Wednesday, 28 February 2018

شکووں پہ ستم آہوں پہ جفا سو بار ہوئی سو بار ہوا

شکوؤں پہ ستم آہوں پہ جفا، سو بار ہوئی، سو بار ہوا
ہر بات مجھے، ہر کام مجھے، دشوار ہوئی، دشوار ہوا
ساقی کی نشیلی آنکھوں سے، ساری دنیا، سارا عالم
بدمست ہوئی، بدمست ہوا، سرشار ہوئی، سرشار ہوا
ہے نام دلِ مضطر جس کا، کہتے ہیں جسے سب جانِ حزیں
مرنے کے لئے، مٹنے کے لئے، تیار ہوئی، تیار ہوا

کیوں آپ کو خلوت میں لڑائی کی پڑی ہے

کیوں آپ کو خلوت میں لڑائی کی پڑی ہے؟
ملنے کی گھڑی ہے کہ یہ لڑنے کی گھڑی ہے؟
کیا چشمِ عنایت کا تری مجھ کو بھروسہ؟
لڑ لڑ کے مِلی ہے، کبھی مِل مِل کے لڑی ہے
کیا جانئے کیا حال ہمارا ہو شبِ ہجر
اللہ۔۔۔ ابھی چار پہر رات پڑی ہے

واہ یہ لطف سوز الفت کس کی بدولت دل کی بدولت

واہ یہ لطفِ سوزِ الفت کس کی بدولت، دل کی بدولت
دوزخ بھی ہے مجھ کو جنت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
دل میں ہے داغوں کی کثرت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
ایسی دولت اتنی دولت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
سب سے الفت سب کی حسرت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
ڈانواں ڈول ہے میری نیت، کس کی بدولت، دل کی بدولت

ہمیشہ تمنا و حسرت کا جھگڑا ہمیشہ وفا و محبت کا ہلڑ

ہمیشہ تمنا و حسرت کا جھگڑا، ہمیشہ وفا و محبت کا ہلڑ 
تھمے کیا طبیعت رکے کس طرح دل یہ آفت وہ فتنہ یہ آندھی وہ جھکڑ
جو راز محبت کو جانے گا کوئی تو یہ جان لے وہ مچا دے گا گڑبڑ 
نظر کی طرح بڑھ نظر کی طرح رک نظر کی طرح مل نظر کی طرح لڑ
مرے دل کے ہاتھوں سے ہجر وفا میں مری زندگی میں نہ ہو جائے گڑبڑ 
کبھی کثرت رنج و غم کا تھپیڑا، کبھی جوش امید و حسرت کی اوجھڑ

عہد پختہ کیا رندوں نے یہ پیمانے سے

عہد پختہ کیا رِندوں نے یہ پیمانے سے
خاک ہو جائیں گے نکلیں گے نہ مے خانے سے
میرے ساقی ہو عطا مجھ کو بھی پیمانے سے
فیض پاتا ہے زمانہ ترے مے خانے سے
یک بہ یک اور بھڑک اٹھتا ہے سمجھانے سے
کوئی کیا بات کرے، آپ کے دیوانے سے

میرا سوال ہی ان کا جواب تھا کیا تھا

میرا سوال ہی ان کا جواب تھا، کیا تھا
یہ اک کرشمہ تھا یا انقلاب تھا، کیا تھا
تمہارا حسن، تمہارا شباب تھا، کیا تھا
فقط خیال تھا یا کوئی خواب تھا، کیا تھا
تمام عمر نہ دیکھی قرار کی صورت
دلِ حزیں مرے حق میں عذاب تھا، کیا تھا

حسن کی بارگاہ میں رکھیے

حسن کی بارگاہ میں رکھیے
دل کو ان کی نگاہ میں رکھیے
حوصلہ ان کی چاہ میں رکھیے
وضعداری نباہ میں رکھیے
ان کے کوچے کی خاک ہے اکسیر
چومیے، پھر کلاہ میں رکھیے

فلک پہ تیر چلانا بھی مجھ کو آتا ہے

فلک پہ تیر چلانا بھی مجھ کو آتا ہے
فغاں سے حشر اٹھانا بھی مجھ کو آتا ہے
خفا جو ہو تو منانا بھی مجھ کو آتا ہے
کسی کو راہ پہ لانا بھی مجھ کو آتا ہے
جو بس چلے تو بھلانا بھی مجھ کو آتا ہے
کبھی پلٹ کے نہ آتا بھی مجھ کو آتا ہے

کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہو گا

کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہو گا 
اے میں قربان، وفا وعدۂ فردا ہو گا
حشر کے روز بھی کیا خونِ تمنا ہو گا 
سامنے آئیں گے یا آج بھی پردا ہو گا
ہم نہیں جانتے ہیں حشر میں کیا کیا ہو گا 
یہ خوشی ہے کہ وفا وعدۂ فردا ہو گا

کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل

کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل 
ہوا کیا، لُٹ گیا دل، مِٹ گیا دل
یہ کہہ کر دے دیا مجھ کو مِرا دل 
ہمیں کوسے گا، دے گا بد دعا دل
چمن میں جو کھلا گل میں یہ سمجھا 
کہ ہے میرا یہ مرجھایا ہوا دل

Tuesday, 27 February 2018

کوئی منزل نہیں ملتی تو ٹھہر جاتے ہیں

کوئی منزل نہیں ملتی تو ٹھہر جاتے ہیں 
اشک آنکھوں میں مسافر کی طرح آتے ہیں
کیوں تِرے ہجر کے منظر پہ ستم ڈھاتے ہیں 
زخم بھی دیتے ہیں اور خواب بھی دکھلاتے ہیں
ہم بھی ان بچوں کی مانند کوئی پل جی لیں 
ایک سِکہ جو ہتھیلی پہ سجا لاتے ہیں

کن خیالات میں یوں رہتی ہو کھوئی کھوئی

آغاز

کن خیالات میں یوں رہتی ہو کھوئی کھوئی 
چائے کا پانی پتیلی میں ابل جاتا ہے 
راکھ کو ہاتھ لگاتی ہو تو جل جاتا ہے 
ایک بھی کام سلیقے سے نہیں ہو پاتا 
ایک بھی بات محبت سے نہیں کہتی ہو 
اپنی ہر ایک سہیلی سے خفا رہتی ہو 

مجھ سے اب تک یہ گلہ ہے مرے غم خواروں کو

مجھ سے اب تک یہ گِلہ ہے مِرے غمخواروں کو 
کیوں چھوا میں نے تِری یاد کے انگاروں کو
ذہن و دل حشر کے سورج کی طرح جلتے ہیں 
جب سے چھوڑا ہے تِرے شہر کی دیواروں کو
آج بھی آپ کی یادوں کے مقدس جھونکے 
چھیڑ جاتے ہیں محبت کے گنہ گاروں کو

کسی کی یاد ستاتی ہے رات دن تم کو

مشورہ

کسی کی یاد ستاتی ہے رات دن تم کو 
کسی کے پیار سے مجبور ہو گئی ہو تم 
تمہارا درد مجھے بھی اداس رکھتا ہے 
قریب آ کے بہت دور ہو گئی ہو تم 
تمہاری آنکھیں سدا سوگوار رہتی ہیں 
تمہارے ہونٹ ترستے ہیں مسکرانے کو 

اس نے اک اقرار میں ہاں سے نہیں کو دھو دیا

اس نے اک اقرار میں ہاں سے نہیں کو دھو دیا
ریت سے جھلسے ہوئے روئے زمیں کو دھو دیا
آخرش وہ اور اس کی بوریا ہی رہ گئے
دل کی طغیانی نے شاہ و شہ نشیں کو دھو دیا
دل میں اسکی شکل کے سو عکس اب بنتے نہیں
ایک ہی آنسو نے چشمِ بے یقیں کو دھو دیا

ذات کی نظربندی میں ادب پڑا ہے کیا

ذات کی نظر بندی میں ادب پڑا ہے کیا
یا قلم کی ہمت سے واقعہ بڑا ہے کیا
بھر گیا ہے لاشوں سے، آئینہ خراشوں سے
اپنے آپ سے کوئی رات بھر لڑا ہے کیا
عین ہیں اکائی میں خط و قوس ابجد کے
اس نے عین فرصت میں وہ بدن گھڑا ہے کیا

لرزہ سا کبھی تن میں کبھی جان میں آیا

لرزہ سا کبھی تن میں کبھی جان میں آیا
اک اشکِ فراموش مرے دھیان میں آیا
خوں ہو کے یہ دل طاق ہوا عرضِ ہنر میں
یہ ساز سدا ٹوٹ کے ہی تان میں آیا
تھا خواب بھی اک کرمکِ شب تاب کی صورت
جو روز میرے تیرہ شبستان میں آیا

ہم سلام ان کو کیا کرتے ہیں آتے جاتے

ہم سلام ان کو کِیا کرتے ہیں آتے جاتے
دعوتِ شوق دیا کرتے ہیں آتے جاتے
حسرتِ دید نے اک حشر اٹھا رکھا ہے
دستک اس در پہ دیا کرتے ہیں آتے جاتے
مسکرا کر، کبھی پازیب کو جنبش دے کر
وہ سکوں چھین لیا کرتے ہیں آتے جاتے

قرار کھو کے چلے بے قرار ہو کے چلے

قرار کھو کے چلے بے قرار ہو کے چلے 
ادا ادا پہ تِری ہم نثار ہو کے چلے 
رہِ وفا میں رقابت کے موڑ بھی ہیں بہت 
یہ دل سے کہہ دو ذرا ہوشیار ہو کے چلے 
کسی کے کہنے پہ طوفاں میں ڈال دی کشتی 
خدا کرے کہ ہوا سازگار ہو کے چلے 

