خاموش ہوں
کسی شیلف پہ دھری
بے نام لکھاری کی کتاب کی طرح
خزاں کی رُت میں کسی بوڑھے بے ثمر پیڑ کی طرح
بے سُود ہوں
کسی آرٹ گیلری کے اک کونے میں پڑی
خاموش ہوں
کسی شیلف پہ دھری
بے نام لکھاری کی کتاب کی طرح
خزاں کی رُت میں کسی بوڑھے بے ثمر پیڑ کی طرح
بے سُود ہوں
کسی آرٹ گیلری کے اک کونے میں پڑی
کوئی سایہ اچھے سائیں دھوپ بہت ہے
مر جاؤں گا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے
سانولی رُت میں خواب جلے تو آنکھ کھلی
میں نے دیکھا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے
اب کے موسم یہی رہا تو مر جائے گا
اک اک لمحہ اچھے سائیں دھوپ بہت ہے
محبت مر گئی ہو گی
وہ اک چڑیا
تیرے درشن سے ہو کے جب
میرے کمرے کی کھڑکی میں
سحر سے شام ہونے تک
تمہارے گُن جو گاتی تھی
محبت خوبصورت ہے
نہ وہ ملتا ہے نہ ملنے کا اشارہ کوئی
کیسے امید کا چمکے گا ستارہ کوئی
حد سے زیادہ، نہ کسی سے بھی محبت کرنا
جان لیتا ہے سدا، جان سے پیارا کوئی
بے وفائی کے ستم تم کو سمجھ آ جاتے
کاش! تم جیسا اگر ہوتا تمہارا کوئی
گنگناتی سی کوئی رات بھی آ جاتی ہے
آپ آتے ہیں تو برسات بھی آ جاتی ہے
ہم کو ہر چند گوارا نہیں آنسو، لیکن
اپنی جھولی میں یہ خیرات بھی آ جاتی ہے
آرزوؤں کے جنازے ہی نہیں پلکوں پر
بجلیوں کی کبھی بارات بھی آ جاتی ہے
تجھ پر مِری رسوائی کا الزام تو ہے نا
دل توڑنے والوں میں تِرا نام تو ہے نا
کہتے ہیں اداسی کا سبب کوئی تو ہو گا
کچھ بھی نہ ہو اک سلسلۂ شام تو ہے نا
یونہی تو نہیں رہتیں افق پر مِری آنکھیں
وہ ماہِ ہنر تاب سرِ بام تو ہے نا
دھنک مزاج ہیں اور رنگ و بو سے واقف ہیں
تمہارے رنگ مِری گفتگو سے واقف ہیں
بٹھا رہے ہیں جو دریائے عشق پر پہرے
وہ میری پیاس مِری جستجو سے واقف ہیں
وہ راستے تِرے قدموں کے ہیں نشاں جن پر
وہ راستے تو مِری ہاؤ ہو سے واقف ہیں
عشق میں ضبط کا یہ بھی کوئی پہلو ہو گا
جو میری آنکھ سے ٹپکا، تیرا آنسو ہو گا
ایک پل کو تیری یاد آئے تو میں سوچتا ہوں
خواب کے دشت میں بھٹکا ہوا آہُو ہو گا
تجھ کو محسوس کروں، مس نہ مگر کر پاؤں
کیا خبر تھی کہ تو اک پیکرِ خوشبو ہو گا
شاداب و شگفتہ کوئی گلشن نہ ملے گا
دل خشک رہا تو کہیں ساون نہ ملے گا
تم پیار کی سوغات لیے گھر سے تو نکلو
رستے میں تمہیں کوئی بھی دشمن نہ ملے گا
اب گزری ہوئی عمر کو آواز نہ دینا
اب دھول میں لپٹا ہوا بچپن نہ ملے گا
احوال تِرا شامِ بدن میں بھی وہی ہے
باطن کی چمک سانولے پن میں بھی وہی ہے
وحشت کے لیے شہر مناسب نہیں ورنہ
آہو تو مِری جان ختن میں بھی وہی ہے
آباد نہیں اس سے فقط وصل کی بستی
وہ پھول ہے اور ہجر کے بن میں بھی وہی ہے
گلی گلی یوں محبت کے خواب بیچوں گا
میں رکھ کے ریڑھی پہ تازہ گلاب بیچوں گا
رہی جو زندگی میری تو شہرِ ظلمت میں
چراغ بیچوں گا اور بے حساب بیچوں گا
مِرا اجالوں کا بیوپار بس چمک جائے
فلک پہ بیٹھ کے میں آفتاب بیچوں گا
قدیم الفاظ میں معنی کی جدت مانگ لیتے ہیں
ہم اپنے رنگ سے کثرت میں وحدت مانگ لیتے ہیں
ضرورت ہو نہ ہو اس سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے
جنہیں ہو مانگنا وہ حسب عادت مانگ لیتے ہیں
ہم ایسے سادہ لوگوں کی ازل سے ایک عادت ہے
کہ اپنے گھر سے بڑھ کر دل میں وسعت مانگ لیتے ہیں
جتنا بھی کُشادہ کرے سینہ اُسے کہنا
اس دل سے نکلنا نہيں کینہ اسے کہنا
کہنا کہ مِرے سامنے آ کر بھی تو بولے
چُھپ چُھپ کے جو کہتا ہے کمینہ اسے کہنا
اس جسم سے جانے کی نہيں بُوئے یزیدی
کعبے میں رہے چاہے مدینہ اسے کہنا
لہو میں ارض و سما بھر کے بھی نہیں بھرتا
یہ دل یہ کاسۂ آوارگی نہیں بھرتا
جو زخم ہیں نظر انداز اندمال میں ہیں
بہت خیال ہے جس کا وہی نہیں بھرتا
مِرے نقوش مِرا دائمی تعارف ہیں
میں کوئی رنگ کہیں عارضی نہیں بھرتا
آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے
دل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے
ہر سُو دکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
