شہر نامہ
وہ عجیب صبحِ بہار تھی
کہ سحر سے نوحہ گری رہی
مِری بستیاں تھیں دُھواں دُھواں
مِرے گھر میں آگ بھری رہی
مِرے راستے تھے لہو لہو
یہ کفِ ہوا پہ زمین تھی
وہ فلک کہ مشتِ غبار تھا
کئی آبشار سے جسم تھے
کہ جو قطرہ قطرہ پگھل گئے
کئی خوش جمال طلسم تھے
جہیں گرد باد نگل گئے
کوئی خواب نوکِ سناں پہ تھا
کوئی آرزو تہِ سنگ تھی
کوئی پھُول آبلہ آبلہ
کوئی شاخ مرقدِ رنگ تھی
کئی لاپتہ میری لعبتیں
جو کسی طرف کی نہ ہو سکیں
جو نہ آنے والوں کے ساتھ تھیں
جو نہ جانے والوں کو رو سکیں
کئی تار ساز سے کٹ گئے
کسی مطربہ کی رگِ گلو
مئے آتشیں میں وہ زہر تھا
کہ تڑخ گئے قدح و سبو
کوئی نَے نواز تھا دم بخود
کہ نفس سے حدّتِ جاں گئی
کوئی سر بہ زانو تھا باربدؔ
کہ صدائے دوست کہاں گئی
کہیں نغمگی میں وہ بَین تھے
کہ سماعتوں نے سُنے نہیں
کہیں گونجتے تھے وہ مرثیے
کہ انیسؔ نے بھی کہے نہیں
یہ جو سنگ ریزوں کے ڈھیر ہیں
یہاں موتیوں کی دکان تھی
یہ جو سائبان دھوئیں کے ہیں
یہاں بادلوں کی اڑان تھی
جہاں روشنی ہے کھنڈر کھنڈر
یہاں قمقموں سے جوان تھے
جہاں چیونٹیاں ہوئیں خیمہ زن
یہاں جگنوؤں کے مکان تھے
کہیں آبگینہ خیال کا
کہ جو کربِ ضبط سے چور تھا
کہیں آئینہ کسی یاد کا
کہ جو عکسِ یار سے دور تھا
مِرے بسملوں کی قناعتیں
جو بڑھائیں ظلم کے حوصلے
مِرے آہوؤں کا چکیدہ خوں
جو شکاریوں کو سراغ دے
مِری عدل گاہوں کی مصلحت
مِرے قاتلوں کی وکیل ہے
مِرے خانقاہوں کی منزلت
مِری بزدلی کی دلیل ہے
مِرے اہلِ حرف و سخن سرا
جو گداگروں میں بدل گئے
مِرے ہم صفیر تھے حیلہ جُو
کسی اور سمت نکل گئے
کئی فاختاؤں کی چال میں
مجھے کرگسوں کا چلن لگا
کئی چاند بھی تھے سیاہ رو
کئی سورجوں کو گہن لگا
کوئی تاجرِ حَسَب و نَسَب
کوئی دیں فروشِ قدیم ہے
یہاں کفش بر بھی امام ہیں
یہاں نعت خواں بھی کلیم ہے
کوئی فکر مند کلاہ کا
کوئی دعویٰ دار قبا کا ہے
وہی اہلِ دل بھی ہیں زیب تن
جو لباس اہلِ ریا کا ہے
مِرے پاسباں، مرے نقب زن
مِرا مُلک مِلکِ یتیم ہے
مِرا دیس میرِ سپاہ کا
مِرا شہر مالِ غنیم ہے
جو روش ہے صاحبِ تخت کی
سو مصاحبوں کا طریق ہے
یہاں کوتوال بھی دُزدِ شب
یہاں شیخِ دیں بھی فریق ہے
یہاں سب کے نرخ جدا جدا
اسے مول لو اسے تول دو
جو طلب کرے کوئی خوں بہا
تو دہن خزانے کا کھول دو
وہ جو سرکشی کا ہو مرتکب
اسے قمچیوں سے زبوں کرو
جہاں خلقِ شہر ہو مشتعل
اسے گولیوں سے نگوں کرو
مگر ایسے ایسے غنی بھی تھے
اسی قحط زارِ دمشق میں
جنہیں کوئے یار عزیز تھا
جو کھڑے تھے مقتلِ عشق میں
کوئی بانکپن میں تھا کوہکن
تو جنوں میں قیس سا تھا کوئی
جو صراحیاں لیے جسم کی
مئے ناب خوں سے بھری ہوئی
تھے صدا بلب کہ پیو پیو
یہ سبیل اہلِ صفا کی ہے
یہ نشید نوشِ بدن کرو
یہ کشید تاکِ وفا کی ہے
کوئی تشنہ لب ہی نہ تھا یہاں
جو پکارتا کہ اِدھر اِدھر
سبھی مفت بر تے تماش بیں
کوئی بزم میں کوئی بام پر
سبھی بے حسی کے خمار میں
سبھی اپنے حال میں مست تھے
سبھی رہروانِ رہِ عدم
مگر اپنے زعم میں ہست تھے
سو لہو کے جام انڈیل کر
مِرے جانفروش چلے گئے
وہ سکوت تھا سرِ مے کدہ
کہ وہ نم بدوش چلے گئے
کوئی محبسوں میں رسن بہ پا
کوئی مقتلوں میں دریدہ تن
نہ کسی کے ہاتھ میں شاخِ نَے
نہ کسی کے لب پہ گُلِ سخن
اسی عرصۂ شبِ تار میں
یونہی ایک عمر گزر گئی
کبھی روزِ وصل بھی دیکھتے
یہ جو آرزو تھی وہ مر گئی
یہاں روزِ حشر بپا ہوئے
پہ کوئی بھی روزِ جزا نہیں
یہاں زندگی بھی عذاب ہے
یہاں موت میں بھی شفا نہیں
احمد فراز
No comments:
Post a Comment