عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بادِ خِزاں میں سر پہ کرم کی گھٹا رہے
سُوئے سفر مدینے کی ٹھنڈی ہوا رہے
چلتا رہوں میں جانب منزل بصد خلوص
ہاتھوں میں میرے پرچمِ مہر و وفا رہے
تھک جاؤں تو مِرے بنیں بازو تِرے نشاں
تُو ساتھ ہو اگرچہ زمانہ خفا رہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بادِ خِزاں میں سر پہ کرم کی گھٹا رہے
سُوئے سفر مدینے کی ٹھنڈی ہوا رہے
چلتا رہوں میں جانب منزل بصد خلوص
ہاتھوں میں میرے پرچمِ مہر و وفا رہے
تھک جاؤں تو مِرے بنیں بازو تِرے نشاں
تُو ساتھ ہو اگرچہ زمانہ خفا رہے
روش نہ حاکمِ اعلیٰ وہ اختیار کرے
جو مُنصفی کے تقدس کو تار تار کرے
ہے بدنصیبی کا یہ آخری مقام جہاں
عدو رذیل ہو اور عزتوں پہ وار کرے
جسے یہ لگتا ہے سب کچھ تو مل گیا ہے مجھے
وہ پاس بیٹھے خسارے مِرے شمار کرے
ہمیں محبت کرنے کا کوئی حق نہیں
کھانے کا بل ادا کرتے وقت
روٹیوں کی تعداد پوچھنے والوں کو محبت نہیں کرنی چاہیے
ہماری عمر میں محبت کرنے والوں کے لیے
خودکشی مستحب ہے
لیکن ہمیں کسی کی آنکھوں کی بجائے
آؤ کوئی تفریح کا سامان کیا جائے
پھر سے کسی واعظ کو پریشان کیا جائے
بے لغزشِ پا مست ہوں اُن آنکھوں سے پی کر
یوں محتسبِ شہر کو حیران کیا جائے
ہر شے سے مقدس ہے خیالات کا رشتہ
کیوں مصلحتوں پر اسے قربان کیا جائے
یوں برس پڑتے ہیں کیا ایسے وفاداروں پر
رکھ لیا تُو نے تو عشّاق کو تلواروں پر
کوچۂ یار سے، برباد بھی ہو کر نہ گیا
خاک اُڑ اُڑ کے مِری جم گئی، دیواروں پر
لے کے بوسے کسی بے رحم نے، ڈالے ہیں نشاں
کاکلیں چھُوٹی ہیں اِس واسطے، رُخساروں پر
نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے
تیری مثال دے کے ہم تیری مثال ہو گئے
سایۂ ذات سے بھی رم، عکس صفات سے بھی رم
دشتِ غزل میں آ کے دیکھ ہم تو غزال ہو گئے
کتنے ہی نشہ ہائے ذوق، کتنے ہی جذبہ ہائے شوق
رسمِ تپاکِ یار سے رو بہ زوال ہو گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو رحمت ہے مِرے رب کی کنارا ہی نہیں اس کا
خدا کا جو نہیں بنتا،۔ سہارا ہی نہیں اس کا
اگر نظر کرم نہ ہو کسی پر ربِ اکبر کی
تو سمجھو اس جہاں میں پھر گزارا ہی نہیں اس کا
جو رب کو خوش نہیں کرتا وہ سمجھو کچھ نہیں کرتا
چمکنے والا قسمت کا ستارا ہی نہیں اس کا
اپنے آغاز کو انجام میں پایا ہم نے
راز کیا پردۂ ابہام میں پایا ہم نے
کھو گیا تھا جو کبھی بھیڑ میں چہروں کی اسے
اپنی تنہائی کی ہر شام میں پایا ہم نے
ریت بھرتے رہے آنکھوں میں سرابوں کی سدا
عذر جینے کا اسی کام میں پایا ہم نے
سب مکر کی آلودہ نگاہوں سے بھرے ہیں
اے شہر! تِرے لوگ گُناہوں سے بھرے ہیں
میں جُرمِ مُحبت میں جو ماخوذ ہُوا ہوں
سب عدل کے ایوان گواہوں سے بھرے ہیں
کچھ ان کے عزائم بھی نہیں تجھ سے الگ تھے
پر کتنے مقابر ہیں کہ شاہوں سے بھرے ہیں
تری یادوں کا محشر کھینچتے ہیں
چلو پھر دن کا چکر کھینچتے ہیں
سویرا آن بیٹھا ہے سروں پر
اٹھو پھر شب کی چادر کھینچتے ہیں
ہماری پیاس مثل دشت و صحرا
ہم آنکھوں سے سمندر کھینچتے ہیں
بدنام گرچہ ہم ہوئے اپنے اصول میں
تجھ کو تو سرخرو کیا ہے عرض و طول میں
نیّت میں جب فتور ہو مقصد بے خانماں
بربادیاں تو ہوں گی پھر ایسے حصول سے
کوئی بھی ہم سے اس کا تدارک نہ ہو سکا
مصروف عمر بھر رہے کارِ فضول میں
یوں اداسی میں ملی ہے تِرے آنے کی خبر
جیسے مفلس کو ملے ایک خزانے کی خبر
مستئ عشق میں ڈُوبے ہیں تِرے دیوانے
اِن کو عُقبٰی کی، نہ اپنی، نہ زمانے کی خبر
دل تِرے ہاتھ پہ رکھ دیتا میں اک لمحے میں
کاش ہوتی جو مجھے دل کے ٹھکانے کی خبر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نور کی بارش، فضائیں نور، جھونکا نور کا
نور کی بستی میں ہے موسم سہانہ نور کا
مہبطِ انوار ہے نورِ خدا کا شہرِ نور
جوش پر رہتا ہے واں ہر وقت دھارا نور کا
گلشنِ طیبہ تِری فصلِ منور پر نثار
تجھ میں ہے ہر شاخ و جڑ، پتی و پتا نور کا
