Friday, 28 February 2025

شکوہ کی بات ہے نہ شکایت کی بات ہے

 شکوہ کی بات ہے نہ شکایت کی بات ہے

آپس کی گفتگو ہے محبت کی بات ہے

ایثار چاہتی ہے محبت بہ نام ترک

اب امتحان ظرف ہے ہمت کی بات ہے

بتخانے میں بھی نور خدا دیکھتا ہوں میں

جی ہاں یہ میرے حسنِ عقیدت کی بات ہے

جو چاند کی طرح تھا رخ یار ہے کہاں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

ایک احساس (مسجد نبوی کے زیر سایہ)


جو چاند کی طرح تھا رخ یار ہے کہاں

پھیلی تھی جس کی چاندنی، وہ پیار ہے کہاں

کر دے جو دور روح کا آزار ہے کہاں

وہ دوست اب کہاں، وہ غمخوار ہے کہاں

جلووں سے جس کے دل کو نئی زندگی ملی

اے دل! خبر تو دے مِرے دلدار ہے کہاں

سوا خدا کے یہاں کون سننے والا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سوا خدا کے یہاں کون سننے والا ہے

خموشیوں کی زباں کون سننے والا ہے

کسے سناتے ہو ان برف کے جزیروں میں

یہ آہِ سرد میاں! کون سننے والا ہے؟

خدا کو چھوڑ کے اس بے حسوں کی بستی میں

ہمارے غم کا بیاں کون سننے والا ہے؟

الفت کی اگر روداد سنو تو میرا فسانہ کافی ہے

 الفت کی اگر روداد سنو تو میرا فسانہ کافی ہے

ہاں ذکر جفائے دوست نہیں بیداد زمانہ کافی ہے

دنیا کو بھلا ہم کیا دیں گے خود دست نگر ہیں ہم ان کے

کچھ ان پہ تصدق کرنا ہو تو غم کا خزانہ کافی ہے

اس دور جنوں میں اپنا پتہ ہم اس کے سوا کیا سمجھائیں

اک نقش قدم سجدوں کے نشاں بس اتنا ٹھکانہ کافی ہے

Thursday, 27 February 2025

صرف کافی نہیں فنا مجھ کو

 صرف کافی نہیں فنا مجھ کو

عشق! کچھ اور بھی سکھا مجھ کو

یاں تو ہر شکل میری شکل پہ ہے

تُو کہیں اور بھیجتا مجھ کو

تیرا پرتو ہوں، تیرا عکس ہوں میں

مت کسی اور سے ملا مجھ کو

لائے گا رنگ جذبۂ ایثار دیکھنا

 لائے گا رنگ جذبۂ ایثار دیکھنا

آنے دو وقت ہم کو سرِ دار دیکھنا

جاتی ہے جان جائے مگر یار دیکھنا

اٹھنے نہ پائے پردۂ اسرار دیکھنا

چہرے سے تم نقاب اٹھاتے تو ہو مگر

غش کھا نہ جائیں ظالبِ دیدار دیکھنا

میں افشا آج راز حسن مہر و ماہ کرتا ہوں

 میں افشا آج راز حُسنِ مہر و ماہ کرتا ہوں

دلِ عالم کو ذوقِ عشق سے آگاہ کرتا ہوں

بنے کیوں مانعِ قصدِ سفر دشواریِ منزل

تِرے نقشِ قدم کو میں چراغِ راہ کرتا ہوں

نہ آنکھوں میں رہے آنسو نہ لب پر ہی رہے نالے

محبت کی ستم انگیزیوں پر، واہ کرتا ہوں

دوست میرے ہی مجھے دشمن جاں لگتے ہیں

 دوست میرے ہی مجھے دشمنِ جاں لگتے ہیں

لفظ و لہجے بھی مجھے تیر و کماں لگتے ہیں

صرف تجھ تک نہیں موقوف تیرا حسن و جمال

کم تجھے دیکھنے والے بھی کہاں لگتے ہیں

جو ترے قول مری راحتِ جاں تھے پہلے

اب وہ سب قول مجھے آہ و فغاں لگتے ہیں

بس ایک قطرہ ہوں میں کوئی جھیل تھوڑی ہوں

 بس ایک قطرہ ہوں میں کوئی جھیل تھوڑی ہوں

نہیں ہوں سب کو مہیا، سبیل تھوڑی ہوں

مرے سہارے پہ وحشت کا بول بالا ہے

میں خاکِ عشق ہوں شاہی فصیل تھوڑی ہوں

میں کیسے پریوں کے اجسام پاک کر پاتا

میں اک فضول کنارہ ہوں جھیل تھوڑی ہوں

Wednesday, 26 February 2025

فرش مہکے ہے رہگزر مہکے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


فرش مہکے ہے رہگزر مہکے

تیری آمد سے بحر و بر مہکے

آئی میلادِ مصطفیٰﷺ کی گھڑی

چھٹ گئیں ظلمتیں، سحر مہکے

تیرے صدقے ہے نعمتِ کونین

تیرے صدقے میں تاجور مہکے

راہ تکتے ہیں کس کی گھڑی در گھڑی

 راہ تکتے ہیں کس کی گھڑی در گھڑی

بیتی جاتی ہے جیسے صدی در صدی

درد ہے دل میں جو بہہ نہ جائے کہیں

ہم بہاتے نہیں اشک اپنے کبھی

روزگار اب نجومی تو اپنا بدل

کیا ستارے باتائیں گے قسمت مِری

Tuesday, 25 February 2025

جو مجھ میں شے ہے ابھی کے ابھی نکالتا ہوں

 جو مجھ میں شے ہے ابھی کے ابھی نکالتا ہوں

میں دل نچوڑ کے سب روشنی نکالتا ہوں

مِرے وجود سے تب لا وجود بولتا ہے

میں اپنے بھید سے جب شاعری نکالتا ہوں

میں موسموں کو سکھاتا ہوں ضبط کے معنی

پھر ایک پیڑ سے سب خامشی نکالتا ہوں

نہیں ہے مجھ کو تمنا فریب کھانے کی

 نہیں ہے مجھ کو تمنا فریب کھانے کی

اگر ہے چاہ تو بس تم کو بھول جانے کی

بدل کے چھوڑیں گے کہنہ روش زمانے کی

وفا جو ہم سے کبھی عمرِ بے وفا نے کی

ہزار بار جنہیں آزما کے دیکھا ہو

سعی فضول ہے پھر ان کو آزمانے کی

موسم گل میں بھی گل نذر خزاں ہیں سارے

 موسم گل میں بھی گل نذر خزاں ہیں سارے

مطمئن کوئی نہیں، محوِ فغاں ہیں سارے

ہوش مندی سے قدم آگے بڑھاؤ لوگو

اپنی جانب ہی کھنچے تیر و کماں ہیں سارے

چہچہانے کی صدا آئی تھی کل تک جن سے

جانے کیوں آج وہ خاموش مکاں ہیں سارے

Monday, 24 February 2025

سچ بات بتاتے تھے خریدار سے پہلے

 سچ بات بتاتے تھے خریدار سے پہلے

ایمان کے تاجر نہ تھے بازار سے پہلے

وہ وقت بھی کیا وقت تھا جب لوگ گھروں میں

قرآن پڑھا کرتے تھے اخبار سے پہلے

اس دورِ ترقی کا نتیجہ ہے کہ اب لوگ

کپڑوں پہ نظر رکھتے ہیں کردار سے پہلے

خیالوں میں ہیں تاجدار مدینہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


خیالوں میں ہیں تاجدار مدینہ

دکھا دے خدا پھر دیار مدینہ

سماعت میں کلمے کی وہ چاشنی ہے

نگاہوں میں ہے مرغزارِ مدینہ

