضرورتوں نے تو دنیا و دین بیچ دیئے
ہمارے دور کا یہ سانحہ رقم ہو گا
گماں خریدنے نکلے، یقین بیچ دیئے
یہ گھر بچانے کی تدبیر ہو تو کیسے ہو؟
جناب! آپ نے سارے ذہین بیچ دئیے

عید آئی مگر خوشی کے بغیر

عید آئی، مگر خوشی کے بغیر
پھول جیسے ہو دلکشی کے بغیر
مائیں روتی ہیں، عید پر بچے
گھر کو آئے ہیں زندگی کے بغیر
زندگی ہو گئی ہے کچھ ایسے
آنکھ جیسے ہو روشنی کے بغیر

ملا بھی زیست میں کیا رنج رہگزر سے کم

ملا بھی زیست میں کیا، رنجِ رہگزر سے کم
سو اپنا شوقِ سفر بھی نہیں غبار سے کم
تِرے فراق میں دل کا عجیب عالم ہے
نہ کچھ خمار سے بڑھ کر، نہ کچھ خمار سے کم
ہنسی خوشی کی رفاقت کسی سے کیا چاہیں
یہاں تو ملتا نہیں کوئی غمگسار سے کم

یہ غنیمت ہے وہ دروازہ کھلا ملتا ہے

یہ غنیمت ہے وہ دروازہ کھلا ملتا ہے
کچھ تو سائل کو بصد شوق و رضا ملتا ہے
مانگنے والے نے مانگا ہی نہیں تھا دل سے
ورنہ اک اشک کی دوری پہ خدا ملتا ہے
رائیگانی میں بھی حاصل کی جھلک ہوتی ہے
کچھ نہ ملنے کے نتیجے میں خلا ملتا ہے

اس سے اب اور برا کیا ہو یہی صدمہ ہے

اس سے اب اور برا کیا ہو، یہی صدمہ ہے
میرے اعدأ پہ تِری خوش نظری صدمہ ہے
میں نے بچپن سے قناعت کا سبق سیکھا ہے
مجھ کو اک پل سے زیادہ کی خوشی صدمہ ہے
بے نیازی بھی تو اک حد میں بھلی لگتی ہے
حد سے بڑھتی یہ مِری زندہ دلی صدمہ ہے

Sunday, 28 June 2020

جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی

ملاقات

جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم تھا،۔ ملاقات کہاں تھی
اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں مِرے دل کو
جو تیری نگاہوں میں شکایت مِری جاں تھی
گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم
جو رات ہے زنداں میں، وہی رات وہاں تھی

جو صدائیں سن رہا ہوں مجھے بس انہیں کا غم ہے

جو صدائیں سن رہا ہوں مجھے بس انہیں کا غم ہے
تمہیں شعر کی پڑی ہے، مجھے "آدمی" کا غم ہے
جسے اپنے خوں سے پالا،۔ وہ حسیں سجل اجالا
وہی قتل ہو رہا ہے،۔ میری جاں اسی کا غم ہے
جسے رات کہہ چکا ہوں اسے صبح کیسے کہہ دوں
یہاں پاسِ لفظ کس کو؟، یہ فقط مجھی کا غم ہے

یہ کہہ رہا ہے دل بیقرار تیز چلو

یہ کہہ رہا ہے دل بے قرار، تیز چلو
بہت اداس ہیں زنجیر و دار، تیز چلو
جو تھک گئے ہیں انہیں گردِ راہ رہنے دو
کسی کا اب نہ کرو انتظار،۔ تیز چلو
خزاں کی شام کہاں تک رہے گی سایہ فگن
بہت قریب ہے صبحِ بہار،۔ تیز چلو

بجٹ آیا پیغام مرگ لایا

بجٹ آیا پیغامِ مرگ لایا 
ستم کچھ اور مہنگائی نے ڈھایا 
یہ بستی خوف کی زد میں ہے کب سے 
کسی "آسیب" کا ہے اس پہ سایا 
کماتے ہم ہیں کھاتے ہیں آفیسر 
اسے "تقدیر" کہتے ہیں خدایا 

ہر اک چراغ سے بڑھ کر جدا چراغ بنے

ہر اک چراغ سے بڑھ کر جدا چراغ بنے
یہ کیا بعید، کہ کل کو "ہوا" چراغ بنے
جو میرے ساتھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے
اب اس کے بعد بھلا کوئی کیا چراغ بنے
یہ جنگ فیصلہ کن موڑ پر ہے اس سے کہو
ہوا کی صف میں چلا جائے، یا چراغ بنے

باغ کو رویا گرفتار پرندوں سے ملا

باغ کو رویا،۔ گرفتار پرندوں سے ملا
موسمِ گل کے عزادار پرندوں سے ملا
چل پڑی ہے نا مِرے دل میں رہائی کی ہوا
کس نے بولا تھا مِرے یار! پرندوں سے ملا؟
کہہ رہے تھے کہ انہیں اڑنے کی بیماری ہے
آج میں شہر کے بیمار پرندوں سے ملا

مر جانے سے پہلے کوٸی زندہ شعر کہو

سچا، سُچا، تیکھا، میٹھا، تازہ شعر کہو
میں تو بس اتنا کہتا ہوں، اچھا شعر کہو
اہلِ دعا سے صحبت رکھو اہلِ ہنر سے میل
تا کہ تم بھی کوئی برکت والا شعر کہو
مُرجھانے سے پہلے چمن میں رکھ دو اپنی باس
مر جانے سے پہلے کوئی "زندہ شعر" کہو

جیسے ہی زینہ بولا تہہ خانے کا

جیسے ہی زینہ بولا تہہ خانے کا
کنڈلی مار کے بیٹھا سانپ خزانے کا
بات کہی اور کہہ کر خود ہی کاٹ بھی دی
یہ بھی اک پیرایہ تھا "سمجھانے" کا
صبح سویرے شبنم چاٹنے والے پھول
دیکھ لیا "خمیازہ" پیاس بجھانے کا؟

آنکھ میں نم تک آ پہنچا ہوں

آنکھ میں نم تک آ پہنچا ہوں
اس کے غم تک آ پہنچا ہوں
پہلی بار محبت کی تھی
آخری دم تک آ پہنچا ہوں
اس کے درد سے فیض ملا ہے
اذنِ قلم تک آ پہنچا ہوں

جیسے ہر ذہن کو زنجیر سے ڈر لگتا ہے

جیسے ہر ذہن کو زنجیر سے ڈر لگتا ہے
پیر و مرشد مجھے ہر پیر سے ڈر لگتا  ہے
مکتبِ فکر کی "بہتات" جہاں ہوتی ہے
ترجمہ ٹھیک ہے،۔ تفسیر سے ڈر لگتا ہے
بات کہہ دوں گا تو کل اس سے مکر سکتا ہوں
ہاتھ روکو، مجھے "تحریر" سے ڈر لگتا ہے

