لاکھ ناداں ہیں مگر اتنی سزا بھی نہ مِلے
چارہ سازوں کو مِری شامِ بلا بھی نہ ملے
حسرت آگیں تو ہے ناکامیٔ منزل، لیکن
لطف تو جب ہے کہ خود اپنا پتا بھی نہ ملے
کچھ نگاہوں سے غمِ دل کی خبر ملتی ہے
ورنہ ہم وہ ہیں کہ باتوں سے ہوا بھی نہ ملے
لاکھ ناداں ہیں مگر اتنی سزا بھی نہ مِلے
چارہ سازوں کو مِری شامِ بلا بھی نہ ملے
حسرت آگیں تو ہے ناکامیٔ منزل، لیکن
لطف تو جب ہے کہ خود اپنا پتا بھی نہ ملے
کچھ نگاہوں سے غمِ دل کی خبر ملتی ہے
ورنہ ہم وہ ہیں کہ باتوں سے ہوا بھی نہ ملے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو لوگ طاعت خیرالانام کرتے ہیں
وہی تمیزِ حلال و حرام کرتے ہیں
حسیں نظر ہو تو ہر چیز بات کرتی ہے
شکستہ آئینہ خآنے بھی کام کرتے ہیں
دلوں میں جن کے ہیں جذبات سرفرازی کے
صلیب و دار بھی ان کو سلام کرتے ہیں
سچ تمہارا دشمن ہے
کاٹو میرے ذہن کو آ کر
لاؤ چھری، خنجر، تلواریں
یہ ذہن تمہارا دشمن ہے
یہ ذہن تمہاری سوچ کے
بند کواڑوں پہ اکثر
کوندا بن کے چمکتا ہے
اولاد علیؑ ہیں یہ ڈرتے نہیں ہیں
منافق کبھی ساتھ رکھتے نہیں ہیں
ملا ہے ہمیں کربلا سے یہ منصب
نبھاتے ہمیشہ ہیں، ٹلتے نہیں ہیں
یہ اعوان ہونا بھی مشکل بڑا ہے
یہاں سر بھی کٹتے ہیں جھکتے نہیں ہیں
جو تیر آج تک نہ کمانوں پہ آئے ہیں
جب زہر میں بجھے تو نشانوں پہ آئے ہیں
ہیں در بدر، پہ اب کے نہیں تابِ گمرہی
کچھ گیت بن کے گُنگ زبانوں پہ آئے ہیں
صیاد! تیرے دامِ محبت کی خیر ہو
بیخود شکار خود ہی نشانوں پہ آئے ہیں
باہر تو کر رہا ہوں میں آرائشیں بہت
اندر ہیں پر مکان کے آلائشیں بہت
تو ہے کہ تیرے ساتھ ہیں آسائشیں بہت
میں ہوں کہ میرے ساتھ مِری خواہشیں بہت
نقش و نگار کیا یہاں دیوار و در نہیں
شاید کہ اس مکاں پہ رہیں بارشیں بہت
یہاں اپنا بنا کر ہی سبھی انکار کرتے ہیں
چلو ہم بھی محبت کا ہی کاروبار کرتے ہیں
بھروسہ کیسے کر پاؤ گے تم بے دین لوگوں کا
یہاں پر سب منافق ہیں کھلا اقرار کرتے ہیں
بتاتے ہیں سبھی منزل کا الٹے ہی طریقے سے
بھلا ایسے ستم بھی دین کے غمخوار کرتے ہیں؟
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
توحید کا دِیا ہے، اجالا علیؑ کا ہے
امکان کی حدوں پہ اجارہ علی کا ہے
روزِ الست جس نے کہا تھا علی علی
اس کی زباں پہ آج بھی نعرہ علی کا ہے
انگلی پکڑ کے جس کی چلے فخرِ انبیاء
منبع ہدایتوں کا وہ بابا علی کا ہے
زمین و آسماں بدلے ہوئے ہیں
وہ جب سے مہرباں بدلے ہوئے ہیں
یقیں، وہم و گُماں بدلے ہوئے ہیں
یہاں سب این و آں بدلے ہوئے ہیں
ہوائے تُند جب سے چل پڑی ہے
پرندے آشیاں بدلے ہوئے ہیں
جس سے بندھے تھے دونوں، وہ غم نہیں رہے ہیں
تم، تم نہیں رہے ہو، ہم، ہم نہیں رہے ہیں
لمحوں کے پیڑ پر ہیں، کچھ پھول درد و غم کے
جیون میں اب خوشی کے موسم نہیں رہے ہیں
راہوں میں اب کھڑا ہوں، پھیلائے ہاتھ خالی
غم تھے میرا اثاثہ، اور غم نہیں رہے ہیں
ہر احتیاط ضروری ہے زندگی کے لیے
سکوں اسی میں ہے در اصل آدمی کے لیے
غم و خوشی سے پرے ہو گی جب نظر تیری
کبھی نہ ترسے گا لمحاتِ زندگی کے لیے
یہ فیضِ علم و ہنر اور ضیائے شمس و قمر
طلب اگر ہو تو کافی ہے روشنی کے لیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سوال
خزاں گزیدہ ہوں صبر و قرار دے ربی
مِرے چمن کو متاعِ بہار دے ربی
زمیں کی کوکھ سلگتی ہے ایک مدت سے
کرم کی بارشیں اب تو اتار دے ربی
مِرے لہو میں اناؤں کی آگ روشن رکھ
میں زندہ ہوں یہ مجھے اعتبار دے ربی
سینے میں اس کے اک دل درد آشنا تو ہے
وہ فلسفی نہیں ہے مگر سوچتا تو ہے
تازہ ہوا سے کہہ دو چلی آئے بے خطر
در بند ہے ضرور دریچہ کھلا تو ہے
قسمت پہ ناز کیوں نہ کروں مدتوں کے بعد
تم سا رہِ حیات میں ساتھی ملا تو ہے
نہیں ہے گرچہ خزاں، پھول دستياب نہیں
لگا دو آگ، جہاں پھول🎕 دستياب نہیں
یہ دشتِ دل ہے یہاں صرف ریت اگتی ہے
وگرنہ آج کہاں پھول🎕 دستياب نہیں
میں سارے شہر کا چکر لگا کے آیا ہوں
کسی جگہ پہ یہاں پھول🎕 دستياب نہیں
پچھلے زخموں کا ازالہ نہ ہی وحشت کرے گا
تجھ سے واقف ہوں مِری جاں تو محبت کرے گا
میں چلا جاؤں گا دنیا سے سکندر کی طرح
اگلی صدیوں پہ مِرا نام حکومت کرے گا
دل تِری راہ اذیت سے پلٹنے کو ہے
کیا تو اب بھی نہ مِرا خواب حقیقت کرے گا
مارا اس شرط پہ اب مجھ کو دوبارہ جائے
نوکِ نیزہ سے مِرا سر نہ اتارا جائے
شام سے پہلے کسی ہجر میں مر جائے گا
سورج اک بار مِرے دل سے گزارا جائے
اس کی یہ ضد کہ مِرا قتل پس پردہ ہو
مِری خواہش مجھے بازار میں مارا جائے
یہ نہ سمجھو ضبطِ غم سے دم مِرا گھٹتا نہیں
گھر سے باہر کیسے نکلوں، کوئی دروازہ نہیں
تپ کے غم کی آگ میں جب تک کہ دل نکھرا نہیں
اس نے اپنے درد کے قابل مجھے سمجھا نہیں
شہرِِ دل میں آج کل ہے اس قدر گہرا سکوت
جیسے اس بستی میں کوئی آدمی رہتا نہیں