Friday, 31 October 2014

اک عالم تھا کیا عالم تھا

اک عالم تھا، کیا عالم تھا
وہ سچا ہو، یا جھوٹا ہو
ہم اپنے آپ میں ڈوب گئے
خود پتھر بن، خود دریا ہو
جیوں گھاس کا تنکا جنگل میں
جیوں آندھی میں کوئی پتا ہو

سو سو تہمت ہم پہ تراشی کوچہ گرد رقیبوں نے

سو سو تہمت ہم پہ تراشی کوچہ گرد رقیبوں نے
خطبے میں لیکن نام ہمیں لوگوں کا پڑھا خطیبوں نے
شب کی بساط ناز لپیٹو، شمع کے سرد آنسو پونچھو
نقارے پر چوب لگا دی صبح کے نئے نقیبوں نے
کس کو خبر ہے رات کے تارے کب نکلے کب ڈوب گئے
شام و سحر کا پیچھا چھوڑا آپ کے درد نصیبوں نے

یوں تو ہے وحشت جزو طبیعت

یوں تو ہے وحشت جزوِ طبیعت، ربط انہیں کم لوگوں سے
اب تو برس دن بعد بھی انشاؔ ملتے نہیں ہم لوگوں سے
کیوں تجھے ضد ہے وضع نِبھائیں، چاند نہ دیکھیں عید کریں
چھپ نہ سکے گا، اے دلِ بر! یاں دیدۂ پُرنم لوگوں سے
کیا ہوا خشت اٹھا دے ماری یا سرِ دامن نوچ لیا
تم تو دِوانے اس کے بہانے ہو چلے برہم لوگوں سے

اس کو نام جنوں کا دے لو پیار کہو کہ دلار کہو

اس کو نام جنوں کا دے لو، پیار کہو کہ دلار کہو
ایسا اور کسی کا دیکھا، دل کا کاروبار، کہو
بستی میں‌ دیوانہ سمجھو، دشت میں ہم کو خوار کہو
اُن سے ایک نہ ایک بہانے ہونا تھا دوچار کہو
تم کیا سود و زیاں کی جانو، تم جو اسے ایثار کہو
جان تو دیں پر جاناں پائیں، ہم کو دنیادار کہو

سکھ چاہو تو

سکھ چاہو تو

فرش پہ بیٹھے اک جوگی نے عرش کے چاند پہ ہارا جی
شعر ہمارے سننے والو، رکھیو جان سے پیارا جی
ہر بستی ہر گھر پر چنچل چاند نے چہرا چمکایا
اس جوگی کے حصے میں پر گھور اندھیرا ہی آیا
متوالے نے سپنوں کے تاگوں کی چادر پھیلائی
اجیارا تو کیا ملتا، جگ نے ٹہرایا سودائی

گوری اب تو آپ سمجھ لے ہم ساجن یا دشمن ہیں

گوری اب تو آپ سمجھ لے، ہم ساجن یا دشمن ہیں
گوری تو ہے جسم ہمارا، ہم تیرا پیرہن ہیں
نگری نگری گھوم رہےہیں، سخیو اچھا موقع ہے
روپ سروپ کی بھکشا دے دے، ہم اک پھیلا دامن ہیں
تیرے چاکر ہو کر پایا درد بہت رسوائی بہت
تجھ سے تجھے جو ٹکے کمائے، آج تجھی کو ارپن ہیں

ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں

ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
آج یہاں کل اور نگر میں، صبح کہاں اور شام کہاں
ہم سے بھی پیت کی بات کرو کچھ، ہم سے بھی لوگو پیار کرو
تم تو پشیمان ہو بھی سکو گے، ہم کو یہاں پہ دوام کہاں
سانجھ سمے کچھ تارے نکلے، پل بھر چمکے ڈوب گئے
انبر انبر ڈھونڈ رہا ہے اب انہیں ماہِ تمام کہاں

اس بستی کے اک کوچے میں

اس بستی کے اک کوچے میں

اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا
اک نار پہ جان کو ہار گیا، مشہور تھا اس کا افسانا

اس نار میں‌ایسا روپ نہ تھا جس دھوپ سے دن کی دھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے، مہتاب رخے گلنار لبے
کچھ بات تھی اس کی باتوں میں، کچھ بھید تھے اس کی چتون میں

اب عمر کی نقدی ختم ہوئی

اب عمر کی نقدی ختم ہوئی 
اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہوکار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال مہینے دن لوگو
پر سود بیاج کے بِن لوگو

دروازہ کھلا رکھنا

دروازہ کھلا رکھنا 

دل درد کی شدت سے خوں گشتہ و سی پارہ
اس شہر میں پھرتا ہے اک وحشی و آوارہ
شاعر ہے کہ عاشق ہے، جوگی ہے کہ بنجارہ

دروازہ کھلا رکھنا
سینےسے گھٹا اٹھے، آنکھوں سے جھڑی برسے

لب پر نام کسی کا بھی ہو

لب پر نام کسی کا بھی ہو 

لب پر نام کسی کا بھی ہو، دل میں تیرا نقشا ہے
اے تصویر بنانے والی، جسب سے تجھ کو دیکھا ہے
بے تیرے کیا وحشت ہم کو، تجھ بن کیسا صبر وسکوں
تو ہی اپنا شہر ہے جانی، تو ہی اپنا صحرا ہے
نیلے پربت ، اودی دھرتی، چاروں کوٹ میں تو ہی تو
تجھ سے اپنے جی کی خلوت، تجھ سے من کا میلا ہے

انشا جی کہو

انشاؔ جی کہو

انشاؔ کہو مزاجِ مبارک کو اِن دنوں
دنیا خوش آ رہی ہے کہ جانی اداس ہو
نبھنے لگی ہے بلدۂ خوباں کی خاک سے
یادوں کی وحشتیں ہیں پرانی، اداس ہو
وہ سر میں آپ کے تھا جو سودا چلا گیا
یا اب بھی ہے وہ جی کی گرانی، اداس ہو

انشا جی بہت دن بیت چکے

انشاؔ جی بہت دن بیت چکے

انشاؔ جی بہت دن بِیت چکے
تم تنہا تھے، تم تنہا ہو
یہ جوگ بجوگ تو ٹھیک نہیں
یہ روگ کسی کا اچھا ہو
کبھی پورب میں، کبھی پچھم میں
تم پُروا ہو، تم پچھوا ہو

جانے کیا تو ڈھونڈ رہا ہے بستی میں ویرانے میں

جانے کیا تُو ڈھونڈ رہا ہے بستی میں ویرانے میں
لیلیٰ تو اے قیس! ملے گی دل کے دولت خانے میں
جنم جنم کے ساتوں دکھ ہیں اس کے ماتھے پر تحریر
اپنا آپ مٹانا ہو گا، یہ تحریر مٹانے میں
محفل میں اس شخص کے ہوتے کیف کہاں سے آتا ہے
پیمانے سے آنکھوں میں یا آنکھوں سے پیمانے میں

راز کہاں تک راز رہے گا منظر عام پہ آئے گا

راز کہاں تک راز رہے گا منظرِ عام پہ آئے گا
جی کا داغ اجاگر ہو کر سورج کو شرمائے گا
شہروں کو ویران کرے گا اپنی آنچ کی تیزی سے 
ویرانوں میں مست البیلے وحشی پھول کھلائے گا
ہاں یہی شخص گداز اور نازک، ہونٹوں پہ مسکان لیے
اے دل! اپنے ہاتھ لگاتے، پتھر کا بن جائے گا

یہ کون آیا انشا جی یہ کون آیا کس دیس کا باسی ہے

یہ کون آیا

انشاؔ جی یہ کون آیا، کس دیس کا باسی ہے
ہونٹوں پہ تبسم ہے، آنکھوں میں اداسی ہے
خوابوں کے گلستاں کی خوشبوئے دلآرا ہے
یا صبح تمنا کے ماتھے کا ستارا ہے
ترسی ہوئی نظروں کو اب اور نہ ترسا رے
اے حسن کے سوداگر، اے روپ کے بنجارے

اب کوئی آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا

اب کوئی آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا
یہ بھی کہنا کہ بھلا اب بھی نہ جاتا لوگو
راہ تکتے ہوئے پتھرا سی گئی تھی آنکھیں
آہ بھرتے ہوئے چھلنی ہوا سینہ لوگو
کتنی اس شہر کے سخیوں کی سُنی تھی باتیں
ہم جو آئے تو کسی نے بھی نہ پوچھا لوگو

تو کہاں چلی گئی تھی

تُو کہاں چلی گئی تھی
تیرا بے قرار انشاؔ
تیری جستجو میں حیراں
تیری یاد میں سلگتا
کبھی بستیوں بنوں میں
کبھی سوئے کوہ صحرا
کبھی سورشوں میں کھویا

نگاہ تشنہ کو تسکین اضطراب تو دے

نگاہِ تشنہ کو تسکینِ اضطراب تو دے
وہ آب دے کہ نہ دے منظرِ سراب تو دے
مری نگاہوں سے اس کو نہ پھر گلہ ہو گا
وہ اپنے چہرے سے اچھی کوئی کتاب تو دے
جہاں کھلے ہوں مسرت کے پھول بھی دوچار
دلِ حزیں کو اب اُن موسموں کا باب تو دے

ادھر دعا کی سماعتوں کا روایتی آسمان بھی چپ

اُدھر دعا کی سماعتوں کا روایتی آسمان بھی چپ
اِدھر سسکتے ہوئے لبوں کا برہنہ طرزِ بیان بھی چپ
نہ جانے کن خواہشوں کی شدت کا شور کمرے میں گونجتا تھا
نہ جانے کیا کہہ گئی ہوا، ہو گیا وہ خالی مکان بھی چپ
نئی رُتوں نے ہوا کی رَو سے نہ جانے کیا ساز باز کر لی
کہ سبز صدیوں سے گونجتی آ رہی ندائے اذان بھی چپ

صدیوں کا بن باس لکھے گی اب کے برس بھی

صدیوں کا بن باس لکھے گی اب کے برس بھی
تنہائی اتہاس لکھے گی اب کے برس بھی
اب کے برس بھی جھوٹ ہمارا پیٹ بھرے گا
سچائی افلاس لکھے گی اب کے برس بھی
اب کے برس بھی دنیا چھینی جائے گی ہم سے
مجبوری سنیاس لکھے گی اب کے برس بھی