زندگی سادہ ورق پر اک حسیں تحریر ہے
اور یہ دنیا اسی تحریر کی تفسیر ہے
حق بجانب صرف ہم ہیں دوسرا کوئی نہیں
خود پسندی کی یہی ادنیٰ سی اک تصویر ہے
یہ بھی انداز تغافل اور تلون کی دلیل
جو بہت پیارا تھا اب وہ لائق تعزیر ہے
کیسے کیسے خواب سہانے چھوڑ آئے
سب چہرے جانے پہچانے چھوڑ آئے
بارش بن کر جو برسے تھے آنگن میں
ہم ساون کے وہ نذرانے چھوڑ آئے
چھوٹے سے مخدوش گھروندے کی خاطر
شیش محل جیسے کاشانے چھوڑ آئے
شاید ہمارے بخت میں کوئی خِضر نہیں
"منزل ہے، راستہ ہے، مگر راہبر نہیں"
خوں رو رہی ہے قوم، گریبان چاک ہیں
افسوس دُور دُور تلک چارہ گر نہیں
شاعر تُو اس جہاں کا مفکّر نہیں ہے کیا
کیا مرتبہ ہے تیرا، کیا تجھ کو خبر نہیں؟
مقدس لوگ
ہم نفرت کی پوجا کرنے والے ہیں
ہم کو بغض انا کے اونچے محل منارے پیارے ہیں
ہم نے علم، جہالت کے صندوق میں تالا ڈال کے رکھا ہے
ہم نے خود کو، اپنی سوچ کو جاگیروں میں گِروی رکھا ہے
ہم نے روشنی بانٹنے والے حرف بھی سُولی پر چڑھائے
ہم نے خیر کے بازو کاٹ کے قلم بنائے
دیوار کے ہوتے ہوئے در بیٹھ گیا ہے
بنیاد ہی ایسی تھی کہ گھر بیٹھ گیا ہے
سائے میں شجر کے تِری گلیوں کا مسافر
کیا حرج ہے کچھ دیر اگر بیٹھ گیا ہے
منزل کی تمنا میں ہر اک شخص چلا تھا
ہر شخص سر راہ گزر بیٹھ گیا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
برگ ہوں خشک سا مجھ کو بھی ہرا ہونا ہے
باغ سر سبز میں کھلنا ہے نیا ہونا ہے
میری وقعت نہ سہی جب وہ مرے گھر آئیں
لعل ہونا ہے مجھے رشک حرا ہونا ہے
میں مدینے کی حسیں یادوں میں ہوں کھویا ہوا
میرے محبوبﷺ کو تو میرا پتا ہونا ہے
کوئی ہنگامۂ ہستی کا پرستار بھی ہے
ورنہ کشتی بھی ہے ساحل بھی منجدھار بھی ہے
ہو گئیں میری تباہی پہ وہ آنکھیں نمناک
کون جانے کہ یہی جیت مِری ہار بھی ہے
باغباں تُو بھی اسے چشمِ حقارت سے نہ دیکھ
زینتِ صحنِ چمن گُل ہی نہیں خار بھی ہے
اب نہ آئے گا کبھی روٹھ کے جانے والا
عمر بھر خط وہی پڑھیے گا سرہانے والا
وہ مراسم بھی نبھاتا ہے تو رسموں کی طرح
آ گیا اس کو بھی دستور زمانے والا
یہ جدا ہونے کی رت ہے نہ دکھاؤ جی کو
ذکر چھیڑو نہ کوئی اگلے زمانے والا
جب سے نظر سے دور وہ پیارے چلے گئے
وہ شام وہ سحر وہ نظارے چلے گئے
رسم وفا نہ پیار کی پہلی سی ریت ہے
جانے کہاں وہ پریت کے دھارے چلے گئے
ہم کھیلتے ہی رہ گئے طوفان و موج سے
آ آ کے پاس دور کنارے چلے گئے
عشق کے جادوگر
چمن میں عشق کے جادوگر چھپے رہتے ہیں
نکل آتے ہیں فوراً حسینہ دیکھ کر
ان کی باتیں معصول دل پر سحر کا کام کر دیتی ہیں
ان کی نظریں حسین دوشیزہ کو اسیرِ دام کر لیتی ہیں
پھولوں کی مہک، چاند کی چمک، ستاروں کی دمک
اس پر ایک عجیب سا کیف طاری کر دیتی ہے
وسعت دامان دل کو غم تمہارا مل گیا
زندگی کو زندگی بھر کا سہارا مل گیا
ہر دل درد آشنا میں دل ہمارا مل گیا
پارہ پارہ ہو چکا تھا پارا پارا مل گیا
ہم کہ میخانے کے وارث تھے ہیں اب تک تشنہ لب
چند کم ظرفوں کو صہبا کا اجارا مل گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پھر آ گیا ہوں شہر رسول انامﷺ میں
ہر پل گزر رہا ہے سجود و قیام میں
اوڑھی ہوئی ہے گلیوں نے خوشبو کی اوڑھنی
کیسا غضب کا حسن ہے اس ڈھلتی شام میں
دیوار و در کے ہونٹوں پہ صلی علیٰ کا ورد
مصروف ہر بشر ہے درود و سلام میں
ہے وہ دشمن تو اب یار ہو جائے گا
دوستی سے ملو، پیار ہو جائے گا
موجیں طوفاں کی شرمندہ ہونے لگیں
بیڑا ڈوبا نہیں، پار ہو جائے گا
اس کے دل میں جو بُوئے وفا ہی نہیں
وعدہ کرنا بھی بے کار ہو جائے گا
آج اس سے ملو صورت احباب ملے گا
کل خواب کی تعبیر میں بھی خواب ملے گا
یہ سوچ لیں پہلے سے دعا مانگنے والے
پانی کی ضرورت ہے تو سیلاب ملے گا
وہ سرد ہوا شہر میں آئے گی دکھوں کی
آنسو بھی مِری آنکھ میں برفاب ملے گا
کہیں ہے داغ ناکامی کہیں ہے خون ارماں کا
ہمارا دل مرقع بن گیا ہے یاس و حرماں کا
جہاں والوں پہ میں احسان کر کے بھول جاتا ہوں