جو دل میں کھٹکتی ہے کبھی کہہ بھی سکو گے
یا عمر بھر ایسے ہی پریشان پھرو گے
پتھر کی ہے دیوار تو سر پھوڑنا سیکھو
یہ حال رہے گا تو جیو گے نہ مرو گے
طوفان اٹھاؤ گے کبھی اپنے جہاں میں
یا آنکھ کے پانی ہی کو سیلاب کہو گے
رندانہ مراسم بتِ چالاک سے رکھو
امیدِ کرم پھر شہِ لولاک سے رکھو
ہر صبح کو اسمائے بتاں کی پڑھو تسبیح
پاک اپنے دہن کو اسی مسواک سے رکھو
اے ہم نفسو!! ولولۂ شوق نہ ہو سرد
ہاں گرم اسے خونِ رگِ تاک سے رکھو
حادثہ
روز ہی گھر میرے کندھوں پر آن گرتا ہے
چھت بھی شہتیروں سمیت
پھر دیواریں جوڑتی ہوں
اینٹ اینٹ سمیٹتی ہوں رات بھر
در بناتی ہوں دریچے
ان کا ہٹتا رہا نقاب جناب
ہم بھی ہوتے رہے خراب جناب
آپ پتھر لیے ہیں ہاتھوں میں
ہم تو لے آئے ہیں گلاب جناب
آپ سے دوستی جو کر لی ہے
سب پکاریں ہیں اب جناب جناب
کسے معلوم ہے تم سے جڑا اک شخص
دھرتی چھوڑ کر وینس پہ
مایوسی کا ٹاور گاڑنے آیا ہوا ہے
سرخ گالوں میں
سیہ آوارگی کو خیمہ زن کرتی ہوئی
اس فاحشہ کے فون سے سب رابطہ نمبر
آشنائی کا اثاثہ بھی بہت ہوتا ہے
بھیڑ میں ایک شناسا بھی بہت ہوتا ہے
تم کو تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں
دکھ بڑا ہو تو خلاصہ بھی بہت ہوتا ہے
ہم بھی کیا لوگ ہیں سب جھولیاں بھر لاتے ہیں
بے یقینی کا تو ماسہ بھی بہت ہوتا ہے
جمال کشیدگی
سہیل
سہیل
مڈورا کی لپ سٹک کا گیارہ نمبر شیڈ کیسا ہے
مندر میں لگی گھنٹی کو معلوم ہو گا
کس ہاتھ کے جُنبش میں مسرت ہے
کون سا دست طلبِ حنائی میں بام تک آیا ہے
آپ کے دل سے اُتر جاتے، کنارہ کرتے
آپ مبہم سا اگر ایک اشارہ کرتے
ہم نے دیکھی ہے جدائی میں وہ لذت کہ ہمیں
کرنا پڑتا تو یہی ہجر دوبارہ کرتے
کس اذیت میں ہمیں آپ نے چھوڑا تنہا
دوست ہوتے تو بھلا ایسے کنارہ کرتے
عمر رفتہ میں ترے ہاتھ بھی کیا آیا ہوں
دن بتانے تھے مگر خود کو بتا آیا ہوں
دھول بھی ایسے قرینے سے اڑائی ہے کہ میں
ایک مرتے ہوئے رستے کو بچا آیا ہوں
کل کو دے آؤں گا جا کر اسے بینائی بھی
آنکھ دیوار پہ فی الحال بنا آیا ہوں
جب تیری یاد کے بازار سے لگ جاتے ہیں
ڈر کہ ہم بھیڑ میں دیوار سے لگ جاتے ہیں
ہجر کے پیڑ سے جب یاد کا پھل گرتا ہے
دل میں پھر درد کے انبار سے لگ جاتے ہیں
اس سفر پہ جو چلے ہیں تو یہی جانا ہے
عشق میں ہجر کے آزار سے لگ جاتے ہیں
اتنے معمول سے اب خوف، خطر آتا ہے
جس طرح صبح کا بُھولا ہوا گھر آتا ہے
بعد آنکھوں کے مِرا دل بھی نکالا اس نے
اس کو شک تھا کہ مجھے اب بھی نظر آتا ہے
آنکھ بھیگی ہو ذرا سی کبھی میری تو کہو
دل کی چھوڑو یہ تو بس ایسے ہی بھر آتا ہے
میں ایک بے لباس عورت ہوں
میرے سر سبز خدا سے کہہ دو
اب مجھ سے یہ عزت کا چولہ نہیں پہنا جاتا
جب سے شام اپنی نگرانی میں
میری منگنی کے سرخ آنچل پہ
شب کا اندھیرا اتارنے لگی ہے
بخت جاگے تو جہاندیدہ سی ہو جاتی ہے
شخصیت اور بھی سنجیدہ سی ہو جاتی ہے
گو ہمہ وقت نئی لگتی ہے دنیا، لیکن
شے پرانی ہو تو بوسیدہ سی ہو جاتی ہے
کون ہے وہ کہ جسے موند لوں آنکھیں دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو پوشیدہ سی ہو جاتی ہے
بھلی نہیں ہے انا پروری کی خُو، رو بھی
نکال آنکھ کے رستے ہے دل میں جو جو بھی
تھا اس کا ساتھ تو کٹتا تھا ہر سفر، لیکن
سفر طویل ہے، اب ہمسفر نہیں وہ بھی
وہ چشمِ تر میں بصارت کا کام کرتا ہے
کروں بھی کیا جو اگر اس سے مسئلہ ہو بھی
ہم لوگ جو روتے ہوئے دیہات سے نکلے
صد شکر کیا لعنتِ طبقات سے نکلے
تاریخ بتاتی ہے کہ زندان میں پہنچے
سب شاہ ہمارے جو محلات سے نکلے
پھر ان کے لیے کٹنے لگے گردن و بازو
الفاظ جو کچھ گونگے اشارات حرکات سے نکلے
عید کا دن
زہے قسمت ہلالِ عید کی صورت نظر آئی
جو تھے رمضان کے بیمار ان سب نے شفا پائی
پہاڑوں سے وہ اترے قافلے روزہ گزاروں کے
گیا گرمی کا موسم، اور آئے دن بہاروں کے
اٹھا ہوٹل کا پردہ، سامنے پردہ نشیں آئے
جو چھپ کر کر رہے تھے احترامِ حکمِ دیں آئے
اور تو کچھ بھی نہیں پاس نشانی تیری
دیکھتی رہتی ہوں تصویر پرانی تیری