چہکتے ہیں مے کس، کھنکتے ہیں پیالے

جوانی پہ ہے آبشارِ مدینہ

اہل دنیا کی طرح سوچا نہ کر

 اہل دنیا کی طرح سوچا نہ کر

چاہتوں کو اس طرح رسوا نہ کر

کون دکھ میں ساتھ دیتا ہے بھلا؟

درد و غم کا برملا چرچا نہ کر

چاند راتوں کی خبر دیتا ہے یہ

ڈوبتے سورج سے گھبرایا نہ کر

لٹ جائے چمن گل کا تبسم نہیں بکتا

 لٹ جائے چمن گل کا تبسم نہیں بکتا

سو دام ہوں بلبل کا ترنم نہیں بکتا

بک جاتا ہے زردار کی الفت کا تیقن

نادار کی چاہت کا توہم نہیں بکتا

بڑھتی ہے بڑھے گرمئ بازار ہوس کی

لب بکتے ہیں اے دوست تبسم نہیں بکتا

کتاب شوق میں ان بند باب آنکھوں کو

 کتاب شوق میں ان بند باب آنکھوں کو

نہ سہل جان مِری جان خواب آنکھوں کو

میں اب بھی پڑھتا ہوں تزئین شعر و فن کے لیے

تمام رات تِری خوش نصاب آنکھوں کو

قلم امانت حق تھا سو لکھ دیا میں نے

شگفتہ لمس لبوں کو شراب آنکھوں کو

عشق میں اشک جو بہاتے ہو

 عشق میں اشک جو بہاتے ہو

آگ پانی کو تم ملاتے ہو

سارے پکوان پھر لگیں پھیکے

ہونٹ جب ہونٹ سے لگاتے ہو

ایک کانٹے سے پھول نے بولا

شکریہ تم مجھے بچاتے ہو

Sunday, 23 February 2025

آنکھوں کا شور خون کی گنگا اتر گیا

 آنکھوں کا شور خُون کی گنگا اُتر گیا

اس غم نے کاٹ کھایا کہ دل بے ہُنر گیا

گل مہر پہ خزاں نے لگائی ہے غم کی مہر

تیتر کھنڈر پہ شاخ کی سِسکاری بھر گیا

چھاؤں میں چاند کے تھا مِرے ساتھ ایک نُور

سُورج گِرا جو سر پہ ستارا مُکر گیا

مدح خواں کیوں نہ ہوں صبح و شام آپ کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مدح خواں کیوں نہ ہوں صبح و شام آپ کا

یا نبیﷺ میں ہوں ادنیٰ غلام آپ کا

جن و انساں، ملائک، خلاق سبھی

کرتے ہیں یا نبیﷺ احترام آپ کا

آپ کی ذات رحمت ہے سب کے لیے

دونوں عالم پہ ہے لطف عام آپ کا

کوئی منتر تو بتا ایسا فسوں ہو جائے

 کوئی منتر تو بتا، ایسا فسوں ہو جائے

میرے قدموں میں وہ محبوب نگوں ہو جائے

ایک ہی پھونک سے ہو جائے وہ دیوانہ مِرا

اک مِرے قُرب کا غافل کو جنوں ہو جائے

اس کو بھی میری طرح چین نہ آئے پل بھر

ایسا تڑپے کہ مِرے دل کو سکوں ہو جائے

Saturday, 22 February 2025

فصل گل بھی آئی ہے اور پون بھی سنکی ہے

 فصل گل بھی آئی ہے اور پون بھی سنکی ہے

پھر بھی ان فضاؤں میں کیفیت جلن کی ہے

کیا پتہ کہ یہ کس کے پیار کا جنازہ ہے؟

لوگ یوں تو کہتے ہیں؛ پالکی دُلہن کی ہے

اف یہ کیسا صحرا ہے، ہائے کس کی تُربت ہے

آپ یہ کلی تنہا جانے کس چمن کی ہے

آتا اگر بغل میں بوتل دبائے واعظ

 آتا اگر بغل میں بوتل دبائے واعظ

مستی میں چوم لیتے ہم بڑھ کے پائے واعظ

بندے ہیں سب اسی کی امیدوار رحمت

رندوں کا بھی وہی ہے جو ہے خدائے واعظ

آیا ہے پی کے شاید لکنت زبان میں ہے

چلنے میں بھی نہیں ہیں قابو میں پائے واعظ

خود جن کی نظر ہے رسن و دار کے آگے

 خود جن کی نظر ہے رسن و دار کے آگے

وہ سر نہ جھکیں گے کبھی تلوار کے آگے

مل جائے مِری عمر انہیں قافلے والو

جانا ہے جنہیں منزلِ دشوار کے آگے

ایک اور بھی دیوارِ تمدن ہے شکستہ

تہذیب کی گرتی ہوئی دیوار کے آگے

یہ بازار محبت ہے یہاں نفرت نہیں ملتی

یہ بازارِ محبت ہے یہاں نفرت نہیں ملتی

جہاں خورشید ہوتا ہے وہاں ظلمت نہیں ملتی

ہجوم مردماں میں اجنبی بھی ہیں شناسا بھی

کوئی بستی کہ جس سے دل کو ہو رغبت نہیں ملتی

دلِ پُر درد بھی اک خاص عطا ہوتی ہے مالک کی

کہ اس دنیا میں ہر سینے کو یہ دولت نہیں ملتی

Friday, 21 February 2025

چمن میں آگ لگے آشیاں رہے نہ رہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


چمن میں آگ لگے آشیاں رہے نہ رہے

تِری بہار رہے گی ، خزاں رہے نہ رہے

حضورﷺ! آپ کا دستِ کرم دراز رہے

کہ سر پہ سایۂ ہفت آسماں رہے نہ رہے

سہارہ آپ کی رحمت کا ہے بہت ہم کو

بروزِ حشر کوئی مہرباں رہے نہ رہے

کہوں کس طرح کیا غضب بولتے ہیں

 کہوں کس طرح کیا غضب بولتے ہیں

برستے ہیں شعلے وہ جب بولتے ہیں

اگر وقت آیا تو سب چپ رہیں گے

ابھی لاکھ بڑھ چڑھ کے سب بولتے ہیں

وہی ان سے ہم بول اٹھیں تو کیا ہو

کہ جو ہم سے وہ روز و شب بولتے ہیں

وصل کی شب گزر نہ جائے کہیں

 وصل کی شب گزر نہ جائے کہیں 

تیرا بیمار مر نہ جائے کہیں 

یاد میں ان کی میرے اشکوں کا 

آج پیمانہ بھر نہ جائے کہیں 

شبِ فرقت ہے اور تنہائی 

دل کی دھڑکن ٹھہر نہ جائے کہیں 

Thursday, 20 February 2025

تری خدمات میں بیٹھے ہوئے ہیں

 تِری خدمات میں بیٹھے ہوئے ہیں

کہ سب اوقات میں بیٹھے ہوئے ہیں

چھپانا چاہتے ہیں اپنے آنسو

سو ہم برسات میں بیٹھے ہوئے ہیں

بہت دشوار ہے گھر سے نکلنا

عدو سب گھات میں بیٹھے ہوئے ہیں

ہے حرم کس کا کس کے بت خانے

 ہے حرم کس کا کس کے بت خانے

اس کو سمجھے ہیں کچھ تو دیوانے

زندگی کا مزا وہ کیا جانے

غم دئیے ہوں نہ جس کو دنیا نے

چشم مخمور ہیں وہ پیمانے

جن پہ قرباں ہزار مےخانے

سردیوں کی راتوں میں ایک دن کے بچے کو

 ماں اور کووڈ 19


سردیوں کی راتوں میں

ایک دن کے بچے کو

اپنے گرم ہاتھوں میں

گرم کر کے رکھتی ہے

ایک دن کے بچے کو

کچھ پتا نہیں ہوتا

فطرت نے کیا آپ کو ممتاز خدیجہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