مِرے اخلاق کو چمکا رہا ہے نقش نسیاں کا
علائق میں الجھ کر فرصت نظارہ کھو بیٹھا
نہایت دید کے قابل تھا منظر بزم امکاں کا
درونِ شہرِ تمنا کسی کو ہار آئے
چراغِ کشتہ کی لَو کو وہاں اتار آئے
فنا کے سانپ ہیں جنسِ ہُنر سے ناواقف
چلے تو کیچلی اپنی وہاں اُتار آئے
دیارِ جسم ہے اُلفت کے دائروں سے پرے
شعارِ شوقِ بدن میں نہ یہ حِصار آئے
لکھ لکھ کے یار ہاتھ ہمارے پگھل گئے
ہم سے جو سیکھتے تھے وہ آگے نکل گئے
آنکھوں کا رنگ ہو یا مِری شاعری کا رنگ
سب کچھ بدل گیا مِرا، جب تم بدل گئے
سب لوگ لے کے آئے تھے اعمال رب کے پاس
ہم اپنے رب کے پاس بھی لے کر غزل گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وسعتِ خیر ہے اتنی نہ سنبھالی جائے
بانٹتا جائے جدھر انؐ کا سوالی جائے
ان سے الفت کے سبب چن دیا جاؤں جس میں
رب وہ رحمت بھری دیوار بنا لی جائے
رہے پوروں پہ سدا صلی علیٰ کی تسبیح
کہ کفن میں بھی مِرا ہاتھ نہ خالی جائے
جب کبھی یاد تِری مجھ سے بچھڑ جاتی ہے
سانس تک چلتی ہوئی میری اکھڑ جاتی ہے
میں اسی واسطے باتیں نہیں کرتی تجھ سے
بات جب بڑھتی ہے پھر بات بگڑ جاتی ہے
مہرباں تیرا تصور نہ ہو جب تک مجھ پہ
جو بھی تصویر بناؤں میں بگڑ جاتی ہے
زخم کو مات کیوں نہیں کرتے
درد خیرات کیوں نہیں کرتے
راستے سائیں سائیں کرتے ہیں
راستے بات کیوں نہیں کرتے
پیار کرتے ہو پاگلوں کی طرح
حسب اوقات کیوں نہیں کرتے
ہم گئے پہلا سا وہ مصر کا بازار نہ تھا
کتنے یوسف تھے مگر کوئی خریدار نہ تھا
وائے پہلا سا وہ رنگِ درِ دلدار نہ تھا
دار تھی کوئی بھی منصور سرِ دار نہ تھا
دورِ عشرت میں سبھی یار تھے غم میں لیکن
ماسوا دل کے مِرا کوئی بھی غمخوار نہ تھا
ٹھہر گیا مِرے اشکوں کا قافلہ کب کا
میں ہو چکا ہوں تِرے غم سے آشنا کب کا
اب اپنے چہرے پہ وہ تازگی نہ رونق ہے
اُتر چکا ہے ہر اک رنگِ خوش نما کب کا
بھٹکتا رہتا ہوں اب خواب کے جزیرے میں
گزر چکا ہے ان آنکھوں سے رت جگا کب کا
اس چمن میں آشیاں اپنا بنا سکتے نہیں
کھول کر دل جس چمن چہچہا سکتے نہیں
خوف سے گلچیں کے غنچے ہیں چمن میں دم بخود
مسکرا سکتے ہیں، لیکن کھل کھلا سکتے نہیں
باغباں سے کر لیا صیّاد نے کچھ ساز باز
اہلِ گُلشن خیر اب اپنی منا سکتے نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کس منہ سے شکر کیجیے پروردگار کا
عاصی بھی ہوں تو شافع روزِ شمار کا
گیسو کا ذکر ہے تو کبھی روئے یار کا
یہ مشغلہ ہے اب مرا لیل و نہار کا
چلنے لگی نسیمِ سحر خلد میں ادھر
دامن اِدھر بلا جو شہِ ذی وقار کا
مشکلیں بڑھتی گئیں ہر سحر و شام کے ساتھ
پھر بھی کھیلا کیے ہم گردشِ ایام کے ساتھ
روز افزوں ہی رہا حوصلہ و عزمِ سفر
منزلیں دور ہی ہوتی گئیں ہر گام کے ساتھ
آ کے اے برق! مِرا خرمنِ ہستی تو جلا
کتنی نادان کہ الجھی ہے در و بام کے ساتھ
قوم در بدر ہے، مجھے جب سے ہوش ہے
بے خبر راہبر ہے، مجھے جب سے ہوش ہے
دھوپ کی صورت کبھی دیکھی نہیں میں نے
ابر میں امبر ہے، مجھے جب سے ہوش ہے
میں نے کب کیا ہے بھلا وقت کا حساب
وہ مِری دلبر ہے، مجھے جب سے ہوش ہے
ہزار خاک کے ذروں میں مل گیا ہوں میں
مآل شوق ہوں آئینہ ⌗ وفا ہوں میں
کہاں یہ وسعت جلوہ کہاں یہ دیدۂ تنگ
کبھی تجھے کبھی اپنے کو دیکھتا ہوں میں
شہید عشق کے جلوے کی انتہا ہی نہیں
ہزار رنگ سے عالم میں رونما ہوں میں
حرام کو بھی اِک دم حلال کرتا ہے
کبھی جو دل نئی کوئی مجال کرتا ہے
ہزار تشنہ سی حسرتوں کے بوجھ تلے
یہ جو دھڑکتا ہے، 💓دل کمال کرتا ہے
یہ دل بھی تو رہتا ہے عجب سے مخمصے میں
جواب گھڑتا ہے، خُود ہی سوال کرتا ہے
ظلمتوں میں ازسرِ نو کیوں بلاتے ہو مجھے
مہربانوں کس لیے اتنا ستاتے ہو مجھے
راستے میں نے دکھائے ہیں اجالوں کے تمہیں
نقش ہوں میں روشنی کا کیوں مٹاتے ہو مجھے
قافلوں کو منزلوں کی سمت کرتا ہوں رواں
بے جہت چلنے کی باتیں کیوں سناتے ہو مجھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نہ چار سُو نہ کہیں چرخِ ہفتمیں سے مِلا