لڑکیاں اور بھی منصوب تیرے نام سے ہیں
کیا کوئی میری طرح بھی ہے دیوانی تیری
میرے پھولوں میں مہکتا ہے پسینہ تیرا
میرے ہاتھوں میں کھنکتی ہے جوانی تیری
دید بدلی ہے در نہیں بدلے
تیری طرح نگر نہیں بدلے
وہ تو کافی بدل گئے ہیں میاں
دیکھ لو ہم مگر نہیں بدلے
تم تو پکے مکاں میں رہتے ہو
ہم نے مٹی کے گھر نہیں بدلے
سنگ کو تکیہ بنا خواب کو چادر کر کے
جس جگہ تھکتا ہوں پڑ رہتا ہوں بستر کر کے
اب کسی آنکھ کا جادو نہیں چلتا مجھ پر
وہ نظر بھول گئی ہے مجھے پتھر کر کے
یار لوگوں نے بہت رنج دیے تھے مجھ کو
جا چکا ہے جو حساب اپنا برابر کر کے
ہوا چلے گی مگر ستارا نہیں چلے گا
سمندروں میں ترا اشارا نہیں چلے گا
یہی رہیں گے یہ در یہ گلیاں یہی رہیں گی
تمہی چلو گے کوئی نظارا نہیں چلے گا
شب سفر ہے ہتھیلیوں پر بھنور اگیں گے
تمہارے ہمراہ اب کنارا نہیں چلے گا
گلیوں کی بس خاک اڑا کے جانا ہے
ہم کو بھی آواز لگا کے جانا ہے
رستے میں دیوار ہے ٹوٹے خوابوں کی
ہم کو وہ دیوار گرا کے جانا ہے
ہم بھی اک دن آئے گا جب جائیں گے
ہم کو بھی یہ رسم نبھا کے جانا ہے
قرارِ جاں
تمہارے عارض و لب
پہ نثار کتنے ہوں
تمہارے فکر و جمال
کے ہوں شیدائی
تمہارے صندلی بوسے
آخری ملاقات پہ تُف
جھوٹے اثبات پہ تف
تابِ حسن نہ فرقتِ تصور
وصال کی رات پہ تف
خود ہی سے ہمکلام رہا
چشم سوالات پہ تف
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
چشمِ فطرت سے بہے تھے جو بہتر آنسو
آنکھ سے گرتے ہیں وہ بن کے سمندر آنسو
رونے والو! ہے اگر دل میں غمِ آلِ عبا
کربلا جائیں گے ان آنکھوں سے بہہ کر آنسو
تپشِ روزِ قیامت سے بچانے کے لیے
آئیں گے بہرِ سفارش لبِ کوثر آنسو
شامِ غربت جو سرِ صبحِ وطن ٹُوٹتی ہے
دیکھ کے تجھ کو نگاہوں کی تھکن ٹوٹتی ہے
ہنستا رہتا ہوں کہ چھپ جائیں تِرے غم کے نقوش
خندۂ لب سے جبینوں کی شکن ٹوٹتی ہے
پا بجولاں رہِ پُر خار پہ چلنے والو
کوئی دن اور کہ کانٹوں کی چُبھن ٹوٹتی ہے
بہت خموش ہیں آنکھیں لبِ نظر جاتے
کہ ان دِیوں سے بھی اک شام بات کر جاتے
ہماری سادہ مزاجی میں احتیاط نہ تھی
ذرا سا رنگ چھڑکنا تھا، ہم اُبھر جاتے
زوال ہی کا تماشہ تھے ڈوبتے تو سہی
نشیب ہی کا سماں تھے کہیں اُتر جاتے
جھوٹ
ٹھہرو بارش رک جائے تو
میں ہی تم کو چھوڑ آؤں گا
تب تک کوئی شعر سنا دو
یا پھر تار ہنسی کا چھیڑو
دیکھو مجھ کو جانے دو
عجب سفر ہے
میں اپنی مُٹھی سے ریت بن کر پھسل رہا ہوں
وہ ریت دامن میں بھر رہی ہے
میں تھوڑا مُٹھی میں رہ گیا ہوں
میں تھوڑا دامن میں گِر چکا ہوں
میں باقی دونوں کے درمیاں ہوں
شکوۂ گردش حالات لیے پھرتا ہے
جس کو دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے
اس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے
اور مجھے شوق ملاقات لیے پھرتا ہے
شاخچہ ٹوٹ چکا کب کا شجر سے لیکن
اب بھی کچھ سوکھے ہوئے پات لیے پھرتا ہے
اگر یقیں نہیں آتا تو آزمائے مجھے
وہ آئینہ ہے تو پھر آئینہ دکھائے مجھے
عجب چراغ ہوں دن رات جلتا رہتا ہوں
میں تھک گیا ہوں ہوا سے کہو بجھائے مجھے
میں جس کی آنکھ کا آنسو تھا اس نے قدر نہ کی
بکھر گیا ہوں تو اب ریت سے اٹھائے مجھے
بن کے سایہ ہی سہی سات تو ہوتی ہو گی
کم سے کم تجھ میں تِری ذات تو ہوتی ہو گی
یہ الگ بات کوئی چاند ابھرتا نہ ہو اب
دل کی بستی میں مگر رات تو ہوتی ہو گی
دھوپ میں کون کسے یاد کیا کرتا ہے
پر تِرے شہر میں برسات تو ہوتی ہو گی
اپنا خیال رکھنا
اے بندگانِ عالم
اپنا خیال رکھنا
ہو رب کی مہر تم پر
ہر وقت لازمی ہے
اپنا خیال رکھنا
ہجر کا چاند مِرے دل میں اُگایا تُو نے
دشت میں بھیج دیا چھوڑ کے سایہ تو نے
رات بھر کرتی ہیں گلیوں میں ہوائیں ماتم
میری آنکھوں کو عجب خواب دکھایا تو نے
آنکھ دریائے جنوں روکے تو کیسے روکے
آج منہ پھیر لیا کہہ کے پرایا تو نے
تُو اپنے پھول سے ہونٹوں کو رائیگاں مت کر
اگر وفا کا ارادہ نہیں،۔ تو ہاں مت کر
تُو میری شام کی پلکوں سے روشنی مت چھین
جہاں چراغ جلائے، وہاں دھواں مت کر