بزم جاناں میں محبت کا اثر دیکھیں گے

بزم جاناں میں محبت کا اثر دیکھیں گے 
کس سے ملتی ہے نظر ان کی نظر دیکھیں گے 
اب نہ پلکوں پہ ٹکو، ٹوٹ کے برسو اشکو 
"ان کا کہنا ہے کہ "ہم دیدۂ تر دیکھیں گے 
دھڑکنو! تیز چلو، ڈوبتی نبضو! ابھرو 
آج وہ بجھتے چراغوں کی سحر دیکھیں گے 

جان دے کر تجھے جینے کی دعا دیتے ہیں

جان دے کر تجھے جینے کی دعا دیتے ہیں
کتنا انمول وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں 
بامروت ہیں مِرے شہر کے رہنے والے
لے کے بینائی مِری، دیپ جلا دیتے ہیں 
حاکمِ وقت سے رکھتے ہیں عداوت، لیکن
اس کی ہر ہاں میں سبھی ہاں بھی ملا دیتے ہیں 

دل و نگاہ کے حسن و قرار کا موسم

دل و نگاہ کے حسن و قرار کا موسم
وہ تیری یاد تِرے انتظار کا موسم
جھکی ہے آنکھ کئی رت جگے سمیٹے ہوئے
چھپا ہے لمس میں کیسا خمار کا موسم
ہمارے پیار نے عمرِ دوام مانگی ہے
ہمیں قبول نہیں تھا اُدھار کا موسم

تمہاری الفت کے اس جنوں نے عجیب جادو جگا دیا ہے

تمہاری الفت کے اس جنوں نے عجیب جادو جگا دیا ہے
میں بھولنا چاہتی تھی تم کو، زمانہ تم نے بھلا دیا ہے 
مِرے لہو میں یہ ننھے منے چراغ کتنے ہی جل اٹھے ہیں 
یہ کیسے تم نے چھُوا ہے جاناں! کہ میرا پہلو جلا دیا ہے 
میں اپنے لفظوں کو نکہتوں کے پروں سے اڑتا بھی دیکھتی ہوں 
تمہاری چاہت نے میرے فن سے کثافتوں کو مِٹا دیا ہے 

اداسی ہم سے ناتہ توڑ

اداسی ہم سے ناتہ توڑ

اداسی جا
ہمارا لے جا تُو پیغام
ہمارے اک سانول کے نام
ہمارے پیار بھرے جذبات
تُو اس کے ہاتھ تھما کر آ
کہ اس بِن سب جذبے بے چین

عرضی سنو عرضی بس اک بار سائیں

عرضی

تِرے دربارن کی منگتی کا
رہے قائم بھاگ سہاگ پیا
سرکار سائیں! منجدھار پڑے
بیمار نصیبوں بیچ بڑے منجدھار پڑے
سرکار سائیں! وہ من کی گوری کلمونہی 
دربار، چنریا لائی تھی

Saturday, 24 February 2018

بہار آئی ہے کچھ بے دلی کا چارہ کریں

بہار آئی ہے کچھ بے دلی کا چارہ کریں
چمن میں آؤ حریفو! کہ استخارہ کریں
شرابِ ناب کے قلزم میں غسل فرمائیں
کہ آبِ مُردۂ تسنیم سے غرارہ کریں
جمود گاہِ یخ و زمہریر میں ہی رہیں
کہ سیرِ دائرۂ شعلہ و شرارہ کریں

پا چکا طاعت کی لذت درد کے پہلو بھی دیکھ

پا چکا طاعت کی لذت درد کے پہلو بھی دیکھ
شیخ! آ، محراب سے باہر خمِ ابرو بھی دیکھ
کافرِ نعمت ادا کر کچھ تو حقِ چشم و گوش
نغمۂ مطرب بھی سن حُسنِ رخِ نیکو بھی دیکھ
تا کجا طنبورۂ یزداں فریبِ خانقاہ؟
آ کسی دن میکدے کا رقصِ ہاؤ ہو بھی دیکھ

پیوست ہے جو دل میں وہ تیر کھینچتا ہوں

پیوست ہے جو دل میں، وہ تیر کھینچتا ہوں
اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں
گاڑی میں گنگناتا مسرور جا رہا تھا
اجمیر کی طرف سے جے پور جا رہا تھا
تیزی سے جنگلوں میں یوں ریل جا رہی تھی
لیلیٰ ستار اپنا گویا بجا رہی تھی

تو راز فراغت کیا جانے محدود تری آگاہی ہے

خیالات زریں

تُو رازِ فراغت کیا جانے محدود تِری آگاہی ہے
اپنے کو پریشاں حال سمجھنا، عقل کی یہ کوتاہی ہے
دولت کیا، اک روگ ہے دل کا، حرص نہیں گمراہی ہے
دنیا سے بے پرواہ رہنا سب سے بڑی یہ شاہی ہے
اس قول کو میرے مانے گا جو صاحبِ دل ہے دانا ہے
کہتے ہیں جسے شاہنشاہی حاجت کا روا ہو جانا ہے

Friday, 23 February 2018

ایک سے ایک ہے رستم کے گھرانے والا

ایک سے ایک ہے رستم کے گھرانے والا
ہے کوئی قبلۂ اول کو چھڑانے والا؟
قہر آلود نگاہیں، نہ بڑے دانت، مگر
چہرہ چہرہ نظر آتا ہے ڈرانے والا
دھوپ سے آبلے پتھر میں پڑے جاتے ہیں
کون ہے، کون ہے دنیا کو چلانے والا

زندگی ڈوبتی نبضوں کی صدا لگتی ہے

زندگی ڈوبتی نبضوں کی صدا لگتی ہے
کوئی رد کی ہوئی مخصوص دعا لگتی ہے
پیٹ کی آگ بھی لگتی ہے تو کیا لگتی ہے
نیند بھی سو کے جو اٹھتا ہوں غذا لگتی ہے
جیسے ہر شخص کوئی جرم کیے بیٹھا ہو
گھر میں گھستے ہی عجب گھر کی فضا لگتی ہے

اردو ادب کے ساتھ رہیں پستیاں بہت

اردو ادب کے ساتھ رہیں پستیاں بہت
ساحر کی اک کتاب بکی "تلخیاں" بہت
اے دوست بتاؤ کہ مقصد ہے اس سے کیا
تم ہال میں بچھا تو چکے کرسیاں بہت
میں سو گیا تو خواب میں پیچھا کیا مِرا
کل رات مجھ پہ چھائی رہیں مستیاں بہت

Tuesday, 20 February 2018

آسان راستہ ہو یا دشوار مسترد

آسان راستہ ہو یا دشوار، مسترد
اے عشق تیرا فلسفہ بےکار، مسترد
لوگوں کی عام تام سی تخلیق، واہ واہ
میرے تراشے سارے ہی شاہکار مسترد

Monday, 19 February 2018

ہے مے کشوں پہ رحمت پروردگار اب

ہے میکشوں پہ رحمتِ پروردگار اب
ساقی پلا کی آیا ہے ابرِ بہار اب
خارِ فراق اب مِرے دل سے نکل گیا
آنکھوں کے سامنے ہے کوئی گلعذار اب
کہ کہ کے یوں سنبھالا ہے دل کو شبِ فراق
آثارِ صبح ہوتے ہیں وہ آشکار اب

تو ہی خود ہے جب بنائے درد دل

تُو ہی خود ہے جب بِنائے دردِ دل
درد ہی دینا خدائے دردِ  دل
ہم  سنائیں ماجرائے دردِ  دل
گر ہو کوئی آشنائے دردِ  دل
مبتلائے عشق پر ہنستے ہو جب
کیا کرو گے تم دوائے دردِ  دل

اچھا کبھی ہوتا نہیں بیمار محبت

اچھا کبھی ہوتا نہیں بیمارِ محبت
اللہ کسی کو نہ دے آزارِ محبت
تم ظلم کو چھوڑو، میں گِلہ چھوڑ رہا ہوں
باہم ابھی ہو جاتا ہے اقرارِ محبت
وہ شرم سے منہ پھیر کے ہنس دیتے ہیں اے دل
اتنا تو اثر رکھتی ہے گفتارِ محبت

زلف پر خم کھینچ کر شمشیر کھینچ

زلفِ پُر خم کھینچ کر شمشیر کھینچ
دل بھی کھنچ آئے گا تُو زنجیر کھینچ
اور ترکش سے نا تُو اب تیر کھینچ
ذبح کر دے، گردنِ نخچیر کھینچ
کیا مصور سے کھنچے تیری ادا
آئینہ میں عکس کی تصویر کھینچ

Sunday, 18 February 2018

یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے

یوں تِرے حسن کی تصویر غزل میں آئے 
جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے 
جبر سے ایک ہوا ذائقۂ ہجر و وصال 
اب کہاں سے وہ مزا صبر کے پھل میں آئے 
ہمسفر تھی جہاں فرہاد کے تیشے کی صدا
وہ مقامات بھی کچھ سیرِِ جبل میں آئے

یاس میں جب کبھی آنسو نکلا

یاس میں جب کبھی آنسو نکلا 
اک نئی یاد کا پہلو نکلا
لے اڑی سبزۂ خودرو کی مہک 
پھر تِری یاد کا پہلو نکلا
میٹھی بولی میں پپیہے بولے
گنگناتا ہوا جب تُو نکلا

رات ڈھل رہی ہے

رات ڈھل رہی ہے
ناؤ چل رہی ہے
برف کے نگر میں
آگ جل رہی ہے
لوگ سو رہے ہیں
رت بدل رہی ہے

Saturday, 17 February 2018

سکوت شب ہی ستم ہو تو ہم اٹھائیں بھی

سکوتِ شب ہی ستم ہو تو ہم اٹھائیں بھی
وہ یاد آئے، تو چلنے لگیں ہوائیں بھی
یہ شہر میرے لیے اجنبی نہ تھا، لیکن
تمہارے ساتھ بدلتی گئیں فضائیں بھی
جو بزمِ دوست سے اٹھ کر چلے بزعمِ تمام
کوئی پکارے تو شاید وہ لوٹ آئیں بھی