کلام کرتا تھا میں اس سے دعا کے لہجے میں

کلام کرتا تھا میں اُس سے دعا کے لہجے میں
مگر وہ بول پڑا تھا خدا کے لہجے میں
زمین پھر اسی مرکز پہ جلد آ جائے
ندائے ’’کُن‘‘  میں سنوں ابتدا کے لہجے میں
پرندے لوہے کے، کنکر بموں کے پھینکتے ہیں
عذاب ہم پہ ہے کیوں ابرہہ کے لہجے میں

ہوائے شہر یہاں کس طرح چلی بابا

ہوائے شہر یہاں کس طرح چلی بابا
کہ گانو جلنے لگا ہے گلی گلی بابا
درخت کیوں ہیں سراسیمگی کے عالم میں
مچی ہے کیسی پرندوں میں کھلبلی بابا
نہ جانے کیسا بچھایا تھا جال چوروں نے
کہ آج پھنس گیا سِم سِم میں خود علی بابا

سراغ بھی نہ ملے اجنبی صدا کے مجھے

سُراغ بھی نہ ملے اجنبی صدا کے مجھے
یہ کون چھپ گیا صحراؤں میں بُلا کے مجھے
میں اس کی باتوں میں غم اپنا بھُول جاتا، مگر
وہ شخص رونے لگا خود ہنسا ہنسا کے مجھے
اسے یقین کہ میں جان دے نہ پاؤں گا
مجھے یہ خوف کہ روئے گا آزما کے مجھے

سیاہ لفظوں بھری داستان کیا دے گا

سیاہ لفظوں بھری داستان کیا دے گا
مرے خلاف وہ مجھ سا بیان کیا دے گا
ہے طاری سینے میں تاریخی مسجدوں کا سکوت
یہاں پہ کوئی مسافر اذان کیا دے گا
مرے گناہوں پہ رحم آ ہی جائے گا اس کو
عذاب وہ مرے شایانِ شان کیا دے گا

وسعت صحرا کے آگے آسماں چھوٹا لگا

وسعتِ صحرا کے آگے آسماں چھوٹا لگا
دھوپ ایسی تھی کہ سر کو سائباں چھوٹا لگا
لوگ خوش فہمی کے پنجوں پر کھڑے تھے فطرتاً
اور یوں، قد میرا ان کے درمیاں چھوٹا لگا
یاس، محرومی، محبت، کرب، خوش فہمی، انا
اتنے ساماں تھے، مرا تنہا مکاں چھوٹا لگا

Thursday, 30 October 2014

مجھے تو کل کسی اگلے نگر پہنچنا ہے

مجھے تو کل کسی اگلے نگر پہنچنا ہے
 متاعِ خواب تجھے اب کدھر پہنچنا ہے
 کراہتا ہے سرِ راہ درد سے کوئی
مگر مجھے بھی تو جلدی سے گھر پہنچنا ہے
ہواؤ کب سے ہیں سکتے میں زرد رو اشجار
برائے نوحہ گری کب ادھر پہنچنا ہے

محبتوں کا سفر کس قدر کڑا ہوا ہے

محبتوں کا سفر کس قدر کڑا ہوا ہے
مگر یہ دل کہ اسی بات پر اڑا ہوا ہے
گزر گئے مِرے دل سے وہ نخوتوں کے تیر
اک التفات کا نیزہ مگر گڑا ہوا ہے
مکیں بچا نہ کوئی اور اس حویلی میں
بس اک فسردہ شجر صحن میں کھڑا ہوا ہے

چہچہاتی چند چڑیوں کا بسر تھا پیڑ پر

چہچہاتی چند چڑیوں کا بسر تھا پیڑ پر
میرے گھر اک پیڑ تھا اور ایک گھر تھا پیڑ پر
موسمِ گُل تو نے سوچا ہے کہ اس کا کیا بنا
تیرے لمسِ مہرباں کا جو اثر تھا پیڑ پر
اب ہوا کے ہاتھ میں تو اک تماشا بن گیا
زرد سا پتّا سہی، میں معتبر تھا پیڑ پر

یہ سرابوں کی شرارت بھی نہ ہو تو کیا ہو

یہ سرابوں کی شرارت بھی نہ ہو تو کیا ہو
آنکھ میں حیرت و وحشت بھی نہ ہو تو کیا ہو
ہم کہ اس ہجر کے صحرا میں پڑے ہیں کب سے
خیمۂ خوابِ رفاقت بھی نہ ہو تو کیا ہو
شکر کر حجرۂ تنہائی میں بیٹھے ہوئے شخص
خود سے ملنے کی یہ مہلت بھی نہ ہو تو کیا ہو

صبا کا نرم سا جھونکا بھی تازیانہ ہوا

صبا کا نرم سا جھونکا بھی تازیانہ ہوا
یہ وار مجھ پہ ہوا بھی تو غائبانہ ہوا
اسی نے مجھ پہ اٹھائے ہیں سنگ جس کیلئے
میں پاش پاش ہوا، گھر نگار خانہ ہوا
جھلس رہا تھا بدن گرمئ نفس سے مگر
تِرے خیال کا خورشید شامیانہ ہوا

وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی

وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اپنی دکھ نہ اوروں کا ملال
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر کچھ اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر، شکستہ پائی نہ تھی

جسے پہلو میں رہ کر درد حاصل ہو نہیں سکتا

جسے پہلو میں رہ کر درد حاصل ہو نہیں سکتا
اسے دل کون کہہ سکتا ہے، وہ دل ہو نہیں سکتا
زمیں و آسماں کا فرق ہے دونوں کی فطرت میں
کوئی ذرّہ چمک کر ماہِ کامل ہو نہیں سکتا
محبت میں تو بس دیوانگی ہی کام آتی ہے
یہاں جو عقل دوڑائے، وہ عاقل ہو نہیں سکتا

اٹھے نہ تھے ابھی ہم حال دل سنانے کو

اٹھے نہ تھے ابھی ہم حالِ دل سنانے کو
زمانہ بیٹھ گیا حاشیے چڑھانے کو
بھری بہار میں پہنچی خزاں مٹانے کو
قدم اٹھائے جو کلیوں نے مسکرانے کو
جلایا آتشِ گُل نے چمن میں ہر تنکہ
بہار پھونک گئی میرے آشیانے کو

Wednesday, 29 October 2014

سیاسی لیڈر کے نام

سیاسی لیڈر کے نام

سالہا سال یہ بے آسرا جکڑے ہوئے ہاتھ
رات کے سخت و سیہ سینے میں پیوست رہے
جس طرح تنکہ سمندر سے ہو سرگرمِ ستیز
جس طرح تیتری کہسار پہ یلغار کرے
اور اب رات کے سنگین و سیہ سینے میں
اتنے گھاؤ ہیں کہ جس سمت نظر جاتی ہے

گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم مرے دوست

مرے ہمدم، مرے دوست

گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم، مرے دوست
گر مجھے اس کا یقین ہو کہ ترے دل کی تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی، ترے سینے کی جلن
میری دلجوئی، مرے پیار سے مٹ جائے گی
گر مرا حرفِ تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی اٹھے پھر ترا اُجڑا ہوا بے نور دماغ

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

صبحِ آزادی

اگست 47ء

یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شبِ سست موج کا ساحل

ہم پرورشِ لوح قلم کرتے رہیں گے

لوح قلم

ہم پرورشِ لوح قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اسبابِ غمِ عشق بہم کرتے رہیں گے
ویرانئ دوراں پہ کرم کرتے رہیں گے
ہاں تلخئ ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہلِ ستم، مشقِ ستم کرتے رہیں گے

شورش بربط و نے

شورشِ بربط و نَے

پہلی آواز

اب سعِی کا امکاں اور نہیں پرواز کا مضموں ہو بھی چکا
تاروں پہ کمندیں پھینک چکے، مہتاب پہ شبخوں ہو بھی چکا
اب اور کسی فردا کے لیے ان آنکھوں سے کیا پیماں کیجے
کس خواب کے جھوٹے افسوں سے تسکینِ دلِ ناداں کیجے
شیرینئ لب، خوشبوئے دہن، اب شوق کا عنواں کوئی نہیں
شادابئ دل، تفریحِ نظر، اب زیست کا درماں کوئی نہیں

دامن یوسف

ؑدامنِ یوسف

جاں بیچنے کو آئے تو بے دام بیج دی
اے اہلِ مصر، وضعِ تکلف تو دیکھیے
انصاف ہے کہ محکمِ عقوبت سے بیشتر
اک بار سوئے دامنِ یوسفؑ تو دیکھیے

فیض احمد فیض

طوق و دار کا موسم

طوق و دار کا موسم

روش روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم، بہار کا موسم
گراں ہے دل پہ غمِ روزگار کا موسم
ہے آزمائشِ حسنِ نگار کا موسم
خوشا نظارۂ رخسارِ یار کی ساعت
خوشا قرارِ دلِ بے قرار کا موسم

کہاں ہے منزل راہ تمنا ہم بھی دیکھیں گے

قوالی

کہاں ہے منزلِ راہِ تمنا ہم بھی دیکھیں گے
یہ شب ہم پر بھی گزرے گی، یہ فردا ہم بھی دیکھیں گے
ٹھہر اے دل، جمالِ روئے زیبا ہم بھی دیکھیں گے
ذرا صیقل تو ہولے تشنگی بادہ گساروں کی
دبا رکھیں گے کب تک جوشِ صہبا ہم بھی دیکھیں گے
اٹھا رکھیں گے کب تک جام و مینا ہم بھی دیکھیں گے

تمہارے حسن کے نام

۔۔۔۔۔۔تمہارے حسن کے نام

سلام لکھتا ہے شاعر تمہارے حسن کے نام
بکھر گیا جو کبھی رنگِ پیرہن سرِ بام
نکھر گئی ہے کبھی صبح، دوپہر، کبھی شام
کہیں جو قامتِ زیبا پہ سج گئی ہے قبا
چمن میں سرو و صنوبر سنور گئے ہیں تمام
بنی بساطِ غزل جب ڈبو لیے دل نے