پھر اس کے بعد تو آنکھوں کو سنگ ہونا ہے
ملی ہے فرصتِ گریہ، تو رائیگاں مت کر
نہ راستے میں ملا ہوں نہ گھر گیا ہوں میں
تمہیں پتہ ہے، بتاؤ، کدھر گیا ہوں میں؟
اسی کو میری محبت کا معجزہ سمجھو
کہ تم نے مر ہی کہا اور مر گیا ہوں میں
میں ایک وقت تھا مجھ کو پکار مت پگلی
کہ لوٹ سکتا نہیں، اب گزر گیا ہوں میں
نئے معانی سمجھ آ گئے تھے ڈر کے مجھے
سبھی کو پگڑی کے لالے تھے اور سر کے مجھے
تو خواب توڑ دئیے میرے، خیر اچھا کیا
تمہارا جی تو بھرا ہو گا، خالی کر کے مجھے
کسی نے ساتھ نبھانے سے معذرت کر لی
کسی نے دے دئیے نقشے نئے سفر کے مجھے
اندھیری رات میں جگنو ستارے ڈھونڈتے رہنا
بھنور میں سب پہ واجب ہے کنارے ڈھونڈتے رہنا
کبھی دیوار سے رشتہ، کبھی در تھام لیتے ہیں
عجب قسمت غریبوں کی سہارے ڈھونڈتے رہنا
محبت کرنے والوں کے تقاضے بھی نرالے ہیں
منافع بخشتے رہنا،۔ خسارے ڈھونڈتے رہینا
ملتی ہے کہاں خواب کی تعبیر وغیرہ
کیا رکھ کے کروں اب تِری تصویر وغیرہ
میں دوڑ کے ملنے کو چلی آتی تجھے، پر
پاؤں میں پڑی ہے مِرے زنجیر وغیرہ
اس دور میں قانون پہ کرتی ہوں بھروسہ
اس پر بھی لگا دو کوئی تعزیر وغیرہ
اے خدا! اب تو اسے جھومتا بادل کر دے
یوں وہ برسے کہ مِرے پیار کو جل تھل کر دے
میرے محبوب کے پیروں کو جو چھینٹا چُومے
ایسے چھینٹے کو چھنکتی ہوئی پائل کر دے
کیسے ممکن ہے کہ میں حشر کے سورج سے ڈروں
مجھ پہ سایہ جو مِرے یار کا آنچل کر دے
اس کو پہلی بار خط لکھا تو دل دھڑکا بہت
کیا جواب آئے گا کیسے آئے گا ڈر تھا بہت
جان دے دیں گے اگر دنیا نے روکا راستہ
اور کوئی حل نہ نکلا ہم نے تو سوچا بہت
اب سمجھ لیتے ہیں میٹھے لفظ کی کڑواہٹیں
ہو گیا ہے زندگی کا تجربہ تھوڑا بہت
نغمہ تِرا نفس نفس، جلوہ تِرا نظر نظر
اے میرے شاہدِ حیات اور ابھی قریب تر
تِرا خلوصِ دلبری جان نہ ڈال دے اگر
نالہ بھی میرا مضمحل نغمہ بھی میرا بے اثر
معرفتِ جمال میں کام نہ آئے بال و پر
عقل کہیں پہ گر پڑی چھوٹ گئی کہیں نظر
گل خورشید کھلاؤں گا چلا جاؤں گا
صبح سے ہاتھ ملاؤں گا چلا جاؤں گا
اب تو چلنا ہے کسی اور ہی رفتار کے ساتھ
جسم بستر پہ گراؤں گا چلا جاؤں گا
آبلہ پائی ہے رسوائی ہے رات آئی ہے
دامن ایک اک سے چھڑاؤں گا چلا جاؤں گا
ہزار موجۂ سیلاب پُر خطر ہی سہی
جو ڈوبنا ہے تو پھر تیرے نام پر ہی سہی
کبھی یہاں بھی چمن تھا یہاں بھی رونق تھی
گزر رہے ہو تو اس سمت اک نظر ہی سہی
نہ منزلوں کو تمنا نہ راستوں کی خبر
نکل پڑے ہیں تو پھر کوئی رہگزر ہی سہی
دل کی چوری میں جو چشم سرمہ سا پکڑی گئی
وہ تھا چین زلف میں یہ بے خطا پکڑی گئی
صبح کوئے یار میں بادِ صبا پکڑی گئی
یعنی غیبت میں گلوں کی مبتلا پکڑی گئی
دل چڑھا مشکل سے طاق ابروئے خمدار پر
سو جگہ رستہ میں جب زلف رسا پکڑی گئی
اس کے دل میں اگر غبار نہیں
مجھ کو ملنے میں کوئی عار نہیں
آپ شاید سمجھ نہیں پائے
رَو ہے اشکوں کی، آبشار نہیں
اب کے دھڑکن میں حبس اُترا ہے
اب تو پل کا بھی اعتبار نہیں
ہوں بہت دور تو اب دور ہی رہنے دو مجھے
ہوں میں رنجور تو رنجور ہی رہنے دو مجھے
چھوڑ آیا ہوں میں دنیا کو تمہاری خاطر
ہوں میں مہجور تو مہجور ہی رہنے دو مجھے
ہے مجھے فخر، تمہاری ہے عنایت مجھ پر
ہوں میں مغرور تو مغرور ہی رہنے دو مجھے
اگر آپ ہم کو ستانے لگیں گے
تو ہم اور بھی مسکرانے لگیں گے
مِرے دل کے اندر جو لمحے میں اترا
اسے بھولنے میں زمانے لگیں گے
اگر دیکھ لے اک جھلک ان کی تُو بھی
تِرے ہوش بھی پھر ٹھکانے لگیں گے
چلے تھے گھر سے تو ہم درد کی دوا کے لیے
پڑے ہیں رستے میں تیرے مگر دعا کے لیے
مبادا شب کی سیاہی زمیں کو کھا جائے
نقاب رخ سے اٹھا دو ذرا خدا کے لیے
کوئی چراغ تو آندھی سے بچ کے نکلے گا
جلا دئیے ہیں بہت سے دیے ہوا کے لیے
وہ اگر اب بھی کوئی عہد نبھانا چاہے
دل کا دروازہ کھلا ہے جو وہ آنا چاہے
عین ممکن ہے اسے مجھ سے محبت ہی نہ ہو
دل بہر طور اسے اپنا بنانا چاہے
دن گزر جاتے ہیں قربت کے نئے رنگوں سے
رات پر رات ہے وہ خواب پرانا چاہے
وہ مجھے چھوڑ کے تنہا تو نہیں جا سکتا