وہ قول وہ سب قرار ٹوٹے

وہ قول وہ سب قرار ٹُوٹے
دل جن سے مآلِ کار ٹوٹے
ہو ختم کشاکشِ زمانہ
یا دامِ خیالِ یار ٹوٹے
پھر تجھ پہ یقیں کر رہے ہیں
وہ دل جو ہزار بار ٹوٹے

قافلے گزرے ہیں زنجیر بہ پا

قافلے گزرے ہیں زنجیر بہ پا
دائم آباد رہے شہر تِرا
دل ہے یا شہرِ خموشاں کوئی
نہ کوئ چاپ، نہ دھڑکن، نہ صدا
آخرِ عشق کی رسوائی ہے
اب ہوا چرچا تو گھر گھر ہو گا

چاند رکتا ہے نہ آتی ہے صبا زنداں کے پاس

چاند رکتا ہے نہ آتی ہے صبا زِنداں کے پاس
کون لے جائے مِرے نالے، مِرے جاناں کے پاس
اب بجز ترکِ وفا، کوئی خیال آتا نہیں
اب کوئی حیلہ نہیں شاید دلِ ناداں کے پاس
چند یادیں نوحہ گر ہیں خیمۂ دل کے قریب
چند تصویریں جھلکتی ہیں صفِ مژگاں کے پاس

رہی ہیں داد طلب ان کی شوخیاں ہم سے

رہی ہیں داد طلب ان کی شوخیاں ہم سے 
ادا شناس بہت ہیں، مگر کہاں ہم سے
سنا دیئے تھے کبھی کچھ غلط سلط قصے
وہ آج تک ہیں اسی طرح بدگماں ہم سے
یہ کُنج کیوں نہ زیارت کدۂ محبت ہو 
ملے تھے وہ اِنہیں پیڑوں کے درمیاں ہم سے

بے چین نظر بیتاب جگر یہ دل ہے کسی کا دیوانہ

فلمی گیت

بے چین نظر، بے تاب جگر
یہ دل ہے کسی کا دیوانہ 
ہائے دیوانہ
کب شام ہو اور کب شمع جلے
کب اڑ کر پہنچے پروانہ
ہائے پروانہ

اداس چاند کھلے پانیوں میں چھوڑ گیا

اداس چاند کھلے پانیوں میں چھوڑ گیا
وہ اپنا چہرہ مِرے آنسوؤں میں چھوڑ گیا
ہوا کے جھونکے سے لرزی تھی ایک شاخِ گل
کسی کا دھیان مجھے خوشبوؤں میں چھوڑ گیا
گلے ملے تھے محبت کی تیز دھوپ میں ہم
یہ کون اڑتے ہوئے بادلوں میں چھوڑ گیا

کب ہے ایسا کسی زنجیر نے جانے نہ دیا

کب ہے ایسا کسی زنجیر نے جانے نہ دیا
گھر سے باہر تِری تصویر نے جانے نہ دیا
دشت میں تیری صدا پر میں پہنچ سکتا تھا
پشت سے پھینکے گئے تیر نے جانے نہ دیا
روز اک خواب نے پاؤں سے سفر باندھا مگر
روز اک خواب کی تعبیر نے جانے نہ دیا

عقل والوں کی صحبتیں بے سود

مضطرب دل کی حسرتیں بے سود
ہم غریبوں کی خواہشیں بے سود
عشق میں صرف جنوں ہی کام آئے
فلسفہ، عقل، منطقیں، بے سود
خواب میں تم تھے کل کسی کے ساتھ
میری ساری وضاحتیں بے سود

نمازوں میں ریاکاری نہ کرنا

نمازوں میں ریاکاری نہ کرنا
ادا کرنا،۔۔ اداکاری نہ کرنا
تکبر، سخت رب کو ناپسند ہے
اسے خود پر کبھی طاری نہ کرنا
تمہارے عیب سب، رب جانتا ہے
کسی مظلوم کو "کاری" نہ کرنا

دل میں کوئی ہمدرد رہتا ہے

دل میں کوئی ہمدرد رہتا ہے
اس کے باعث ہی درد رہتا ہے
ساری گرمی تمہارے دَم سے تھی
دل کا موسم اب سرد رہتا ہے
میرے سر کی قسم نہ کھایا کرو
اس میں پہلے ہی درد رہتا ہے

Friday, 16 February 2018

اسیر ساعت یہ پوچھتا ہے

اسیرِ ساعت

اسیرِ ساعت یہ پوچھتا ہے
کہ وقت کی قید کب تلک ہے؟
زماں کو یہ اختیار کیوں ہو
کوئی بھی لمحہ
کسی کی بے وقت زندگی کو
گھڑی کی رسی سے باندھ ڈالے

جب دریچے میں شام ہو جائے

جب دریچے میں شام ہو جائے
بے کلی بے لگام ہو جائے
وہ اچٹتی سی اک نظر ڈالے
میرا قصہ تمام ہو جائے
دل سا راون کہیں نہیں دیکھا
اس کو دیکھے تو رام ہو جائے

دل رات کی بنجر وادی میں اک آس لگائے رکھتا ہے

دل رات کی بنجر وادی میں اک آس لگائے رکھتا ہے
اک پھول کھلائے رکھتا ہے، اک دِیپ جلائے رکھتا ہے
سنسار! نہ اندر آ جانا، مت گیان کا مندر ڈھا جانا
دل دھیان کی روشن کٹیا میں اک یاد بلائے رکھتا ہے
میں ذرہ رُلتے کنکر کا، وہ چاند چمکتے امبر کا
میں دھول رماۓ رکھتا ہوں، وہ روپ سجائے رکھتا ہے

عجیب سی کرن تھی وہ دلوں کو چیرتی گئی

بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت کی مناسبت سے ایک غزل

عجیب سی کرن تھی وہ، دلوں کو چیرتی گئی
نظر نظر میں بس گئی تو آنکھ سے چلی گئی
یہ شور دل خراش تھا، کہاں کہاں پہ روکتا
وہ تان دل شناس تھی، اٹھی تو پھیلتی گئی
شہاب کی طرح ضیائے جلد باز تھی مگر
فلک پہ رنگ و نور کی لکیر چھوڑتی گئی

Thursday, 15 February 2018

باغ تجھ بن گل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے

باغ تجھ بن گل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے
چاہوں گر سیرِ چمن، آنکھ دکھاتا ہے مجھے
باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
سایۂ شاخِ گُل افعی نظر آتا ہے مجھے
ماہِ نو ہوں، کہ فلک عجز سکھاتا ہے مجھے 
عمر بھر ایک ہی پہلو پہ سلاتا ہے مجھے

لطف نظارۂ قاتل دم بسمل آئے

لطفِ نظارۂ قاتل دمِ بسمل آئے
جان جائے تو بلا سے، پہ کہیں دل آئے
ان کو کیا علم کہ کشتی پہ مِری کیا گزری
دوست جو ساتھ مِرے تا لبِ ساحل آئے
وہ نہیں ہم کہ چلے جائیں حرم کو، اے شیخ
ساتھ حُجاج کے اکثر کئی منزِل آئے

غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے

غم کھانے میں بودا، دلِ ناکام بہت ہے
یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام، بہت ہے
کہتے ہوئے ساقی سے حیا آتی ہے، ورنہ
ہے یوں کہ، مجھے درد تہِ جام بہت ہے
نے تیر کماں میں ہے، نہ صیاد کمِیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے

جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی

جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی
عالم غبارِ وحشتِ مجنوں ہے سر بسر
کب تک خیالِ طرۂ لیلیٰ کرے کوئی
افسردگی نہیں طرب انشائے التفات
ہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئی

خورشید محشر کی لو

خورشیدِ محشر کی لَو

آج کے دن نہ پوچھو، مِرے دوستو
دور کتنے ہیں خوشیاں منانے کے دن
کھل کے ہنسنے کے دن، گیت گانے کے دن
پیار کرنے کے دن، دل لگانے کے دن

آج کے دن نہ پوچھو، مِرے دوستو
زخم کتنے ابھی بختِ بسمل میں ہیں

یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے

یہ ماتمِ وقت کی گھڑی ہے

ٹھہر گئی آسماں کی ندیا
وہ جا لگی افق کنارے
اداس رنگوں کی چاندنیا
اتر گئے ساحلِ زمیں پر
سبھی کھویّا
تمام تارے

جلا پھر صبر کا خرمن پھر آہوں کا دھواں اٹھا

قوالی

جلا پھر صبر کا خرمن، پھر آہوں کا دھواں اٹھا
ہوا پھر نذرِ صرصر ہر نشیمن کا ہر اِک تنکا

ہوئی پھر صبحِ ماتم آنسوؤں سے بھر گئے دریا
چلا پھر سوئے گردوں کاروانِ نالۂ شب ہا
ہر اِک جانب فضا میں پھر مچا کہرامِ یارب ہا

کیا کریں

کیا کریں

مری تری نگاہ میں
جو لاکھ انتظار ہیں
جو میرے تیرے تن بدن میں
لاکھ دل فگار ہیں
جو میری تیری انگلیوں کی بے حسی سے
سب قلم نزار ہیں

اس کی جرات کو عجب معجزہ کرتے دیکھا

اس کی جرأت کو عجب معجزہ کرتے دیکھا
دو بجے رات کے، سورج کو ابھرتے دیکھا
تختۂ دار پہ اقرار کے اک لمحے نے
اپنی دہلیز پہ صدیوں کو ٹھہرتے دیکھا
آج جو ہو گیا سُولی کے بھنور میں روپوش
چشمِ فردا نے اسے پار اترتے دیکھا

خدائے برگ مجھے خاک سے اٹھا کے دکھا

خدائے برگ! مجھے خاک سے اٹھا کے دکھا
اٹھایا جاؤں تو پھر شاخ پر لگا کے دکھا
میں سنگِ شام سے سر پھوڑنے چلا ہوں ذرا
کنول سے خواب مجھے میری ابتدا کے دکھا
میں نیل نیل ترا حلفیہ بیاں تو پڑھوں
فگار پشت سے کُرتا ذرا اٹھا کے دکھا