نذرِ سودا: فکر دلدارئ گلزار

نذرِ سودا

فکر دلدارئ گلزار کروں یا نہ کروں
ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں
قصۂ سازشِ اغیار کہوں یانہ کہوں
شکوۂ یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں
جانے کیا وضع ہے اب رسمِ وفا کی اے دل
وضعِ دیرینہ پہ اصرار کروں یا نہ کروں

دو عشق

دو عشق

(۱) پہلا 

تازہ ہیں ابھی یاد میں اے ساقئ گلفام
وہ عکسِ رخِ یار سے لہکے ہوئے ایام
وہ پھول سی کھلتی ہوئی دیدار کی ساعت
وہ دل سا دھڑکتا ہوا امید کا ہنگام
امید، کہ لو جاگا غمِ دل کا نصیبہ
لو شوق کی ترسی ہوئی شب ہو گئی آخر

نوحہ مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی

نوحہ

مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جانے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب
اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
اس میں بچپن تھا مرا، اور مرا عہدِ شباب
اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب

ایرانی طلبا کے نام

ایرانی طلبا کے نام 

(جو امن اور آزادی کی جدوجہد میں کام آئے)

یہ کون سخی ہیں
جن کے لہو کی
اشرفیاں، چھن چھن، چھن چھن
دھرتی کے پیہم پیاسے
کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں
کشکول کو بھرتی جاتی جاتی ہیں

نثار میں تیری گلیوں کے

نثار میں تیری گلیوں کے

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہلِ دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

موتی ہو کہ شیشہ، جام کہ دُر
جو ٹوٹ گیا، سو ٹوٹ گیا
کب اشکوں سے جڑ سکتا ہے
جو ٹوٹ گیا، سو چھوٹ گیا
تم ناحق ٹکڑے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو

زنداں کی ایک شام

زنداں کی ایک شام

شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں، محو ہیں بنانے میں

زنداں کی ایک صبح

زنداں کی ایک صبح

رات باقی تھی ابھی جب سرِ بالیں آ کر
چاند نے مجھ سے کہا، جاگ سحر آئی ہے
جاگ اس شب جو مئے خواب ترا حصہ تھی
جام کے لب سے تہِ جام اتر آئی ہے 
عکسِ جاناں کو وداع کر کے اُٹھی میری نظر
شب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر

خدا وہ وقت نہ لائے

خدا وہ وقت نہ لائے

خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو
سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے
تری مسرّتِ پیہم تمام ہو جائے
تری حیات تجھے تلخ جام ہو جائے
غموں سے آئینۂ دل گداز ہو تیرا
ہجومِ یاس سے بے تاب ہو کے رہ جائے

انتہائے کار پندار کے خوگر کو

انتہائے کار

پندار کے خوگر کو
ناکام بھی دیکھو گے؟
آغاز سے واقف ہو
انجام بھی دیکھو گے
رنگینئ دنیا سے
مایوس سا ہو جانا

انجام ہیں لبریز آہوں سے ٹھنڈی ہوائیں

انجام

ہیں لبریز آہوں سے ٹھنڈی ہوائیں
اداسی میں ڈوبی ہوئی ہیں گھٹائیں
محبت کی دنیا پہ شام آ چکی ہے
سیہ پوش ہیں زندگی کی فضائیں
مچلتی ہیں سینے میں لاکھ آرزوئیں
تڑپتی ہیں آنکھوں میں لاکھ التجائیں

سردوِ شبانہ

سردوِ شبانہ

گم ہے اک کیف میں فضائے حیات
خامشی سجدۂ نیاز میں ہے
حسنِ معصوم خوابِ ناز میں ہے
اے کہ تو رنگ و بو کا طوفاں ہے
اے کہ تو جلوہ گر بہار میں ہے
زندگی تیرے اختیار میں ہے

آخری خط وہ وقت مری جان بہت دور نہیں ہے

آخری خط

وہ وقت مِری جان بہت دور نہیں ہے
جب درد سے رک جائیں گی سب زیست کی راہیں
اور حد سے گزر جائے گا اندوہِ نہانی
تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں
چھن چائیں گے مجھ سے مِرے آنسو مری آہیں
چھن جائے گی مجھ سے مِری بے کار جوانی

مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو

مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو

مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو
ابھی تک دل میں تیرے عشق کی قندیل روشن ہے
ترے جلؤوں سے بزمِ زندگی جنت بدامن ہے
مری روح اب بھی تنہائی میں تجھ کو یاد کرتی ہے
ہر اک تارِ نفس میں آرزو بیدار ہے اب بھی
ہر اک بے رنگ ساعت منتظر ہے تیری آمد کی

حسینۂ خیال سے

حسینۂ خیال سے

مجھے دے دے
رسیلے ہونٹ، معصومانہ پیشانی، حسیں آنکھیں
کہ میں اک بار پھر رنگینیوں میں غرق ہو جاؤں
مِری ہستی کو تیری اک نظر آغوش میں لے لے
ہمیشہ کے لیے اس دام میں محفوظ ہو جاؤں
ضیائے حسن سے ظلماتِ دنیا میں نہ پھر آؤں

بعد از وقت

بعد از وقت

دل کو احساس سے دوچار نہ کر دینا تھا
سازِ خوابیدہ کو بیدار نہ کر دینا تھا
اپنے معصوم تبسم کی فروانی کو
وسعتِ دید پہ گلبار نہ کر دینا تھا
شوقِ مجبور کو بس ایک جھلک دکھلا کر
واقفِ لذتِ تکرار نہ کر دینا تھا

سرودِ شبانہ

سرودِ شبانہ

نیم شب، چاند خود فراموشی
محفلِ ہست و بود ویراں ہے
پیکرِ التجا ہے خاموشی
بزمِ انجم فسردہ ساماں ہے
آبشارِ سکوت جاری ہے
چار سو بے خودی سی طاری ہے

انتظار

انتظار

گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں
ریاضِ زیست ہے آزردۂ بہار ابھی
مِرے خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی
جو حسرتیں تِرے غم کی کفیل ہیں پیاری
ابھی تلک مری تنہائیوں میں بستی ہیں
طویل راتیں ابھی تک طویل ہیں پیاری

تہِ نجوم

تہِ نجوم

تہِ نجوم، کہیں چاندنی کے دامن میں
ہجومِ شوق سے اک دل ہے بے قرار ابھی
خمارِ خواب سے لبریز احمریں آنکھیں
سفید رخ پہ پریشان عنبریں آنکھیں
چھلک رہی ہے جوانی ہر اک بنِ مو سے
رواں ہو برگِ گلِ تر سے جیسے سیلِ شمیم

حسن اور موت

حسن اور موت

جو پھول سارے گلستاں میں سب سے اچھا ہو
فروغِ نور ہو جس سے فضائے رنگیں میں
خزاں کے جور و ستم کو نہ جس نے دیکھا ہو
بہار نے جسے خونِ جگر سے پالا ہو
وہ ایک پھول سماتا ہے چشمِ گلچیں میں
ہزار پھولوں سے آباد باغِ ہستی ہے
اجل کی آنکھ فقط ایک کو ترستی ہے

تین منظر

تین منظر

تصور

شوخیاں مضطر نگاہِ دید سرشار میں
عشرتیں خوابیدہ رنگِ غازۂ رخسار میں
سرخ ہونٹوں پر تبسم کی ضیائیں جس طرح
یاسمن کے پھول ڈوبے ہوں مے گلنار میں

سرود موت اپنی نہ عمل اپنا نہ جینا اپنا

سرود

موت اپنی، نہ عمل اپنا، نہ جینا اپنا
کھو گیا شورشِ گیتی میں قرینہ اپنا
ناخدا دور، ہوا تیز، قریں کامِ نہنگ
وقت ہے پھینک دے لہروں میں سفینہ اپنا
عرصۂ دہر کے ہنگامے تہِ خواب سہی
گرم رکھ آتشِ پیکار سے سینہ اپنا

یاس: بربط دل کے تار ٹوٹ گئے

یاس

بربطِ دل کے تار ٹوٹ گئے
ہیں زمیں بوس راحتوں کے محل
مٹ گئے قصہ ہائے فکر و عمل
بزمِ ہستی کے جام پھوٹ گئے
چھن گیا کیفِ کوثر و تسنیم
زحمتِ گریہ و بکا بے سود
شکوۂ بختِ نارسا بے سود

آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ

آج کی رات

آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
دکھ سے بھرپور دن تمام ہوئے
اور کل کی خبر کسے معلوم
دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود
ہو نہ ہو اب سحر، کسے معلوم؟
زندگی ہیچ! لیکن آج کی رات
ایزدیت ہے ممکن آج کی رات

ایک رہگزر پر: وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں

ایک رہگزر پر

وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں
وہ حسن جس کی تمنا میں جنتیں پنہاں
ہزار فتنے تہِ پائے ناز، خاک نشیں
ہر اک نگاہِ خمارِ شباب سے رنگیں
شباب جس سے تخیّل پہ بجلیاں برسیں
وقار، جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں

ایک منظر بام و در خامشی کے بوجھ سے چور

ایک منظر

بام و در خامشی کے بوجھ سے چُور
آسمانوں سے جوئے درد رواں
چاند کا دکھ بھرا فسانۂ نُور
شاہراہوں کی خاک میں غلطاں
خوابگاہوں میں نیم تاریکی
مضمحل لَے ربابِ ہستی کی
ہلکے ہلکے سُروں میں نوحہ کناں

فیض احمد فیض

میرے ندیم:: خیال و شعر کی دنیا میں جان تھی جن سے

میرے ندیم

خیال و شعر کی دنیا میں جان تھی جن سے
فضائے فکر و عمل ارغوان تھی جن سے
وہ جن کے نور سے شاداب تھے مہ و انجم
جنونِ عشق کی ہمت جوان تھی جن سے
وہ آرزوئیں کہاں سو گئیں ہیں میرے ندیم
وہ ناصبور نگاہیں، وہ منتظر راہیں
وہ پاسِ ضبط سے دل میں دبی ہوئی آہیں

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تُو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تُو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے

سوچ کیوں میرا دل شاد نہیں

سوچ

کیوں میرا دل شاد نہیں
کیوں خاموش رہا کرتا ہوں
چھوڑو میری رام کہانی
میں جیسا بھی ہوں اچھا ہوں
میرا دل غمگیں ہے تو کیا
غمگیں یہ دنیا ہے ساری

رقیب سے آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے

رقیب سے 

آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہے ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے

Tuesday, 28 October 2014

تنہائی پھر کوئی آیا دلِ زار نہیں، کوئی نہیں

تنہائی

پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں، کوئی نہیں
راہرو ہو گا، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہگزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ

چند روز اور مری جان

چند روز اور مری جان

چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے، معذور ہیں ہم
جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں

یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے

کتے

یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ اُن کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے

بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول

بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کے آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن

اقبال آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر

 اقبال

آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر
آیا اور اپنی دھن میں غزلخواں گزر گیا
سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
ویران میکدوں کا نصیبہ سنور گیا
تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا

موضوع سخن

موضوعِ سخن

گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
دھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات
اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
اور ان ہاتھوں سے مَس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہات
ان کا آنچل ہے، کہ رخسار، کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں

ہم لوگ

ہم لوگ

دل کے ایواں میں لیے گُل شدہ شمعوں کی قطار
نورِ خورشید سے سہمے ہوئے اکتائے ہوئے
حسنِ محبوب کے سیّال تصور کی طرح
اپنی تاریکی کو بھینچے ہوئے لپٹائے ہوئے
غایتِ سود و زیاں، صورتِ آغاز و مآل
وہی بے سود تجسس، وہی بے کار سوال

شاہراہ

شاہراہ

ایک افسردہ شاہراہ ہے دراز
دور افق پر نظر جمائے ہوئے
سرد مٹی پہ اپنے سینے کے
سُرمگیں حُسن کو بچھائے ہوئے
جس طرح کوئی غمزدہ عورت
اپنے ویراں کدے میں محوِ خیال

اے حبیب عنبر دست

اے حبیبِ عنبر دست

کسی کے دستِ عنایت نے کنجِ زنداں میں
کیا ہے آج عجب دل نواز بند و بست
مہک رہی ہے فضا زلفِ یار کی صورت
ہوا ہے گرمئ خوشبو سے اس طرح سرمست
ابھی ابھی کوئی گزرا ہے گل بدن گویا
کہیں قریب سے، گیسو بدوش، غنچہ بدست

ملاقات یہ رات اس درد کا شجر ہے

ملاقات

یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے، تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بکف ستاروں
کے کارواں، گھِر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب، اس کے سائے

واسوخت سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے

واسوخت

سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے
ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں، ہم ہی کاربندِ اصولِ وفا نہ تھے
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے

اے روشنیوں‌ کے شہر

اے روشنیوں‌ کے شہر

سبزہ سبزہ، سوکھ رہی ہے پھیکی، زرد دوپہر
دیواروں‌ کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی، بڑھتی، اُٹھتی، گرتی رہتی ہے
کہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اس کہر کے پیچھے روشنیوں کا شہر

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
(ایتھل اور جولیس روز برگ کے خطوط سے متاثر ہو کر لکھی گئ)

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوں‌ کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے

دریچہ گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں

دریچہ

گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں
ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لیے
ہر ایک وصلِ خداوند کی امنگ لیے
کسی پہ کرتے ہیں ابرِ بہار کو قرباں
کسی پہ قتل مہِ تابناک کرتے ہیں
کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دو نیم

درد آئے گا دبے پاؤں

درد آئے گا دبے پاؤں

اور کچھ دیر میں، جب پھر مرے تنہا دل کو
فکر آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے
درد آئے گا دبے پاؤں لیے سرخ چراغ
وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے
شعلۂ درد جو پہلو میں لپک اٹھے گا
دل کی دیوار پہ ہر نقش دمک اٹھے گا

دل سے پھر ہو گی مری بات کہ اے دل، اے دل

دل سے پھر ہو گی مری بات کہ اے دل، اے دل
یہ جو محبوب بنا ہے تری تنہائی کا
یہ تو مہماں ہے گھڑی بھر کا، چلا جائے گا
اس سے کب تیری مصیبت کا مداوا ہو گا
مشتعل ہو کے ابھی اٹھیں گے وحشی سائے
یہ چلا جائے گا، رہ جائیں گے باقی سائے
رات بھر جن سے ترا خون خرابا ہو گا

بہار آئی تو جیسے یکبار

بہار آئی تو جیسے یکبار
لوٹ آۓ ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جیے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے

AFRICA COME BACK (ایک رجز)آ جاؤ ایفریقہ

AFRICA COME BACK
(ایک رجز)

آ جاؤ، میں نے سن لی ترے ڈھول کی ترنگ
آ جاؤ، مست ہو گئی میرے لہو کی تال
آ جاؤ ایفریقہ
آ جاؤ، میں نے دھول سے ماتھا اٹھا لیا
آ جاؤ، میں نے چھیل دی آنکھوں سے غم کی چھال

یہ فصل امیدوں کی ہمدم

یہ فصل امیدوں کی ہمدم
سب کاٹ دو بسمل پودوں کو
بے آب سسکتے مت چھوڑو
سب نوچ لو
بے کل پھولوں کو
شاخوں پہ بلکتے مت چھوڑو

بنیاد کچھ تو ہو

بنیاد کچھ تو ہو

کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ تو کہو ستم کشو! فریاد کچھ تو ہو
بیداد گر سے شکوۂ بیداد کچھ تو ہو
بولو، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
مرنے چلے تو سطوتِ قاتل کا خوف تھا
اتنا تو ہو کہ باندھنے پائے نہ دست و پا

اب بزم سخن صحبت لب سوختگاں ہے

ایک شہرِ آشوب کا آغاز

اب بزمِ سخن صحبتِ لب سوختگاں ہے
اب حلقۂ مے طائفۂ بے طلباں ہے
گھر رہیے تو ویرانئ دل کھانے کو آوے
رہ چلیے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے
پیوندِ رہِ کوچۂ زر چشمِ غزالاں
پا بوسِ ہوس افسرِ شمشاد قداں ہے

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

تم آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے
جنوں میں جتنی بھی گزری، بکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے
ہوئی ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سرِ کوئے یار گزری ہے

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
حدیثِ یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں
تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں
ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے
جواب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں

شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام

شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام
شبِ فراق کے گیسو فضا میں لہرائے
کوئی پکارو کہ اک عمر ہونے آئی ہے
فلک کو قافلۂ روز و شام ٹھہرائے
یہ ضد ہے یادِ حریفانِ بادہ پیما کی
کہ شب کو چاند نہ نکلے، نہ دن کو ابر آئے

عجزِ اہل ستم کی بات کرو

عجزِ اہلِ ستم کی بات کرو
عشق کے دم قدم کی بات کرو
بزمِ اہلِ طرب کو شرماؤ
بزمِ اصحابِ غم کی بات کرو
بزمِ ثروت کے خوش نشینوں سے
عظمتِ چشمِ نم کی بات کرو

گرانئ شب ہجراں دو چند کیا کرتے

گرانئ شبِ ہجراں دوچند کیا کرتے
علاجِ درد ترے دردمند کیا کرتے
وہیں لگی ہے جو نازک مقام تھے دل کے
یہ فرق دستِ عدو کے گزند کیا کرتے
جگہ جگہ پہ تھے ناصح، تو کُو بکُو دلبر
اِنہیں پسند، اُنہیں ناپسند کیا کرتے

رنگ پیرہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام

رنگ پیرہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
دوستو! اُس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر
گلستاں کی بات رنگیں ہے، نہ مے خانے کا نام
پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اُس بزم میں جانے کا نام

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں
ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں
رقصِ مے تیز کرو، ساز کی لے تیز کرو
سُوئے مے خانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں

روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں

روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں
اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہِ چمن میں غزلخواں ہوئے تو ہیں
ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں، مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پَر افشاں ہوئے تو ہیں

اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے

اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمنِ دیں، راحتِ جاں ٹھہری ہے
ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگو آج سرِ کوئے بتاں ٹھہری ہے

کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں

کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں
پھر آج کوئے بتاں کا ارادہ رکھتے ہیں
بہار آئے گی جب آئے گی، یہ شرط نہیں
کہ تشنہ کام رہیں گرچہ بادہ رکھتے ہیں
تری نظر کا گلہ کیا، جو ہے گلہ دل کا
تو ہم سے ہے، کہ تمنا زیادہ رکھتے ہیں

یاد غزال چشماں ذکر سمن عذاراں

یادِ غزال چشماں، ذکرِ سمن عذاراں
جب چاہا کر لیا ہے کنج قفس بہاراں
آنکھوں میں درد مندی، ہونٹوں پہ عذر خواہی
جانانہ وار آئی شامِ فراقِ یاراں
ناموسِ جان و دل کی بازی لگی تھی ورنہ
آساں نہ تھی کچھ ایسی راہِ وفا شعاراں

حسن مرہون جوش بادۂ ناز

حسن مرہونِ جوشِ بادۂ ناز
عشق منت کشِ فسونِ نیاز
دل کا ہر تار لرزشِ پیہم
جاں کا ہر رشتہ وقفِ سوزوگداز
سوزشِ دردِ دل کسے معلوم
کون جانے کسی کے عشق کا راز

ہر حقیقت مجاز ہو جائے

ہر حقیقت مجاز ہو جائے
کافروں کی نماز ہو جائے
دل رہینِ نیاز ہو جائے
بے کسی کارساز ہو جائے
منتِ چارہ ساز کون کرے؟
درد جب جاں نواز ہو جائے

ہمت التجا نہیں باقی

ہمتِ التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
اک تری دید چھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
اپنی مشقِ ستم سے ہاتھ نہ کھینچ
میں نہیں یا وفا نہیں باقی

چشم میگوں ذرا ادھر کر دے

چشمِ میگوں ذرا ادھر کر دے
دستِ قدرت کو بے اثر کر دے
تیز ہے آج دردِ دل ساقی
تلخئ مے کو تیز تر کر دے
جوشِ وحشت ہے تشنہ کام ابھی
چاکِ دامن کو تا جگر کر دے

