Tuesday 6 February 2018

یہ جو رہ رہ کے سر دشت ہوا چلتی ہے

یہ جو رہ رہ کے سرِ دشت ہوا چلتی ہے
کتنی اچھی ہے مگر کتنا برا چلتی ہے
ایک آسیب تعاقب میں لگا رہتا ہے
میں جو رکتا ہوں تو پھر اس کی صدا چلتی ہے
ہائے وہ سانس کہ رکتی ہے تو کیا رکتی ہے
ہائے وہ آنکھ کہ چلتی ہے تو کیا چلتی ہے
پیش خیمہ ہے کسی اور نئی وحشت کا
یہ جو اِترا کے ابھی بادِ صبا چلتی ہے
تیر چلتے ہیں لگا تار سوادِ جاں میں
اور تلوار کوئی ایک جدا چلتی ہے
بیچ دریا کے عجب جشن بپا ہے یارو
ساتھ کشتی کے کوئی موجِ بلا چلتی ہے
آج کچھ اور ہی منظر ہے مِرے چاروں طرف
غیر محسوس طریقے سے ہوا چلتی ہے
میں بظاہر تو ہوں آسودہ پہ میرے اندر
دھیمے دھیمے سے کہیں آہ و بکا چلتی ہے
یوں تو بے باک بنا پھرتا ہے وہ یاروں میں
اس کی آنکھوں میں عجب شرم و حیا چلتی ہے
میرے مولا جو رہے صرف کہا تیرا رہے
میرے ہونٹوں پہ یہی ایک دعا چلتی ہے

لیاقت جعفری

No comments:

Post a Comment