پھر کیوں اداس کر گیا مژدہ وصال کا

پھر کیوں اداس کر گیا مژدہ وصال کا
کچھ ربط ہے ضرور خوشی سے ملال کا
تھم ہی نہ جائے کثرت اشیا کے بوجھ سے
کیا وقت آ پڑا ہے زمیں پر زوال کا
مٹ جائے دل سے حسرتِ اظہار کی خلش
اک روز ایک شعر کہو اس کمال کا

جب بھی شکووں پہ بات رکتی ہے

جب بھی شکووں پہ بات رکتی ہے
ہر نشاطِ حیات رکتی ہے
یوں اترتی ہے دل میں یاد ان کی
جیسے کوئی برات رکتی ہے
یوں نہ اِٹھلا کے، مسکرا کے چلو
گردشِ کائنات رکتی ہے

تیری زلفوں نے کیا کس پہ کرم رات گئے

تیری زلفوں نے کیا کس پہ کرم رات گئے
کس کے ہاتھوں سے نکالے گئے خم رات گئے
شب وعدہ کے مصائب کا نہیں میں ہی شکار
گھٹنے لگتا ہے ستاروں کا بھی دم رات گئے
اوس پڑ جاتی ہے خوشیوں  پہ نہ آنے سے تِرے
سر اٹھاتے ہیں بہم، رنج و الم رات گئے

جوانی حسن پہ چھائی ہوئی ہے پوری طرح

جوانی حسن پہ چھائی ہوئی ہے پوری طرح
ادا ادا پہ یہ چھائی ہوئی ہے پوری طرح
گھٹا کے سائے میں ساقی بھی لاکھ دعوت دے
قسم نہ پینے کی کھائی ہوئی ہے پوری طرح
شبِ فراق کے شعلوں نے ان کی سازش سے
بدن میں آگ لگائی ہوئی ہے پوری طرح

ترے خیال کو بھی فرصت خیال نہیں

تِرے خیال کو بھی فرصتِ خیال نہیں 
جدائی ہجر نہیں ہے، ملن وصال نہیں 
مِرے وجود میں ایسا سما گیا کوئی
غمِ زمانہ نہیں، فِکر ماہ و سال نہیں 
اسے یقین کے سورج سے ہی ابھرنا ہے 
وہ سیلِ وہم میں بہتا ہوا جمال نہیں 

دید سے ذوق ملاقات سے آگے نکلے

دید سے، ذوقِ ملاقات سے آگے نکلے 
عشق ممکن ہے تِری ذات سے آگے نکلے
لاگ جب اس کی بدل جائے لگاؤ میں کبھی
خاک تو ارض و سماوات سے آگے نکلے
روک لیتی ہے طلسمات کی جادو نگری
کب کوئی شہرِ جمادات سے آگے نکلے

فسانے کے کسی کردار سے الجھا نہیں کرتے

فسانے کے کسی کردار سے اُلجھا نہیں کرتے
کسی نادان کی تکرار سے الجھا نہیں کرتے
بقدرِ ظرف ملتی ہے محبت جس سے ملتی ہے
یہاں سائل کبھی سرکار سے الجھا نہیں کرتے
یہ درویشانِ الفت کی روایت ہے زمانے میں
کسی کی جیت، اپنی ہار سے الجھا نہیں کرتے

Wednesday, 14 February 2018

کھیل دونوں کا چلے تین کا دانہ نہ پڑے

کھیل دونوں کا چلے، تین کا دانہ نہ پڑے
سیڑھیاں آتی رہیں، سانپ کا خانہ نہ پڑے
دیکھ معمار! پرندے بھی رہیں، گھر بھی بنے
نقشہ ایسا ہو کوئی پیڑ گرانا نہ پڑے
میرے ہونٹوں پہ کسی لمس کی خواہش ہے شدید
ایسا کچھ کرمجھے سگرٹ کو جلانا نہ پڑے

مرے خلاف ان میں باہمی مشورے ہوئے ہیں

مِرے خلاف ان میں باہمی مشورے ہوئے ہیں
یہ دوست جو ایک ایک کر کے پرے ہوئے ہیں
چھتیں ٹپکنا بھی ایک نعمت ہے، مدتوں بعد
ہمارے گھر کے تمام برتن بھرے ہوئے ہیں
کوئی انہیں مار دے تو آدھی سزا ہی پائے
یہ مجھ سے وحشت زدہ جو آدھے مرے ہوئے ہیں

تم کو وحشت تو سکھا دی ہے گزارے لائق

تم کو وحشت تو سکھا دی ہے، گزارے لائق
اور کوئی حکم؟ کوئی کام، ہمارے لائق؟
معذرت! میں تو کسی اور کے مصرف میں ہوں
ڈھونڈ دیتا ہوں مگر کوئی تمہارے لائق
ایک دو زخموں کی گہرائی اور آنکھوں کے کھنڈر
اور کچھ خاص نہیں مجھ میں نظارے لائق

اک دن زباں سکوت کی پوری بناؤں گا

اک دن زباں سکوت کی، پوری بناؤں گا
میں گفتگو کو غیر ضروری بناؤں گا
تصویر میں بناؤں گا دونوں کے ہاتھ اور
دونوں میں ایک ہاتھ کی دوری بناؤں گا
مدت سمیت جملہ ضوابط ہوں طے شدہ
یعنی تعلقات عبوری بناؤں گا

شرنارتھی

شرنارتھی

خواب شب کی منڈیروں پہ بیٹھے ہوئے 
گھورتے ہیں مجھے 
میری آنکھوں میں بسنے کو بے چین ہیں 
میں اسی خوف سے رات بھر 
جاگتا ہوں کہ میں سو گیا گر 

زندگی کے پیڑ سے

زندگی کے پیڑ سے
ایک پتا اور گر کر
ڈھیر میں گم ہو گیا ہے
ڈھیر ان پتوں کا جو پہلے گرے تھے
ہنس رہا ہے
زندگی کا پیڑ خوش ہے
جیسے اس کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے

گمشدہ تنہائیوں کی رازداں اچھی تو ہو

گمشدہ تنہائیوں کی رازداں! اچھی تو ہو 
میں یہاں اچھا نہیں ہوں تم وہاں اچھی تو ہو 
وقتِ رخصت بھیگے بھیگے ان دریچوں کی قسم 
نور پیکر، چاند صورت گلستاں اچھی تو ہو 
تھرتھراتے کانپتے ہونٹوں کو آیا کچھ سکوں 
اے زباں رکھتے ہوئے بھی بے زباں اچھی تو ہو 

گھٹاؤں کی اداسی پی رہا ہوں

گھٹاؤں کی اداسی پی رہا ہوں 
میں اک گہرا سمندر بن گیا ہوں 
تری یادوں کے انگاروں کو اکثر 
تصور کے لبوں سے چومتا ہوں 
کوئی پہچاننے والا نہیں ہے 
بھرے بازار میں تنہا کھڑا ہوں 

آج میں اکیلا ہوں دل گریزاں چلو کہیں پر

آج میں اکیلا ہوں
دلِ گریزاں
چلو کہیں پر
کھلی ہواؤں میں
روئیں جا کر
دلِ گریزاں
یہاں گھٹن ہے منافقت کی

آدھی آدھی رات تک سڑکوں کے چکر کاٹیے

آدھی آدھی رات تک سڑکوں کے چکر کاٹیے 
شاعری بھی اک سزا ہے زندگی بھر کاٹیے
شب گئے بیمار لوگوں کو جگانا ظلم ہے
آپ ہی مظلوم بنیے، رات باہر کاٹیے
جال کے اندر بھی میں تڑپوںگا چیخوںگا ضرور
مجھ سے خائف ہیں تو میری سوچ کے پر کاٹیے

اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے

اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے 
میرے ہونٹوں پہ مِرے نام کا بوسہ رکھ دے
حلق سے اب تو اترتا نہیں اشکوں کا نمک 
اب کسی اور کی گردن پہ یہ دنیا رکھ دے 
روشنی اپنی شباہت ہی بھلا دے نہ کہیں 
اپنے سورج کے سرہانے مرا سایہ رکھ دے 

بجھ گئیں عقلوں کی آنکھیں گل گئے جذبوں کے پر

بجھ گئیں عقلوں کی آنکھیں گل گئے جذبوں کے پر
کہر کے کیچڑ میں تڑپے ہیں پرندے رات بھر
جانے پھر کن دلدلوں سے آخری آواز دیں
اپنی بے منشور عمریں اپنے بے منزل سفر
میرے باہر چار سو مرتی صداؤں کا سراب
تُو بکھرنا چاہتا ہے تو مرے اندر بکھر

Tuesday, 13 February 2018

ادھر نہ دیکھو

ادھر نہ دیکھو

ادھر نہ دیکھو کہ جو بہادر 
قلم کے یا تیغ کے دھنی تھے 
جو عزم و ہمت کے مدعی تھے 
اب ان کے ہاتھوں میں صدق ایماں کی 
آزمودہ پرانی تلوار مڑ گئی ہے 

پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو

پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو

ہم کیا کرتے کس رہ چلتے 
ہر راہ میں کانٹے بکھرے تھے 
ان رشتوں کے جو چھوٹ گئے 
ان صدیوں کے یارانوں کے 
جو اک اک کر کے ٹوٹ گئے 

جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں

بلیک آؤٹ

جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں 
خاک میں ڈھونڈھتا پھرتا ہوں نہ جانے کس جا 
کھو گئی ہیں مِری دونوں آنکھیں 
تم جو واقف ہو بتاؤ! کوئی پہچان مِری 
اس طرح ہے کہ ہر اک رگ میں اتر آیا ہے 