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصتِ گناہ ملی، وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

وفائے وعدہ نہیں وعدۂ دگر بھی نہیں

وفائے وعدہ نہیں وعدۂ دگر بھی نہیں
وہ مجھ سے روٹھے تو تھے، لیکن اس قدر بھی نہیں
برس رہی ہے حریمِ ہوس میں دولتِ حسن
گدائے عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں

راز الفت چھپا کے دیکھ لیا

رازِ الفت چھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
وہ مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئے
ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا

کچھ دن سے انتظارِ سوال دگر میں ہے

کچھ دن سے انتظارِ سوال دگر میں ہے
وہ مضمحل حیا جو کسی کی نظر میں ہے
سیکھی ہیں مرے دلِ کافر نے بندگی
ربِ کریم ہے تو تری رہگزر میں ہے
ماضی میں جو مزا مری شام و سحر میں تھا
اب وہ فقط تصورِ شام و سحر میں ہے
کیا جانے کس کو کس سے ہے اب داد کی طلب
وہ غم جو میرے دل میں ہے تیری نظر میں ہے

فیض احمد فیض

پھر حریف بہار ہو بیٹھے

پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے
جانے کس کس کو آج رو بیٹھے
تھی، مگر اتنی رائیگاں بھی نہ تھی
آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے
تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے
عشق کی آبرو ڈبو بیٹھے

پھر لوٹا ہے خورشید جہانتاب سفر سے

پھر لوٹا ہے خورشیدِ جہاں تاب سفر سے
پھر نورِ سحر دست و گریباں ہے سحر سے
پھر آگ بھڑکنے لگی ہر سازِ طرب میں
پھر شعلے لپکنے لگے ہر دیدۂ تر سے
پھر نکلا ہے دیوانہ کوئی پھونک کے گھر کو
کچھ کہتی ہے ہر راہ ہر اک راہگزر سے

کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسن دو عالم سے

کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسنِ دو عالم سے
مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی
کئی بار اس کی خاطر ذرے ذرے کا جگر چیرا
مگر یہ چشمِ حیراں، جس کی حیرانی نہیں جاتی
نہیں جاتی متاعِ لعل و گوہر کی گراں یابی
متاعِ غیرت و ایماں کی ارزانی نہیں جاتی

نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں

نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں
قریب ان کے آنے کے دن آ رہے ہیں
جو دل سے کہا ہے، جو دل سے سنا ہے
سب اُن کو سنانے کے دن آ رہے ہیں
ابھی سے دل و جاں سرِ راہ رکھ دو
کہ لٹنے لٹانے کے دن آ رہے ہیں

سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں

سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
شمعِ نظر، خیال کے انجم، جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں
اٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے، مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں

ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھیں تری انجمن سے پہلے

ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن، نہ تھیں تِری انجمن سے پہلے
سزا، خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرم سخن سے پہلے
جو چل سکو تو چلو کہ رہِ وفا بہت مختصر ہوئی ہے
مقام ہے اب کوئی نہ منزل، فرازِ دار و رسن سے پہلے
نہیں رہی اب جنوں کی زنجیر پر وہ پہلی اجارہ داری
گرفت کرتے ہیں کرنے والے خرد پہ دیوانہ پن سے پہلے

رہ خزاں میں تلاش بہار کرتے رہے

رہِ خزاں میں تلاشِ بہار کرتے رہے
شبِ سیہ سے طلب حسنِ یار کرتے رہے
خیالِ یار، کبھی ذکرِ یار کرتے رہے
اسی متاع پہ ہم روزگار کرتے رہے
نہیں شکایتِ ہجراں کہ اس وسیلے سے
ہم اُن سے رشتۂ دل استوار کرتے رہے

بات بس سے نکل چلی ہے

بات بس سے نکل چلی ہے
دل کی حالت سنبھل چلی ہے
اب جنوں حد سے بڑھ چلا ہے
اب طبیعت بہل چلی ہے
اشک خونناب ہو چلے ہیں
غم کی رنگت بدل چلی ہے

شاخ پر خون گل رواں ہے وہی

شاخ پر خونِ گل رواں ہے وہی
شوخیِ رنگِ گلستاں ہے وہی
سر وہی ہے تو آستاں ہے وہی
جاں وہی ہے تو جانِ جاں‌ ہے وہی
اب جہاں مہرباں نہیں کوئی
کوچۂ یارِ مہرباں ہے وہی

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے
کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوقِ فضول و الفتِ ناکام ہی تو ہے
دل مدعی کے حرفِ ملامت سے شاد ہے
اے جانِ جاں! یہ حرف ترا نام ہی تو ہے
دل ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے

کچھ محتسبوں کی خلوت میں کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے

کچھ محتسبوں کی خلوت میں، کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے
ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر آتی ہے
یوں عرض و طلب سے کب اے دل، پتھر دل پانی ہوتے ہیں
تم لاکھ رضا کی خو ڈالو، کب خوئے ستمگر جاتی ہے
بیداد گروں کی بستی ہے یاں داد کہاں خیرات کہاں
سر پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو در در جاتی ہے

گرمئ شوق نظارہ کا اثر تو دیکھو

گرمئ شوقِ نظارہ کا اثر تو دیکھو
گل کھِلے جاتے ہیں وہ سایۂ در تو دیکھو
ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے
ناصحو، پندگرو، راہگزر تو دیکھو
وہ تو وہ ہے، تمہیں ہوجائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو

یوں بہار آئی ہے اس بار کے جیسے قاصد

یوں بہار آئی ہے اس بار کے جیسے قاصد
کوچۂ یار سے بے نیلِ‌ مرام آتا ہے
ہر کوئی شہر میں پھرتا ہے سلامت دامن
رند مے خانے سے شائستہ خرام آتا ہے
ہوسِ‌ مطرب و ساقی میں‌ پریشاں اکثر
ابر آتا ہے، کبھی ماہِ تمام آتا ہے

صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی

صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی
کیا خبر آج خراماں سرِ‌ گلزار ہے کون
شام گلنار ہوئی جاتی ہے دیکھو تو سہی
یہ جو نکلا ہے لیے مشعلِ رخسار، ہے کون
رات مہکی ہوئی آتی ہے کہیں سے پوچھو
آج بکھرائے ہوئے زلفِ طرحدار ہے کون

تری امید ترا انتظار جب سے ہے

تری امید، ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے
کسی کا درد ہو، کرتے ہیں تیرے نام رقم
گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
ہوا ہے جب سے دلِ ناصبور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے

شہر میں‌ چاک گریباں ہوئے ناپید اب کے

شہر میں‌ چاک گریباں ہوئے ناپید اب کے
کوئی کرتا ہی نہیں ضبط کی تاکید اب کے
لطف کر، اے نگہِ یار، کہ غم والوں‌ نے
حسرتِ دل کی اُٹھائی نہیں‌ تمہید اب کے
چاند دیکھا تری آنکھوں میں ، نہ ہونٹوں پہ شفق
ملتی جلتی ہے شبِ غم سے تری دید اب کے

اے دل بے تاب ٹھہر

اے دلِ بیتاب ٹھہر

تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی
دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے
رات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو
یہی تاریکی تو ہے غازۂ رخسارِ سحر

Sunday, 26 October 2014

خرد کے ڈھیر سے کوئی جو نادانی نکل آئے

خرد  کے ڈھیر سے کوئی جو  نادانی نکل آئے
انہی دشواریوں کے بیچ آسانی نکل آئے
وہ جس نے اپنی ساری عمر سجدے میں گزاری ہو
کہاں جائے اگر اس کا خدا فانی نکل آئے
مجھے اپنے بچاؤ کی لڑائی خود ہی لڑنی ہے
گواہوں میں نجانے کون سلطانی نکل آئے

جانے کیا موج ہے وہ، جس کی روانی تو ہے

جانے کیا موج ہے وہ، جس کی روانی تُو ہے
تُو مِری پیاس رہا، اب مِرا پانی تُو ہے
میرے ناخن کسی دیوار کے اندر ٹوٹے
یہ کہانی کا خلاصہ ہے، کہانی تُو ہے
وحشتِ چشم! تجھے کیسے رہائی دے دوں
کسی روکے گئے آنسو کی نشانی تُو ہے

نگر میں اس کے بعد کوئی ہم زباں نہیں رہا

نگر میں اس کے بعد کوئی ہم زباں نہیں رہا
وہ کیا گیا کہ لگ رہا ہے سائبان نہیں رہا
زمین تو ازل سے ہی سرک رہی ہے پاؤں سے
اب ایسا لگ رہا ہے سر پہ آسماں نہیں رہا
وہ تھا تو خوش گمانیوں کی موج میں پڑا تھا میں
چلا گیا ہے وہ تو میں بھی خوش گماں نہیں رہا

عشق میں ہار کے اب سارے ہنر بیٹھے ہیں

عشق میں ہار کے اب سارے ہنر بیٹھے ہیں
تجربہ ہم بھرے بازار میں کر بیٹھے ہیں
شائد اس بار تو رک جائے اٹھا لے ہم کو
ہم ترے راستے میں بار دگر بیٹھے ہیں
ڈھونڈنے نکلے تجھے خود کو گنوا کر آئے
تھام کے مٹھی میں اب گرد سفر بیٹھے ہیں

یہ دل جو مضطرب رہتا بہت ہے

یہ دل جو مضطرب رہتا بہت ہے
کوئی اس دشت میں تڑپا بہت ہے
کوئی اس رات کو ڈھلنے سو روکے
مِرا قصہ ابھی رہتا بہت ہے
بہت ہی تنگ ہوں آنکھوں کے ہاتھوں
یہ دریا آج کل بہتا بہت ہے

دل کیا ٹوٹا سارا بچہ ٹوٹ گیا

دل کیا ٹوٹا سارا بچہ ٹوٹ گیا
کھیل رہا تھا اور کھلونا ٹوٹ گیا
آنسو تو پہلے بھی ٹوٹا کرتے تھے
لیکن آج تو آنکھ کا دریا ٹوٹ گیا
پھول چڑھانے والے آنا چھوڑ گئے
رفتہ رفتہ قبر کا کتبہ ٹوٹ گیا

