Wednesday, 7 October 2015

اب مجھے اتنا بھی لاچار نہ سمجھیں مرے لوگ

اب مجھے اتنا بھی لاچار نہ سمجھیں مِرے لوگ
صلح نامے کو مِری ہار نہ سمجھیں مِرےلوگ
میری پسپائی پہ سو جشن منائیں ، لیکن
میرے دشمن کو تو سالار نہ سمجھیں مِرے لوگ
پھر تو یوں ہے کہ مِرا خون اکارت ہی گیا
گر مجھے اب بھی وفادار نہ سمجھیں مِرے لوگ
دل نے کچھ اور ہی ٹھانی ہے سو ترغیبِ جہاں
میری خاموشی کو اقرار نہ سمجھیں مِرے لوگ
یوں نہ ہو پھر مِرا جانا بھی نہ دیکھا جائے
مجھ کو اتنا بھی وفادار نہ سمجھیں مِرے لوگ
راہ کی دھوپ گزاریں مِری چھاؤں میں، مگر
میں شجر ہوں، مجھے دیوار نہ سمجھیں مِرے لوگ
حرفِ اورنگِ سلیماں، نہ سخنِ ملکِ عزیز
پھر بھی اِس کھیل کو بیکار نہ سمجھیں مِرے لوگ
جس کا جی چاہے، وہ پڑھ لے مِرا چہرہ احمدؔ
آدمی ہوں، مجھے اخبار نہ سمجھیں مِرے لوگ

احمد فرید 

No comments:

Post a Comment