تیرے ہونے سے سمجھتا تھا کے دنیا تم ہو

تیرے ہونے سے سمجھتا تھا کے دنیا تم ہو
ویسے دنیا کو میں بے کار کہا کرتا تھا
تم سے بچھڑا ہوں تو رویا ہوں وگرنہ کل تک
رونے والوں کو میں فنکار کہا کرتا تھا
ہم شکل ہے یا وہی ہے میرا دشمن دیکھو
ایسے اک شخص کو میں یار کہا کرتا تھا

Saturday, 27 June 2020

میں اس زنداں کا قیدی ہوں

مرثیۂ مرگِ ضمیر

زندانِ ضمیر

میں اس زنداں کا قیدی ہوں
نہیں جس کا کوئی ثانی
نہ یہ مینارِ لندن ہے
نہ اس کا کالے پانی سے تعلق ہے

اگر تم ذہنیت اپنی زمیندارانہ رکھو گے

انتباہ

اگر تم ذہنیت اپنی زمیندارانہ رکھو گے
اگر تم ذریعۂ دولت بناؤ گے سیاست کو
اگر تم آگ بھڑکاؤ گے صوبائی تعصب کی
اگر تم عدل اور انصاف کو قدموں میں روندو گے
تو تم تاریخ کی دہلیز پر آنسو بہاؤ گے

شبستان حکومت میں عوامی انقلاب آیا

اقتباس از نظم (عوامی انقلاب)


شبستانِ حکومت میں عوامی انقلاب آیا
بنامِ حاکماں پیغامِ شوریدہ سراں آیا
اتارو تاج اپنے، تخت چھوڑو، سر جھکاؤ، سرنگوں ہو کر
سوئے بیرک روانہ ہو
یہ سیلابِ عوامی ہے
بہا لے جائے گا تم کو

Thursday, 25 June 2020

دیکھتا رہتا ہوں میں تیری غزالی آنکھیں

دیکھتا رہتا ہوں میں تیری غزالی آنکھیں
دیکھ تُو بھی ذرا میری سوالی آنکھیں
چشمِ آہو سے نہ نرگس سے ہے تشبیہ درست
ہیں مثال آپ ہی وہ اپنی نرالی آنکھیں
برہمی حسن کو کچھ اور جلا دیتی ہے
وہ جمالی تیرا چہرہ، وہ جلالی آنکھیں

اس قدر اس کی مدارات ہے ویرانے میں

اس قدر اس کی مدارات ہے ویرانے میں
کوئی تو بات ہے آخر تِرے دیوانے میں
فیضِ ساقی سے جو محروم ہیں مے خانے میں
جانے کیا ہم سے خطا ہو گئی انجانے میں
وقت کی بات ہے اب اس کے ترستے ہیں لب
''جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں''

Wednesday, 24 June 2020

آج اک افسروں کے حلقے میں

بزدل

آج اک افسروں کے حلقے میں
ایک معتوب ماتحت آیا
اپنے افکار کا حساب لیے
اپنے ایمان کی کتاب لیے
ماتحت کی ضعیف آنکھوں میں
ایک بجھتی ہوئی ذہانت تھی

یوں تو اس وقت کے پھیلے ہوئے سناٹے میں

ارتقاء

یوں تو اس وقت کے پھیلے ہوئے سناٹے میں
رات کے سینے سے کتنے ہی گجر پھوٹے ہیں
عقل کو آج بھی ہے تشنہ لبی کا اقرار
سینکڑوں جام اٹھے، سینکڑوں دل ٹوٹے ہیں
اک شعلے کو بھی حاصل نہ ہوا رقصِ دوام
اک آنسو بھی مقدر سے ستارہ نہ بنا

سر بازار بهی خود دار ہوئے بیٹهے ہیں

سر بازار بهی خود دار ہوئے بیٹهے ہیں
ہم خود اپنے لیے دشوار ہوئے بیٹهے ہیں
وہ کسی اور کا بیمار ہوا ہے،۔ اور ہم
ایک بیمار کے بیمار ہوئے بیٹهے ہیں
موت ہی "آئی ابهی آئی" کہے جا رہی ہے
ہم تو کب سے یہاں تیار ہوئے بیٹهے ہیں

جانے کتنی اڑان باقی ہے

جانے کتنی "اڑان" باقی ہے 
اس پرندے میں جان باقی ہے 
جتنی بٹنی تھی بٹ چکی یہ زمیں 
اب تو بس "آسمان" باقی ہے 
اب وہ دنیا "عجیب" لگتی ہے 
جس میں امن و امان باقی ہے 

گھر سے نکلے تھے حوصلہ کر کے

گھر سے نکلے تھے حوصلہ کر کے
لوٹ آئے خدا خدا کر کے
دردِ دل پاؤ گے وفا کر کے
ہم نے دیکھا ہے تجربہ کر کے
لوگ سنتے رہے دماغ کی بات
ہم چلے دل کو رہنما کر کے

Monday, 22 June 2020

بجٹ میں کیوں خسارہ ہے

سوال

بجٹ میں کیوں خسارہ ہے؟
برآمد بہن کر کے بھی
یہ دھرتی رہن کر کے بھی
بجٹ میں کیوں خسارہ ہے؟
روپیہ کیوں ہے سجدے میں؟
ہے ڈالر کیوں خدا جیسا

آج بھی تو عذاب ہو تم ہی

کل بھی دستار تھی تمہارے سر
آج بھی آنجناب ہو تم ہی 
کل بھی تم سامنے نہیں آئے
آج بھی با حجاب ہو تم ہی 
کل بھی تو تم نے زہر گھولا تھا 
آج بھی تو عذاب ہو تم ہی

دس روپے کا سوال ہے بابا

دس روپے کا سوال ہے با با

اپنی بیٹی کی تھام کر انگلی
چیز لینے میں گھر سے نکلا تھا
ایک بچی نے راستہ روکا
وہ جو بچی تھی پانچ سالوں کی
کھوئی سرخی تھی اس کے گالوں کی

Sunday, 21 June 2020

کب کون کہاں کس لیے زنجیر بپا ہے

کب، کون، کہاں، کس لیے زنجیر بپا ہے
یہ عقدۂ اسرارِ ازل کس پہ کھلا ہے؟
کس بھیس کوئی موجِ ہوا ساتھ لگا لے
کس دیس نکل جائے یہ دل کس کو پتا ہے
اک ہاتھ کی دوری پہ ہیں سب چاند ستارے
یہ عرشۂ جاں کس دمِ دیگر کی عطا ہے

سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے

راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے
آگ ہی آگ ہو سینے میں تو کیا پھول جھڑیں
شعلہ ہوتی ہے زباں،۔ لفظ شرر بنتا ہے
زندگی سوچ عذابوں میں گزاری ہے میاں
ایک دن میں کہاں اندازِ نظر بنتا ہے

تم جو مر جاؤ تو خالق کی رضا نے مارا

"تم جو مر جاؤ تو "خالق کی رضا نے مارا
میں ہی وہ ہوں کہ جسے ٹھیک قضا نے مارا
موت بر حق ہے یہ ایمان ہے میرا، لیکن
"تم مجھے مار کے کہتے ہو؛ "خدا نے مارا
ایک شاعر کہاں کر سکتا ہے خود کش حملہ
"تم مرو گے تو کہوں گا کہ؛ "دعا نے مارا

سائیاں ذات ادھوری ہے

سائیاں ذات ادھوری ہے

سائیاں میرے اچھے سائیاں
سائیاں ذات ادھوری ہے
سائیاں بات ادھوری ہے
سائیاں رات ادھوری ہے
سائیاں مات ادھوری ہے

محبت کی ادھوری نظم

محبت کی ادھوری نظم

لہر اور محبت میں 
شہر اور محبت میں 
قہر اور محبت میں 
زہر اور محبت میں
درد ساتھ رہتا ہے

فرحت عباس شاہ

نئے شہروں کی جب بنیاد رکھنا

نئے شہروں کی جب بنیاد رکھنا
پرانے شہر بھی آباد رکھنا
پڑی ہو پاؤں میں زنجیر پھر بھی
ہمیشہ ذہن کو آزاد رکھنا
کسی کی یاد جب شدت سے آئے
بہت مشکل ہے خود کو یاد رکھنا

نئے رستوں پہ چلنا چاہتا ہوں

نئے رستوں پہ چلنا چاہتا ہوں
ہوا کا رخ بدلنا چاہتا ہوں
نہ کر مجھ پر اندھیروں کو مسلط
میں سورج ہوں، نکلنا چاہتا ہوں
کسی کے تجربوں کا کیا بھروسہ
میں خود گر کر سنبھلنا چاہتا ہوں

Saturday, 20 June 2020

اپنوں نے غم دئیے تو مجھے یاد آ گیا

فلمی گیت

اپنوں نے غم دئیے تو مجھے یاد آ گیا
اک اجنبی جو غیر تھا اور غمگسار تھا
اپنوں نے غم دئیے

٭
وہ ساتھ تھا تو دنیا کے غم دل سے دور تھے
خوشیوں کو ساتھ لے کے نہ جانے کہاں گیا
اک اجنبی جو غیر تھا اور غمگسار تھا
اپنوں نے غم دئیے

پیار بھرے دو شرمیلے نین جن سے ملا میرے دل کو چین

فلمی گیت

پیار بھرے دو شرمیلے نین 
جن سے ملا میرے دل کو چین
کوئی جانے نہ کیوں مجھ سے شرمائیں 
کیسے مجھے تڑپائیں
پیار بھرے دو شرمیلے نین

تمہی ہو محبوب میرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں

فلمی گیت

تمہی ہو محبوب میرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں
تمہی تو میری دنیا ہو میں کیوں نہ اقرار کروں
میرا پیار یاد رکھنا
تمہی تو میری دنیا ہو میں کیوں نہ اقرار کروں
تمہی ہو محبوب میرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں
*

یہ منصف بھی تو قیدی ہیں ہمیں انصاف کیا دیں گے

یہ منصف بھی تو قیدی ہیں ہمیں انصاف کیا دیں گے
لکھا ہے ان کے چہروں پر جو ہم کو فیصلہ دیں گے
اٹھائیں لاکھ دیواریں،۔ طلوعِ مہر تو ہو گا
یہ شب کے پاسبان کب تک نہ ہم کو راستہ دیں گے
ہمیں تو شوق ہے اہلِ جنوں کے ساتھ چلنے کا
نہیں پرواہ ہمیں یہ اہلِ دانش کیا سزا دیں گے

Friday, 19 June 2020

اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے

اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
ہے کون زمانے میں مِرا پوچھنے والا؟
ناداں ہیں جو کہتے ہیں کہ گھر کیوں نہیں جاتے
شعلے ہیں تو کیوں ان کو بھڑکتے نہیں دیکھا
ہیں خاک تو راہوں میں بکھر کیوں نہیں جاتے

طعنہ زن تھا ہر کوئی ہم پر دل ناداں سمیت

طعنہ زن تھا ہر کوئی ہم پر دلِ ناداں سمیت
ہم نے چھوڑا شہرِ رسوائی درِ جاناں سمیت
اس قدر افسردہ خاطر کون محفل سے گیا؟
ہر کسی کی آنکھ پُرنم تھی دلِآزاراں سمیت
جشنِ مقتل تھا بپا اور صرف بِسمل تھے ہمیں 
ہم نے سوچا تھا کہ دیکھیں گے یہ دن یاراں سمیت

جنوں میں جرم وفا بار بار ہم نے کیا

جنوں میں جرمِ وفا بار بار ہم نے کِیا
تِری نگاہ پہ کیوں اعتبار ہم نے کیا
ہمیں خبر تھی شبِ ہجر تُو نہ آئے گا
خلوصِ دل سے مگر انتظار ہم نے کیا
یہ اور بات کہ خود تو خزاں نصیب رہے
تجھے تو شعلۂ رنگِ بہار ہم نے کیا

رات کے پچھلے پہر رونے کے عادی روئے

رات کے پچھلے پہر رونے کے عادی روئے
آپ آئے بھی، مگر رونے کے عادی روئے
ان کے آ جانے سے کچھ تھم سے گئے تھے آنسو
ان کے جاتے ہی مگر رونے کے عادی روئے
ہائے پابندیٔ آداب تِری محفل کے
کہ سر راہگزر رونے کے عادی روئے

رفاقتوں میں پشیمانیاں تو ہوتی ہیں

رفاقتوں میں پشیمانیاں تو ہوتی ہیں
کہ دوستوں سے بھی نادانیاں تو ہوتی ہیں
بس اس سبب سے کہ تجھ پر بہت بھروسہ تھا
گلے نہ ہوں بھی تو حیرانیاں تو ہوتی ہیں
اداسیوں کا سبب کیا کہیں، بجز اس کے
یہ زندگی ہے،۔ پریشانیاں تو ہوتی ہیں

میں اسے دیکھ رہی ہوں بڑی حیرانی سے

میں اسے دیکھ رہی ہوں بڑی حیرانی سے
جو مجھے بھول گیا اس قدر "آسانی" سے
خود سے گھبرا کے یہی کہتی ہوں اوروں کی طرح
خوف آتا ہے مجھے شہر کی "ویرانی" سے
اب کسی اور سلیقے سے ستائے دنیا
جی بدلنے لگا "اسبابِ پریشانی" سے