خِرد کو نُکتۂ توحید شاہِ دیںﷺ سے ملا
جہاں کی دانش و حکمت میں یہ کمال کہاں
شُعورِ زیست مدینے کی سر زمیں سے ملا
بھٹک رہی تھی حقیقت کی جُستجو میں نظر
درِ اِلٰہ مجھے راہِ شاہِ دیںﷺ سے ملا
جو تیرے عہد میں پتھر کا آدمی ہوتا
کسی بشر کو نہ احساسِ زندگی ہوتا
متاعِ لفظ و بیاں دل کے پاس ہوتی تو
مِرے فسانے کا عنواں کچھ اور ہی ہوتا
ملا ہوں خود کو میں تنہا ہر اک منزل میں
کوئی رفیقِ سفر تھا تو ساتھ بھی ہوتا
کسی کی راہنمائی قبول کیا کرتے
ہمارے عہد میں آ کر رسول کیا کرتے
جو دستکوں کے لیے دل کے در تلک آیا
ہم اس کرم کا کوئی عرض و طول کیا کرتے
کسی کی یاد میں رونا تو اک فریضہ تھا
مری کتاب کے مرجھائے پھول کیا کرتے
مفت الزام بغاوت مرے سر رکھتے ہیں
وہ جو تاریخِ گلستاں پہ نظر رکھتے ہیں
ہم نے گھنگھور اندھیروں میں گزاری ہے حیات
ہم بھی اب حسرتِ دیدارِ سحر رکھتے ہیں
آج انہیں صاحبِ کردار کہا جاتا ہے
مرضئ وقت کے قدموں پہ جو سر رکھتے ہیں
اپنا محرم جو بنایا تجھے میں جانتا ہوں
مجھ سے منہ پھر کیوں چھپایا تجھے میں جانتا ہوں
تو اگر بھولا تو بھولا مرا صاحب مجھ کو
میں نہیں تجھ کو بھلایا تجھے میں جانتا ہوں
سب زمانہ میں پھرا ڈھونڈھتا محبوب کوئی
نہیں تجھ سا نظر آیا تجھے میں جانتا ہوں
تو کیا سرہانے نیا کوئی قہقہہ اگا ہے
جو دکھ اچانک ہی پائنتی سے لگا کھڑا ہے
زمین پایوں سے کھاٹ کے چڑھ رہی ہے ایسے
کہ جیسے سارا فلک مجھی پر جھکا ہوا ہے
عصا کو دیمک نگل رہی ہے میں جان بیٹھا
کمر سے پہلے ہی حوصلہ ٹوٹنے لگا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زمینِ شعر پہ اک خطِ نعت کھینچا تھا
پھر اُس زمیں کو فلک ہوتے میں نے دیکھا تھا
تھی ایک رات مِری آنکھ نور سے معمور
اس ایک رات نبیﷺ کا سراپا سوچا تھا
خدا احد ہے سو اس کو احد سمجھتے ہیں
امینِ وحئ خدا نے یہی بتایا تھا
صحن مقتل میں ہر اک زخم تمنا رکھ دو
اور "قاتل" کا نیا نام "مسیحا" رکھ دو
اب تو رسوائی کی حد میں ہے میری تشنہ لبی
اب تو ہونٹوں پہ دہکتا ہوا شعلہ رکھ دو
کتنی تاریک ہے شب میرے مکاں کی یاروں
ان منڈیروں پہ کوئی چاند سا چہرہ رکھ دو
آئیں، ہمارے واسطے بیٹھیں، دعا کریں
ہونا تھا جو بھی ہو گیا، اب اور کیا کریں
اب رات بھر یہ سسکیاں لیتے ہیں کس لیے
کس نے کہا تھا آپ کو ہم سے دغا کریں
ہم کو بھی کچھ تو خواہشیں اپنی بتائیں ناں
ہم کیا کریں جو آپ کو اچھا لگا کریں
خزانہ
یہ میری دولت، یہ میری دولت
جو میری محنت کا ہے نتیجہ
جو میری عزت کا ہے ذریعہ
جو میری شہرت کا ہے وسیلہ
وہ مثل اولاد جس کو چاہا
یہ میری دولت، یہ میری دولت
وسعت نہیں نظر میں ہے دل اور تنگ ہے
آئینۂ خیال پہ صدیوں کا زنگ ہے
سر پہ گناہگار کے چادر ہے خاک کی
مٹّی میں گل کھلاتی ہوئی ہر اُمنگ ہے
پتھر برس پڑیں نہ کہیں آسمان سے
ہِلتی ہوئی زمیں میں غضب کی ترنگ ہے
مجھے سفر میں ہے خدشہ بدن پگھلنے کا
خیال چھوڑ دے تو میرے ساتھ چلنے کا
عجیب رات ہے کٹتی نہیں کسی صورت
لگے ہے اب کوئی سورج نہيں نکلنے کا
لہو لکھے گا تمہاری بھی موت کا فرمان
تماشہ دیکھ رہے ہو جو سر اچھلنے کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر گھڑی نور کی بارش میں نہایا ہوا ہے
جس نے ہونٹوں پہ درودوں کو سجایا ہوا ہے
کتنی صدیوں سے ثمر بار بھی ہے تازہ بھی
تُو نے ہاتھوں سے جو اک پیڑ لگایا ہوا ہے
اے حسینوں کے حسیں، اے شہِ فیاض دِلاں
اک بھکاری تِرےﷺ دیدار کو آیا ہوا ہے
کسی نے مجھ کو مِرے نام سے پکارا ہے
یہ اک گماں بھی یقیناً بڑا سہارا ہے
سحر نصیب ہو اس رات کو کبھی لیکن
ابھی تلک تو مِری طرح بے سہارا ہے
کسی کی بزم سے اٹھنا محال ہے لیکن
وگرنہ اتنا تغافل کسے گوارا ہے
تعلق توڑ کر اُس کی گلی سے
کبھی میں جُڑ نہ پایا زندگی سے
خدا کا آدمی کو ڈر کہاں اب
وہ گھبراتا ہے کیول آدمی سے
مِری یہ تشنگی شاید بُجھے گی
کسی میری ہی جیسی تشنگی سے