فطرت نے کِیا آپ کو ممتاز خدیجہؑ

ایّامِ جفا جُو میں وفا ساز خدیجہؑ

سادات میں جس نور کی تقسیم ہوئی ہے

اس نورِ ابد تاب کا آغاز خدیجہؑ

وہ آپ ہیں جن کےلیے ہر ایک سے پہلے

ہوتا ہے سخی صحن کا در باز خدیجہؑ

Wednesday, 19 February 2025

نظر سے سب کی پنہاں ہے جو اندازِ نظر اپنا

 نظر سے سب کی پنہاں ہے جو اندازِ نظر اپنا

کہیں مٹی میں مل جائے نہ سب کسبِ ہنر اپنا

محیطِ سوزِ عالم ہے اگر سوزِ ہنر اپنا

بقدرِ وسعتِ دل چاہیے دردِ جگر اپنا

غزل گوئی کی تہمت کیوں مِرے ذوقِ جنوں پر ہی

نہیں منت کشِ رسمِ ہنر، ذوقِ ہنر اپنا

عبارت جو اداسی نے لکھی ہے

 عبارت جو اداسی نے لکھی ہے

بدن اس کا غزل سا ریشمی ہے

کسی کی پاس آتی آہٹوں سے

اداسی اور گہری ہو چلی ہے

اچھل پڑتی ہیں لہریں چاند تک جب

سمندر کی اداسی ٹوٹتی ہے

اپنے حقوق پر ہی نہیں ہے جو اختیار

 اپنے حقوق پر ہی نہیں ہے جو اختیار

ایسے نظامِ عدل پہ لعنت ہو بے شمار

اپنے پڑوس دیکھ، کسی کو نہ دیکھ یار

قابض نہیں ہوتے ہیں وہاں لوگ تین چار

آواز بھی اٹھاؤں تو کس کو سنے حضور

ہے چور بھی یہاں پہ ہمارا ہی چوکیدار

ماں باپ ہیں اک پیڑ ہے قرآن رکھا ہے

 ماں باپ ہیں، اِک پیڑ ہے، قرآن رکھا ہے

گھر میں جو ضروری ہے وہ سامان رکھا ہے

لگتا ہی نہیں دل کو سخن اور کسی کا

بس میر تقی میر کا دیوان رکھا ہے

پھر کون بلاتا ہے مجھے پیار کی جانب

یہ کس نے مِرے کمرے میں گُلدان رکھا ہے

حالات کے خداؤ وہ ملعون ہم ہی ہیں

 حالات کے خداؤ! وہ ملعون ہم ہی ہیں

حمدون ہم کو کہتے ہیں حمدون ہم ہی ہیں

گھبرا کے تشنگی سے جو اپنے کو پی گیا

خود گیر و خود شکار وہ مجنون ہم ہی ہیں

جس سے ملی ہے بانجھ دماغوں کو زندگی

اے ناقدِ حیات! وہ مضمون ہم ہی ہیں

نعت کا کتنا کشادہ باب ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جس میں اک عالم ہوا غرقاب ہے

نعتﷺ کا کتنا کشادہ باب ہے

دیکھ کر نقشِ کفِ پائے نبیﷺ

محوِ حیرت آج بھی مہتاب ہے

دیکھے ان کو آنکھ جھپکائے بغیر

کون ہے کس میں بھلا یہ تاب ہے

دکھ میں مژدہ بہار کا آیا

 دکھ میں مژدہ بہار کا آیا

یاد جب نقشہ یار کا آیا

بھول کر یاد کر لیا دل نے

پھر نہ پل بھر قرار کا آیا

جب نہ پیغام یار کا آیا

رونا تب بار بار کا آیا

Tuesday, 18 February 2025

خوشبو کا جسم یاد کا پیکر نہیں ملا

 خوشبو کا جسم، یاد کا پیکر نہیں ملا

دل جس سے ہو شگفتہ وہ منظر نہیں ملا

آخر بجھاتا کیسے وہ اپنی لہو کی پیاس

تلوار مل گئی تو کوئی سر نہیں ملا

ناگاہ دوستوں کی طرف اٹھ گئی نگاہ

جب دشمنوں کے ہاتھ میں خنجر نہیں ملا

اسی سے عشق کا اظہار کر کے آیا ہوں

 اسی سے عشق کا اظہار کر کے آیا ہوں

جو بے خبر تھا خبردار کر کے آیا ہوں

بڑی عجیب سی حالت ہوئی اس دل کی

صنم کا جب سے میں دیدار کر کے آیا ہوں

بڑے غرور سے کہتا ہے ایک بوڑھا باپ

میں اپنی نسل کو خود دار کر کے آیا ہوں

کیسے کھینچوں تری تصویر تو گم ہے اب تک

 منزل کے نام


کیسے کھینچوں تِری تصویر تو گُم ہے اب تک 

تجھ کو اے جان جہاں میں نے تو دیکھا بھی نہیں 

جب کبھی ابرِ شبِ مہ میں اُڑا جاتا ہے 

آبشاروں سے صدا آتی ہے چھن چھن کے کہیں 

یا کبھی شام کی تاریکی میں تنہائی میں 

جب کبھی جلوہ جھلکتا ہے تِری یادوں کا 

علامہ اقبال سینہ تھا ترا بام مشرق و مغرب کا خزینہ

 علامہ اقبال


سینہ تھا تِرا بام مشرق و مغرب کا خزینہ

دل تھا تِرا اسرار و معارف کا دفینہ

ہر شعر تِِرا بام ترقی کا ہے زینہ

مانند مہِ نو تھا فلک سیر سفینہ

اس ساز کے پردے میں تھی عرفان کی آواز

کیا عرش سے ٹکرائی ہے انسان کی آواز

Monday, 17 February 2025

فلک سے چاند ستارے سلام کہتے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


فلک سے چاند ستارے سلام کہتے ہیں

حضورﷺ امتی سارے سلام کہتے ہیں

بساط کیا ہے ہماری جب آپ کو سرکارؐ

قرآن کے پارے سلام کہتے ہیں

سلام کے لیے شاخیں جھکی ہوئی ہیں حضورؐ

جو ان پہ پھول ہیں سارے سلام کہتے ہیں

ہر اک قدم پہ عشق میں رسوائیاں ملیں

 ہر اک قدم پہ عشق میں رسوائیاں ملیں

برگشتہ مجھ ہی سے مِری پرچھائیاں ملیں

پھرتی رہی سکون کی خاطر میں در بدر

جس سمت بھی گئی، مجھے تنہائیاں ملیں

دل میں تو ہم نے جھانک کے دیکھا نہیں کبھی

آنکھوں میں اُس کی جھیل سی گہرائیاں ملیں

بے وفا ہے وہ کبھی پیار نہیں کر سکتا

 بے وفا ہے وہ کبھی پیار نہیں کر سکتا

ہاں مگر پیار سے انکار نہیں کر سکتا

اپنی ہمت کو جو پتوار نہیں کر سکتا

وہ سمندر کو کبھی پار نہیں کر سکتا

جو کسی اور کے جلووں کا تمنائی ہو

وہ کبھی بھی ترا دیدار نہیں کر سکتا

نہیں نہیں ہے مجھے اعتبار شیشے پر

 نہیں نہیں ہے مجھے اعتبار شیشے پر

پڑا ہی رہنے دو گرد و غُبار شیشے پر

تُو جا رہا ہے تو یہ آئینہ بھی لیتا جا

نظر پڑے گی مِری بار بار شیشے پر

ہُوا ہے چُور تو بکھری پڑی ہے خاکِ بدن

رکھا تھا کس نے یہ اپنا مزار شیشے پر

میرے دشمن تجھے نفرت کی قبا سجتی ہے

 پھول کو رنگ ستارے کو ضیا سجتی ہے

میرے دشمن تجھے نفرت کی قبا سجتی ہے

درد تھم جاتا ہے کچھ دیر کو تسکیں پا کر

آنچ دیتے ہوئے زخموں پہ انا سجتی ہے

شاخ کیسی بھی ہو پھولوں سے حسیں لگتی ہے

روپ کیسا بھی ہو ہونٹوں پہ دعا سجتی ہے

کیا غم ہے اگر بے سر و سامان بہت ہیں

 کیا غم ہے اگر بے سر و سامان بہت ہیں

اس شہر میں کردار کے دھنوان بہت ہیں

چاہو تو تغافل کے نئے تیر چلاؤ

ٹوٹے ہوئے دل میں ابھی ارمان بہت ہیں

دزدیدہ نگاہی یہ حیا بار تبسم

اس بزم میں لٹ جانے کے امکان بہت ہیں

Sunday, 16 February 2025

تو احد ہے تو صمد ہے تو ہی بے مثال بھی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تُو احد ہے تُو صمد ہے تُو ہی بے مثال بھی ہے