جز ترے کچھ بھی نہیں اور مقدر میرا

جُز تِرے کچھ بھی نہیں اور مقدر میرا
تُو ہی ساحل ہے مِرا، تُو ہی مقدر میرا
تُو نہیں ہے تو ادھوری سی ہے دنیا ساری
کوئی منظر مجھے لگتا نہیں منظر میرا
منقسم ہیں سبھی لمحوں میں مِرے خال و خد
یوں مکمل نہیں ہوتا کبھی "پیکر" میرا

جب سے زندانی ہوا دل گردش تقدیر کا

جب سے زندانی ہوا دل گردشِ تقدیر کا
روز بڑھ جاتا ہے اک حلقہ مری زنجیر کا
میرے حصے میں کہاں تھیں عجلتوں کی منزلیں
میرے قدموں کو سدا رستہ ملا "تاخیر" کا
کس لیے بربادیوں کا دل کو ہے اتنا ملال
اور کیا انداز ہو "خمیازۂ تعمیر" کا

اونچا مری آواز کو دیوار نہ کر دے

پتھر مجھے شرمندۂ گفتار نہ کر دے
اونچا مِری آواز کو دیوار نہ کر دے
مجبور سخن کرتا ہے کیوں مجھ کو زمانہ
لہجہ مرے جذبات کا اظہار نہ کر دے
زنجیر سمجھ کر مجھے توڑا تو ہے تُو نے
اب تجھ کو پریشاں مِری جھنکار نہ کر دے

Thursday, 18 June 2020

وہ نہ آئے تو ہوا بھی نہیں آیا کرتی

وہ نہ آئے تو ہوا بھی نہیں آیا کرتی
اس کی خوشبو بھی اکیلی نہیں آیا کرتی
ہم تو آنسو ہیں ہمیں خاک میں مل جانا ہے
میتوں کے لیے ڈولی نہیں آیا کرتی
بسترِ ہجر پہ سویا نہیں جاتا اکثر
نیند آتی تو ہے، گہری نہیں آیا کرتی

مجھ کو یہ وقت وقت کو میں کھو کے خوش ہوا

مجھ کو یہ وقت، وقت کو میں، کھو کے خوش ہوا
کاٹی نہیں وہ فصل، جسے بو کے خوش ہوا
وہ رنج تھا، کہ رنج نہ کرنا محال تھا
آخر میں ایک شام، بہت رو کے خوش ہوا
صاحب، وہ بُو گئی، نہ وہ نشہ ہوا ہُوا
اپنے تئیں میں جام و سبو دھو کے خوش ہوا

سارا باغ الجھ جاتا ہے ایسی بے ترتیبی سے

سارا باغ الجھ جاتا ہے ایسی بے ترتیبی سے
مجھ میں پھیلنے لگ جاتی ہے خوشبو اپنی مرضی سے
ہر منظر کو مجمع میں سے یوں اٹھ اٹھ کر دیکھتے ہیں
ہو سکتا ہے شہرت پا لیں ہم اپنی دلچسپی سے
ان آنکھوں سے دو اک آنسو ٹپکے ہوں تو یاد نہیں
ہم نے اپنا وقت گزارا ہر ممکن خاموشی سے

کیا تمہارا بھی کہیں جان سے پیارا کوئی ہے

کیا تمہارا بھی کہیں جان سے پیارا کوئی ہے
تم سے گر پوچھ لے کوئی، تو اشارہ کوئی ہے
چپ نہ رہتا تو بھلا تُو ہی بتا، کیا کہتا؟؟ 
"مجھ سے پوچھا تھا کسی نے کہ" تمہارا کوئی ہے؟
تیرنے والے تو اس پار پہنچ جاتے ہیں
ڈوبنے والوں کا بھی اپنا کنارہ کوئی ہے؟

زندگی تو نے لہو لے کے دیا کچھ بھی نہیں

زندگی! تُو نے لہو لے کے دیا کچھ بھی نہیں
تیرے دامن میں مِرے واسطے کیا کچھ بھی نہیں
آپ ان ہاتھوں کی چاہیں تو تلاشی لے لیں
میرے ہاتھوں میں لکیروں کے سوا کچھ بھی نہیں
ہم نے دیکھا ہے کئی ایسے خداؤں کو یہاں
سامنے جن کے وہ سچ مچ کا خدا کچھ بھی نہیں

یہ جو زندگی کی کتاب ہے یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے

یہ جو زندگی کی کتاب ہے یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
کہیں اک حسین سا خواب ہے کہیں جان لیوا عذاب ہے
کہیں چھاؤں ہے کہیں دھوپ ہے کہیں اور ہی کوئی روپ ہے
کئی چہرے اس میں چھپے ہوئے، اک عجیب سی یہ نقاب ہے
کہیں کھو دیا، کہیں پا  لیا، کہیں رو لیا، کہیں گا لیا
کہیں چھین لیتی ہے ہر خوشی کہیں مہرباں بے حساب ہے

Wednesday, 17 June 2020

اسے ہی ٹھیک سے آیا نہیں بلانا دوست

اسے ہی ٹھیک سے آیا نہیں بلانا دوست
وگرنہ، کون نہیں چاہتا پرانا دوست؟
بس ایک لمحہ اسے میرے ساتھ دیکھا گیا
اور، اس کے بعد مِرا ہو گیا زمانہ دوست
میں عشق یافتہ لڑکا ہوں خوب جانتا ہوں
کسی کا آنا یا جانا، یا آنا جانا دوست

تو میرے ضبط سے ڈر تو نہیں گیا مرے دوست

تُو میرے ضبط سے ڈر تو نہیں گیا مِرے دوست
کہ آج ٹھیک سے لڑ بھی نہیں سکا مرے دوست
تُو آج کون سے دکھ میں ہے، کیا ہوا ہے تجھے؟
میں رو رہا ہوں تُو ہنس بھی نہیں رہا مرے دوست
وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا "مری محبت" کا
"سو میں نے بات بدل کر کہا "سنا مرے دوست

وہاں وکیل قطاروں میں جب قطارے گئے

وہاں وکیل قطاروں میں جب قطارے گئے
مِری طرف سے علم اور تیس پارے گئے
تِرا بچھڑنا بھی میرے لیے مفید رہا
کہ اس خسارے کے باعث کئی خسارے گئے
میں اب یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا کروں تِرے ساتھ
جنہیں تُو ساتھ لے آیا تھا وہ تو سارے، گئے