پھر بھی اس دل سے یہ دھڑکا تو نہیں جا سکتا
لفظ چنتے ہوئے اعصاب بھی تھک جاتے ہیں
جھوٹ آسانی سے بولا تو نہیں جا سکتا
پاؤں پانی میں بھگوتی ہوئی لڑکی سے کہو
اب کہیں اور یہ دریا تو نہیں جا سکتا
حیرتِ عشق سے نکلوں تو کدھر جاؤں میں
ایک صورت نظر آتی ہے جدھر جاؤں میں
یہ بھی ممکن ہے کہ ہر سانس سزا ہو جائے
ہو بھی سکتا ہے جدائی میں سنور جاؤں میں
یوں مسلسل مجھے تکنے کی نہ عادت ڈالو
یہ نہ ہو آنکھ جو جھپکو تو بکھر جاؤں میں
اگر چُبھتی ہوئی باتوں سے ڈرنا پڑ گیا تو
محبت سے کبھی تم کو مُکرنا پڑ گیا تو
تِری بکھری ہوئی دنیا سمیٹے جا رہا ہوں
اگر مجھ کو کسی دن خود بکھرنا پڑ گیا تو
ذخیرہ پشت پر باندھا نہیں تم نے ہوا کا
کہیں گہرے سمندر میں اُترنا پڑ گیا تو
رفیق سمجھا گیا، دشمنی میں مارا گیا
مجھے پتہ تو چلے کس خوشی میں مارا گیا
میں کہہ رہا ہوں بھرے شہر سے گواہی لو
میں کہہ رہا ہوں مجھے روشنی میں مارا گیا
ٹھکانا جس کا جہاں تھا، اسے وہیں رکھا
چنانچہ سر تیری دیوار ہی میں مارا گیا
نہ کسی رمز میں معنی میں نہ سوال میں ہے
یہ میرا کھویا ہوا دل تیرے خیال میں ہے
نہ اب سکون ملے، نہ اسے قرار کہیں
نہ اب خموش ہے دل اور نہ عرضِ حال میں ہے
تیری جبیں پہ جو اک بار جگمگایا تھا
وہ اک ستارہ میرے لمحۂ وصال میں ہے
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
تُو کیا جانے تیرے سر پر
وقت کا چرخا گھوں گھوں کرتا
کات رہا ہے بال سفید
مخمور جالندھری
گور بخش سنگھ
مجھے دور رہنے دو
ایسی دانائی سے
کہ جو کسی کے درد پہ
رو نہ دے
مجھے نہیں چاہئے
جوانی کار فرمائے محبت ہوتی جاتی ہے
قیامت میں بپا تازہ قیامت ہوتی جاتی ہے
محبت آئینہ دارِ حقیقت ہوتی جاتی ہے
مِری نظروں میں ہر شے خوبصورت ہوتی جاتی ہے
وہی ہیں روز و شب پر تیرہ قسمت ہوتی جاتی ہے
ہر اک صبحِ مسرت شامِ حسرت ہوتی جاتی ہے
کئے ہو ہم پہ یقیں یار تم بھی پاگل ہو
ہماری زہرہ جبیں یار تم بھی پاگل ہو
مِرے حصول کی اک آس لے کے بیٹھی ہو
مِرا بھروسہ نہیں یار تم بھی پاگل ہو
میں اپنے آپ کو مجنوں صفت سمجھتا تھا
مگر کہیں نہ کہیں یار تم بھی پاگل ہو
تمہاری یاد کا اک دائرہ بناتی ہوں
پھر اس میں رہنے کی کوئی جگہ بناتی ہوں
وہ اپنے گرد اٹھاتا ہے روز دیواریں
میں اس کی سمت نیا راستہ بناتی ہوں
زمانہ بڑھ کے وہی پیڑ کاٹ دیتا ہے
میں جس کی شاخ پہ اک گھونسلہ بناتی ہوں
بلاگ کی طرف سے تمام فالورز اور قارئین کو عید مبارک ہو
سب کے سب کہنے لگے ہیں یہ میری تائید میں
عید کی خوشیاں ہیں پوشیدہ تمہاری دید میں
مجھ سے اس طرح تعلق رکھنا اے یارانِ من
جس طرح سے ہے تعلق چاند رات اور عید میں
وقت کم ہے جلدی جلدی کیجئے مطلب کی بات
وقت مت برباد کیجے آپ بھی تمہید میں
تِرا خیال بہت دیر تک نہیں رہتا
کوئی ملال بہت دیر تک نہیں رہتا
اداس کرتی ہے اکثر تمہاری یاد مجھے
مگر یہ حال بہت دیر تک نہیں رہتا
میں ریزہ ریزہ تو ہوتا ہوں ہر شکست کے بعد
مگر، نڈھال بہت دیر تک نہیں رہتا
نہ گرے کہیں نہ ہرے ہوئے کئی سال سے
یونہی خشک پات جڑے رہے تِری ڈال سے
کوئی لمس تھا جو سراپا آنکھ بنا رہا
کوئی پھول جھانکتا رہ گیا کسی شال سے
تِری کائنات سے کچھ زیادہ طلب نہیں
فقط ایک موتی ہی موتیوں بھرے تھال سے
چلو تمہیں بھی اگر دھول اڑانی آتی ہے
کہ اس سفر میں بہت رائیگانی آتی ہے
سبھی کے حصے میں کوئی کہانی آتی ہے
کسی کسی کو ہی لیکن سنانی آتی ہے
پرانے خواب کا رونا تو خیر جانے دیں
ہمیں تو نیند بھی اکثر پرانی آتی ہے
رہتا تھا جو پرے مِرے وہم و گمان سے
بیٹھا ہے دل کے تخت پہ اب کتنی شان سے
اس نے جو التفات کی تھوڑی نگاہ کی
رہنے لگے ہیں ہم بھی ذرا خوش گمان سے
منزل کی جستجو میں تھی تنہا مسافرت
شل ہوگیا بدن مِرا ذہنی تکان سے
تاریکیاں الجھتی ہیں وہم وگمان سے
سورج اتارنا ہے مجھے آسمان سے
قسمت نے پھر سے پاؤں میں رستے بچھا دئیے
میں چُور چُور تھا ابھی پچھلی تھکان سے
خوشبو کو اپنی سانس کی ڈوری میں باندھ کر
تھنڈی ہوائیں آتی ہیں تیرے مکان سے