تُو حفیظِ اہلِ حق ہے،۔ شہِ ذوالجلال بھی ہے

جو ہے دن نکلنا ڈھلنا مِری یہ سمجھ میں آیا

کہ عروج ہے کسی کو اسے پھر زوال بھی ہے

تُو جو چاہے پتھروں کو زر و سیم میں بدل دے

ہے یقین مجھ کو آقا تِرا کمال بھی ہے

اشک آنکھوں میں آ کر سجانے لگی

 اشک آنکھوں میں آ کر سجانے لگی

تیرے غم کی ادا دل لُبھانے لگی

ہم تھے مدہوش ہم کو خبر تھی کہاں

زندگی کب غزل گُنگنانے لگی

ہم نے سوچا تھا یکسر بھُلا دیں تمہیں

دل جو تڑپا تو پھر یاد آنے لگی

چہرے پہ کوئی رنگ ٹھہرنے نہیں دیتا

 چہرے پہ کوئی رنگ ٹھہرنے نہیں دیتا

غم مجھ کو کسی طور سنورنے نہیں دیتا

ہر لحظہ تِری یاد کا بِپھرا ہوا طوفاں

دریائے محبت کو اُترنے نہیں دیتا

اے شہرِ سلاسل! تِرا انصاف کا وعدہ

پژمُردہ اُمیدوں کو بھی مرنے نہیں دیتا

یوں چلی ہے ہوا وطن میں اداس

 یوں چلی ہے ہوا وطن میں اداس 

سانس چلتے ہیں اب بدن میں اداس 

ننگے پاؤں رواں دواں ہے جنوں 

آزمائش کی اس اگن میں اداس 

سازشی موسموں کی جیت ہوئی 

غنچہ و گل ہوئے چمن میں اداس 

لگا سنگین سا الزام کوئی

 لگا سنگین سا الزام کوئی

ملے ہر شخص کو پیغام کوئی 

تجھے معلوم ہو پھر دکھ ہمارا

تِرے آنگن میں اترے شام کوئی 

دو عالم بے خودی میں رقص میں ہوں 

ہمارے ہاتھ میں ہو جام  کوئی 

پلکوں پہ سج رہے ہیں جو موتی نہ رولیے

 پلکوں پہ سج رہے ہیں جو موتی نہ رولیے 

جوہر ہیں غم کے غم کے ترازو میں تولیے

شامِ غمِ فراق کے پہلو میں بیٹھ کر

آئی کسی کی یاد تو چپکے سے رو لیے

موندی گئیں جو آنکھیں تو آئے وہ دیکھنے

آ کر بھی کہہ نہ پائے کہ آنکھیں تو کھولیے

کتنے بوسیدہ ہیں حالات مسلمانوں کے

 کتنے بوسیدہ ہیں حالات مسلمانوں کے

دل دکھاتے ہیں یہاں فیصلے ایوانوں کے

اوڑھنا، اور بچھونا ہوا دولت ان کا

باعثِ شرم یہاں کام ہیں سلطانوں کے

یہ بھی محبوب کی یادوں میں مگن ہوں شاید

شیخ جی! آپ کیوں دشمن ہوئے دیوانوں کے

دل میں ہے اک سوزش درد تمنائے رسول

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل میں ہے اک سوزش درد تمنائے رسول

آنکھ میں ہے جوششِ صد رنگ صہبائے رسول

آبروئے رنگِ ساغر جوششِ صہبا سے ہے

کاش کہ میں بھی بنوں سرمستِ صہبائے رسول

کوئی کاشی کا پجاری،۔ کوئی کعبہ پر فدا

مجھ کو قسمت سے ملا ذوقِ کفِ پائے رسول

Saturday, 15 February 2025

شاخ گل پر آشیانہ چاہیے

 شاخ گل پر آشیانہ چاہیے

تھک چکی ہوں اب ٹھکانہ چاہیے

کاٹتی ہے اب یہ تنہائی مجھے

اک نیا پھر دوستانہ چاہیے

کون کب کس بھیس میں دے گا فریب

یہ پرکھنے کو زمانہ چاہیے

زندگی میں غم ہی غم ہیں اور تو ہے

 زندگی میں غم ہی غم ہیں اور تُو ہے

مرحلے کچھ دم بہ دم ہیں اور تو ہے

باغ میں جب پھول ہیں کانٹیں بھی ہوں گے

زندگی میں جیسے ہم ہیں اور تو ہے

آسماں میں جتنے ہیں یہ چاند تارے

عشق میں اتنے ستم ہیں اور تو ہے

حالات اب وطن کے المناک ہو گئے

 اذہان رہنماؤں کے ناپاک ہو گئے

حالات اب وطن کے المناک ہو گئے

نا اہل باغباں کی حفاظت میں ہے چمن

ارماں حسین پھولوں کے سب خاک ہو گئے

بندوق کی زبان سے کرنے لگے ہیں بات

کچھ لوگ میرے شہر کے سفاک ہو گئے

بھروسہ پھولوں کا کانٹوں کا اعتبار نہیں

 بھروسہ پھولوں کا کانٹوں کا اعتبار نہیں

تعینات کے خاکے ہیں یہ بہار نہیں

میں کیسے آپ کے وعدے کا اعتبار کروں

حضور جب مجھے خود اپنا اعتبار نہیں

مِرے شعور محبت کی جس سے ذلت ہو

خدا کے فضل سے ایسا مِرا شعار نہیں

ہے مکیں کوئی دوسرا مجھ میں

 ہے مکیں کوئی دوسرا مجھ میں

مجھ سے بھی کچھ ہے ماورا مجھ میں

شعلۂ طور جل بجھا مجھ میں

کاش مل جائے اب خدا مجھ میں

مجھ کو مجھ سے جدا کیا یعنی

اس نے خود کو ملا دیا مجھ میں

اگر سن لی خدائے پاک نے اگلے مہینے میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اگر سن لی خدائے پاک نے اگلے مہینے میں