کہ ہم کو چھو کے گیا ہے ترا خیال ابھی

ہماری سانس کو ہونا نہیں بحال ابھی
کہ ہم کو چھو کے گیا ہے ترا خیال ابھی
میں اگلی بار کوئی انتظام کر لوں گا
جو سر پہ آئی ہوئی ہے، اِسے تو ٹال ابھی
میں اس حوالے سے پہلے ہی کافی دکھی ہوں
سو دوستو!! کوئی کرنا نہیں سوال ابھی

کہیں کہیں سے محبت وصول ہونے لگی

کہیں کہیں سے محبت وصول ہونے لگی
دعا جو کی ہی نہیں تھی، قبول ہونے لگی
میں بیٹھے بیٹھے یوں ہی رقص پر اتر آیا
پھر ایک آن میں دنیا یہ دھول ہونے لگی
اب ایک جیسے تو ہوتے نہیں سبھی منظر
کہیں پہ خوش تو کہیں وہ ملول ہونے لگ

میں نے بالکل نہیں چاہا کہ کوئی بات بڑھے

میں نے بالکل نہیں چاہا کہ کوئی بات بڑھے
اس نے جب ہاتھ بڑھایا تو مرے ہاتھ بڑھے
یار!! ایسے کبھی عزت نہیں ملنے والی
اپنی اوقات میں آ جاؤ کہ اوقات بڑھے
اس نے آگاہ کیا لوٹ کے جانے سے مجھے 
اور پھر میری طرف کتنے ہی صدمات بڑھے 

بدن کو کاٹتا ہے دکھ ملال نوچتے ہیں

بدن کو کاٹتا ہے دکھ، ملال نوچتے ہیں
یہ درد بھیڑیے ہیں اور کھال نوچتے ہیں
عذابِ ہجر میں آنکھیں اجڑ گئیں جن کی
وہ بے بسی سے اپنے اپنے بال نوچتے ہیں
یہاں کے لوگوں کی عادت ہے کوفیوں جیسی
ردائیں چھینتے ہیں۔ اور شال نوچتے ہیں

ہم ایسے لوگ جب باغوں کے پھول ہو جائیں

ہم ایسے لوگ جب باغوں کے پھول ہو جائیں
اڑائیں گرد یہ موسم تو دھول ہو جائیں
جنہیں ہم عشق کی معراج کہنے لگتے ہیں
وہ لمحے بعد میں صدیوں کی بھول ہو جائیں
ہمیں تو یہ ہنسی ویسے بھی راس کم کم ہے
ہمارا کیا ہے، جب چاہیں ملول ہو جائیں

Monday, 15 June 2020

حرف بے صوت و بے صدا ہوں میں

حرفِ بے صوت و بے صدا ہوں میں
اپنی آواز سن رہا ہوں میں
ایک بیوہ کی آنکھ کا دکھ ہوں
ایک مفلس کا بچپنا ہوں میں
کوئی تصویر سے نکالے مجھے
کتنا سہما ہوا کھڑا ہوا ہوں میں

اک سمندر ہے سرمئی اور میں

اک سمندر ہے سرمئی اور میں
خواب ہے، موج زندگی اور میں
اک طرف ہے صدائے کُن فیکون
اک طرف گہری خامشی اور میں
روشنی، انتظار، کھڑکی، تم
چاندنی شب، تِری گلی اور میں

ادھر ادھر کے حوالوں سے مت ڈراؤ مجھے

 اِدھر اُدھر کے حوالوں سے مت ڈراؤ مجھے 

سڑک پہ آؤ، سمندر میں آزماؤ مجھے 

مِرا وجود اگر راستے میں حائل ہے 

تم اپنی راہ نکالو، پھلانگ جاؤ مجھے 

سوائے میرے نہیں کوئی جارحانہ قدم 

میں اک حقیر پیادہ سہی، بڑھاؤ مجھے 

خنجر سے سوا کاٹ ہے اب تار نفس میں

خنجر سے سوا کاٹ ہے اب تارِ نفس میں
مرنا مِرے بس میں ہے نہ جینا مِرے بس میں
پھرتے ہیں جگر چاک، جنوں کیش یگانے
اب بھی ہیں وہی کوچۂ دلدار کی رسمیں
جز داغِ وفا کچھ نہ ملا کوئے ستم سے
بہتات تھی ہر جنس کی بازارِ ہوس میں

کم نصیبوں کو ستانے کی سزا پائے گا

کم نصیبوں کو ستانے کی سزا پائے گا
ظلم پھر ظلم ہے اک روز ثمر لائے گا
بس گیا جس کے رگ و پے میں وہ سیماب صفت
کیا کوئی اس دلِ مجبور کو سمجھائے گا
ہم نے کچھ روز کیا آنکھ سے اوجھل جس کو
کیا خبر تھی کہ بہت دور چلا جائے گا

خوشیوں کی آرزو میں غموں سے نڈھال ہیں

خوشیوں کی آرزو میں غموں سے نڈھال ہیں
عبرت سرائے دہر میں ہم بے مثال ہیں
کچھ تو جواب دے انہیں اے خاطرِ ازل
الجھے ہوئے نقوش سراپا سوال ہیں
زندانِ باصفا کو زر و مال سے نہ جانچ
یہ خوش مزاج لوگ بڑے باکمال ہیں

Sunday, 14 June 2020

کیوں ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں

کیوں ہند کا زنداں کانپ رہا ہے، گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی، اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے،۔ دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
آنکھوں میں گدا کی سرخی ہے بے نور ہے چہرہ سلطاں کا
تخریب نے پرچم کھولا ہے، سجدے میں پڑی ہیں تدبیریں

بکھرے بکھرے سہمے سہمے روز و شب دیکھے گا کون

بکھرے بکھرے سہمے سہمے روز و شب دیکھے گا کون
لوگ تیرے جرم دیکھیں گے، سبب دیکھے گا کون
ہاتھ میں سونے کا کاسہ لے کے آئے ہیں فقیر
اس نمائش میں تِرا دستِ طلب دیکھے گا کون
لا! اٹھا تیشہ، چٹانوں سے کوئی چشمہ نکال
سب یہاں پیاسے ہیں تیرے خشک لب دیکھے گا کون

اسی تھکے ہوئے دستِ طلب سے مانگتے ہیں

اسی تھکے ہوئے دستِ طلب سے مانگتے ہیں
جو مانگتے نہیں رب سے، وہ سب سے مانگتے ہیں
وہ بھیک مانگتا ہے حاکموں کے لہجوں میں
ہم اپنے بچوں کا حق بھی ادب سے مانگتے ہیں
میرے خدا انہیں توفیقِ خودشناسی دے
چراغ ہو کہ اجالا جو شب سے مانگتے ہیں