بہ نوک شمشیر

بہ نوکِ شمشیر

میرے آبا کہ تھے نامحرم طوق و زنجیر 
وہ مضامیں جو ادا کرتا ہے اب میرا قلم 
نوکِ شمشیر پہ لکھتے تھے بہ نوکِ شمشیر 
روشنائی سے جو میں کرتا ہوں کاغذ پہ رقم 
سنگ و صحرا پہ وہ کرتے تھے لہو سے تحریر

فیض احمد فیض

Monday, 12 February 2018

والہانہ مرے دل میں مری جاں میں آ جا

والہانہ مِرے دل میں مِری جاں میں آ جا 
میرے ایماں میں مِرے وہم و گماں میں آ جا 
موند ان آنکھوں کو صاحب نظراں میں آ جا 
حدِ نظارگیٔ کون و مکاں میں آ جا 
آیتِ رحمتِ یزداں کی طرح دل میں اتر 
ایک اک لفظ میں ایک ایک بیاں میں آ جا 

آئینہ سے

آئینہ سے

آئینے! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو
تُو نے وہ زلف وہ مکھڑا وہ دہن دیکھا ہے
ان کے ہر حال کا بے ساختہ پن دیکھا ہے
وہ نہ خود دیکھ سکیں جس کو نظر بھر کے کبھی
تُو نے جی بھر کے وہ ہر خطِ بدن دیکھا ہے
ان کی تنہائی کا دلدار ہے دمساز ہے تُو
آئینے! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو

اپنا تو ابد ہے کنج مرقد

ازل ۔ ابد

اپنا تو ابد ہے کنجِ مرقد
جب جسم سپرد خاک ہو جائے
مرقد بھی نہیں وہ آخری سانس
جب قصۂ زیست پاک ہو جائے
وہ سانس نہیں شکستِ امید
جب دامن دل ہی چاک ہو جائے

میں جانتا ہوں کہ آنسو فنا کا لمحہ ہے

داد گر

میں جانتا ہوں کہ آنسو فنا کا لمحہ ہے
اسے تِری نگۂ جاوداں سے ربط نہیں
میں جانتا ہوں کہ تُو بھی شکار دوراں ہے
متاعِ جاں کے سوا اس قمار خانے میں
ہر ایک نقد نفس ہار کر پشیماں ہے
مگر یہ ربط ہے کیسا یہ کیا تعلق ہے

Sunday, 11 February 2018

جو لوگ سمندر میں بھی رہ کر رہے پیاسے

جو لوگ سمندر میں بھی رہ کر رہے پیاسے
اک ابر کا ٹکڑا انہیں کیا دے گا دلاسے
مانا کہ ضروری ہے نگہبانی خودی کی
بڑھ جائے نہ انسان مگر اپنی قبا سے
برسوں کی مسافت میں وہ طے ہو نہیں سکتے
جو فاصلے ہوتے ہیں نگاہوں میں ذرا سے

میں آرزوئے دید کے کس مرحلے میں ہوں

میں آرزوئے دید کے کس مرحلے میں ہوں
خود آئینہ ہوں یا میں کسی آئینے میں ہوں
رہبر نے کیا فریب دیئے ہیں مجھے، نہ پوچھ
منزل پہ ہوں نہ اب میں کسی راستے میں ہوں
اس دم نہیں ہے فرق، صبا و سموم میں
احساس کے لطیف سے اک دائرے میں ہوں

Saturday, 10 February 2018

بجائے کوئی شہنائی مجھے اچھا نہیں لگتا

بجائے کوئی شہنائی، مجھے اچھا نہیں لگتا
محبت کا تماشائی، مجھے اچھا نہیں لگتا
وہ جب بچھڑے تھے ہم تو یاد ہے گرمی کی چھٹیاں تھیں؟
تبھی سے ماہِ جولائی، مجھے اچھا نہیں لگتا
وہ شرماتی ہے اتنا کہ ہمیشہ اس کی باتوں کا
قریباً ایک چوتھائی، مجھے اچھا نہیں لگتا

عشق میں نے لکھ ڈالا قومیت کے خانے میں

عشق" میں نے لکھ ڈالا "قومیت" کے خانے میں"
‎اور "تیرا دل" لکھا "شہریت" کے خانے میں
‎مجھ کو تجربوں نے ہی باپ بن کے پالا ہے
‎سوچتا ہوں کیا لکھوں "ولدیت" کے خانے میں؟
‎میرا ساتھ دیتی ہے، میرے ساتھ رہتی ہے
‎میں نے لکھا "تنہائی"، "زوجیت" کے خانے میں

موت کا سکہ آؤ چرا کے لہو سی سرخی

موت کا سکہ

آؤ چُرا کے لہو سی سرخی
وقت سے فرصت
اور سورج سے تھوڑی حدت
پھر دھڑکن کی چابک لے کر
ڈوبتی نبضوں کو دوڑائیں
اور صحرائے زیست کو پاٹیں

تم جو سارے شہر کو خالی کر جاتے ہو

کیوں جاتے ہو

تم جو سارے شہر کو خالی کر جاتے ہو
کیوں جاتے ہو
تم کیا جانو پیار کی نظمیں
ہجر کے گیت میں ڈھل جاتی ہیں
شامیں پھیکی پڑ جاتی ہیں
اور راتوں کو کلی کلی کی

اداسی گرد جمی ہے آئینے پر

اداسی

گرد جمی ہے آئینے پر
میز پہ رکھی ڈائری چپ ہے
سوکھ چکی ہے قلم سیاہی
اور کتابیں بھی گم صم ہیں
شکن شکن ہے بستر سارا
گجرے کب کے ٹوٹ چکے ہیں

سدا ممتاز لگتا ہے دسمبر کس لیے آخر

دسمبر

وہ درجن بھر مہینوں سے
سدا ممتاز لگتا ہے
دسمبر کس لیے آخر 
ہمیشہ خاص لگتا ہے
بہت سہمی ہوئی صبحیں
اداسی سے بھری شامیں

فقط آنکھوں میں اشکوں کے کہاں سیلاب رہتے ہیں

فقط آنکھوں میں اشکوں کے کہاں سیلاب رہتے ہیں
بہت سے دل بھی ایسے ہیں جو زیرِ آب رہتے ہیں
جو روشن کر نہیں سکتے مقدر کے اندھیروں کو
وہ شعلے گھر جلانے کو بہت بے تاب رہتے ہیں
خدایا کن زمینوں پر خوشی کے پھول کھلتے ہیں 
فلک کس حال میں ہیں وہ جہاں مہتاب رہتے ہیں

ہم سمجھے تھے ہم نے غم کو دیس نکالا دے ڈالا ہے

ہم سمجھے تھے ہم نے غم کو دیس نکالا دے ڈالا ہے 
تیری باتوں نے تو اس کو اور سنبھالا دے ڈالا ہے
سب کہتے ہیں پتھر پگھلے، لوہا یاں پر موم ہوا ہے 
تجھ کو قدرت نے کیوں دل پر ایسا تالا دے ڈالا ہے 
کیسے اُجلے خواب بُنے تھے ہم سب نے بھی اپنے اندر 
روشن خوابوں کے منظر کو، دھندلا ہالا دے ڈالا ہے 

میں غازی ہوں کہ بچ نکلی محبت کی لڑائی میں

میں غازی ہوں کہ بچ نکلی محبت کی لڑائی میں 
فقط دل کے تھے کچھ ٹکڑے لٹا آئی دہائی میں
مِری ساری حیاتی کا بھلا کیا مول دیتے ہو 
فقط چاندی کا اک سِکہ دیا تھا جو سگائی میں
مجھے خیرات میں پتھر نہیں، ہیرے دیئے اس نے
کسی دشمن نے یہ باتیں اڑا ڈالیں ہوائی میں

درد ترا کیا خاک سنبھالیں دل تو اپنے ہات نہیں ہے

درد ترا کیا خاک سنبھالیں، دل تو اپنے ہات نہیں ہے
سو باتوں کی بات یہی ہے تیرے نام کی گھات نہیں ہے
ایک پلندا خط کا اس کے پڑھ کر یہ محسوس ہوا ہے 
لفظوں کی تکرار ہے ساری، بات میں کوئی بات نہیں ہے 
وقت کے جب اسرار کھلیں گے منہ سب دیکھتے رہ جائیں گے 
کچھ زخموں پر پھاہا رکھنا لفظوں کی اوقات نہیں ہے 

بڑے تپاک سے بھیجا سلام وحشت نے

بڑے تپاک سے بھیجا سلام وحشت نے
سکوت میں کِیا ہم سے کلام وحشت نے
تمہِیں بتاؤ کہ ہم خود سے بچ کے جائیں کہاں
ہمیں تو سونپ دیا سارا کام وحشت نے
امورِ سلطنتِ دل کی خیر ہو یا رب
یہاں سنبھالا ہے سب انتظام وحشت نے

وحشت رفتہ رفتہ مجھ میں خاک اڑا کے بیٹھی ہے

وحشت رفتہ رفتہ مجھ میں خاک اڑا کے بیٹھی ہے
دھڑکن خاموشی کی صورت شور مچا کے بیٹھی ہے
رات تمناؤں کے زیور تن پہ میرے سجتے رہے
صبحِ حسرت من کو نیا گہنا پہنا کے بیٹھی ہے
چوبِ جاں سے دیر تلک کل رات دھواں اٹھتے دیکھا
خیمۂ دل کو ایک تمنا آگ لگا کے بیٹھی ہے

رقص فسوں

رقصِ فسوں

میں جو مشرق کے شبستانوں میں مصلوب ہوئی
میں جو مے خانۂ مغرب سے بھی منسوب ہوئی
پہلے تقدیس کے ناموں پہ مِرا سودا ہوا
اپنی حُرمت کا میں تاوان ادا کرتی رہی
اب بھی بازارِ تصرّف میں بہت سستی ہوں
اب بھی بکتی ہوں تو قیمت بھی مجھے ملتی نہیں

