Sunday, 4 October 2015

چند لمحوں کے لیے ایک ملاقات رہی

چند لمحوں کے لیے ایک ملاقات رہی
پھر نہ وہ تُو نہ وہ میں اور نہ وہ رات رہی
کرۂ ارض نے دیکھا ہی نہیں وہ خورشید
جس کی گردش میں شب و روز مِری ذات رہی
اب ہر شخص اجالوں میں کھڑا ہے عریاں
کون سی شکل پسِ پردۂ ظلمات رہی
سرد مہری مِرے لہجے میں بھی ہو گی، لیکن
تجھ میں بھی تو نہ وہ پہلی سی کوئی بات رہی
حالِ دل اس کو سنا کر ہے بہت خوش کوثر
لیکن اب سوچ ذرا، کیا تِری اوقات رہی

کوثر نیازی

No comments:

Post a Comment