Saturday, 13 June 2020

خدا نے حسن دیا ہے تمہیں شباب کے ساتھ

 خدا نے حسن دیا ہے تمہیں شباب کے ساتھ

سبو و جام کھنکتے ہوئے رباب کے ساتھ

نگاہ و زلف اگر کفر ہے تو ایماں رو

شراب ان کو عطا کی گئی کتاب کے ساتھ

زباں پہ حرفِ شکایت بھی لے نہیں سکتے

عنایتیں بھی وہ کرتے ہیں کچھ عتاب کے ساتھ

مل کر وہ اتفاق سے کیا کام کر گئی

 مل کر وہ اتفاق سے کیا کام کر گئی

”دل سے تِری نگاہ جگر تک اتر گئی“

آ کر ہوا کے جھونکے میں جانے کدھر گئی

مجھ کو رہی تلاش، جہاں تک نظر گئی

تن من جلا نفاق سے بھٹی میں ہجر کی

وہ آئی بھی تو دیکھ کے بندے کو ڈر گئی

فلاح آدمیت میں صعوبت سہہ کے مر جانا

 فلاحِ آدمیت میں صعوبت سہہ کے مر جانا

یہی ہے کام کر جانا، یہی ہے نام کر جانا

جہاں انسانیت وحشت کے ہاتھوں ذبح ہوتی ہو

جہاں تذلیل ہے جینا، وہاں بہتر ہے مر جانا

یونہی دیر و حرم کی ٹھوکریں کھاتے پھرے برسوں

تِری ٹھوکر سے لکھا تھا مقدر کا سنور جانا

دامن یار کو کانٹوں سے بچا کر رکھنا

دامنِ یار کو کانٹوں سے بچا کر رکھنا
دل میں ماتم بھی بپا ہو تو چھپا کر رکھنا
میں نے سیکھا ہے، سمندر سا ظرف دنیا میں
حالتِ زار جو دل کی ہو، دبا کر رکھنا
یہ نہ کہنا کہ تمہیں چھوڑ دیا ہے اس نے
عصمتِ عشق کو دنیا سے بچا کر رکھا

نازک ہمارے دل سے محبت کے پھول تھے

نازک ہمارے دل سے محبت کے پھول تھے
راہِ وفا میں عشق کے پیروں کی دھول تھے
روندا گیا کبھی ہمیں،۔ بھُولا گیا کبھی
ہم  اس کی دل لگی کی وہ چھوٹی سی بھول تھے
کچھ قاعدہ وفا میں تھا، نہ بے وفائی میں
تم جن پہ لڑ  رہے تھے، وہ کن کے اصول تھے

وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں

وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں
مگر یہ دل کو کیا ہوا کیوں بجھ گیا پتا نہیں
ہر ایک دن، اداس دن، تمام شب اداسیاں
کسی سے کیا بچھڑ گئے، کہ جیسے کچھ بچا نہیں
وہ ساتھ تھا تو منزلیں نظر نظر چراغ تھیں
قدم قدم سفر میں اب کوئی بھی لب دعا نہیں

تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا

تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
دور تک تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا
کیجیۓ کیا گفتگو، کیا ان سے مل کر سوچیۓ
دل  شکستہ خواہشوں کا ذائقہ رہ جائے گا
درد کی ساری تہیں اور سارے گزرے حادثے
سب دھواں ہو جائیں گے اک واقعہ رہ جائے گا

بکھر ہی جاؤں گا میں بھی ہوا اداسی ہے

بکھر ہی جاؤں گا میں بھی ہوا اداسی ہے
فنا نصیب ہر اک سلسلہ اداسی ہے
بچھڑ نہ جاۓ کہیں تو سفر اندھیروں میں
تِرے بغیر ہر اک راستہ اداسی ہے
بتا رہا ہے جو رستہ زمیں دِشاؤں کو
ہمارے گھر کا وہ روشن دِیا اداسی ہے

شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے

شمعِ تنہا کی طرح، صبح کے تارے جیسے
شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے
چھو گیا تھا کبھی اس جسم کو اک شعلۂ درد
آج تک خاک سے اڑتے ہیں شرارے جیسے
حوصلے دیتا ہے یہ ابرِ گریزاں کیا کیا
زندہ ہوں دشت میں ہم اس کے سہارے جیسے

خاک سے لہر سی اٹھتی ہے لہو کی صورت

خاک سے لہر سی اٹھتی ہے لہو کی صورت
اب کے شاید ہو یہی میرے نمو کی صورت
کس طرح راہ بدل دے گا یہ چھوٹا ہوا تیر
میں اگر دیکھ بھی لوں اپنے عدو کی صورت
اب بھی سنیے تو اک آسیبِ صدا باقی ہے
شہر ویران نہیں وادئ ہو کی صورت

بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے

بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے
چمک رہا ہے افق تک غبارِ تیرہ شبی
کوئی چراغ سفر پر روانہ ہو گیا ہے
ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی
ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے

Friday, 12 June 2020

چراغ یاد کی لو ہمسفر کہاں تک ہے

چراغِ یاد کی لو ہم سفر کہاں تک ہے
یہ روشنی مری دہلیز پر کہاں تک ہے
بس ایک تم تھے کہ جو دل کا حال جانتے تھے
سو اب تمہیں بھی ہماری خبر کہاں تک ہے
مسافرانِ جنوں گرد ہو گئے، لیکن
کھلا نہیں کہ تری رہگزر کہاں تک ہے

صبح منسوخ ہوئی شب کے اشارے نہ گئے

صبح منسوخ ہوئی شب کے اشارے نہ گئے
اور ہم لوگ صلیبوں سے اتارے نہ گئے
جانے کیا سانحہ گزرا ہے پسِ شہرِ مراد
لوگ موجود تھے، اور نام پکارے نہ گئے
کیا کہیں کیسے وہ تنہائی کے موسم تھے کہ جو
تم سے جھیلے نہ گئے، ہم سے گزارے نہ گئے

تارے جو کبھی اشک فشانی سے نکلتے

تارے جو کبھی اشک فشانی سے نکلتے
ہم چاند اٹھائے ہوئے پانی سے نکلتے
خاموش سہی، مرکزی کردار تو ہم تھے
پھر کیسے بھلا تیری کہانی سے نکلتے
مہلت ہی نہ دی گردشِ افلاک نے ہم کو
کیا سلسلۂ نقل مکانی سے نکلتے

لہجہ و لفظ کو اک ساتھ بدل سکتا ہوں

لہجہ و لفظ کو اک ساتھ بدل سکتا ہوں
بات کرتے ہوئے میں بات بدل سکتا ہوں
اٹھ بھی سکتا ہے کبھی میرا یقیں تجھ پر سے
میں رخِ قبلۂ حاجات بدل سکتا ہوں
ابنِ آدم ہوں، مِرا کوئی بھروسہ بھی نہیں
چند سِکوں کے عوض ذات بدل سکتا ہوں

