کبھی حیات کا غم ہے، کبھی تِرا غم ہے
ہر ایک رنگ میں ناکامیوں کا ماتم ہے
خیال تھا تِرے پہلو میں کچھ سکون ہو گا
مگر یہاں بھی وہی اضطرابِ پیہم ہے
مِرے حبیب، مِری مسکراہٹوں پہ نہ جا
سحر سے رشتۂ امید باندھنے والے
چراغِ زیست کی لو شام ہی سے مدھم ہے
یہ کس مقام پہ لے آئی زندگی راہیؔ
قدم قدم پہ جہاں بے بسی کا عالم ہے
احمد راہی
No comments:
Post a Comment