Saturday, 1 February 2025

خرد کا کینوس آخر بڑھا ہے

 خِرد کا کینوس آخر بڑھا ہے

قدِ آدم گھٹا تو کیا ہوا ہے

بسوں میں صبح کا سورج نکل کر

اندھیری فائلوں میں کھو گیا ہے

ہتھوڑے پر ہے محنت رقص فرماں

مشینوں سے ترنم پھوٹتا ہے

میں بے زبان ہوں اسے خو ہے سوال کی

 میں بے زبان ہوں اسے خو ہے سوال کی

کیسے نکل سکے کوئی صورت وصال کی

کیسے بتاؤں میں کہ وہ کتنا حسین ہے

عاجز ہیں وسعتیں مِرے خواب و خیال کی

اتنا وہ میری ذات سے غافل کبھی نہ تھا

شاید خبر نہ ہو گی اسے میرے حال کی

آگ زخموں کی جلا کر دیکھو

 آگ زخموں کی جلا کر دیکھو

جی کو اک روگ لگا کر دیکھو

کتنی معصوم ہے روداد حیات

خود کو آسیب بنا کر دیکھو

شکوۂ نیم نگاہی ہے غلط

پھر تو چہرہ ہی ملا کر دیکھو

یادوں کے انبار لگے تھے

 یادوں کے انبار لگے تھے

خالی پیکٹ بھرے پڑے تھے

جانے کون سا دکھ حاوی تھا

جانے کیوں اتنا ہنستے تھے

اس بیزار گلی سے ہو کر

ہم اکثر آتے جاتے تھے