میں اس دنیا کی جنت دیکھ آؤں گا مدینے میں

ہر اک شب سورۂ یٰسین پڑھ کر پھونک لیتا ہوں

میرے زخموں کا مرہم ہے تو بس قرآں کے سینے میں

ادا ہو پائے نہ جب سرورِ کونینﷺ کی سنت

بدن کانپے میرا، تھر تھر نہا جاؤں پسینے میں

فقط اک پل نہیں یہ عمر بھر دشوار ہوتا ہے

 فقط اک پل نہیں یہ عُمر بھر دُشوار ہوتا ہے

کسی کے غم میں جینا کس قدر دشوار ہوتا ہے

کسی کا ہمسفر ہونا،۔ کسی کا معتبر ہونا

بہت آساں سمجھتے ہو مگر دشوار ہوتا ہے

کسی کے قرب کا موسم، کسی کے وصل کا عالم

یہ ہو جائے اگرچہ مختصر، دشوار ہوتا ہے

Friday, 14 February 2025

امن عالم کی طلبگار ہوئی ہے دنیا

 امن عالم کی طلبگار ہوئی ہے دنیا

دیکھیے بر سرِ پیکار ہوئی ہے دنیا

سیم و زر کے لیے انسان بھی بک جاتے ہیں

کیا کوئی مصر کا بازار ہوئی ہے دنیا

درِ جاناں تو کوئی دور نہیں ہے لیکن

راستے کا مِرے دیوار ہوئی ہے دنیا

رکھتا ہے اپنے ساتھ گناہوں کا بار دل

 رکھتا ہے اپنے ساتھ گناہوں کا بار دل

اجلے سے میرے سینے میں ہے داغدار دل

تقویٰ سے گر بھرا ہو تو پھر نیکیوں کی سمت

اس طرح دوڑتا ہے کہ ہو شہسوار دل

ہیں آج سب کے سینوں میں پتھر رکھے ہوئے

برسائے آسمان سے پروردگار دل

ہر جگہ نظر آیا صاحب نظر تنہا

 ہر جگہ نظر آیا صاحب نظر تنہا 

قلب میں صدف کے بھی دیکھا ہے گہر تنہا 

بجھ سکے گی کتنوں کی پیاس خون سے میرے 

بے شمار تیغیں ہیں اور میرا سر تنہا 

فیض کچھ تِرا بھی تھا بخشش جنوں بھی تھی 

اک ہجوم تھا پیچھے ہم چلے جدھر تنہا 

کم نہ تھا اس گلی کے بھلانے کا غم

 کم نہ تھا اس گلی کے بھلانے کا غم

اس پہ بھاری رہا یاد آنے کا غم

عارضی تھی زمانے کی اک اک خوشی

دائمی تھا مگر اس کے جانے کا غم

ایک امید لاغر سی بے روح سی

آس کی ڈور کے ٹوٹ جانے کا غم

Thursday, 13 February 2025

سچ تو یہ ہے کہ اس کا خدا ہو گیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سچ تو یہ ہے کہ اس کا خدا ہو گیا

عشقِ احمدﷺ میں جو مبتلا ہو گیا

آپﷺ کی آمد آمد سے کونین میں

نور ہی نور کا سلسلہ ہو گیا

اس کی ٹھوکر میں ہے سطوتِ قیصری

جو غلامِ حبیبﷺ خدا ہو گیا

میں تیرا ہوں یہ کب جتایا کسی نے

 میں تیرا ہوں یہ کب جتایا کسی نے 

میں روٹھی رہی کب منایا کسی نے

مجھے اب کسی پر بھروسہ نہیں ہے 

محبت ہے دھوکہ سکھایا کسی نے 

کہاں تھا یہ ممکن کہ جیتے کوٸی بھی 

کہ اپنا بنا کے ہرایا کسی نے

تیرگیوں سے نکالا اس کو

 تیرگیوں سے نکالا اس کو 

جیسے ممکن تھا اُجالا اس کو 

کچھ زیادہ ہی اسے مان تھا سو 

پتلے پانی سے نکالا اس کو 

کتنے پانی میں ہے معلوم تو ہو

وقت آیا تو کھنگالا اس کو 

حسن نالاں ہے کیا کِیا جائے

 حسن نالاں ہے کیا کِیا جائے

عشق حیراں ہے کیا کِیا جائے

ماں تو پھر ماں تھی اور اس کے بغیر

گھر بھی زنداں ہے کیا کِیا جائے

ہجر ہے، چاند رات ہے، میں ہوں

اور گریباں ہے کیا کِیا جائے

یہ دور یہ قید سخت جیسے

 یہ دور یہ قید سخت جیسے

آویزش وہم و بخت جیسے

یہ دشت کی تیز تر ہوائیں

ٹوٹیں گے کئی درخت جیسے

اک شور فضا میں گونجتا ہے

آوازہ تاج و تخت جیسے

سلگتی ریت میں تلوے لہو لہو کرنا

 سلگتی ریت میں تلوے لہو لہو کرنا

پھر اس کے بعد گلابوں کی آرزو کرنا

اسے خبر نہیں میں کٹ چکا ہوں اندر سے

وہ چاہتا ہے مِرا پیرہن رفو کرنا

یہ مشغلہ نہیں مرہم ہے دل کے زخموں کا

تمام رات ستاروں سے گفتگو کرنا

Wednesday, 12 February 2025

تخلیق کائنات کا منشا رسول پاک

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تخلیق کائنات کا منشا رسول پاکﷺ

تکمیل خواہشات کا نقشہ رسول پاکﷺ

شیدا رسول پاکﷺ کا واجب الوجود

اور واجب الوجود کا شیدا رسول پاکﷺ

چھایا تھا کفریت کا اندھیرا چہار سمت

وحدانیت کا لائے اجالا رسول پاکﷺ

مطمئن ہو گئے ہیں اب غم سے

 مطمئن ہو گئے ہیں اب غم سے

زندگی کیا ہے پوچھیے ہم سے

ذرۂ دل 💗 کا حوصلہ توبہ

ذکر خورشید اور شبنم سے

ہم نے ہونٹوں کو سی لیا تھا مگر

کُھل گیا راز چشمِ پُر نم سے

امیدوار تو برگ و ثمر کے ہم بھی ہیں

 امیدوار تو برگ و ثمر کے ہم بھی ہیں

شجر نہ کاٹ کہ شاخِ شجر کے ہم بھی ہیں

یہ اور بات کہ دامن نہ مل سکا ہم کو

گِرے ہوئے تو کسی چشمِ تر کے ہم بھی ہیں

یہ اور بات ہماری خبر نہیں رکھتا

ہمیں خبر ہے کسی با خبر کے ہم بھی ہیں

فطرتاً مائل خطا ہوں میں

 فطرتاً مائل خطا ہوں میں

کون کہتا ہے پارسا ہوں میں

آفتوں میں گھرا ہوا ہوں میں

لذتِ غم سے آشنا ہوں میں

مٹھی بھر خاک ہی سہی لیکن

اس کی صنعت کی انتہا ہوں میں

دیے جلیں گے بجھیں گے ہوا کے آگے بھی

 دیے جلیں گے بجھیں گے ہوا کے آگے بھی

قدم تو رک نہیں سکتے فنا کے آگے بھی

خودی کا سجدہ نہ پہنچا درِ الٰہی تک

اڑا ہوا تھا کوئی سرِ انا کے آگے بھی

فقط زمین کی خبریں نہیں ہیں اپنے پاس

نگاہ رکھتے ہیں تحت الثریٰ کے آگے بھی

Tuesday, 11 February 2025

عبور کر نہ سکا میں غرور دریا کا

 عبور کر نہ سکا میں غرور دریا کا

ہے سرخیوں میں برابر قصور دریا کا

کسی پلک میں نمی تک نہیں رہی باقی

چلا گیا کہاں چہروں سے نور دریا کا

ہر ایک موج کی ہے نبض میرے ہاتھوں میں

میرے شعور میں ضم ہے شعور دریا کا

قاصد دل نہ سہی دشمن جاں بھیجتا ہے

 قاصد دل نہ سہی دشمن جاں بھیجتا ہے

عشق کے ضمن میں وہ کچھ تو یہاں بھیجتا ہے

بر سر بزم مہک تک سے جو آتا نہیں پاس

اپنی پوشش بھی وہ گل بعد ازاں بھیجتا ہے

کس طرح صلح کا امکان برآمد ہو بھلا

 اس کو سر نذر کریں تو وہ سناں بھیجتا ہے

Monday, 10 February 2025

سلام امت کی پہلی صف سلام اے تین سو تیرہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سلام امت کی پہلی صف، سلام اے تین سو تیرہ