جب نہ ساتھی ہو کوئی بگڑی ہوئی تقدیر کا
اے دلِ مایوس! دامن تھام لے تدبیر کا
کر رہا ہوں اس لیے میں کعبۂ دل کا طواف
عکس ہے اس آئینے میں آپ کی تصویر کا
تیرے در کی خاک دنیا میں میسر ہو جسے
جیتے جی طالب نہ ہو وہ پھر کسی اکسیر کا
شمع محفل میں جلے یا جلے پروانے سے
فرق کرتی نہیں پروانے سے پروانے میں
آپ ناراض ہوئے، کوئی سبب تو ہو گا
کیا کوئی مجھ سے خطا ہو گئی انجانے میں
حل طلب بات ہوئی ہے دونوں کی معمے کی طرح
فرق کوئی دیوانے میں فرزانے میں
مزاج عشق کو جس نے قلندرانہ کیا
کلام جس سے کیا اس نے عارفانہ کیا
ستم کی دھوپ نے یہ کار معجزانہ کیا
ہماری راہ میں شفقت کا شامیانہ کیا
وہ جس نے دل پہ مِرے وار قاتلانہ کیا
اسی کو میں نے کبھی جان سے جدا نہ کیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سفر وہ نُور کا، مجھ کو بھی نُور کرتا ہُوا
میں جا رہا ہوں ستارے عبور کرتا ہوا
ازل کے جلوے میں ہوتی ہوئی نمُو میری
نیا نیا سا میں خُود میں ظہور کرتا ہوا
میں بارگاہِ نبوّتؐ میں سر جُھکائے ہوئے
میں اپنے ہونے پہ اس پل غرور کرتا ہوا
ملتیں جب جادۂ حق سے گریزاں ہو گئیں
جانے کتنی بستیاں شہر خموشاں ہو گئی
پستیاں پنجوں کے بل اچھلی تو قیمت بڑھ گئیں
عظمتیں بازار میں پہنچیں تو ارزاں ہو گئیں
ضبط غم کا یہ تماشہ بھی کسی دن دیکھنا
آندھیاں تنکوں سے ٹکرا کر پشیماں ہو گئیں
اس چمن کا عجیب مالی ہے
جس نے ہر شاخ کاٹ ڈالی ہے
دن اجالا گنوا کے بیٹھ گیا
رات نے روشنی چرا لی ہے
غم کی عصمت بچی ہوئی تھی مگر
وقت نے وہ بھی روند ڈالی ہے
کوئی مکاں ہو تو خود کو مکیں کریں ہم لوگ
کسی قیاس پہ کیسے یقیں کریں ہم لوگ
تُو لا زوال نہیں ہے، فنا کی زد میں ہے
سو، ترک کس لیے دنیا و دیں کریں ہم لوگ
پلٹ کے دشت سے جانا محال ہے اپنا
اگرچہ لاکھ غمِ واپسیں کریں ہم لوگ
غزہ
وہ پھر آئیں گے
تازہ دم ہو کر
ادھیڑ دیں گے تمہارے دریدہ بدن
گولیوں کی بارش سے
تم پھر سو جاؤ گے
اور وہ پھر آئیں گے
تمہارے قصر آزادی کے معماروں نے کیا پایا
جہاں بازوں کی بن آئی جہاں کاروں نے کیا پایا
ستاروں سے شب غم کا تو دامن جگمگا اٹھا
مگر آنسو بہا کر ہجر کے ماروں نے کیا پایا
نقیب عہد زریں صرف اتنا مجھ کو بتلا دے
طلوع صبح نو برحق مگر تاروں نے کیا پایا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نعت پڑھنے میں جو نمناک گلو ہوتا ہے
نامِ نامیؐ پہ یہ لفظوں کا وضو ہوتا ہے
تزکیہ روح کا کرتی ہے فضا مکّے کی
چاک سینے کا مدینے میں رفو ہوتا ہے
عشق کی شرح میں ہے آپؐ کا اُسوہ لاریب
نصِّ قرآن میں جو ’’واعتصموا‘‘ ہوتا ہے
خوشبو ہمارے پیار کی اس تک پہنچ گئی
تصویر اعتبار کی اس تک پہنچ گئی
آواز دے رہا تھا کوئی دُور سے مجھے
تنہائی انتظار کی اس تک پہنچ گئی
کل شام ہی تو اس سے ملی تھی مری نظر
شِدت مِرے خمار کی اس تک پہنچ گئی
جو تعلق کی بھی تعظیم سے واقف نہیں ہے
وہ محبت کی ابھی میم واقف نہیں ہے
زر کے پیمانے سے انسان کو جو ناپتا ہے
ہائے وہ عشق کی تعلیم واقف نہیں ہے
یہ اصولوں میں روایات کا پابند ہے سو
دل زمانے کی ترامیم واقف نہیں ہے
بقا کی چاہ میں تو دیکھ بے مکان نہ ہو
زمین تیری حقیقت ہے آسمان نہ ہو
رہ نجات میں منزل کی جستجو کس کو
یہ وہ سفر ہے کہ جس میں کبھی تھکان نہ ہو
یہاں سبھی کی رسائی تو غیر ممکن ہے
یہ تجربات کی محفل ہے بد گمان نہ ہو
دل پریشاں ہی رہا دیر تلک گو بیٹھے
اپنی زلفوں کو بنایا ہی کیے وہ بیٹھے
اپنی صورت پہ کہیں آپ نہ عاشق ہونا
بے طرح دیکھتے ہو آئینہ تم تو بیٹھے
زلف الجھی ہے تو شانے سے اسے سلجھا لو
شام کا وقت ہے ہو کوستے کس کو بیٹھے
تکلم یار سے بیتے دنوں کا
یار فرقی زمانہ ہوا
ہم نے جب بچپنے کو پرانی کتابوں کی مانند
ردی میں بیچا
تو ہنستا ہوا بچپنا خامشی سے
بہت دیر تک ہم کو تکتا رہا
یاد ہے نا تمہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نکہتِ موسمِ بہار درودﷺ
طلعتِ نقشِ گل عذار درود
وجہِ افزایشِ وقار درودﷺ