ایک سناٹا سا تقریر میں رکھا گیا تھا

ایک سناٹا سا تقریر میں رکھا گیا تھا 
خواب ہی خواب کی تعبیر میں رکھا گیا تھا
آگہی روز ڈراتی رہی منزل سے، مگر 
حوصلہ پاؤں کی زنجیر میں رکھا گیا تھا
کون بِسمل تھا بتا ہی نہیں سکتا کوئی 
زخمِ دل سینۂ شمشیر میں رکھا گیا تھا

شکوہ گردش حالات لئے پھرتا ہے

شکوۂ گردش حالات لیے پھرتا ہے
جس کو دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے
اس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے
اور مجھے شوقِ ملاقات لیے پھرتا ہے
شاخچہ ٹوٹ چکا کب کا شجر سے، لیکن
اب بھی کچھ سوکھے ہوۓ بات لیے پھرتا ہے

اسے تو پاس خلوص وفا ذرا بھی نہیں

اسے تو پاسِ خلوصِ وفا ذرا بھی نہیں 
مگر یہ آس کا رشتہ کہ ٹوٹتا بھی نہیں
گھِرے ہوئے ہیں خموشی کی برف میں کب سے 
کسی کے پاس کوئی تیشۂ صدا بھی نہیں
مآل غنچہ و گُل ہے مِری نگاہوں میں 
مجھے تبسم‌ِ کاذب کا حوصلہ بھی نہیں

طے ہو گیا ہے مسئلہ جب انتساب کا

طے ہو گیا ہے مسئلہ جب انتساب کا 
اب یہ بھی کوئی کام ہے لکھنا کتاب کا
کھایا ہے سَیر ہو کے خیالی پلاؤ آج 
پانی پھر اس کے بعد پیا ہے سراب کا
دیکھی ہے ایک فلم پرانی تو یوں لگا 
جیسے کہ کوئی کام کیا ہے ثواب کا

اس حسیں کے خیال میں رہنا

اس حسِیں کے خیال میں رہنا 
عالمِ بے مثال میں رہنا
کب تلک روح کے پرندے کا 
ایک مٹی کے جال میں رہنا
اب یہی نغمگی کی نُدرت ہے 
سُر میں رہنا نہ تال میں رہنا

Friday, 9 February 2018

جہاں کہیں وہ سر شام بے نقاب ملے

جہاں کہیں وہ سرِ شام بے نقاب ملے
سحر کے روپ میں ہمرنگِ آفتاب ملے
خدا کے نام پہ جلووں کو بانٹتے جاؤ
زمانہ فیض اٹھائے، تمہیں ثواب ملے
رہِ حیات میں وہ ہمسفر رہے جب تک
بلند و پست کے ماحول پُر شباب ملے

دامن تمہارا چھوڑ دوں یہ تم نے کیا کہا

دامن تمہارا چھوڑ دوں، یہ تم نے کیا کہا
رخ زندگی کا موڑ دوں، یہ تم نے کیا کہا
غم کے خوشی کے، پیار کے فرقت کے وصل کے
سب سلسلوں کو توڑ دوں، یہ تم نے کیا کہا
دنیا کے ہر فریب سے جس نے نجات دی
اس آستاں کو چھوڑ دوں،یہ تم نے کیا کہا

ہم کو ایسے بھی خواب آئے ہیں

ہم کو ایسے بھی خواب آئے ہیں
شب کو وہ بے حجاب آئے ہیں
بے نقابی کا پردہ رہ جاتا
آپ کیوں بے نقاب آئے ہیں
انگ انگ ان کا جھومتا ہے یوں
جیسے پی کر شراب آئے ہیں

ہم جو مل بیٹھیں تو یک جان بھی ہو سکتے ہیں

ہم جو مل بیٹھیں تو یکجان بھی ہو سکتے ہیں 
پورے اپنے سبھی ارمان بھی ہو سکتے ہیں 
تجھ سے اس سطح پہ آ پہنچا ہے رشتہ اپنا 
بن بلائے تِرے مہمان بھی ہو سکتے ہیں 
ہم تِرے نام کی جیتے نہیں مالا ہی فقط 
ہم تِرے نام پہ قربان بھی ہو سکتے ہیں 

Wednesday, 7 February 2018

اس نے فقط سلام کیا زیر لب مجھے

اس نے فقط سلام کیا زیرِ لب مجھے 
دل تک سنائی دینے لگا سب کا سب مجھے
اچھا کِیا ہے گھر میں پرندوں کو پال کر 
کچھ اور رزق دینے لگا میرا رب مجھے
تبدیل کر رہی ہے مِرے دن کو کس لیے 
اے رات دیکھنا ہی نہیں خواب اب مجھے

اک دیا جلتا رہا جس کو منانے کے لیے

اک دیا جلتا رہا جس کو منانے کے لئے 
اب وہ تیار نہیں خواب میں آنے کے لئے
گھوم کر دیکھ لی دنیا بھی مگر یہ نہ کھلا 
کون سا شہر مناسب ہے ٹھکانے کے لئے
لوٹ کر آیا نہیں چھوڑ کے جانے والا 
میں نے آواز تو دی اس کو بلانے کے لئے

تیرے چہرے کے ابھی خواب نہیں دیکھتا میں

تیرے چہرے کے ابھی خواب نہیں دیکھتا میں 
اس لئے رات کو مہتاب نہیں دیکھتا میں
اپنی مٹی کے اجالوں پہ یقیں ہے مجھ کو 
اب چراغوں کی تب و تاب نہیں دیکھتا میں
جو بھی سچ ہو میں اسے منہ پہ کہا کرتا ہوں 
خواہشِ حلقۂ احباب نہیں دیکھتا میں

یہی تو زیست میں سب سے بڑا خسارہ ہوا

یہی تو زیست میں سب سے بڑا خسارہ ہوا 
کہ لوٹ کر کبھی آیا نہ دن گزارا ہوا
پلک جھپکتے ہی بدلے ہیں اس جمال کے رنگ 
میں کیا بتاؤں کہاں کون سا نظارہ ہوا
وفا کے نام پر اس کو غلام چاہیئے تھا 
پھر اس کے ہاتھ کا میری طرف اشارہ ہوا

کسی دن اس ستم گر نے

اعزاز

کسی دن اس ستمگر نے
مجھے چادر اوڑھائی تھی
مِرا دل گنگنا اٹھا
مجھے اس کی عقیدت پر محبت کا گماں ٹھہرا
یہ  عقدہ اب کھلا مجھ پر

گاہے گاہے خواہش دل کے دروازے تک آتی ہے

نادانی

گاہے گاہے خواہش دل کے دروازے تک آتی ہے
چپکے سے اک سیندھ لگا کر مژدہ نیا سناتی ہے
دل کے در سے لپٹا ہر اک جذبہ شور مچاتا ہے
دل ہلکورے لے لیتا ہے
لیکن اس کی یاد کی تنبیہہ سہمائے سا رکھتی ہے

Tuesday, 6 February 2018

لا اک خم شراب کہ موسم خراب ہے

لا اک خُمِ شراب کہ موسم خراب ہے 
کر کوئی انقلاب کہ موسم خراب ہے 
زلفوں کو بے خودی کی ردا میں لپیٹ دے 
ساقی پئے شباب کہ موسم خراب ہے 
جام و سبو کے ہوش ٹھکانے نہیں رہے 
مطرب اٹھا رباب کہ موسم خراب ہے 

وسعت کیسوئے جاناں سے الجھ بیٹھے ہیں

وسعتِ کیسوئے جاناں سے الجھ بیٹھے ہیں
صورتِ گردشِ دوراں سے الجھ بیٹھے ہیں
مدحتِ بادۂ انگور کی خاطر ساقی 
رِند اک صاحبِ ایماں سے الجھ بیٹھے ہیں
چند نغمے جو مِرے سازِ جنوں نے چھیڑے
مستئ چشمِ غزالاں سے الجھ بیٹھے ہیں

ابر میں یاد یار آوے ہے

ابر میں یادِ یار آوے ہے 
گریہ بے اختیار آوے ہے 
باغ سے گل عذار آوے ہے 
بوئے گل پر سوار آوے ہے 
اے خزاں بھاگ جا چمن سے شتاب 
ورنہ فوجِ بہار آوے ہے 

ایک مدت سے طلب گار ہوں کن کا ان کا

ایک مدت سے طلبگار ہوں کن کا ان کا 
تشنۂ حسرت دیدار ہوں، کن کا ان کا 
جان کو بیچ کے یہ نقدِ دل اب لایا ہوں 
سب سے پہلے میں خریدار ہوں کن کا ان کا 
امتداد اس مِرے بیمار کا مت پوچھ طبیب 
روزِ میثاق سے بیمار ہوں کن کا ان کا 

مضمون خط کو دیکھ ترے ہم بہت ڈرے

مضمونِ خط کو دیکھ تِرے ہم بہت ڈرے 
جتنے مسودے تھے رہے طاق پر دھرے
جیتا ہے یا کہ مر گیا، دل کی خبر نہیں 
یادش بخیر ہو یا خدا مغفرت کرے
آرامِ زندگی نہیں اس دل کے ہاتھ سے 
عمرِ دوبارہ ہو جو یہ دشمن کہیں مرے

عجیب لوگ تھے وہ تتلیاں بناتے تھے

عجیب لوگ تھے وہ تتلیاں بناتے تھے
سمندروں کے لیے سیپیاں بناتے تھے
وہی بناتے تھے لوہے کو توڑ کر تالا
پھر اس کے بعد وہی چابیاں بناتے تھے
میرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا
مِرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے

کتنا دشوار ہے جذبوں کی تجارت کرنا

کتنا دشوار ہے جذبوں کی تجارت کرنا
ایک ہی شخص سے دو بار محبت کرنا
جس کو تم چاہو کوئی اور نہ چاہے اس کو
اس کو کہتے ہیں محبت میں سیاست کرنا
سرمئی آنکھ حسیں جسم گلابی چہرا
اس کو کہتے ہیں کتابت پہ کتابت کرنا