عمر کی شام ہوئی اور میں پیاسا مولا

عمر کی شام ہوئی اور میں پیاسا مولا
اب تو دریا، کوئی جھرنا، کوئی برکھا مولا
رُت کوئی صورتِ مرہم بھی میسر آتی
داغ رہ جاتا مگر زخم تو بھرتا مولا
بے مداوا جو رہا کل بھی بھری دنیا میں
اب بھی رِِستا ہے وہی زخمِ تمنا مولا

وہی غبار کڑی دھوپ زخم پا اور ہم

وہی غبار، کڑی دھوپ، زخمِ پا اور ہم
نظر میں خواب سی منزل کا راستا اور ہم
وہی بسی ہوئی آنکھوں میں حسرتیں تشنہ
وہی لبوں پہ سسکتی ہوئی دعا اور ہم
جسے پکارتے عمریں گزر گئیں اپنی
ہے انتظار ابھی اس کے جواب کا اور ہم

وہی ہیں پیاسیں برہنہ پائی سلگتی راہیں سراب اب بھی

وہی ہیں پیاسیں، برہنہ پائی، سُلگتی راہیں، سراب اب بھی
نزول فرما ہیں ہم پہ بھُوکیں، اذیتیں اور عذاب اب بھی
نہ کھول سکتے ہیں بند آنکھیں نہ دیکھ پاتے ہیں راہ اپنی
سلگتے سورج کے رُوپ میں ہے اندھیری شب کا عتاب اب بھی
کسے بتائیں کہ خیمہ بردوش پھرتے عمریں گزر گئی ہیں
وطن میں رہ کر بھی بے وطن ہیں ہم ایسے خانہ خراب اب بھی

ہم خدا کی رضا کے ساتھ رہے

ہم خدا کی رضا کے ساتھ رہے
گرد تھے سو، ہوا کے ساتھ رہے
راستوں کو ہوا نے گھیر لیا
 بھاگتوں کو خدا نے گھیر لیا
 خال ٹھہرے، گیاه پوش رہے
 عمر بھر ہم سیاہ پوش رہے

جاں چیز کیا ہے جاں سے گزرتے تو دیکھتے

 جاں چیز کیا ہے جاں سے گزرتے تو دیکھتے 

جی جان سے کسی پہ جو مرتے تو دیکھتے 

جنت کو چھوڑنا تو کوئی چیز ہی نہیں 

ممنوع میوہ کوئی کترتے تو دیکھتے 

گرنے میں ڈوبنے میں ابھرنے میں کیا ہے لطف 

دریا میں ایک بار اترتے تو دیکھتے 

Saturday, 25 October 2014

اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا

اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا
اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا
کس کے بس میں تھا ہوا کی وحشتوں کو روکنا
برگ گل کو خاک، شعلے کو دھواں ہونا ہی تھا
جب کوئی سمتِ سفر طے تھی نہ حدِ رہگزر
اے مِرے رہرو! سفر تو رائیگاں ہونا ہی تھا

ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا

ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا
وہ جدا ہوتے ہوئے کچھ پھول باسی دے گیا
نوچ کر شاخوں کے تن سے خشک پتوں کا لباس
زرد موسم بانجھ رُت کو بے لباسی دے گیا
صبح کے تارے! میری پہلی دعا تیرے لئے
تُو دلِ بے صبر کو تسکین ذرا سی دے گیا

اشک آنکھوں میں چھپاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

اشک آنکھوں میں چھپاتے ہوئے تھک جاتا ہوں 
بوجھ پانی کا اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
پاؤں رکھتے ہیں جو مجھ پر انہیں احساس نہیں
میں نشانات مٹاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
برف ایسی کہ پگھلتی نہیں پانی بن کر
پیاس ایسی کہ بجھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا

بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا 
اُداس نسلوں پہ اب اجارہ نہیں چلے گا 
ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں 
ہماری خاطر کوئی ستارہ نہیں چلے گا 
حیات اب شامِ غم کی تشبیہ خود بنے گی 
تمہاری زُلفوں کا استعارہ نہیں چلے گا 

میں دل پر جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا

میں دل پر جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا
یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو؟
میں تیرے شہر کے سارے دیے بجھا دوں گا
ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں
ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا

لبوں پہ حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی

لبوں پہ حرفِ رجز ہے زِرہ اتار کے بھی
میں جشنِ فتح مناتا ہوں جنگ ہار کے بھی
اسے لُبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم
بہت اداس لگا خال و خد سنوار کے بھی
اب ایک پَل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے
ہم اہلِ دل کبھی عادی تھے انتظار کے بھی

اجڑ گیا ہے چمن لوگ دلفگار چلے

اجڑ گیا ہے چمن، لوگ دل فگار چلے
کوئی صبا سے کہو، اب نہ بار بار چلے
یہ کون سیر کا ارماں لئے چمن سے گیا
کہ بادِ صبح کے جھونکے بھی سوگوار چلے
یہ کیا کہ کوئی بھی رویا نہ یاد کر کے انہیں
وہ چند پھول جو حسنِ چمن نکھار چلے

اگر فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

اگر فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
 کسی دن دیکھ لینا ہم نہ ہوں گے
 جو ڈر جائے اجل کا نام سن کر
 وہ کوئی اور ہوں گے ہم نہ ہوں گے
 تیرا قامت اٹھائے گا جو فِتنے
 قیامت سے وہ فِتنے کم نہ ہوں گے

Wednesday, 22 October 2014

ابھی پروں میں اڑانوں کا زور زندہ ہے

ابھی پروں میں اڑانوں کا زور زندہ ہے
اداس چاند سے کہہ دو چکور زندہ ہے
میں اپنے گھر کی صداؤں کو مار بیٹھا ہوں
مگر پڑوس میں لوگوں کا شور زندہ ہے
دلہن نے یاس کے عالم میں خودکشی کر لی
جہیز جس نے چرایا وہ چور زندہ ہے

سیاہ رات ہو، ہر شے کو نیند آئی ہو

سیاہ رات ہو، ہر شے کو نیند آئی ہو
مِرے وجود کی تقریبِ رونمائی ہو
رکھا گیا ہو ہر اک خواب کو قرینے سے
زمینِ حجلۂ ادراک کی صفائی ہو
اس اعتکافِ تمنا کی سرد رات کے بعد
میں جل مروں جو کبھی آگ تک جلائی ہو

زمین پاؤں تلے سر پہ آسمان لئے

زمین پاؤں تلے سر پہ آسمان لئے
ندائے غیب کو جاتا ہوں بہرے کان لئے
میں بڑھ رہا ہوں کسی رعدِ ابر کی جانب
بدن کو ترک کئے اور اپنی جان لئے
یہ میرا ظرف کہ میں نے اثاثۂ شب سے
بس ایک خواب لیا اور چند شمع دان لئے

خوشا ضمانت غم دیار یار تری جوشش جنوں پہ سلام

خوشا ضمانتِ غم

دیارِ یار! تری جوششِ جنوں پہ سلام
مرے وطن ترے دامانِ تار تار کی خیر
رہِ یقین افشانِ خاک و خوں پہ سلام
مرے چمن ترے زخموں کے لالہ زار کی خیر
ہر ایک خانۂ ویراں کی تیرگی پہ سلام
ہر ایک خاک بسر، خانماں خراب کی خیر

ہمیں سے اپنی نوا ہمکلام ہوتی رہی

ہمیں سے اپنی نوا ہمکلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی
مقابلِ صفِ اعداء جسے کیا آغاز
وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی
کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا
بہت تلاش پسِ قتلِ عام ہوتی رہی

ہر سمت پریشاں تری آمد کے قرینے

ہر سمت پریشاں تری آمد کے قرینے
دھوکے دیے کیا کیا ہمیں بادِ سحری نے
ہر منزلِ غربت پہ گماں ہوتا ہے گھر کا
بہلایا ہے ہر گام بہت در بدری نے
تھے بزم میں سب دودِ سرِ بزم سے شاداں
بے کار جلایا ہمیں روشن نظری نے

شرح فراق مدح لب مشکبو کریں

شرحِ فراق، مدحِ لبِ مشکبو کریں
غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں
یار آشنا نہیں کوئی، ٹکرائیں کس سے جام
کس دلرُبا کے نام پہ خالی سَبُو کریں
سینے پہ ہاتھ ہے، نہ نظر کو تلاشِ بام
دل ساتھ دے تو آج غمِ آرزو کریں

Tuesday, 21 October 2014

طنز کرنا ہے مجھ پر اجی کیجئے

طنز کرنا ہے مجھ پر، اجی کیجئے 
کر رہے ہیں سبھی، آپ بھی کیجئے 
ایویں دھوکے میں ہی مارا جاؤں نہ میں
اس لگاوٹ میں تھوڑی کمی کیجئے 
میں غلط بات بالکل نہیں مانتا 
بات کرنی ہے جو بھی، کھری کیجئے 

میں عشق الست پرست ہوں کھولوں روحوں کے بھید​

میں عشق الست پرست ہوں، کھولوں روحوں کے بھید​
مرا نام سنہرا سانورا، اک سندرتا کا وید​
مری آنکھ قلندر قادری، مرا سینہ ہے بغداد​
مرا ماتھا دن اجمیر کا، دل پاک پٹن آباد​
میں کھرچوں ناخنِ شوق سے، اک شبد بھری دیوار​
وہ شبد بھری دیوار ہے، یہ رنگ سجا سنسار​

ایسا بھی نہیں ہے کہ سدا رہتا ہے مجھ میں

ایسا بھی نہیں ہے کہ سدا رہتا ہے مجھ میں
اک حشر بہرحال بپا رہتا ہے مجھ میں
ان ٹوٹے ہوئے خوابوں کی گٹھڑی کے علاوہ
موجود ہے جو کچھ بھی ترا رہتا ہے مجھ میں
آتا ہے دمِ فجر تھکا ہارا مسافر
اور صبح سے تا شام پڑا رہتا ہے مجھ میں

