Friday, 11 November 2016

عشق کب تک آگ سینہ میں مرے بھڑکائے گا

عشق کب تک آگ سینہ میں مِرے بھڑکائے گا
راکھ تو میں ہو چکا کیا خاک اب سُلگائے گا
لے چلی ہے اب تو قسمت تیرے کوچہ کی طرف
دیکھیے پھر بھی خدا اس طرف ہم کو لائے گا
کر چکے صحرا میں وحشت پھر چکے گلیوں میں ہم
دیکھیے اب کام ہم کو عشق کیا فرمائے گا
نو گرفتاری کے باعث مضطرب صیاد ہوں
لگتے لگتے جی قفس میں بھی مِرا لگ جائے گا
دم کی آمد شد تجھی تک تو ہے دل میں میری جان
تُو اگر یاں سے گیا تو کون پھر یاں آئے گا
اب تو کرتا ہے حسؔن کو قتل تو یوں بے گناہ
دیکھیو پر کوئی دم ہی میں بہت پچھتائے گا

میر حسن دہلوی

No comments:

Post a Comment