یہ جو رہ رہ کے سر دشت ہوا چلتی ہے

یہ جو رہ رہ کے سرِ دشت ہوا چلتی ہے
کتنی اچھی ہے مگر کتنا برا چلتی ہے
ایک آسیب تعاقب میں لگا رہتا ہے
میں جو رکتا ہوں تو پھر اس کی صدا چلتی ہے
ہائے وہ سانس کہ رکتی ہے تو کیا رکتی ہے
ہائے وہ آنکھ کہ چلتی ہے تو کیا چلتی ہے

حرف دل نارسا ہے ترے شہر میں

حرفِ دلِ نارسا ہے تِرے شہر میں 
ہر صدا بے صدا ہے ترے شہر میں 
کوئی خوشبو کی جھنکار سنتا نہیں 
کون سا گل کھلا ہے ترے شہر میں 
کب دھنک سو گئی کب ستارے بجھے 
کوئی کب سوچتا ہے ترے شہر میں 

بھرا ہوا تری یادوں کا جام کتنا تھا

بھرا ہوا تِری یادوں کا جام کتنا تھا 
سحر کے وقت تقاضائے شام کتنا تھا 
رخِ زوال پہ رنگِ دوام کتنا تھا 
کہ گھٹ کے بھی مِرا ماہِ تمام کتنا تھا 
تھا تیرے ناز کو کتنا مِری انا کا خیال 
مِرا غرور بھی تیرا غلام کتنا تھا 

شکریہ تیرا کہ غم کا حوصلہ رہنے دیا

شکریہ تیرا، کہ غم کا حوصلہ رہنے دیا 
بے اثر کر دی دعا دستِ دعا رہنے دیا 
منصفی کا شورِ محشر گونجتا رہنے دیا 
سب دلیلوں کو سنا اور فیصلہ رہنے دیا 
اے خدا ممنون ہوں تیرا کہ میرے پھول میں 
تُو نے خوشبوئے ہوس، رنگِ وفا رہنے دیا 

ترے خیال کا شعلہ تھما تھما سا تھا

تِرے خیال کا شعلہ تھما تھما سا تھا 
تمام شہرِ تمنا، بجھا بجھا سا تھا 
نہ جانے موسمِ تلوار کس طرح گزرا 
مِرے لہو کا شجر تو جھکا جھکا سا تھا 
ہمیں بھی نیند نے تھپکی دی سو گئے تم بھی 
تمام حادثۂ شب، سنا سنا سا تھا 

کیسے گزرے گا دوسرا صاحب

کیسے گزرے گا دوسرا صاحب
تھوڑا چھوڑیں گے راستہ صاحب
میں کسی اور سے مخاطب ہوں
ناپیے اپنا راستہ صاحب
خود کمایا ہے جو گنواتا ہوں
آپ کا کیا ہے واسطہ صاحب

سنا ہے دانہ انہیں ملے گا

سنا ہے دانہ انہیں ملے گا
قفس میں چہکیں جو پر نہ کھولیں
قفس کو وطنِ عزیز بولیں
وہ دیکھو شاہیں بھی پَل رہے ہیں 
یہ دیکھو بازوں کے بازؤوں پر ہے چربی کتنی
مگر خبر ہے کہ چند چِڑیوں نے طے کیا ہے

زخم بھی چلتے ہیں چکر میں خبردار رہو

زخم بھی چلتے ہیں چکر میں خبردار رہو
وقت صرف مرہم تو نہیں رکھا کرتا
کیوں مرے جاتے ہو یوں حیرت سے 
ماضی آ جاتا ہے مستقبل میں دبے پاؤں کبھی
آج یہ آج نہیں اور نہ کل تھا کوئی کل 
وقت کی تہہ بھی سرکتی ہے زمیں کے ہمراہ

میں اپنے لہجے کی تلخیوں سے

میں اپنے لہجے کی تلخیوں سے
تمیارے خوابوں کے سارے موسم جلا رہا تھا
میں اپنے لفظوں کے رُوکھے پن سے 
تمہارے اجڑے چمن کو ابتر بنا رہا تھا
میں اپنے اندر کی ہر تھکن کو 
تمہارے بوجھل بدن کی زینت بنا رہا تھا

ویسے تو بہت دھویا گیا گھر کا اندھیرا

ویسے تو بہت دھویا گیا گھر کا اندھیرا
نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا
کچھ روشنیِٔ طبع ضروری ہے، وگرنہ
ہاتھوں میں اتر آتا ہے یہ سر کا اندھیرا
وہ حکم کہ ہے عقل و عقیدہ پہ مقدم
چھٹنے ہی نہیں دیتا مقدر کا اندھیرا

یا پھونک سے چراغ بجھا دے حواس کا

یا پھونک سے چراغ بجھا دے حواس کا
یا آئینے سے چھین ہنر انعکاس کا
دم گھٹ گیا ہے لمسِ لطافت سے اے خدا
اعلان کر ہواؤں میں مٹی کی باس کا
ہر آب جُو پہ ریت کا پہرہ لگا ہوا
یہ زندگی ہے یا کوئی صحرا ہے پیاس کا

ہر کسی کا ہر کسی سے رابطہ ٹوٹا ہوا

ہر کسی کا ہر کسی سے رابطہ ٹوٹا ہوا
آنکھ سے منظر، خبر سے واقعہ ٹوٹا ہوا
کیوں یہ ہم صورت رواں ہیں مختلف اطراف میں
ہے کہیں سے قافلے کا سلسلہ ٹوٹا ہوا
وائے مجبوری کہ اپنا مسخ چہرہ دیکھئے
سامنے رکھا گیا ہے آئینہ ٹوٹا ہوا

اس حسن نے آنکھ کے امبر پر جو نقش ابھارا ایسا تھا

اس حسن نے آنکھ کے امبر پر، جو نقش ابھارا ایسا تھا
کوئی نہ شفق کا پھول ایسا، کوئی نہ ستارا ایسا تھا
پھر تیز ہوا نے پاؤں میں، ڈالی زنجیر بگولے کی
سو ہم نے گریباں چاک کیا، موسم کا اشارہ ایسا تھا
تھی تو افراط شرابوں کی، لیکن ہم پیاسے کیا کرتے
جو جام چکھا سو توڑ دیا، معیار ہمارا ایسا تھا

Sunday, 4 February 2018

تم سے راہ و رسم بڑھا کر دیوانے کہلائیں کیوں

تم سے راہ و رسم بڑھا کر دیوانے کہلائیں کیوں
جن گلیوں میں پتھر برسیں ان گلیوں میں جائیں کیوں
ویسے ہی تاریک بہت ہیں لمحے غم کی راتوں کے
پھر میرے خوابوں میں یارو! وہ گیسو لہرائیں کیوں
مجبوروں کی اس بستی میں کس سے پوچھیں کون بتائے
اپنا محلہ بھول گئی ہیں بے چاری لیلائیں کیوں

اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے 
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
کسی 'کم ظرف' کو 'با ظرف' اگر کہنا پڑے 
ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی، لیکن 
اپنے وعدوں سے مُکر جانے کو جی چاہتا ہے

یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد

یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد
غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد
ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا
کہ جیسے چاند کھلا ہی نہیں ہے تیرے بعد
مہکتی رات سے دل سے قلم سے کاغذ سے
کسی سے ربط رکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد

تنہائی کی گلی میں ہواؤں کا شور تھا

تنہائی کی گلی میں ہواؤں کا شور تھا
آنکھوں میں سو رہا تھا اندھیرا تھکا ہوا
سینے میں جیسے تیر سا پیوست ہو گیا
تھا کتنا دل خراش اداسی کا قہقہہ
یوں بھی ہوا کہ شہر کی سڑکوں پہ بارہا
ہر شخص سے میں اپنا پتہ پوچھتا پھرا

Saturday, 3 February 2018

چہرہ سرسوں کی طرح زلف گھٹاؤں والی

چہرہ سرسوں کی طرح زلف گھٹاؤں والی 
شہر میں آئی ہے لڑکی کوئی گاؤں والی 
نیل پالش کی جگہ اس لیے ناخن پہ ملا 
خون کی خوشبو لگی مجھ کو حناؤں والی 
ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتے مِرے شہر کے لوگ 
اور باتیں سبھی کرتے ہیں خداؤں والی 

جہیز کم تھا بہو آگ میں اتاری ہے

جہیز کم تھا، بہو آگ میں اتاری ہے 
ہمارے گاؤں میں اب تک یہ رسم جاری ہے
قدم اٹھاؤں گی تو خاک پر لہو ہو گا 
پڑی ہے پیر جو زنجیر مجھ سے بھاری ہے
ردائے ہجر پہ جو درد کی کڑھائی کی
تمہاری یاد میں یہ پہلی دستکاری ہے

دن نہیں ڈھل رہا فقط یادیں مسلط ہیں

دن نہیں ڈھل رہا

کنارے پر کھڑی ہوں دشت جیسی
دہکتی راکھ آنکھیں موند کر میں
نجانے کون سا دکھ ہے جبیں پر 
جسے پڑھ کر بھنور مجھ پر ہنسے ہیں
لکیریں کھینچتی ہوں ریت پر جو 
پرندے بن رہے ہیں اڑ رہے ہیں

تم اس خرابے میں چار چھے دن ٹہل گئی ہو

تم اس خرابے میں چار، چھے دن ٹہل گئی ہو
سو عین ممکن ہے دل کی حالت بدل گئی ہو
تمام دن اس دعا میں کٹتا ہے کچھ دنوں سے
میں جاؤں کمرے میں تو اداسی نکل گئی ہو
کسی کے آنے سے ایسے ہلچل ہوئی ہے مجھ میں
خموش جنگل میں جیسے بندوق چل گئی ہو