سرخروئی کا ہے مدار درود
سر بسر لطف, سر بسر اکرام
سر بسر مغفرت شعار درود
وہ وقت لوگ وہ پہلی سی چاہتیں نہ رہیں
ہماری جھولی میں پہلی سی راحتیں نہ رہیں
راس آ گیا جب سے سکوتِ تنہائی
وہ رتجگے، وہ محافل، وہ ساعتیں نہ رہیں
بدلتے وقت نے ہر آرزو کُچل ڈالی
جنم جو لیتی تھیں دل میں وہ خواہشیں نہ رہیں
چولہا چادر چار دواری والی عورت
بھرے پرے مردوں میں خالی خالی عورت
رنگ، رکھیل ہے کھیل ہے اور بہلاوہ ہے
نامردوں کو ہولی اور دیوالی عورت
ماں ہے بہن ہے بیٹی ہے اور بیوی ہے
مان سمان میں قدرت نے ہے ڈھالی عورت
جو نہیں جانتا مفہوم محبت کیا ہے
اس کی نظروں میں میرے پیار کی قیمت کیا ہے
چڑھتے سورج کا پجاری ہے ہر ایک شخص یہاں
کیا اسے علم کے احساس کی دولت کیا ہے
ہو سکے تو کبھی اس کی بھی وضاحت کر دے
میری جانب سے تِرے دل میں کدورت کیا ہے
کب بات وہی دل کی سجن بات کرو گے؟
کب رات محبت سے بھری رات کرو گے؟
دیکھو گے مجھے جب بھی ملاقات کرو گے
پھر یوں نہ کبھی تم یہ سوالات کرو گے
کب روح مِری پیار سے تم پاک کرو گے؟
کب پیار کی اے یار! وہ برسات کرو گے؟
حدیث دلبراں ہے اور میں ہوں
جہاں اندر جہاں ہے اور میں ہوں
مداوائے غم فرقت نہیں کچھ
بس ان کی داستاں ہے اور میں ہوں
نہ ہمدم ہے نہ کوئی ہم نواں ہے
دل اپنا راز داں ہے اور میں ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھ پہ جب رب کی عنایت ہو گئی
نعت کہنے کی ہدایت ہو گئی
دُور دنیا کی محبت ہو گئی
آپؐ سے حاصل جو نسبت ہو گئی
ابتداء آدمؑ سے ہو کر دیکھیے
ختم آقاﷺ پر نبوت ہو گئی
شہر بے مہر میں ملتا کہاں دلدار کوئی
کاش مل جاتا ہمیں مجمع اغیار کوئی
چیر دے قلب زمیں توڑ دے زنجیر زماں
چھیڑ اب ایسا فسانۂ دل نادار کوئی
نالۂ دل سے جگر ہوتا ہے چھلنی یا رب
صبر کرتی ہوں تو چل جاتی ہے تلوار کوئی
اِسی میں ہجر کے شام و سحر ٹھکانے لگے
جب آئینے کے نئے خال و خد بنانے لگے
طلب کی راہ میں شامل تھی خود پسندی بھی
میں تیری سمت چلا پاؤں لڑکھڑانے لگے
میں سو رہا تھا تو آنکھوں میں کوئی خواب نہ تھا
میں اُٹھ گیا تو تسلسل سے خواب آنے لگے
ہیں منتظر آنکھیں کوئی اک خواب تو آئے
ساحل نہیں آتا ہے تو گرداب تو آئے
صحرا کے خد و خال سے کھیلوں میں کہاں تک
رستے میں کوئی خطہ شاداب تو آئے
کیا فکر جو پیکر سے وہ مہتاب نہیں ہے
پہنے ہوئے پیراہن مہتاب تو آئے
مِرے ملک کی زمیں پر یہ نظام چل رہا ہے
کہیں رقص ہو رہا ہے، کہیں جام چل رہا ہے
تُو غزل کی گائیکہ ہے میں غزل کا رائٹر ہوں
تِرے کام کی بدولت مِرا کام چل رہا ہے
مئی جون آ گیا تو مِرے دل سے ہُوک اُٹھی
یہاں کھا رہے ہیں برگر، وہاں آم چل رہا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سلام فاتح خیبرؑ کے لالؑ کو پہنچے
حسینؑ یعنی محمدﷺ کی آلؑ کو پہنچے
حیاتِ سرمدی آئی تمہارے حصے میں
تمہارے عزم سے باطل زوال کو پہنچے
جنابِ حُر بھی ہوئے سرخرو شہادت سے
بفیضِ سبطِؑ پیمبرﷺ کمال کو پہنچے
یہ ندی کیوں اس قدر خدشے میں ہے
کیا کوئی طوفاں کہیں رستے میں ہے
جس کی پروازوں کے تھے چرچے بہت
وہ پرندہ 🕊 آج کل پنجرے میں ہے
بند جب سے ہو گئی میری گھڑی
کتنا سناٹا مِرے کمرے میں ہے
ایک سُوکھے شجر کا سایہ ہوں
میں بھی اس دُھوپ کی رعایا ہوں
مجھ کو رکھ لے سمیٹ کر دل میں
میں تِری آنکھ 👁 کا کرایہ ہوں
تُو بدن کو ٹٹولتا کیا ہے؟
میں تِری رُوح میں سمایا ہوں
آتشِ عشق سے اک حشر بپا ہو جانا
اک نظر دیکھتے ہی ان پہ فدا ہو جانا
رات دن سوچنا ان کو ہے عبادت میری
کیسے ممکن ہے عبادت کا قضا ہو جانا
جن کو ہاتھوں سے تراشا ہو بہت محنت سے
ظلم ہے ایسے بتوں کا بھی خدا ہو جانا
دریا گلی میں شام
کہساروں پر دیے جل اٹھے جیسے جاگے پریت
پگدنڈی پر اک چرواہا گاتا جائے گیت
بادل کی چلمن سے جھانکے سپنوں کا اک جال
جال کے جیسے ہوا میں اڑتے اک ناری کے بال
گھور اندھیرا ہریالی پر کاڑھے اپنا نام
رین بسیرا ڈھونڈ رہی ہے جلتی بُجھتی شام