رنج فراق یار میں رسوا نہیں ہوا

رنجِ فراقِ یار میں رُسوا نہیں ہوا 
اتنا میں چُپ ہوا کہ تماشا نہیں ہوا
ایسا سفر ہے جس میں کوئی ہمسفر نہیں
رستہ ہے اس طرح کا کہ دیکھا نہیں ہوا
مشکل ہوا ہے رہنا ہمیں اِس دیار میں
برسوں یہاں رہے ہیں، یہ اپنا نہیں ہوا

دیتی نہیں اماں جو زمیں آسماں تو ہے

دیتی نہیں اماں جو زمیں، آسماں تو ہے
کہنے کو اپنے دل سے کوئی داستاں تو ہے
یوں تو ہے رنگ زرد، مگر ہونٹ لال ہیں
صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے
اک چیل اک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اجڑ گئی ہیں، مگر پاسباں تو ہے

Saturday, 18 October 2014

ہم بھی اِک رنگ میں تقدیر سے ٹکراتے ہیں

ہم بھی اِک رنگ میں تقدیر سے ٹکراتے ہیں
پاؤں پھیلائے تو ہم ہاتھ کو پھیلاتے ہیں
ہم تو جاتے ہیں چمن میں کہ صبا آتی ہے
پھول کیوں شاخ پہ کھلنے کے لیے آتے ہیں
بے سر و پا جو کھڑی ہے یہ عمارت دل کی
اس لیے اس میں وہ آتے ہوئے گھبراتے ہیں

تو نے دریائے محبت کو اچھالا ہوا ہے

تُو نے دریائے محبت کو اچھالا ہوا ہے
اور اسے میں نے کناروں سے سنبھالا ہوا ہے
تم نے جو کام کیا تھا مِری تخلیق کے روز
ہم نے بھی ہاتھ اسی کام میں ڈالا ہوا ہے
تُو جو آیا ہے تو میں نے بھی جلایا ہے چراغ
تیرے آنے سے مِرے گھر میں اُجالا ہوا ہے

Friday, 17 October 2014

تبدیلی: اس بھرے شہر میں اک بھی ایسا نہیں

تبدیلی

اس بھرے شہر میں
 اک بھی ایسا نہیں
 جو مجھے راہ چلتے کو پہچان لے
 اور آواز دے
 او بے، او سر پھرے

اتفاق: دیارِغیر میں کوئی جہاں نہ اپنا ہو

اتفاق

دیارِغیر میں کوئی جہاں نہ اپنا ہو
شدید کرب کی گھڑیاں گزار چُکنے پر
کچھ اتفاق ہو ایسا کہ ایک شام کہیں 
کسی اِک ایسی جگہ سے ہو یوں ہی میرا گزر
جہاں ہجومِ گریزاں میں تم نظر آ جاؤ
اور ایک ایک کو حیرت سے دیکھتا رہ جائے

اختر الایمان

کوئی حالت بھی اب طاری نہیں ہے

کوئی حالت بھی اب طاری نہیں ہے 
تو کیا یہ دل کی ناداری نہیں ہے 
میں ہوں ایسے سفر پر جانے والا 
کہ جس کی کوئی تیاری نہیں ہے 
ہوں ضد پر اس طرح تیرِ فنا کی 
ابھی جیسے میری باری نہیں ہے 

خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی

خوب ہے شوق کا یہ پہلُو بھی
میں بھی برباد ہو گیا تُو بھی
حسنِ مغموم، تمکنت میں تری
فرق آیا نہ یک سرِ مُو بھی
حسن کہتا تھا چھیڑنے والے
چھیڑنا ہی تو بس نہیں چُھو بھی

مہک اٹھا ہے آنگن اس خبر سے

مہک اٹھا ہے آنگن اس خبر سے
وہ خوشبو لوٹ آئی ہے سفر سے
جدائی نے اسے دیکھا سرِ بام
دریچے پر شفق کے رنگ برسے
میں اس دیوار پر چڑھ تو گیا تھا
اتارے کون اب دیوار پر سے

ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا

ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا
میری تصویر جو گرتی تو چھناکا ہوتا
یوں بھی اِک بار تو ہوتا کہ سمندر بجتا
کوئی احساس تو دریا کی اَنا کا ہوتا
سانس موسم کی بھی کچھ دیر کو چلنے لگتی
کوئی جھونکا تری پلکوں کی ہَوا کا ہوتا

دکھائی دیتے ہیں ان لکیروں میں سائے کوئی

دکھائی دیتے ہیں ان لکیروں میں سائے کوئی
مگر بلانے سے وقت لوٹے نہ آئے کوئی
میرے محلے کا آسماں سونا ہو گیا ہے
پتنگ اڑائے فلک پہ پیچے لڑائے کوئی
کنویں پہ رکھی ہوئی ہیں کانسی کی کلسیاں
پر گلیل سے آٹے والے چھرے بجائے کوئی

مجھے خلا ميں بھٹکنے کی آرزو ہی سہی

مجھے خلا ميں بھٹکنے کی آرزو ہی سہی
کہ تُو مِلے نہ مِلے تيری جستجو ہی سہی
قريب آ شبِ تنہائی تجھ سے پيار کريں
تمام دن کی تھکن کا علاج تُو ہی سہی
بڑے خلوص سے ملتا ہے جب بھی ملتا ہے
وہ بے وفا تو نہيں ہے بہانہ جُو ہی سہی

اس کو فرصت ہی نہیں وقت نکالے محسن

اس کو فرصت ہی نہیں وقت نکالے محسن
ایسے ہوتے ہیں بھلا چاہنے والے محسن؟
یاد کے دَشت میں پھرتا ہوں میں ننگے پاؤں
دیکھ تو آ کے کبھی پاؤں کے چھالے محسن
کھو گئی صُبح کی امید، اور اب لگتا ہے
ہم نہیں ہوں گے کہ جب ہوں گے اُجالے محسن

محراب خوش قیام سے آگے نکل گئی

محراب خوش قیام سے آگے نکل گئی
وحشت دیے کی شام سے آگے نکل گئی
خلوت کے فاصلے سے نہ بیٹھوں تو کیا کروں
محفل ہی اہتمام سے آگے نکل گئی
فارغ نہ جانیے مجھے، مصروفِ جنگ ہوں
اُس چُپ سے جو کلام سے آگے نکل گئی

کچھ حال نہیں کھلتا میرا زندہ ہوں تو کیسا زندہ ہوں

کچھ حال نہیں کھلتا میرا زندہ ہوں تو کیسا زندہ ہوں
ماضی کی طرح میں بیت چکا یا صورتِ فردا زندہ ہوں
اطراف میں ایسی تاریکی، جگنو بھی نہیں آنسو بھی نہیں
اے شامِ دعا! اب روشن ہو، میں شام سے تنہا زندہ ہوں
دیواروں سی دیواریں ہیں، اندیشوں سے اندیشے ہیں
سایوں میں گھرا بیٹھا ہوں مگر کتنا بے سایہ زندہ ہوں

اس قدر رات گئے، کون ملاقاتی ہے

اِس قدر رات گئے، کون ملاقاتی ہے
ایسا لگتا ہے، کوئی یاد چلی آتی ہے
مَیں نے چاہا، نہ کہا اور نہ خواہش کی کبھی
تیرے کُوچے میں تِری آب و ہوا لاتی ہے
یہ ستارے تو یونہی ساتھ چلے آئے ہیں
ورنہ یہ چاند اکیلا مِرا باراتی ہے

نہ ہونے پر بھی کوئی آسرا غنیمت ہے​

نہ ہونے پر بھی کوئی آسرا غنیمت ہے​
وہ بے بسی ہے کہ یادِ خدا غنیمت ہے​
یہاں کِسی کو کِسی کی خبر نہیں ملتی​
بس ایک رشتۂ آب و ہوا غنیمت ہے​
اندھیری رات کے اِس بیکراں تسلسل میں​
جلا دیا جو کسی نے دِیا، غنیمت ہے​

دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا

دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا
ایک ساعت کو شب و روز پہ طاری کرنا
اب وہ آنکھیں نہیں ملتیں کہ جنہیں آتا تھا
خاک سے دل جو اٹے ہوں انہیں جاری کرنا
موت کی ایک علامت ہے، اگر دیکھا جائے
روح کا چار عناصر پہ سواری کرنا

پھر وہ گم گشتہ حوالے مجھے واپس کر دے

پھر وہ گم گشتہ حوالے مجھے واپس کر دے
وہ شب و روز، وہ رشتے مجھے واپس کر دے
آنکھ سے دل نے کہا، رنگِ جہاں شوق سے دیکھ
میرے دیکھے ہوئے سپنے مجھے واپس کر دے
میں تجھے دوں تِری پانی کی لکھی تحریریں
تُو وہ خونناب نوشتے مجھے واپس کر دے

مجھ سے لپٹے رہے سائے میرے

مجھ سے لپٹے رہے سائے میرے
دھوپ نے ہوش اڑائے میرے
کیا کوئی شخص یہاں ایسا ہے
جو مجھے عیب بتائے میرے
وقت کی قید سے بھاگا ہوا ہوں
اور تعاقب میں ہیں سائے میرے

خبر نہیں کہ کہاں دستیاب ہوتے ہیں

خبر نہیں کہ کہاں دستیاب ہوتے ہیں
نہیں وہاں بھی جہاں دستیاب ہوتے ہیں
کُھلا ہوا ہے دریچہ، مہک رہا ہے باغ
تو آج کل وہ یہاں دستیاب ہوتے ہیں
ہر ایک چیز خریدار کو میسر ہے
کہ اس دکاں پہ گماں دستیاب ہوتے ہیں

Thursday, 16 October 2014

باتوں میں بہت گہرائی ہے، لہجے میں بڑی سچائی ہے

باتوں میں بہت گہرائی ہے، لہجے میں بڑی سچائی ہے
سب باتیں پھولوں جیسی ہیں، آواز مدھر شہنائی ہے
یہ بوندیں پہلی بارش کی، یہ سوندھی خوشبو ماٹی کی
اک کوئل باغ میں کُوکی ہے، آواز یہاں تک آئی ہے
بدنام بہت ہے راہگزر، خاموش نظر، بے چین سفر
اب گرد جمی ہے آنکھوں میں اور دور تلک رُسوائی ہے