آزر رہا ہے تیشہ مرے خاندان میں

آزر رہا ہے تیشہ مِرے خاندان میں
پیکر دکھائی دیتے ہیں مجھ کو چٹان میں
سب اپنے اپنے طاق میں تھرّا کے رہ گئے
کچھ تو کہا ہوا نے چراغوں کے کان میں
میں اپنی جستجو میں یہاں تک پہنچ گیا
اب آئینہ ہی رہ گیا ہے درمیان میں

کب تک پھروں گا ہاتھ میں کاسہ اٹھا کے میں

کب تک پھروں گا ہاتھ میں کاسہ اٹھا کے میں
جی چاہتا ہے بھاگ لوں دنیا اٹھا کے میں
ہوتی ہے نیند میں کہیں تشکیلِ خد و خال
اٹھتا ہوں اپنے خواب کا چہرہ اٹھا کے میں
بڑھنے لگا تھا نشۂ تخلیق آب و خاک
وہ چاک اٹھا کے چل دیا کوزہ اٹھا کے میں

فائدہ کیا ہے زمانے میں خسارہ کیا ہے

فائدہ کیا ہے زمانے میں خسارا کیا ہے
خاک ہو جائیں گے ہم لوگ ہمارا کیا ہے
جیتنے والوں کا ہم کو نہیں کچھ علم کہ ہم
ہار کر سوچتے رہتے ہیں کہ ہارا کیا ہے
دیکھ اے عمرِ رواں! خواہشیں رہ جائیں گی
تم گزر جاؤ گی چپکے سے، تمہارا کیا ہے

Thursday, 11 June 2020

میرا ہمدم مجھے ہی جفائیں نہ دے

میرا ہمدم مجھے ہی جفائیں نہ دے
چاہتوں میں مجھے یہ دعائیں نہ دے
لوٹ لیں چین بندوں کا یہ اے خدا
تُو حسینوں کو اتنی ادائیں نہ دے
تُو وفا شعار ہے، بے وفا تو نہیں
سن جفاؤں کے بدلے جفائیں نہ دے

سچ پہ غالب ہوا جھوٹ یارب سنو

سچ پہ غالب ہوا جھوٹ یارب سنو
پارسا وہ ہے جس نے نہ سجدہ کیا
زخم دے دے کے بھی وہ مسیحا ہوئے 
ہم گنہگار ہیں،۔۔ جو جگر کو سِیا
پارسائی ملی ساقی و رِند کو
ہم شرابی ہوئے جو نظر سے پیا

معاشی بے ثباتی کون جانے کب بدلتی ہے

معاشی بے ثباتی کون جانے کب بدلتی ہے
پرانے فریم میں تصویر جانے کب بدلتی ہے
کسی کے پاس لاکھوں، تو کسی کے گھر میں فاقہ ہے
مقدر کی یہ بے جا دَین جانے کب بدلتی ہے
اگر انسان ہے محکوم تو حاکم بھی انساں ہے
حکومت آدمی کی آدمی پر، کب بدلتی ہے

درد کی انتہا نہیں معلوم

درد کی انتہا نہیں معلوم
حشر کیونکر اٹھا نہیں معلوم
کون ہے آشنا نہیں معلوم
کون دے گا دغا نہیں معلوم
وہ تو رخصت ہوئے گلے مل کر
کب ٹلے گی بلا نہیں معلوم

مرا دیوانگی پر اس قدر مغرور ہو جانا

مِرا دیوانگی پر اس قدر مغرور ہو جانا
کہ رفتہ رفتہ حد آگہی سے دور ہو جانا
پتہ دیتا ہے گمراہیِ رہگیرِ محبت کا
بچھڑنا اور بچھڑ کر قافلے سے دور ہو جانا
کہیں دنیائے الفت کو تہ و بالا نہ کر ڈالے
غرورِ حسن کے آئین کا دستور ہو جانا

Wednesday, 10 June 2020

رویے اجنبی اور بام و در انجان لگتے ہیں

رویے اجنبی اور بام و در انجان لگتے ہیں
ہم اپنے گھر میں رہتے ہیں مگر مہمان لگتے ہیں
نہ منظر میں ہے تبدیلی، نہ پس منظر بدلتا ہے
ہے قصہ ایک ہی جس کے کئی عنوان لگتے ہیں
میں اربابِ سیاست کو وطن دشمن نہیں کہتا
مگر یہ دوست ایسے ہیں کہ جو نادان لگتے ہیں

آنکھیں ہیں سرخ ہونٹ سیہ رنگ زرد ہے

آنکھیں ہیں سرخ ہونٹ سیہ رنگ زرد ہے
ہر شخص جیسے میرے قبیلے کا فرد ہے
جب میں نہ تھا تو میری زمانے میں گونج تھی
اب میں ہوں، اور سارے زمانے کا درد ہے
سورج میں آج جتنی تپش ہے، کبھی نہ تھی
کیا کیجئے کہ خوں ہی رگ و پے میں سرد ہے

بے حس و کج فہم و لاپروا کہے

بے حس و کج فہم و لاپروا کہے
کل مؤرخ جانے ہم کو کیا کہے
اس طرح رہتے ہیں اس گھر کے مکیں
جس طرح بہرہ سنے، گونگا کہے
راز ہائے ضبطِ غم کیا چھپ سکیں
ہونٹ جب خاموش ہوں چہرہ کہے

دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے

دنیا جسے کہتے ہیں، جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے
اچھا سا کوئی موسم، تنہا سا کوئی عالم
ہر وقت کا رونا تو بے کار کا رونا ہے
برسات کا بادل تو دیوانہ ہے، کیا جانے؟
کس راہ سے بچنا ہے، کس چھت کو بھگونا ہے

یہ کھیل ہو گا نہیں دوبارہ

یہ زندگی
آج جو تمہارے
بدن کی چھوٹی بڑی نسوں میں
مچل رہی ہے
تمہارے پیروں سے چل رہی ہے
تمہاری آواز میں گلے سے نکل رہی ہے
تمہارے لفظوں میں ڈھل رہی ہے

دل میں نہ ہو جرات تو محبت نہیں ملتی

دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی
کچھ لوگ یونہی شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
دیکھا ہے جسے میں نے کوئی اور تھا شاید
وہ کون تھا جس سے تری صورت نہیں ملتی

ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی

ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا
اپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی
ہر طرف بھاگتے دوڑتے راستے
ہر طرف آدمی کا شکار آدمی

وہ پرندے بھی ساتھ لایا تھا

وہ پرندے بھی ساتھ لایا تھا
میں نے جس پیڑ کو بلایا تھا
تیرا ہنسنا بھی کیا مصیبت ہے
میں کوئی بات کرنے آیا تھا
یہ ہوائیں بھی کتنی جھوٹی ہیں
ہم نے بس ہاتھ ہی ملایا تھا

