عدنان مجھ سے وقت نے جب کُھل کے بات کی
مجھ پر تمام گِرہیں کُھلیں کائنات کی
ترتیب دے رہا ہوں میں رستوں کے پیچ و خَم
آئینہ ہو رہی ہے روِش شش جہات کی
بینائی جانتی ہے کہ آنکھوں کی ڈور سے
لمبائی ماپتے ہیں مِرے خواب، رات کی
ہم دکھ کی گھاٹیوں سے نِکل آئے تھے مگر
سرحد نہ پار ہو سکی ہم سے حیات کی
کون و مکان کم ہیں مِرے دل کے سامنے
تفصیل پوچھتے ہو مِری خواہشات کی
ہم جستجو کے سائے میں چلتے رہیں یونہی
گُتّھی سُلجھ نہ پائے حیات و ممات کی
یک دم دھڑکنا بھول گیا اس کو دیکھ کر
آنکھوں نے دل کے ساتھ عجب واردات کی
اس بار اپنے عکس کو تجسیم کر لِیا
اس بار آئینے سے ذرا کُھل کے بات کی
ہر موج زخم زخم ہے عدنان پیاس میں
کیسے لکھے گا کوئی کہانی فرات کی
عدنان منور
No comments:
Post a Comment