تجھے نہ آئیں گی مفلس کی مشکلات سمجھ

تجھے نہ آئیں گی مفلس کی مشکلات سمجھ
میں چھوٹے لوگوں کے گھر کا بڑا ہوں، بات سمجھ
مِرے علاوہ ہیں چھے لوگ منحصر مجھ پر
مِری ہر ایک مصیبت کو ضرب سات سمجھ
فلک سے کٹ کے زمیں پر گری پتنگیں دیکھ
تو ہجر کاٹنے والوں کی نفسیات سمجھ

تشنگی جسم کی مٹی میں گڑی ملتی ہے

تشنگی جسم کی مٹی میں گڑی ملتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ پیاسوں سے لڑی ملتی ہے
آنکھیں تاریک، نصیب ان سے زیادہ تاریک
ہم اگر ہاتھ بھی مانگیں تو چھڑی ملتی ہے
اس بِنا پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ جڑواں ہیں
عشق کی شکل، اذیت سے بڑی ملتی ہے

نہیں ہے وجہ ضروری کہ جب ہو تب مر جائیں

نہیں ہے وجہ ضروری کہ جب ہو  تب مر جائیں
اداس لوگ ہیں، ممکن ہے بے سبب مر جائیں
ہماری نیند کا دورانیہ ہے روز افزوں
کوئی بعید نہیں ہے کہ ایک شب مر جائیں
یہ مرنے والوں کو رونے کا سلسلہ نہ رہے
کچھ ایسا ہو کہ بہ یک وقت سب کے سب مر جائیں

سنبھل کے دیکھا تو کانچ سا جسم کرچیوں میں بٹا ہوا تھا

سنبھل کے دیکھا تو کانچ سا جسم کرچیوں میں بٹا ہوا تھا 
خبر نہیں ہے کہ میرے اندر وہ اک دھماکہ سا کیا ہوا تھا 
وہ کھو گیا تھا تو یوں لگا تھا کہ عزتِ نفس لٹ گئی ہے 
میں روز کے ملنے والے لوگوں میں اک کھلونا بنا ہوا تھا 
خزاں کی وہ سرد رات بھی میں نے گھر سے باہر گزار دی تھی 
کہ میرے بستر پہ لاش بن کر مرا ہی سایہ پڑا ہوا تھا 

امن فاختہ تو پاگل تھی

امن

فاختہ تو پاگل تھی
موسموں کی سازش میں
پھر فریب کھا بیٹھی
توپ کے دہانے میں
گونسلہ بنا بیٹھی

نثار ناسک

میری اپنائی ہوئی قدروں نے ہی نوچا مجھے

میری اپنائی ہوئی قدروں نے ہی نوچا مجھے
تُو نے کس تہذیب کے پتھر سے لا باندھا مجھے
میں نے ساحل پر جلا دیں مصلحت کی کشتیاں
اب کسی کی بے وفائی کا نہیں کھٹکا مجھے
دست و پابستہ کھڑا ہوں پیاس کے صحراؤں میں
اے فرات زندگی! تُو نے یہ کیا بخشا مجھے؟

عطیہ؛ میں جب جاؤں گا اس دنیا میں

عطیہ

میں جب جاؤں گا 
اس دنیا میں 
اپنی دونوں آنکھیں چھوڑ جاؤں گا
کہ ڈھلتی شام میں 
سڑکوں کے دو رویہ

تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی

تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی

فلمی گیت (طلعت محمود)

تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی
اک خواب سا دیکھا ہے، تعبیر نہیں بنتی
تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی
 .....تصویر نہیں بنتی

اے دل بے قرار جھوم

گیت

اے دلِ بے قرار جھُوم
اے دلِ بے قرار جھوم

ابرِ بہار آ گیا
دورِ خزاں چلا گیا
عشق مراد پا گیا
حسن کی مچ رہی ہے دُھوم
اے دلِ بے قرار جھُوم

وہ ہمیں جس قدر آزماتے رہے

وہ ہمیں جس قدر آزماتے رہے 
اپنی ہی مشکلوں کو بڑھاتے رہے 
وہ اکیلے میں بھی جو لجاتے رہے 
ہو نہ ہو ان کو ہم یاد آتے رہے 
یاد کرنے پہ بھی دوست آئے نہ یاد 
دوستوں کے کرم یاد آتے رہے 

درد بے کیف غم بے مزا ہو گیا

درد بے کیف غم بے مزا ہو گیا
ہو نہ ہو کوئی مجھ سے خفا ہو گیا
بعدِ ترکِ تعلق یہ کیا ہو گیا
ربط پہلے سے بھی کچھ سوا ہو گیا
التفاتِ مسلسل بَلا ہو گیا
خود میں گھبرا کے ان سے خفا ہو گیا

Friday, 2 February 2018

ایک دیوانے سے بھرے شہر کو جا لگتی ہے

ایک دیوانے سے بھرے شہر کو جا لگتی ہے
یہ محبت تو مجھے کوئی وبا لگتی ہے
روز آتی ہے میرے پاس تسلی دینے
شب تنہائی، بتا! تُو میری کیا لگتی ہے
ایک فقط تُو ہے جو بدلا ہے دنوں میں ورنہ
لگتے لگتے ہی زمانے کی ہوا لگتی ہے

خوشبوئے گل نظر پڑے رقص صبا دکھائی دے

خوشبوئے گل نظر پڑے، رقصِ صبا دکھائی دے
دیکھا تو ہے کسی طرف، دیکھیے کیا دکھائی دے
تب میں کہوں کہ آنکھ نے دِید کا حق ادا کیا
جب وہ جمالِِ کم نُما دیکھے بِنا دکھائی دے
ایک سوال، اک جواب، پھر نہ رہا کوئی حجاب 
اس نے کہا؛ دکھائی دُوں میں نے کہا دکھائی دے

مری شراب تمنا مرے گلاس میں ہے

مِری شرابِ تمنا مِرے گلاس میں ہے
اسی لیے تو یہ منظر ابھی حواس میں ہے
نہ اشک پی کے میسر ہوئی وہ سیرابی
جو انتظار کے دو پتھروں کی پیاس میں ہے
میں اپنے آپ سے رہتا ہوں دور عید کے دن
اک اجنبی سا تکلف نئے لباس میں ہے

فلیش بیک

فلیش بیک

اتنی مدت کے بعد لوٹا ہوں
لوگ اپنی گلی کے یاد نہیں
حافظے پر بھی اعتماد نہیں
کون رہتا تھا اس محلے میں

کس کی خاطر میں روز بن ٹھن کر
گھر سے سہ پہر میں نکلتا تھا

Thursday, 1 February 2018

کہنے کو تو پیارا سا گھر لگتا ہے

کہنے کو تو پیارا سا گھر لگتا ہے
مجھ کو اس ویرانے سے ڈر لگتا ہے
شہر میں ہے یہ حال ترے دیوانے کا
جس رستے سے گزرے، پتھر لگتا ہے
چوٹ بھی کھا کر جب وہ چومے پتھر کو
ایسے میں انسان پیمبر لگتا ہے

دل جلتا ہے شام سویرے

دل جلتا ہے شام سویرے
ایک چراغ اور لاکھ اندھیرے
بھیگی پلکیں نیند سے خالی
چین کے دشمن رین بسیرے
لوگ سمجھتے ہیں سودائی
پیار نے اپنے بھی دن پھیرے

بے رحم موسموں کی طرف بھی تو دھیان کر

بے رحم موسموں کی طرف بھی تو دھیان کر
تعمیر بارشوں میں نہ کچا مکان کر
کچھ لوگ خوش ہیں ایک صنم سے یہ جان کر
سو راحتیں ملیں گی خدا اس کو مان کر
کرتا ہے چھاؤں، دھوپ کی چادر وہ تان کر
یارب! کسی پہ بھی نہ اسے مہربان کر

میں کٹ نہ جاؤں کہیں زندگی کے دھارے سے

میں کٹ نہ جاؤں کہیں زندگی کے دھارے سے
بلا رہا ہے کوئی دوسرے کنارے سے
چلو یہ مان لیا، داغدار ہے وہ شخص
تو اس کے نین ہیں کیوں آج بھی کنوارے سے
جو دل میں زلزلے آئے تو آنکھ میں سیلاب
تباہیاں یہ مچی ہیں تیرے اشارے سے

رو بہ زوال ہو گئی مستی حال شہر میں

رو بہ زوال ہو گئی مستئ حال شہر میں
اب کہیں اوج پر نہیں تیرا خیال شہر میں
یہ جو کراہتے ہوئے لوٹ رہے ہیں شہر سے
خوب دِکھا کے آئے ہیں اپنا کمال شہر میں
شہرِ وفا میں ہر طرف سود و زیاں کا ہے شمار
لائیں گے اب کہاں سے ہم کوئی مثال شہر میں

کہنا ہی کیا کہ شوخ کے رخسار سرخ ہیں

کہنا ہی کیا کہ شوخ کے رخسار سرخ ہیں
جب حرف شوخ سے لب گفتار سرخ ہیں
نادارئ نگاہ ہے اور زرد منظری
حسرت یہ رنگ کی ہے جو نادار سرخ ہیں
اب اس متاعِ رنگ کا اندازہ کیجیے
شوق طلب سے جس کے خریدار سرخ ہیں

تو بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے

تو بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے 
تیرے ساتھ تِری یاد آئی کیا تو سچ مچ آئی ہے 
شاید وہ دن پہلا دن تھا پلکیں بوجھل ہونے کا 
مجھ کو دیکھتے ہی جب اس کی انگڑائی شرمائی ہے 
اس دن پہلی بار ہوا تھا مجھ کو رفاقت کا احساس 
جب اس کے ملبوس کی خوشبو گھر پہنچانے آئی ہے 

ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں

ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں
ہر ناز آفریں کو ستاتا رہا ہوں میں
اے خوش خرام پاؤں کے چھالے تو گن ذرا
تجھ کو کہاں کہاں نہ پھراتا رہا ہوں میں
تجھ کو خبر نہیں کہ تِرا حال دیکھ کر
اکثر تِرا مذاق اڑاتا رہا ہوں میں