ایک جانب سے وار ہو بھائی

کس ہوا میں سوار ہو بھائی
ایک دھکے کی مار ہو بھائی
میں اگر تم سے جیت بھی جاؤں
ہار یہ کس کی ہار ہو بھائی؟
عمر ایسے بھی کاٹ سکتے ہیں
کیا ضروری ہے پیار ہو بھائی

ترا شانہ ملے گا کیا

مجھے اک دکھ میں رونا ہے
تِرا شانہ ملے گا کیا؟
نکلنا ہے محبت سے
کوئی رستہ ملے گا کیا؟
تمہارا ساتھ دوں گا میں
مجھے حصہ ملے گا کیا؟

Monday, 8 June 2020

بڑی اداس ہے وادی

وادئ کشمیر

بڑی اداس ہے وادی
گلا دبایا ہوا ہے کسی نےانگلی سے
یہ سانس لیتی رہے، پر یہ سانس لے نہ سکے
درخت اگتے ہیں کچھ سوچ سوچ کر جیسے
جو سر اٹھائے گا پہلے وہی قلم ہو گا
جھکا کے گردنیں آتے ہیں ابر ، نادم ہیں

پانی کی عادت ہے بہنا

پانی کی عادت ہے بہنا
بہتے رہنا
پیر نہیں ٹکتے دریا کے
دوڑ دوڑ کے چٹانوں سے
جھرنے کودتے رہتے ہیں
آبشار پہاڑ پکڑ کے نیچے اترتا ہے

برف پگھلے گی

برف پگھلے گی

برف پگھلے گی جب پہاڑوں سے
اور وادی سے کُہرا سمٹے گا
بیج انگڑائی لے کے جاگیں گے
اپنی السائی آنکھیں کھولیں گے
سبزہ بہہ نکلے گا ڈھلانوں پر
غور سے دیکھنا بہاروں میں

Sunday, 7 June 2020

گو کٹھن ہے طے کرنا عمر کا سفر تنہا

گو کٹھن ہے طے کرنا عمر کا سفر تنہا
لوٹ کر نہ دیکھوں گا چل پڑا اگر تنہا
سچ ہے عمر بھر کس کا کون ساتھ دیتا ہے
غم بھی ہو گیا رخصت دل کو چھوڑ کر تنہا
آدمی کو گمراہی لے گئی ستاروں تک
رہ گئے بیاباں میں حضرتِ خضر تنہا

خدا کا شکر سہارے بغیر بیت گئی​

خدا کا شکر، سہارے بغیر بیت گئی​
ہماری عمر تمہارے بغیر بیت گئی​
ہوئی نہ شمع فروزاں کوئی اندھیرے میں​
شبِ فراق ستارے بغیر بیت گئی​
وہ زندگی جو گزارے نہیں گزرتی تھی​
تیرے طفیل گزارے بغیر بیت گئی​

دیکھ سکتا ہے اسے آدمی بند آنکھوں سے

ان کی صورت ہمیں آئی تھی پسند آنکھوں سے
اور پھر ہو گئی بالا و بلند آنکھوں سے
کوئی زنجیر نہیں تارِ نظر سے مضبوط
ہم نے اس چاند پہ ڈالی ہے کمند آنکھوں سے
ٹھہر سکتی ہے کہاں اس رخِ تاباں پہ نظر
دیکھ سکتا ہے اسے آدمی بند آنکھوں سے

Saturday, 6 June 2020

مفلسی میں بھی محبت کو غنیمت جانا

مفلسی میں بھی محبت کو غنیمت جانا
ہم نے ہر طور عبادت کو غنیمت جانا
ہم کو عجلت تھی کہانی سے نکل جاۓ کی
خود کشی جیسی حماقت کو غنیمت جانا
عین ممکن ہے کہ اظہار پہ وہ چھوڑ ہی دے
ہم نے خاموش محبت کو غنیمت جانا

سبھی مے کش توازن کھو رہے ہیں

سبھی مے کش توازن کھو رہے ہیں
خدا سے بے تکلف ہو رہے ہیں
کسی کی آنکھ "بنجر" ہو گئی ہے
کسی کے اشک برتن دھو رہے ہیں
کہیں پر سوگ واجب ہو رہا ہے
کسی کے فرض پورے ہو رہے ہیں

تمہارا ہجر اسے آبشار کرتا تھا

تمہارا ہجر اسے "آبشار" کرتا تھا
ہماری آنکھ پہ تھل انحصار کرتا تھا
وہ پھول دیکھنے آتا تھا باغ میں ہر روز
میں خوشبوؤں کو وسیلہ شمار کرتا تھا
حضور آپ تو دل دے کے چیختے ہیں بہت
میں ایک شخص پہ جاں تک نثار کرتا تھا

Thursday, 4 June 2020

لڑائی مسئلے کا حل نہیں ہے

یہ کھائی مسئلے کا حل نہیں ہے
جدائی مسئلے کا حل نہیں ہے
زمینی مسئلوں کا حل نکالو
خدائی مسئلے کا حل نہیں ہے
لڑائی ہی ہمارا مسئلہ ہے
لڑائی مسئلے کا حل نہیں ہے

اونچائیوں سے ہم ترے معیار پر گرے

اونچائیوں سے ہم تِرے معیار پر گرے
جیسے کوئی پہاڑ، کسی غار پر گرے
دو تین بار عشق میں ناکامیاں ہوئیں
دو تین رنگ ایک ہی دیوار پر گرے
اک رات کہکشاں مِری آغوش میں رہی
اور سب ستارے ٹوٹ کے دیوار پر گرے

یہ کیا ہوا میں اڑے اور پروں سے شعر کہے

یہ کیا ہوا میں اڑے اور پروں سے شعر کہے
نئے پرند سے کہہ دو، سکوں سے شعر کہے
جب اک غزل سے نہ ٹوٹا وہ سومنات بدن
تو میں نے سترہ نئے زاویوں سے شعر کہے
ہر ایک شخص پہ کُھلتا کہاں ہے بابِ عطا
عزیز! ہم نے بڑی منتوں سے شعر کہے

ہے عجب رنگ کی وحشت ترے دیوانے میں

ہے عجب رنگ کی وحشت تِرے دیوانے میں
جی نہ آبادی میں لگتا ہے، نہ ویرانے میں
ہوں وہ میکش کہ نہ مستی میں کہوں راز کبھی
لاکھ قُل قُل کہے شیشہ مجھے مے خانے میں
حشر تک جی میں ہے بے ہوش رہوں میں ساقی
کاش مے بھر دے مِری عمر کے پیمانے میں