Monday, 5 January 2015

مالا والا بندی وندی جھومر وومر کیا

 مالا والا، بِندی وِندی، جھومر وومر کیا

زیور تیرا چہرہ تجھ کو زیور ویور کیا

کام زباں سے ہی لیتے ہیں سارے مہذب لوگ

طنز کا اک نشتر کافی ہے پتھر وتھر کیا

اول تو ہم پیتے نیٔں ہیں، گر پینا ٹھہرے

تیری آنکھوں سے پی لینگے ساغر واغر کیا

جیون اک چڑھتا دریا ہے ڈوب کے کر لے پار

اس دریا میں کشتی وشتی، لنگر ونگر کیا

مال وال کس شمار میں ہے جان وان کیا شۓ

سر میں سودا سچ کا سما جائے تو سر ور کیا

تجھ کو دیکھا جی بھر کے اور آنکھیں ٹھنڈی کر لیں

گُل وُل کیا، گُلشن کیا، اور منظر ونظر کیا

زیب کہو؛ اللہ کرے فردوسِ بریں میں مکاں

شعر ویر یہ غزل وزل کیا مُضطر وضطر کیا


مجاز مضطر

No comments:

Post a Comment