میرے غم کی حقیقت کا زمانہ راز داں کیوں ہو
نہاں ہے راز جو دل میں وہ اشکوں سے عیاں کیوں ہو
سکون مستقل کیوں ہو، نشاط جاوداں کیوں ہو
جو دل میں درد ہے وہ باعث تسکین جاں کیوں ہو
چمن میں جس طرف دیکھو نشیمن ہی نشیمن ہیں
ٹھکانا برق کا میری ہی شاخ آشیاں کیوں ہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہو اگر آپﷺ کا فرمان مدینے میں رہے
"مجھ خطار کار سا انسان مدینے میں رہے"
بادشاہوں کو محل اپنے مبارک ہوں مگر
دو جہاں کا ہے جو سلطان مدینے میں رہے
ابر رحمت کا برستا ہے یہاں پر پیہم 🌦
کیوں کہ خود عاشقِ یزدان مدینے میں رہے
حکم نامہ
سو اب یہ حکم آیا ہے
کہ اس بے فیض موسم
بے اماں صحرا میں رھنا ہے
سلگتی دھوپ اور بنجر پہاڑوں کو
شبستاں کی طرح
جنت کی مانند ہی سمجھنا ہے
خلوص رنگ سے رنگیں ہو آدمی کا لباس
یہی ہے اصل میں انساں کی کی زندگی کا لباس
ہم اپنی پیاس کا رونا بھی اب رو نہیں سکتے
لبوں سے سب کی جھلکتا ہے تشنگی کا لباس
یہ دشمنوں کا حربہ ہے ذرا خیال رہے
ملاتے ہاتھ پہن کر ہیں دوستی کا لباس
اک آہ جگر سوز دبی ہے تن میں
بھڑکے تو جہاں سارے کو شعلہ ہی بنا دے
اک چیخ ابھر آئی ہے گر لب پہ ہمارے
ڈر ہے تِرے پہلو میں قیامت نہ اٹھا دے
جلتی ہوئی حسرت کا نظارہ ہے مرا دل
توحید کے قرآن کا پارہ ہے مِرا دل
وطن کا علَم آؤ مل کر اٹھائیں
اخوّت، محبت کو آگے بڑھائیں
بڑا خوبصورت ہے پرچم ہلالی
چمن کی شرافت ہے پرچم ہلالی
خدایا! اسے نظرِ بد سے بچائیں
ہماری خوشی ہو وطن کی خوشی پر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بھنور سے دور قریب نشاں کرے گا کون
میرے سفینۂ دل کو رواں کرے گا کون
محافظت کو اگر تُو نہ آئے گا میری
عدو کے وار کو پھر رائیگاں کرے گا کون
نہ دے گا چاند ستاروں کو تُو اجازت تو
سامنے تھا وہ مگر دید وغیرہ نہیں کی
اب کے آنکھوں نے کوئی عید وغیرہ نہیں کی
یُوں رکھا مان ہمیشہ تِرے بُہتانوں کا
ہنس کے چُپ ہو گئے، تردید وغیرہ نہیں کی
خیر ہو، آج طبیعت تری ناساز ہے کیا ؟
آج مجھ پر کوئی تنقید وغیرہ نہیں کی
ہماری حسرت وطن کو اپنی محبتوں سے نکھار دیں گے
نئی امیدوں کی روشنی سے ہم اس کی زُلفیں سنوار دیں گے
یہی وفاوں کا رہگزر ہے یہی ہمارے سفر کی منزل
جو قرض مٹی کا سر ہے اپنے وہ قرض سر سے اتار دیں گے
تِری ہی خاطر لٹا چکے ہیں ہزاروں تارے ہزار سورج
اگر ضرورت پڑی دوبارہ تو اپنی جانوں کو وار دیں گے
نکل سکتے نہیں اب منظروں سے
نکل تو آئے ہیں اپنے گھروں سے
سبھی کردار ساکت ہو گئے ہیں
کہانی چل رہی ہے منتروں سے
ہماری خاک ہی میں مسئلہ ہے
شکایت کچھ نہیں کوزہ گروں سے
اعلان کر رہا ہوں کہ ہوشیار، اک طرف
معصوم اک طرف ہوں، ریا کار اک طرف
دنیا میں کربلا سے بڑا واقعہ نہیں
حُبدار اک طرف ہوئے غدّار اک طرف
یہ کس نے آ کے صحنِ حرم میں قدم رکھا
در اک طرف کو ہو گیا، دیوار اک طرف
زندگی ان ٹوٹتے لمحوں میں کیا دے جائے گی
دھند میں لپٹے گھروندے کا پتہ دے جائے گی
چھین لے گی میری آنکھوں سے یہ خوابوں کی ردا
یاد تیری آئے گی پھر رت جگا دے جائے گی
یہ شب مہتاب بھی تیرے تبسم کی طرح
سوچ کو میری شکستہ زاویہ دے جائے گی
رُت بدلتی ہے، بدلتا نہیں منظر سائیں
اب کہاں جائے بتا تیرا قلندر سائیں؟
اک مِرے نام نہیں تیری سخاوت ورنہ
جگمگاتا ہے کرشمہ تِرا در در سائیں
شہر کا شہر ہُوا جاتا ہے کیسے سیراب
کون آیا ہے یہاں لے کے سمندر سائیں
لاکھ ناداں ہیں مگر اتنی سزا بھی نہ مِلے
چارہ سازوں کو مِری شامِ بلا بھی نہ ملے
حسرت آگیں تو ہے ناکامیٔ منزل، لیکن
لطف تو جب ہے کہ خود اپنا پتا بھی نہ ملے
کچھ نگاہوں سے غمِ دل کی خبر ملتی ہے
ورنہ ہم وہ ہیں کہ باتوں سے ہوا بھی نہ ملے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو لوگ طاعت خیرالانام کرتے ہیں
وہی تمیزِ حلال و حرام کرتے ہیں
حسیں نظر ہو تو ہر چیز بات کرتی ہے
شکستہ آئینہ خآنے بھی کام کرتے ہیں
دلوں میں جن کے ہیں جذبات سرفرازی کے
صلیب و دار بھی ان کو سلام کرتے ہیں