سلام اصحاب میں اشرف، سلام اے تین سو تیرہ

سلام اے مطلعِ السابقون الاوّلوں تم پر

سلام اے خاصۂ اصحاب، اے خیرالقروں تم پر

سلام اے مومنینِ اولیں، اے تین سو تیرہ

سلام اے مسلمینِ بہتریں، اے تین سو تیرہ

بد گماں آج ساری محفل ہے

 بد گماں آج ساری محفل ہے

جانے کس راہ کس کی منزل ہے

حال دل ہم بیاں کریں کیسے

شہر کا مسئلہ مقابل ہے

عمر بیتی ہے میری صحرا میں

دور تک دریا ہے نہ ساحل ہے

روشنی ہو گی یہ امید جگائے رکھیے

 روشنی ہو گی یہ اُمید جگائے رکھیے

ایک چنگاری تو دل میں بھی بنائے رکھیے

تجھ سے چھُوٹا تو کسی اور کا مہماں ہو گا

اس لیے درد کو سینہ میں دبائے رکھیے

آپ کی شکل بھی پہچان سکے آئینہ

ایسی صُورت تو بہرحال بنائے رکھیے

ہر چند کہ انصاف کا خواہاں بھی وہی ہے

 ہر چند کہ انصاف کا خواہاں بھی وہی ہے

قاتل بھی وہی اور نگہباں بھی وہی ہے

بربادیٔ گلشن کا جو سامان بنا تھا

بربادیٔ گلشن پہ پشیماں بھی وہی ہے

ہے نسبت نومیدیٔ تاریکیٔ شب جو

اک مژدۂ امید فروزاں بھی وہی ہے

دشت غربت میں ہو یا منزل جاناں کے قریب

 دشتِ غُربت میں ہو یا منزلِ جاناں کے قریب

حادثے رہتے ہیں ہر دور میں انساں کے قریب

دُور ہو کر بھی وہ رہتا ہے رگِ جاں کے قریب

ہم گُنہ گار تو ہیں رحمتِ یزداں کے قریب

ایک مُدت ہوئی اُجڑے ہوئے دُنیائے سکون

آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں دلِ ویراں کے قریب

طوفاں نظر میں ہے نہ کنارا نظر میں ہے

 طوفاں نظر میں ہے نہ کنارا نظر میں ہے

اک عزم معتبر کا سہارا نظر میں ہے

وہ دن گئے کہ تیرگیٔ شب کا تھا ملال

اب جلوۂ سحر کا نظارا نظر میں ہے

حسن نمود صبح کا اللہ رے کمال

بہتا ہوا وہ نور کا دھارا نظر میں ہے

Sunday, 9 February 2025

چشم کرم جو آپ کی شاہ زمن پڑے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


چشم کرم جو آپ کی شاہِ زمنؐ پڑے

کشتِ ثمر یہ سایۂ باغِ عدن پڑے

خود منزلیں تھیں عازمِ طیبہ کی منتظر

راہِ طلب میں سینکڑوں کوہ و دمن پڑے

آنکھوں کے آئینے میں ہیں انوار اس طرح

شبنم پہ ماہتاب کی جیسے کرن پڑے

کسی مزار پہ آ کر وہ رو نہیں سکتا

 کسی مزار پہ آ کر وہ رو نہیں سکتا

یہ کوئی اور ہے وہ شخص ہو نہیں سکتا

بیانِ رنج و الم میرا سن رہا ہے، مگر

وہ میری آنکھ کے آنسو تو رو نہیں سکتا

یہی بہت ہے اگر میرے ساتھ ساتھ چلے

وہ میرے بخت کے پتھر تو ڈھو نہیں سکتا

دل کسی سے کہیں لگا رکھنا

 دل کسی سے کہیں لگا رکھنا

اپنے جینے کا مُدعا رکھنا

ہو نہ ہو گھر میں آئینہ لیکن

اپنے دل میں تو آئینہ رکھنا

کام آئے گا وقت رُخصت کے

ایک آنسو کہیں چُھپا رکھنا

زندگانی خراب کر ڈالی

 زندگانی خراب کر ڈالی

تھی حقیقت سراب کر ڈالی

اس کی آنکھوں نے وہ سوال کیے

ہر زباں لا جواب کر ڈالی

طاقِ نسیاں کی نذر کر دے گا

پیش کس کو کتاب کر ڈالی

سطح پس درون نئے نقش لائیے

 سطحِ پسِ درون نئے نقش لائیے

مجھ کو مِرے مزاج سے بہتر بنائیے

حکمِ غنی سے آئے تو ہم آ چکے بہت

لفظوں پہ التماس کی خُوشبو لگائیے

اپنی انا پہ ظُلم نہ کیجے مسافرین

کہہ کیوں رہے ہیں آپ کہ جاتے ہیں جائیے

لطف رب عالی نسب والا حسب زہرا لقب

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


لطف رب، عالی نسب، والا حسب، زہراؑ لقب

نُورِ چشم پاک سلطانِ عرب، زہرا لقب

آپؐ کا اسمِ گرامی اور یہ خاکی زباں

گُنگ ہے لہجہ مِرا بہر ادب، زہرا لقب

حامل راز و نیاز سرورﷺ کون و مکاں

سید عالمؐ کی راحت کا سبب، زہرا لقب

Saturday, 8 February 2025

کیا تیری سانسیں بھی میرے ہونے کی محتاج ہیں

 میں نے سوچا 

ایک دن تیری زندگی سے 

غائب ہو کر دیکھوں 

دیکھوں یہ کہ 

کیا تیری سانسیں بھی 

میرے ہونے کی محتاج ہیں 


عینی اسد

دور کہیں جا کر اک دنیا بسائیں ہم

 ماہیا٭/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے


کھو کر پائیں ہم

دور کہیں جا کر

اک دنیا بسائیں ہم


ہمت رائے شرما 

چار جانب زہر پھیلا جا رہا ہے

 لوٹ چلیے


چند لقمے، کچھ کتابیں

ایک بستر، ایک عورت

اور کرائے کا یہ خالی تنگ کمرا

آج اپنی زیست کا مرکز ہیں، لیکن

تیرگی کا غم انہیں بھی کھا رہا ہے

چار جانب زہر پھیلا جا رہا ہے

جینے کی کشمکش کا نتیجہ سمجھ لیا

 جینے کی کشمکش کا نتیجہ سمجھ لیا

جینا ہے موت، موت ہے جینا سمجھ لیا

یہ بھول میری ہی تھی کہ تشریح کے بغیر

میں نے ہر ایک شخص کو دھوکا سمجھ لیا

ہے کردگار کا ہی اداکار، اس لیے

شیطان کو بھی میں نے فرشتہ سمجھ لیا

عشق کو بار زندگی نہ کہو

 عشق کو بار زندگی نہ کہو

بات اتنی بھی بے تکی نہ کہو

دل کو جس میں ہو فکر سود و زیاں

اس تجارت کو عاشقی نہ کہو

کچھ تو مرنے کا حوصلہ دکھلاؤ

صرف جینے کو زندگی نہ کہو

مجھ کو جب بھی ملی خوشی سوہل

 مجھ کو جب بھی ملی خُوشی سوہل

چھین کر چل دی بے دلی سوہل

تنگ جب کرتی زندگی سوہل

جی میں آتی ہے خُودکشی سوہل

جب سے کچھ لوگ اس جہاں سے گئے

میری دُنیا اُجڑ گئی سوہل

نظر کے سامنے پھرتی ہے روضۂ پاک کی جالی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نظر کے سامنے پھرتی ہے روضۂ پاک کی جالی