خاک ہونے سے مجھے اس نے بچایا بھی نہیں

خاک ہونے سے مجھے اس نے بچایا بھی نہیں
ہو چکا خاک تو پھونکوں سے اڑایا بھی نہیں
لٹنے والا میں عجب ہوں کہ بڑی عجلت میں
لٹ گیا اور کوئی شور مچایا بھی نہیں
ایک تصویر جو لفظوں سے بنا رکھی ہے
ایک چہرہ جو خیالوں سے مٹایا بھی نہیں

اے زندگی یہ کیا ہوا تو ہی بتا تھوڑا بہت

اے زندگی یہ کیا ہوا تو ہی بتا تھوڑا بہت
وہ بھی بہت ناراض ہے میں بھی خفا تھوڑا بہت
منزل ہماری کیا ہوئی یہ کس جہاں میں آ گئے
اب سوچنا پیشہ ہوا، کہنا رہا تھوڑا بہت
نامہرباں ہر راستہ اور بے وفا اک اک گلی
ہم کھو گئے اِس شہر میں رستہ ملا تھوڑا بہت

نئے سفر کی مسافت سے خوف آتا ہے

نئے سفر کی مسافت سے خوف آتا ہے
مرے قبیلے کو ہجرت سے خوف آتا ہے
تمام شہر کو تاریکیوں سے شکوہ ہے
مگر چراغ کی بیعت سے خوف آتا ہے
سفر بھی طے نہ ہوا، بادبان بھی نہ رہا
ہوا کی ایسی حمایت سے خوف آتا ہے

ہمارے جیسا کوئی بھی سخن پرست نہیں

ہمارے جیسا کوئی بھی سخن پرست نہیں
شکستہ جسم ہیں، آواز میں شکست نہیں
سکوتِ شب ترے پہلو سے اب کہاں جائیں 
قلندروں کا کہیں اور بند و بست نہیں
فراعنہ ہیں تعاقب میں، سامنے دریا
ہمارے ساتھ کوئی بھی عصا بدست نہیں

اچھا ہے اسی صورت حالات میں رہنا

اچھا ہے اسی صورتِ حالات میں رہنا
دن شہر میں اور رات مضافات میں رہنا
ہر رات ستاروں کو زمیں پر لئے پھرنا
ہر صبح کہیں حمد و مناجات میں رہنا
اس بھیڑ میں گردِ در و دیوار ہے اتنی
ممکن ہی نہیں ہاتھ کسی ہات میں رہنا

پھر جی اٹھے ہیں جس سے وہ امکان تم نہیں

پھر جی اٹھے ہیں جس سے وہ امکان تم نہیں
اب جو بھی کر رہا ہے یہ احسان تم نہیں
بجھتے ہوئے چراغ کی لو جس نے تیز کر دی
وہ اور ہی ہوا ہے میری جان تم نہیں
مجھ میں بدل رہا ہے جو ایک عالمِ خیال
اس لمحۂ جنوں کے نگہبان تم نہیں

کتنا سناٹا ہے اس شہر میں کہرام کے بعد

کتنا سناٹا ہے، اس شہر میں کہرام کے بعد
دل میں دھڑکن ہی نہیں گردشِ ایام کے بعد
دن نکلتے ہی، منڈیروں پہ ابھر آتا ہے
ڈوب جاتا ہے، کہیں دور یہ دل شام کے بعد
حلق میں بوند نہ اترے تو بہک جاتا ہوں
نشہ اترے گا مِرا، دردِ تہِ جام کے بعد

تاب جمال رنگ رخ یار ہو نہ ہو

تابِ جمالِ رنگِ رخِ یار، ہو نہ ہو
کل کیا عجب ہے طاقتِ دیدار ہو نہ ہو
منظر میں مت سہی پسِ منظر ہی رکھ مجھے
پھر میرا، تیرے کھیل میں کردار ہو نہ ہو
جتنی کھلی ہے آنکھ، غنیمت سمجھ اسے
کل صبح، کوئی نیند سے بیدار ہو نہ ہو

Wednesday, 15 October 2014

کیا لکھا ہے سر دیوار کہانی کیا ہے

کیا لکھا ہے سرِ دیوار، کہانی کیا ہے
 اے مِرے شہرِ پُراسرار کہانی کیا ہے
 خواب مجبورئ حسرت سے پلٹ آتے ہیں
 روزنِ وقت کے اُس پار کہانی کیا ہے
 کن گُہر بستہ زمینوں کو ہوس جاتی ہے
کس لیے گرم ہے بازار، کہانی کیا ہے

یہ تعلق ریت کی دیوار ہے پھر سوچ لو

یہ تعلق ریت کی دیوار ہے، پھر سوچ لو
اتنی شدت سے تمہیں کیوں پیار ہے، پھر سوچ لو
اس طرف بس میں ہی میں ہوں دوسرا کوئی نہیں
اس طرف ماں باپ ہیں، سنسار ہے، پھر سوچ لو
عشق کی بازی ہے دیکھو عشق کی بازی ہے یہ
اور اس میں جیت جانا ہار ہے، پھر سوچ لو

کچھ دنوں تک دل لگی کر کے اسے جانے دیا

کچھ دنوں تک دل لگی کر کے اسے جانے دیا
بادلوں کو سرمئ کر کے اسے جانے دیا
جانے کیسی سوچ اندھیرے میں آئی یک بہ یک
چاروں جانب روشنی کر کے اسے جانے دیا
خواہشیں کہتی تھیں اس کو روک لو جانے نہ دو
خواہشوں میں کچھ کمی کر کے اسے جانے دیا

ڈھونڈتے رہ جائیں گے جائے اماں اس دیس میں

ڈھونڈتے رہ جائیں گے جائے اماں اِس دیس میں
ظلم کرنے والے اِک دن حکمراں اِس دیس میں
اب کسی دہلیز سے انصاف ملتا ہی نہیں
لوگ دھرنے دے رہے ہیں یاں وہاں اِس دیس میں
حق بیانی کرنے والے اب یہاں ناپید ہیں
ہیں حکومت کے خواری ترجماں اِس دیس میں

لمحہ لمحہ یاد آتا ہے پچھلی رت کا ساتھ تمہارا

لمحہ لمحہ یاد آتا ہے پچھلی رُت کا ساتھ تمہارا
ہر موسم میں تڑپاتا ہے پچھلی رُت کا ساتھ تمہارا
اب کے بھی وہ رُت آئی ہے شاید وہ بھی لوٹ ہی آئے
کہہ کہہ کے یہ بہلاتا ہے پچھلی رُت کا ساتھ تمہارا
جب بھی تیری یاد سے آگے بڑھنا چاہوں تو دل میرا
پھر سے آنکھ میں لے آتا ہے پچھلی رُت کا ساتھ تمہارا

مجھ میں غم یک رنگی زہراب سے آیا ہے

مجھ میں غم یک رنگی زہراب سے آیا ہے
 صحرا مِرے باغوں میں سیلاب سے آیا ہے
 تم دل کا محرک تھے کیا یاد دلاؤں میں
 واپس کبھی کنکر بھی تالاب سے آیا ہے
 پا کر بھی تجھے دل کو دھڑکا ہے جدائی کا
 تو خواب میں آیا ہے یا خواب سے آیا ہے

یہ ہم غزل میں جو حرف و بیاں بناتے ہیں

یہ ہم غزل میں جو حرف و بیاں بناتے ہیں
 ہوائے غم کے لیے کھڑکیاں بناتے ہیں
 انہیں بھی دیکھ کبھی اے نگارِ شامِ بہار
 جو ایک رنگ سے تصویرِ جاں بناتے ہیں
 نگاہِ ناز کچھ ان کی بھی ہے خبر تجھ کو؟
 جو دھوپ میں ہیں مگر بدلیاں بناتے ہیں

نہیں زخم دل اب دکھانے کے قابل

نہیں زخمِ دل اب دِکھانے کے قابل
یہ ناسُور ہے بس چھپانے کے قابل​
تِرے رو برو آؤں کس منہ سے پیارے
نہیں اب رہا منہ دکھانے کے قابل
وفورِ غم و یاس نے ایسا گھیرا
نہ چھوڑا، کہیں آنے جانے کے قابل

خاک اڑتی ہے اس جہان میں کیا

خاک اڑتی ہے اس جہان میں کیا
پھول کھلتے ہیں آسمان میں کیا
میں جو حیرت زدہ سا رہتا ہوں
بات آتی ہے تیرے دھیان میں کیا
نیند آرام کر رہی ہے ابھی
تیری پلکوں کے سائبان میں کیا

کیسے کیسے خواب دیکھے دربدر کیسے ہوئے​

کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے​
کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے​
نیند کب آنکھوں میں آئی، کب ہوا ایسی چلی​
سائباں کیسے اڑے، ویراں نگر کیسے ہوئے​
کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھلی​
ہم طرف دار ہوائے راہگزر کیسے ہوئے​

نہ جانے ایسی بھی کیا بات تھی سخن میں میرے

نہ جانے ایسی بھی کیا بات تھی سخن میں میرے
ہزار تِیر ترازو رہے بدن میں میرے
یہ کیسا درد کا سیلاب جی سے گزرا ہے
یہ کس نے آگ لگا دی ہے پیرہن میں میرے 
تِرے وصال کے نشے، تِرے فراق کے دکھ
تمام ذائقے محفوظ ہیں بدن میں میرے

پھرتے ہیں اب بھی دل کو گریبان کئے ہوئے

پھرتے ہیں اب بھی دل کو گریبان کئے ہوئے
جن وحشیوں پہ تِرے احساں کئے ہوئے
تجدیدِ عشق کیا ہو کہ برسوں گزر گئے
تجھ سے کوئی سخن بھی میری جاں کئے ہوئے
اب تجھ سے کیا گلہ ہو کہ اک عمر ہو گئی
ہم کو بھی قصدِ کوچۂ جاناں کئے ہوئے

میرے ہوش یوں جو جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

میرے ہوش یوں جو جاتے تو کچھ اور بات ہوتی 
وہ نظر سے مے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی 
ہوئیں جلوہ گر بہاریں کِھلے گل چمن میں،لیکن 
وہ جو آ کے مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی 
میرا انجمن میں جانا کوئی اور رنگ لاتا 
مجھے آپ خود بلاتے تو کچھ اور بات ہوتی