آئینہ صاف رہے،ربط میں تشکیک نہ ہو
اس لیے روز تجھے کہتے ہیں نزدیک نہ ہو
ہے اگر عشق تو پھر عشق لگے، رحم نہیں
اتنی مقدار تو دے،، وصل رہے، بھیک نہ ہو
مجھے تم ایسے اجاڑو، کہ کئی نسلوں تک
آنے والوں کو مِرے عشق کی تحریک نہ ہو
کار زارِ زندگی میں ایسے لمحے آ گئے
عزمِ محکم رکھنے والے وقت سے گھبرا گئے
دوسروں کے واسطے جیتے رہے مرتے رہے
خوب سیرت لوگ تھے، رازِ محبت پا گئے
باغ پر بجلی گرے، یا نذرِ گلچیں ہو رہے
آہ اب سوچوں کے دھارے اس نہج پر آ گئے
دیکھا تو کوئی اور تھا، سوچا تو کوئی اور
جب آ کے ملا اور تھا، چاہا تو کوئی اور
اس شخص کے چہرے میں کئی رنگ چھپے تھے
چپ تھا تو کوئی اور تھا، بولا تو کوئی اور
دو چار قدم پر ہی بدلتے ہوئے دیکھا
ٹھہرا تو کوئی اور تھا، گزرا تو کوئی اور
بے سبب رفاقت کا دکھ اٹھا کے رکھا ہے
ہم نے تیرے وعدے سے دل لگا کے رکھا ہے
موتیے کی کچھ کلیاں، اور گلاب سہ رنگی
اپنے گھر کے آنگن میں سب سجا کے رکھا ہے
تِرے لوٹ آنے کی گر نہیں کوئی صورت
کس لیے تعلق کا بوجھ اٹھا کے رکھا ہے
آنکھ میں خواب زمانے سے الگ رکھا ہے
عکس کو آئینہ خانے سے الگ رکھا ہے
گھر میں گلدان سجائے ہیں تِری آمد پر
اور اک پھول بہانے سے الگ رکھا ہے
کچھ ہوا میں بھی چلانے کے لیے رکھا جائے
اس لیے تیر نشانے سے الگ رکھا ہے
جس شہر میں سحر ہو، وہاں شب بسر نہ ہو
ایسا بھی عاشقی میں کوئی در بدر نہ ہو
کوشش کے باوجود نہ ہو، عمر بھر نہ ہو
ﷲ کرے کہ مجھ سے تِرا غم بسر نہ ہو
اس کا یہ حکم ہے مجھے جاتا ہوا بھی دیکھ
اور یہ بھی شرط ہے کہ میاں آنکھ تر نہ ہو
غصے میں جو نکھرا ہے، اس حسن کا کیا کہنا
کچھ دیر ابھی ہم سے تم یوں ہی خفا رہنا
٭
اس حسن کے شعلے کی تصویر بنا لیں ہم
ان گرم نگاہوں کو سینے سے لگا لیں ہم
پل بھر اسی عالم میں اے جانِ ادا رہنا
کچھ دیر ابھی ہم سے، تم یوں ہی خفا رہنا
آنکھ کھولوں گا تو یادوں کے خزانے ہوں گے
نئے کپڑوں میں وہی لوگ پرانے ہوں گے
پیڑ نے بُور نہیں عشق اُٹھایا ہے میاں
اب درختوں سے بھی منسوب فسانے ہوں گے
میرا دشمن مِرے اندر ہی چھپا بیٹھا ہے
مجھ کو خود اپنی طرف تیر چلانے ہوں گے
کبھی آنکھوں کے کوزوں میں سمندر دیکھنے آؤ
جو برپا ہے مِرے دل میں وہ محشر دیکھنے آؤ
تمہیں بارش کے موسم سے بلا کا عشق ہوتا تھا
برستی آنکھ میں ساون کا منظر دیکھنے آؤ
وہ جس پاگل کا اک پل بھی تمہارے بن نہ کٹتا تھا
گزارا کس طرح اس نے دسمبر دیکھنے آؤ
ہر ایک رات میں اپنا حساب کر کے مجھے
سحر کو چھوڑ دیا آفتاب کر کے مجھے
مرے جنون کو پہنچا دیا ہے منزل تک
سفر کے شوق نے خانہ خراب کر کے مجھے
ذرا سی دیر میں وہ بلبلے بھی پھوٹ گئے
جنہیں وجود ملا غرق آب کر کے مجھے
صحرا ہے نہ بازار ہے دیوار کے اُس پار
دیوار ہی دیوار ہے، دیوار کے اس پار
بیٹھا ہے کوئی گھات لگائے ہوئے مجھ پر
خاموشی لگاتار ہے دیوار کے اس پار
آتی ہیں کراہیں، کبھی آہیں، کبھی سسکی
شاید کوئی بیمار ہے دیوار کے اس پار
مت برا اس کو کہو گرچہ وہ اچھا بھی نہیں
وہ نہ ہوتا تو غزل میں کبھی کہتا بھی نہیں
جانتا تھا کہ ستمگر ہے، مگر کیا کیجے
دل لگانے کے لیے اور کوئی تھا بھی نہیں
جیسا بے درد ہو وہ پھر بھی یہ جیسا محبوب
ایسا کوئی نہ ہوا، اور کوئی بھی نہیں
نگاہ پھیر کے عذرِ وصال کرتے ہیں
مجھے وہ الٹی چُھری سے حلال کرتے ہیں
زبان قطع کرو، دل کو کیوں جلاتے ہو
اسی سے شکوہ، اسی سے سوال کرتے ہیں
نہ دیکھی نبض، نہ پوچھا مزاج بھی تم نے
مریضِ غم کو یونہی دیکھ بھال کرتے ہیں
یہ زندگی تو ایک بہانہ ہے اور بس
کچھ دن کا تجھ سے ملنا ملانا ہے اور بس
ماں تھی شجر تھا اور پرندے تھے بے شمار
اب اس مکاں میں دفن خزانہ ہے اور بس
جب تک تمہاری آنکھ میں موجود ہوں تو ہوں
تم نے مجھے یہاں سے گرانا ہے اور بس
وہ کسی بھی عکس جمال میں نہیں آئے گا
وہ جواب ہے تو سوال میں نہیں آئے گا
نہیں آئے گا وہ کسی بھی حرف و بیان میں
وہ کسی نظیر و مثال میں نہیں آئے گا
اسے ڈھالنا ہے خیال میں کسی اور ڈھب
وہ شباہت و خد و خال میں نہیں آئے گا
کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں
اِک بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں
مجھ کو ہے اعتراف کہ دعاوں میں ہے اثر
جائیں نہ عرش پر یہ دعائیں تو کیا کریں
اِک دن کی بات ہو تو اسے بھول جائیں ہم
نازل ہوں روز دل پہ بلائیں تو کیا کریں
تم آئے ہو، تمہیں بھی آزما کے دیکھ لیتا ہوں
تمہارے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں
ہوائیں جن کی اندھی کھڑکیوں پر سر پٹکتی ہیں
میں ان کمروں میں پھر شمیں جلا کر دیکھ لیتا ہوں
عجب کیا اس قرینے سے کوئی صورت نکل آئے
تِری باتوں کو خوابوں سے ملا کر دیکھ لیتا ہوں
میں نفرت کے عوض ساری محبت بیچ آیا ہوں
جو پل بھر کو ملی تھوڑی مسرت بیچ آیا ہوں
مجھے حق ہی نہیں یارو! کوئی ارمان رکھنے کا
سرِ بازار میں ہر ایک حسرت، بیچ آیا ہوں
ضرورت کو ہی خواہش کر کے ساری عمر کاٹی تھی
مگر میں آج اپنی ہر ضرورت، بیچ آیا ہوں
کبھی تو واپس پلٹ کے دیکھو
ہماری پلکوں پہ ٹھہرے آنسو سے حال پوچھو
شبِ الم کی مسافتوں کا
دھواں دھواں دل کی حسرتوں کا
کبھی تو پوچھو کہ کیسے گزرے
وہ سارے پل جب ہماری آنکھیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جنگ احد کا ذکر
یہ تیغ جب کھنچی تو زمانہ الٹ گیا
عقرب سے چاند، چاند سے ہالہ لپٹ گیا
شیشے میں بند ہونے کو گردوں سمٹ گیا
یہ کیا بڑھی کہ زور کا بھی زور گھٹ گیا
غل تھا کہ انقلاب کی قسمت الٹ گئی
محشر کے بوریے سے قیامت لپٹ گئی
اب کہاں شہر میں وہ آئینہ تن تم جیسے
لے گئے باندھ کے سب رُوپ کا دھن تم جیسے
ہم نے کھینچے ہیں تو یہ ہم تھے، سو یہ غم کھینچے ہیں
کھنچ سکتے نہیں یہ رنج و محن تم جیسے
ہم بھی جی لیں گے کسی طور بہ ایں حال فراق
ہم نے بھی سیکھ لیے تم سے چلن تم جیسے
تشنہ کامی کا یہ الزام اتارا جائے
اک سمندر مِرے ہونٹوں سے گزارا جائے
گفتگو کرنی ہے اک شخص کی سیرت سے مجھے
آسمانوں سے فرشتوں کو اتارا جائے
حضرتِ قیس مِرے حق میں گواہی دیں گے
اب سرِ دشت مِرا نام پکارا جائے
میں شجر ہوں شہرِ ملال کا مِری ٹہنیوں کو نہال کر
کبھی بھیج اپنی نوازشیں کسی جامِ ابر میں ڈھال کر
مجھے خار خار مسافتوں کی ستمگری نے تھکا دیا
مجھے منزلوں کا سراغ دے مِرے حوصلے کو بہال کر
میں چراغ خانہ درد ہوں تیری کائناتِ بسیط میں
مجھے بھیگی رات میں پھیلتی ہوئی چاندنی کی مثال کر
ستم سہتے ہوئے ہر دن نئی خواہش سے ڈرتا ہوں
مِری آنکھوں میں غم ہے اور میں بارش سے ڈرتا ہوں
مِری پاکیزگی نے ہی بنایا ہے مجھے منصف
سو میں انصاف کرتے وقت ہر لغزش سے ڈرتا ہوں
دلوں کی وسعتوں کو بانٹ ہی سکتی نہیں دنیا
میں قسطوں میں بنٹا ہوں اور پیمائش سے ڈرتا ہوں
یقیں ایسا کہ جو گماں میں نہیں
تیرے جیسا کوئی جہاں میں نہیں
یقیناً داستاں ادھوری سی ہے
مِرا ہی ذکر داستاں میں نہیں
تیری آنکھیں بھی بجھ گئی ہیں کیا
ستارہ ایک آسماں میں نہیں
تیرا چہرا، ترے گیسو، ترا شانہ اے کاش
پھر تِرے نقش دکھائے یہ زمانہ اے کاش
میں تو دن رات اسی سوچ میں گم رہتا ہوں
نہ سنا ہوتا وہ کوئل کا ترانہ اے کاش
کتنے مسرور تھے ہم زُلف کے سائے سائے
کھولتی یوں نہ شبِ ہجر دہانہ اے کاش
رسم ضبط نافذ ہے پھر خدا کی دھرتی میں
بھیڑیوں کی آمد ہے فاختہ کی بستی میں
آنکھ کے جھپکنے میں قافلے لٹیں گے پھر
راہبر کے حلیۓ میں راہزن ہے مستی میں
جبر کی ہوائیں ہیں دھونس کی خزاؤں میں
مال کی ہوس آخر کھینچ لے گی پستی میں
آؤ بیٹھیں ذرا
ہاتھ میں چائے کا کپ لیے
بات کرتے ہوئے
ساتھ ہنستے ہوئے
تم مجھے اپنے غم کی سبھی کنجیاں سونپ دو
میں تمہیں سونپ دوں
بے کیفئ حیات میں، کیوں مل گئے ہو تم
ایسی سیاہ رات میں، کیوں مل گئے ہو تم
میں حادثاتِ زیست پہ کچھ کر رہا تھا غور
آشوبِ حادثات میں، کیوں مل گئے ہو تم
تم سے تو راہِ صدق میں ملنے کا قول تھا
راہِ تکلفات میں، کیوں مل گئے ہو تم
تمہاری کھوج میں اپنا کمال کھو بیٹھے
جواب ڈھونڈ کے لائے، سوال کھو بیٹھے
عجب ہجوم تھا بے چینیوں کا سینے میں
ہم اپنی بھیڑ میں تیرا خیال کھو بیٹھے