سچ تمہارا دشمن ہے
کاٹو میرے ذہن کو آ کر
لاؤ چھری، خنجر، تلواریں
یہ ذہن تمہارا دشمن ہے
یہ ذہن تمہاری سوچ کے
بند کواڑوں پہ اکثر
کوندا بن کے چمکتا ہے
اولاد علیؑ ہیں یہ ڈرتے نہیں ہیں
منافق کبھی ساتھ رکھتے نہیں ہیں
ملا ہے ہمیں کربلا سے یہ منصب
نبھاتے ہمیشہ ہیں، ٹلتے نہیں ہیں
یہ اعوان ہونا بھی مشکل بڑا ہے
یہاں سر بھی کٹتے ہیں جھکتے نہیں ہیں
جو تیر آج تک نہ کمانوں پہ آئے ہیں
جب زہر میں بجھے تو نشانوں پہ آئے ہیں
ہیں در بدر، پہ اب کے نہیں تابِ گمرہی
کچھ گیت بن کے گُنگ زبانوں پہ آئے ہیں
صیاد! تیرے دامِ محبت کی خیر ہو
بیخود شکار خود ہی نشانوں پہ آئے ہیں
باہر تو کر رہا ہوں میں آرائشیں بہت
اندر ہیں پر مکان کے آلائشیں بہت
تو ہے کہ تیرے ساتھ ہیں آسائشیں بہت
میں ہوں کہ میرے ساتھ مِری خواہشیں بہت
نقش و نگار کیا یہاں دیوار و در نہیں
شاید کہ اس مکاں پہ رہیں بارشیں بہت
یہاں اپنا بنا کر ہی سبھی انکار کرتے ہیں
چلو ہم بھی محبت کا ہی کاروبار کرتے ہیں
بھروسہ کیسے کر پاؤ گے تم بے دین لوگوں کا
یہاں پر سب منافق ہیں کھلا اقرار کرتے ہیں
بتاتے ہیں سبھی منزل کا الٹے ہی طریقے سے
بھلا ایسے ستم بھی دین کے غمخوار کرتے ہیں؟
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
توحید کا دِیا ہے، اجالا علیؑ کا ہے
امکان کی حدوں پہ اجارہ علی کا ہے
روزِ الست جس نے کہا تھا علی علی
اس کی زباں پہ آج بھی نعرہ علی کا ہے
انگلی پکڑ کے جس کی چلے فخرِ انبیاء
منبع ہدایتوں کا وہ بابا علی کا ہے
زمین و آسماں بدلے ہوئے ہیں
وہ جب سے مہرباں بدلے ہوئے ہیں
یقیں، وہم و گُماں بدلے ہوئے ہیں
یہاں سب این و آں بدلے ہوئے ہیں
ہوائے تُند جب سے چل پڑی ہے
پرندے آشیاں بدلے ہوئے ہیں
جس سے بندھے تھے دونوں، وہ غم نہیں رہے ہیں
تم، تم نہیں رہے ہو، ہم، ہم نہیں رہے ہیں
لمحوں کے پیڑ پر ہیں، کچھ پھول درد و غم کے
جیون میں اب خوشی کے موسم نہیں رہے ہیں
راہوں میں اب کھڑا ہوں، پھیلائے ہاتھ خالی
غم تھے میرا اثاثہ، اور غم نہیں رہے ہیں
ہر احتیاط ضروری ہے زندگی کے لیے
سکوں اسی میں ہے در اصل آدمی کے لیے
غم و خوشی سے پرے ہو گی جب نظر تیری
کبھی نہ ترسے گا لمحاتِ زندگی کے لیے
یہ فیضِ علم و ہنر اور ضیائے شمس و قمر
طلب اگر ہو تو کافی ہے روشنی کے لیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سوال
خزاں گزیدہ ہوں صبر و قرار دے ربی
مِرے چمن کو متاعِ بہار دے ربی
زمیں کی کوکھ سلگتی ہے ایک مدت سے
کرم کی بارشیں اب تو اتار دے ربی
مِرے لہو میں اناؤں کی آگ روشن رکھ
میں زندہ ہوں یہ مجھے اعتبار دے ربی
سینے میں اس کے اک دل درد آشنا تو ہے
وہ فلسفی نہیں ہے مگر سوچتا تو ہے
تازہ ہوا سے کہہ دو چلی آئے بے خطر
در بند ہے ضرور دریچہ کھلا تو ہے
قسمت پہ ناز کیوں نہ کروں مدتوں کے بعد
تم سا رہِ حیات میں ساتھی ملا تو ہے
نہیں ہے گرچہ خزاں، پھول دستياب نہیں
لگا دو آگ، جہاں پھول🎕 دستياب نہیں
یہ دشتِ دل ہے یہاں صرف ریت اگتی ہے
وگرنہ آج کہاں پھول🎕 دستياب نہیں
میں سارے شہر کا چکر لگا کے آیا ہوں
کسی جگہ پہ یہاں پھول🎕 دستياب نہیں
پچھلے زخموں کا ازالہ نہ ہی وحشت کرے گا
تجھ سے واقف ہوں مِری جاں تو محبت کرے گا
میں چلا جاؤں گا دنیا سے سکندر کی طرح
اگلی صدیوں پہ مِرا نام حکومت کرے گا
دل تِری راہ اذیت سے پلٹنے کو ہے
کیا تو اب بھی نہ مِرا خواب حقیقت کرے گا
مارا اس شرط پہ اب مجھ کو دوبارہ جائے
نوکِ نیزہ سے مِرا سر نہ اتارا جائے
شام سے پہلے کسی ہجر میں مر جائے گا
سورج اک بار مِرے دل سے گزارا جائے
اس کی یہ ضد کہ مِرا قتل پس پردہ ہو
مِری خواہش مجھے بازار میں مارا جائے
یہ نہ سمجھو ضبطِ غم سے دم مِرا گھٹتا نہیں
گھر سے باہر کیسے نکلوں، کوئی دروازہ نہیں
تپ کے غم کی آگ میں جب تک کہ دل نکھرا نہیں
اس نے اپنے درد کے قابل مجھے سمجھا نہیں
شہرِِ دل میں آج کل ہے اس قدر گہرا سکوت
جیسے اس بستی میں کوئی آدمی رہتا نہیں