بُلا لے پھر مدینے میں، مِرے تقدیر کے والی

جبینِ عشق میں احساس کے سجدے تڑپتے ہیں

جو دیکھا ہے مدینے میں وہی جلوے تڑپتے ہیں

میں عاصی ہوں مگر مجھ کو بھروسہ ہے شفاعت پر

عنایت آپﷺ کی درکار ہے اپنی عقیدت پر

آسماں بھی پکارتا ہے مجھے

 آسماں بھی پُکارتا ہے مجھے

آشیاں بھی لُبھا رہا ہے مجھے

عکس آخر کہاں گیا میرا؟

آئینہ کیوں چُھپا رہا ہے مجھے

مجھ میں سُورج اُگا کے چاہت کا

وہ سویرا سا کر گیا ہے مجھے

یاد رفتہ ترا غم منانے کے ہم

 یاد رفتہ تِرا غم منانے کے ہم

رہ گئے صرف پر پھڑپھڑانے کے ہم

مدتوں عہد نو سے الجھتے رہے

اس جہاں میں پرانے زمانے کے ہم

آدمی جس میں انساں بنائے گئے

کاش ہوتے اسی کارخانے کے ہم

Friday, 7 February 2025

خوش نظر ہے نہ خوش خیال ہے یہ

 خوش نظر ہے نہ خوش خیال ہے یہ

آج کے دیدہ ور کا حال ہے یہ

تم مرے دل میں کیوں نہیں آتے

شہر رعنائی جمال ہے یہ

میرے چہرے پہ کچھ نہیں تحریر

صرف عنوان عرض حال ہے یہ

دی ہے اگر حیات تمنا کئے بغیر

 دی ہے اگر حیات تمنا کیے بغیر

اب موت بھی عطا ہو تقاضا کیے بغیر

بازار زندگی ہے فقط گھومنے کی جا

کچھ بھی یہاں ملے گا نہ سودا کیے بغیر

میں بھی انا پسند ہوں لیکن کروں تو کیا

دل مانتا نہیں اسے سجدہ کیے بغیر

اب تو جگنو بھی نہیں راہ دکھانے والا

 اب تو جگنو بھی نہیں راہ دکھانے والا

شہر میں قید ہوا گاؤں سے آنے والا

پھر وہی عرض مِری حق و صداقت والی

پھر وہی عذر تِرا حیلہ بہانے والا

فرش گل جان کے خاروں پہ قدم رکھتا ہوں

کون ہے میرے لیے پلکیں بچھانے والا

کبھی تہی مرے دل کا حرم نہیں اے دوست

 کبھی تہی مِرے دل کا حرم نہیں اے دوست

خدا خدا ہے خیالی صنم نہیں اے دوست

یہاں کا حسن رہا بے نیازِ نظارہ

حریمِ کعبہ ہے بیت الصنم نہیں اے دوست

عجیب شے مِری قسمت کا بل ہے میرے لیے

اگرچہ یہ کوئی زلفوں کا خم نہیں اے دوست

Thursday, 6 February 2025

حرم و دیر و کلیسا سے نکل آیا ہوں

 حرم و دَیر و کلیسا سے نکل آیا ہوں

تب کہیں جا کے میں انسان سے مل پایا ہوں

کالے پتھر پہ بھٹکتے ہوئے قدموں کے نشاں

مجھ سے ملیے میں نئی نسل کا سرمایہ ہوں

میں بھی احساس کی بھٹی میں پڑا ہوں یہ بتا

کیسے انگارے تِری ہلکوں پہ دیکھ آیا ہوں

درِ محبوب سے کچھ خاک اٹھا لایا ہوں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


درِ محبوبﷺ سے کچھ خاک اٹھا لایا ہوں

ساری دنیا کو میں مُٹھی میں سما لایا ہوں

جس کی گلیوں سے گزرتے رہے میری سرکارؐ

اپنی آنکھوں میں وہ شہر بسا لایا ہوں

اب ہوا نُور علیٰ نُور مِرے دل کا جہاں

اب مدینے کے قمرؐ سے میں جلا لایا ہوں

محبت کیا ہے ایک پھول کے مانند

 حقیقت


محبت کیا ہے؟

ایک پُھول کے مانند

جِس کو اِک نہ اِک دِن

بِکھر ہی جانا ہے

مگر

محبت اور پُھول کو

کہسار ہنر مجھ سے ابھی سر نہ ہوا تھا

 کہسار ہنر مجھ سے ابھی سر نہ ہوا تھا

میں چاک گریباں کا رفو گر نہ ہوا تھا

دیوار کی تحریر نے کوشش تو بہت کی

آموختہ اکثر مجھے ازبر نہ ہوا تھا

دنیا کے لیے مجھ میں کشش کس لیے ہوتی

گردش میں رہا میں کبھی محور نہ ہوا تھا

پاس رہ کر وہ مجھ سے دور رہا

 پاس رہ کر وہ مجھ سے دور رہا

ہاں، محبت میرا قصور رہا

جائیے جائیے، حضور کہیں

آئینہ کیوں مجھے ہے گھور رہا

جب بھی آئے جلے بھنے ہیں ملے

کوچۂ جاناں ہوں جیسے طُور رہا

Wednesday, 5 February 2025

قہقہوں کی زد سے یہ گوہر چھپا

 قہقہوں کی زد سے یہ گوہر چھپا

اپنی دولت سب سے چشم تر چھپا

آگ برسے گی ابھی کچھ دیر میں

چھوڑ میری فکر اپنا سر چھپا

وسعت عالم میں گنجائش نہیں

مجھ کو اپنی ذات کے اندر چھپا

جو دل گیا مرے سینے کا اضطراب گیا

 جو دل گیا مِرے سینے کا اضطراب گیا

بڑا سکون ملا ،۔ خانماں خراب گیا

نہ چل سکی کسی بیکس کی زور والوں سے

تھپیڑے موجوں کے کھاتا ہوا حباب گیا

رہے یہ دیر شہاب اس کے حُسن برہم کا

کہاں وہ لطف جو یہ نشۂ عتاب گیا

اب دل میں تری یاد اتر آتی ہے جیسے

 اب دل میں تِری یاد اتر آتی ہے جیسے

پردیس میں غمناک خبر آتی ہے جیسے

آتی ہے تِرے بعد خوشی بھی تو کچھ ایسے

اجڑے ہوے پیڑوں پہ سحر آتی ہے جیسے

لگتا ہے ابھی دل نے تعلق نہیں توڑا

یہ آنکھ تِرے نام پہ بھر آتی ہے جیسے

یوں بھی زبان حال سے فرمان نعت ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یُوں بھی زبانِ حال سے فرمانِ نعت ہے

ذیشانِ دو جہاں ہے جو ذیشانِ نعت ہے

ارضِ حجاز، ارضِ درود و سلام بھی

عَرفاتِ نعت ہے، کہیں فارانِ نعت ہے

حیراں ہُوں بُو تُراب کے بابا کو پڑھ کے میں

دیوانِ شاعری ہے یا قرآنِ نعت ہے

Tuesday, 4 February 2025

محبت میں انا کو تولتا ہے

محبت میں انا کو تولتا ہے

وہ میرے ساتھ کم ہی بولتا ہے ہے

میرے بارے میں رکھتا ہے تجسس

وہ اپنے راز کم ہی کھولتا ہے

تمہارے ہجر کا لمحہ یقیناً

ہماری شاعری میں بولتا ہے

راکھ خوابوں کی کریدو گے تو کیا پاؤ گے

 راکھ خوابوں کی کریدو گے تو کیا پاؤ گے

اور کچھ اپنی اداسی کو سِوا پاؤ گے

چلچلاتی ہوئی اس دھوپ میں نکلو گے اگر

اپنے سائے کا بھی شاید نہ پتہ پاؤ گے

تنگ و تاریک سے اس گھر کے کسی گوشے میں

روشنی اب نہ وہ خوشبو، نہ ہوا پاؤ گے

دلبر کو دلبری سوں منا یار کر رکھوں

 دلبر کو دلبری سوں منا یار کر رکھوں

پیتم کو اپنے پیت سوں گلہار کر رکھوں

ایک نوم سوں جگاؤں اگر مردہ دل کے تئیں

تا حشر یاد حق منے بیدار کر رکھوں

رہتا ہے دل ہر ایک کا ہر ایک کام میں ایک

اپنا خیال صورت پرکار کر رکھوں

جدا کیا تو بہت ہی ہنسی خوشی اس نے

 جدا کیا تو بہت ہی ہنسی خوشی اس نے

بدل دیا ہے اب انداز بے رخی اس نے

وہ رنگ رنگ اڑا خوشبوؤں میں پھیل گیا

جھٹک دیا ہے مرا دامن تہی اس نے

جسے سنا کے مجھے خوف سر زنش سا رہا

اسی کلام پہ بڑھ چڑھ کے داد دی اس نے

طعنہ دینے والے کب سب کا غم سمجھتے ہیں

 طعنہ دینے والے کب سب کا غم سمجھتے ہیں

پم پہ جو گزرتی ہے، اس کو ہم سمجھتے ہیں

شر پسند جو بھی کچھ کہہ رہے ہیں کہنے دو

ہم وطن کے ہر غم کو اپنا غم سمجھتے ہیں

ان کو حالِ زار اپنا تھک گئے سنا کر ہم

وہ زیادہ سنتے ہیں اور کم سمجھتے ہیں

یہ حسن و رنگ یہ نور و نکھار آپ سے ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یہ حسن و رنگ، یہ نور و نکھار آپﷺ سے ہے