جگہ جگہ پہ عجب بے کسی کا منظر ہے
نگر کے لوگ نگر کا جمال کھو بیٹھے
یوسفی گر نہیں ممکن تو زلیخائی کر
ان سے پیدا کوئی تقریب شناسائی کر
پہلے ہر غم کی محبت میں پذیرائی کر
چاک پھر دامن تمکین و شکیبائی کر
روبرو ان کے مِرا حال سنانے والے
اپنی جانب سے بھی کچھ حاشیہ آرائی کر
جو جل اٹھی ہے شبستاں میں یاد سی کیا ہے
یہ جھلملاہٹیں کیا ہیں یہ روشنی کیا ہے
کسی سے ترکِ تعلق کے بعد بھی ملنا
بُرا ضرور ہے لیکن کبھی کبھی کیا ہے
اب اپنے حال پہ ہم دھیان ہی نہیں دیتے
نہ جانے بے خبری ہے کہ آگہی کیا ہے
اس نے بچپن کے سنائے ہیں فسانے کیا کیا
جاگ اٹھے ہیں میرے زخم پرانے کیا کیا
وصل میں ہجر جدائی میں ملن کے سائے
پیار کی راہ میں آتے ہیں زمانے کیا کیا
مئے کبھی پی ہے، کبھی اشک بہائے ہم نے
ہم نے تسکین کے ڈھونڈے ہیں بہانے کیا کیا
کثیر زخموں کی تعداد ہوتے دیکھنا ہے
جنوں کو صاحبِ اولاد ہوتے دیکھنا ہے
خدا کی سمت لے آئی ہے رائیگانی اسے
یہی تو کوفے کو بغداد ہوتے دیکھنا ہے
بس اتنی دیر کو بینائی چاہیے کہ اسے
کسی کے ہجر میں برباد ہوتے دیکھنا ہے
دل و دماغ میں احساس غم ابھار دیا
یہ کس نے آج مجھے مژدۂ بہار دیا
تِرے جلو میں بڑھی ہے چمن کی شادابی
گلوں کا رنگ تِرے حسن نے نکھار دیا
ذرا لبوں کے تبسم سے بزم گرمائیں
ہمیں تو آپ کی آنکھوں کی چپ نے مار دیا
کسی کے ہاتھ سے اک پھولدان ٹُوٹا تھا
اور اس کے ساتھ دلِ بدگُمان ٹوٹا تھا
زمیں پھٹی نہ کہیں آسمان ٹوٹا تھا
بچھڑتے وقت فقط ایک مان ٹوٹا تھا
مآلِ کشمکشِ سنگ و آئینہ مت پوچھ
جو ٹوٹنا تھا وہی میری جان ٹوٹا تھا
سوکھے ہوئے دریا کی نشانی کے علاوہ
سب کچھ ہے میری آنکھ میں پانی کے علاوہ
آیا ہوں بھرے شہر سے اک دشت کی جانب
اک ہجر لیے نقل مکانی کے علاوہ
چوپال میں اے دیر سے بیٹھے ہوئے لوگو
کیا تم کو سناؤں میں کہانی کے علاوہ
چومنے ہی والے ہیں تھرتھراتے ہونٹوں کو
ہم نے روک رکھا ہے وقت کی بہاروں کو
ٹوٹتے پہاڑوں پر جلد رات پڑتی ہے
جلد چھوڑ دینا تم میری سرد بانہوں کو
کچھ کہانیاں دیکھیں صرف کچھ ستاروں نے
مت روایتیں سمجھو میرے سارے قصوں کو
مجھے جستجو تِرے عشق کی، تِری قربتوں کا سوال ہے
نہیں عشق سے ابھی آشنا، مِرے دوستوں کا خیال ہے
مِرا خامہ اس کا گواہ ہے، مِری شاعری بھی دلیل ہے
مِری سانس ہے جو رواں دواں، تِری چاہتوں کا کمال ہے
تُو نگاہ سے مِری دور ہے، دل و جاں سے پھر بھی قریب ہے
یہ فراق ہے نہ وصال ہے، تِری شفقتوں کا یہ حال ہے
زندگی قطرہ قطرہ پگھلتی رہی
رات سے بات تیری نکلتی رہی
چاندنی کے روپہلے دیے
تیری آواز کی جھیل میں
جل کے بجھتے رہے
بجھ کے جلتے رہے
دیوانوں پر ہاتھ نہ ڈالو اس ضد میں پچھتاؤ گے
سارے شہر میں کس کس کو تم زنجیریں پہناؤ گے
کیا صحرا کی تپتی مٹی اپنا سر نہ اٹھائے گی
تم تو یہ دیوار بڑھا کر صحرا تک لے جاؤ گے
ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ تم مختار سریر کوہ بنو
لیکن تم سے ملنا کیا ہے پتھر ہی برساؤ گے
میری سرشست ہی میں محبت ہے کیا کروں
مجھ کو تو ہر فریب حقیقت ہے کیا کروں
گو دل کو تم سے خاص شکایت ہے کیا کروں
پھر بھی مجھے تمہیں سے محبت ہے کیا کروں
اب تو دعا یہ ہے نہ مٹے اضطرابِ دل
دل کو بھی اب سکون سے نفرت ہے کیا کروں
دن کی آہیں نہ گئیں رات کے نالے نہ گئے
میرے دل سوز مِرے چاہنے والے نہ گئے
اپنے ماتھے کی شکن تم سے مٹائی نہ گئی
اپنی تقدیر کے بل ہم سے نکالے نہ گئے
تذکرہ سوزِ محبت کا کیا تھا اک بار
تا دمِ مرگ زباں سے مِری چھالے نہ گئے
کس یاس سے مِرے ہیں مریض انتظار کے
قاتل کو یاد کر کے، قضا کو پکار کے
مقتل میں حال پوچھو نہ مجھ بے قرار کے
تم اپنے گھر کو جاؤ چُھری پھیر پھار کے
رکتی نہیں ہے گردشِ ایام کی ہنسی
لے آنا طاق سے مِرا ساغر اتار کے
چاک ہو پردۂ وحشت مجھے منظور نہیں
ورنہ، یہ ہاتھ گریبان سے کچھ دور نہیں
وصل سے یاس ہو ایسا دل مہجور نہیں
بُت اگر دور ہے مجھ سے تو خدا دور نہیں
چھین لیں دل کو اگر وہ تو یہ مجبوری ہے
میں کہے جاؤں گا محتاج ہوں مقدور نہیں