حسین کعبہ، حسیں ہر بہار آپﷺ سے ہے

سکوں زمیں کو، فلک کو قرار آپﷺ سے ہے

ثباتِ عالمِ ہژدہ ہزار آپﷺ سے ہے

یہ کہکشاں، یہ ستارے، یہ پھول، یہ غنچے

یہ کائنات جناں در کنار آپﷺ سے ہے

محبت میں وفا والوں کو کب ایذا ستاتی ہے

 محبت میں وفا والوں کو کب ایذا ستاتی ہے

یہ وہ ہیں جن کو سولی پر بھی چڑھ کر نیند آتی ہے

جنون عشق کی منزل سے واقف ہی نہیں کوئی

ہماری چاک دامانی پہ دنیا مسکراتی ہے

مسافت راہِ الفت کی نہیں آساں دل ناداں

محبت ہر قدم پر سینکڑوں فتنے اٹھاتی ہے

لفظوں کا بوجھ دل کی تھکن بیچتے رہے

 سانسوں کی ہر کنواری جلن بیچتے رہے

ہم ایک دوسرے کا بدن بیچتے رہے

سب لوگ تم پہ مرتے تھے ہم نے یوں کیا

تیرے بغیر جینے کا فن بیچتے رہے

اس شہر میں وفا کا تقاضا عجیب تھا

ہم دور رہ کے اپنا ملن بیچتے رہے

Monday, 3 February 2025

جب جب اس کو یار منانا پڑتا ہے

 جب جب اس کو یار منانا پڑتا ہے

سرخ لبادہ اوڑھ کے جانا پڑتا ہے

تم مِری سوچوں پر قبضہ رکھتے ہو

تم سے مجھ کو عشق نبھانا پڑتا ہے

ہم جیسوں کو وحشت تب اپناتی ہے

اک چوکھٹ پہ سیس جھکاتا پڑتا ہے

فگن جہاں پہ ہے نفرت کا سائباں اب تک

 فگن جہاں پہ ہے نفرت کا سائباں اب تک

 دُھواں دُھواں ہے یہ مُدت سے آشیاں اب تک

 خیال میں بھی وہ خفگی عذاب دیتی ہے

 کہ سہ رہے ہیں صنم کی وہ سختیاں اب تک

 اُجاڑ پن میں گرِفتہ شعور ہار گیا

 اُداسیوں کی زباں پر ہیں گالیاں اب تک

حیدر نے در بنایا تھا جس کی جدار میں

 حیدرؑ نے در بنایا تھا جس کی جدار میں

بانہوں کو کھولے مہدیؑ کے ہے انتظار میں

ہے آپ کے ظہور کے لمحے سے متصل

جو آخری خوشی ہے دلِ سوگوار میں

مہدی سے بچ کے جانے لگیں گے اجل کے پاس

خود منکرینِ فاطمہؑ لگ کر قطار میں

خود فریبی مرا شعار سہی

 خود فریبی مِرا شعار سہی

آج پھر تیرا انتظار سہی

رکھ لیا حُسن کا بھرم میں نے

دامنِ عشق تار تار سہی

جن کو جانا ہے وہ تو جائیں گے

کُوئے جاناں نہیں تو دار سہی

Sunday, 2 February 2025

تیرے نیناں کی تیر اندازی

 تیرے نیناں کی تیر اندازی

ہو گیا ہے مراد بھی راضی

جنگ ہے حسن و عشق میں جاری

دیکھیے جیت لے کون بازی

تیری آنکھوں سے معرکہ آراء

کچھ شہید اور کچھ ہوئے غازی

ہاں مکمل ہی تب ہوا ہوں میں

 ہاں! مکمل ہی تب ہوا ہوں میں

تیرے ہاتھوں سے جب بنا ہوں میں

سوچتا ہوں کہ جل نہ جاؤں کہیں

تُجھ کو چُھونے سے ڈر رہا ہوں میں

ایک ناقہ سوار کے پیچھے

وقت  کے ساتھ چل رہا ہوں میں

تھے بھی شاید کبھی مگر تو نہ تھے

 تھے بھی شاید کبھی مگر تو نہ تھے

مبتلا غم میں اس قدر مگر تو نہ تھے

ہم نے تنہا گزار دی اپنی

زندگی! تیرے ہمسفر مگر تو نہ تھے

جس قدر اب ہوئے ہیں ہم محدود

سلسلے اتنے مختصر مگر تو نہ تھے

لاکھ گرتے ہیں پھر سنبھلتے ہیں

 لاکھ گرتے ہیں، پھر سنبھلتے ہیں

اہلِ حق مُشکلوں میں پلتے ہیں

اپنی شدت پہ جب ہوائیں ہوں

تب ہمارے چراغ جلتے ہیں

حق پہ مرنا، ہماری موت نہیں

ہم فنا سے بقا میں ڈھلتے ہیں

اللہ مہرباں ہے محمد کے شہر میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اللہ مہرباں ہے محمدﷺ کے شہر میں

ہر شخص شادماں ہے محمدﷺ کے شہر میں

کیا رت ہے کیا سماں ہے ہے محمدﷺ کے شہر میں

ہر چیز نعت خواں ہے محمدﷺ کے شہر میں

دنیا کے ساتھ ساتھ ملی آخرت کی خیر

انعامِ دو جہاں ہے محمدﷺ کے شہر میں

Saturday, 1 February 2025

خرد کا کینوس آخر بڑھا ہے

 خِرد کا کینوس آخر بڑھا ہے

قدِ آدم گھٹا تو کیا ہوا ہے

بسوں میں صبح کا سورج نکل کر

اندھیری فائلوں میں کھو گیا ہے

ہتھوڑے پر ہے محنت رقص فرماں

مشینوں سے ترنم پھوٹتا ہے

میں بے زبان ہوں اسے خو ہے سوال کی

 میں بے زبان ہوں اسے خو ہے سوال کی

کیسے نکل سکے کوئی صورت وصال کی

کیسے بتاؤں میں کہ وہ کتنا حسین ہے

عاجز ہیں وسعتیں مِرے خواب و خیال کی

اتنا وہ میری ذات سے غافل کبھی نہ تھا

شاید خبر نہ ہو گی اسے میرے حال کی

آگ زخموں کی جلا کر دیکھو

 آگ زخموں کی جلا کر دیکھو

جی کو اک روگ لگا کر دیکھو

کتنی معصوم ہے روداد حیات

خود کو آسیب بنا کر دیکھو

شکوۂ نیم نگاہی ہے غلط

پھر تو چہرہ ہی ملا کر دیکھو

یادوں کے انبار لگے تھے

 یادوں کے انبار لگے تھے

خالی پیکٹ بھرے پڑے تھے

جانے کون سا دکھ حاوی تھا

جانے کیوں اتنا ہنستے تھے

اس بیزار گلی سے ہو کر

ہم اکثر آتے جاتے تھے