Saturday, 29 February 2020
سب یاد رکھا جائے گا
Thursday, 27 February 2020
دل کی دلی کو کس کی نظر لگ گئی
خداوندا تن تنہا گیا ہے سوئے دریا مرا پیاسا گیا ہے
کچھ بھی کرنا، لمحے ضائع مت کرنا
نظرانداز ہیں گھائل پڑے ہیں
Monday, 24 February 2020
اب اندھیروں میں جو ہم خوفزدہ بیٹھے ہیں
کوئی سوال نہ کر اور کوئی جواب نہ پوچھ
کہ اب ضمیر فروشی ہنر کا حصہ ہے
روز دل میں حسرتوں کو جلتا بجھتا دیکھ کر
تمہارے بعد سبھی دوست سب پرائے گئے
ہر دل میں ایک چور چھپا ہے بتائے کون
نہ دھوپ چھاؤں کے رحم و کرم پہ ڈال مجھے
Sunday, 23 February 2020
اس کھردری غزل کو نہ یوں منہ بنا کے دیکھ
چراغ اپنے ہوا دینے سے پہلے
ہوا ناراض تھی ہم سے کنارا دور تھا ہم سے
خود پکارے گی جو منزل تو ٹھہر جاؤں گا
خود پکارے گی جو منزل تو ٹھہر جاؤں گا
ورنہ خوددار مسافر ہوں، گزر جاؤں گا
آندھیوں کا مجھے کیا خوف میں پتھر ٹھہرا
ریت کا ڈھیر نہیں ہوں جو بکھر جاؤں گا
زندگی اپنی کتابوں میں چھپا لے، ورنہ
تیرے اوراق کے مانند بکھر جاؤں گا
اس راز کو کیا جانیں ساحل کے تماشائی
اس راز کو کیا جانیں ساحل کے تماشائی
ہم ڈوب کے سمجھے ہیں دریا! تِری گہرائی
جاگ اے مِرے ہمسایہ خوابوں کے تسلسل سے
دیوار سے آنگن میں اب دھوپ اتر آئی
چلتے ہوئے بادل کے سائے کے تعاقب میں
یہ تشنہ لبی مجھ کو صحراؤں میں لے آئی
ناکامی قسمت کا گلہ چھوڑ دیا ہے
ناکامئ قسمت کا گِلہ چھوڑ دیا ہے
تدبیر سے تقدیر کا رخ موڑ دیا ہے
وہ جرم بھی اک عظمتِ کردار ہے جس نے
ٹوٹا ہوا اک رشتۂ دل جوڑ دیا ہے
دل ڈوب چلا آخرِ شب خشک ہیں آنکھیں
آ جا، کہ ستاروں نے بھی دم توڑ دیا ہے
محبت عام کرتے ہیں
نظر میں تاب ہی کم ہے کہ روشنی کم ہے
Wednesday, 19 February 2020
جو تیرے ساتھ رہتے ہوئے سوگوار ہو
بعد میں مجھ سے نا کہنا گھر پلٹنا ٹھیک ہے
بچھڑ کر اس کا دل لگ بھی گیا تو کیا لگے گا
سو رہیں گے کہ جاگتے رہیں گے
Tuesday, 18 February 2020
خود سے نکلوں تو الگ ایک سماں ہوتا ہے
اور گہرائی میں اتروں تو دھواں ہوتا ہے
اتنی پیچیدگی نکلی ہے یہاں ہونے میں
اب کوئی چیز نہ ہونے کا گماں ہوتا ہے
سب سوالوں کے جواب ایک سے ہو سکتے ہیں
ہو تو سکتے ہیں، مگر ایسا کہاں ہوتا ہے؟
کیسے جانوں کہ جہاں خواب نما ہوتا ہے
فقط زمین سے رشتے کو استوار کیا
انا کا بوجھ کبھی جسم سے اتار کے دیکھ
خود کو اتنا بھی مت ستایا کر
عشق میں دان کرنا پڑتا ہے
Sunday, 16 February 2020
لکھ رہا ہوں میں کہانی خواب کی
سہہ نہ پاؤ گی پھر جدائی کو
انصر اس کا مسکن جو لاہور ہوا
ہمارے دریا میں بس روانی کا مسئلہ ہے
خود بجھاتا ہے چراغ اور مکر جاتا ہے
یہ اس پر منحصر ہے آج یا پھر کل نکالے
Saturday, 15 February 2020
بنجر زمیں کے واسطے آنسو سنبھال کر
گھپ اندھیرا تھا جا بجا مجھ میں
یک بہ یک جھوم اٹھا نفس کو غارت کر کے
اس میں موجود خزِینے سے محبت ہے میاں
بزرگ، متقی، تاجر، محلے دار سے تو
ہماری نیند ہے پوری نہ خواب پورے ہیں
کھینچ کر رات کی دیوار پہ مارے ہوتے
سفر کی ٹھان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
ایک شاہ زادی کے نام
Thursday, 13 February 2020
نقش تھا اور نام تھا ہی نہیں
کہاں کا زخم کہاں پر دکھائی دینے لگا
روشنی جیسے کسی شام کے آنے سے ہوئی
میں نے چاہا ہے ترا ذکر اذانوں میں چلے
یہ رنگ عاجزی جب سے مناجاتوں میں آیا ہے
پاگل نہ کر سکا تو اسے مار دوں گا میں
ابھی تو تم نے ہمارا زوال ہونا ہے
سانپ رکھے ہیں آستینوں میں
باقی رہی نہ خاک بھی میری زمانے میں
پھول اس خاکداں کے ہم بھی ہیں
صبح سے شام کے آثار نظر آنے لگے
Wednesday, 12 February 2020
مسند غم پہ جچ رہا ہوں میں
مجھ کو غصے میں ہنسی آتی ہے
بھول جاؤ مجھے
زندگی
تمام عمر وہی قصۂ سفر کہنا
Monday, 10 February 2020
مثال خاک کہیں پر بکھر کے دیکھتے ہیں
ہر ایک خواب کی تعبیر تھوڑی ہوتی ہے
تم ہنستے چہرے کے دکھ سے ناواقف ہو
میں آب عشق میں حل ہو گئی ہوں
مجھ سے ملنے میں مزا کیسا ہے آ کر دیکھو
ہم ہیں بیٹھے ہوئے ادھر تنہا
لگائے رکھتا ہوں مٹی کو بندگی کی طرح
رات بھی باقی ہے صہبا بھی شیشہ بھی پیمانہ بھی
رات بھی باقی ہے صہبا بھی شیشہ بھی پیمانہ بھی
ایسے میں کیوں چھیڑ نہ دیں ہم ذکرِ غمِ جانانہ بھی
بستی میں ہر اک رہتا ہے، اپنا بھی بے گانہ بھی
حال کسی نے پوچھا دل کا، درد کسی نے جانا بھی
ہائے تجاہل، آج ہمِیں سے پوچھ رہے ہیں اہلِ خِرد
سنتے ہیں اس شہر میں رہتا ہے کوئی دیوانہ بھی
جس کو چاہا تھا نہ پایا جو نہ چاہا تھا ملا
جس کو چاہا تھا نہ پایا، جو نہ چاہا تھا ملا
بخششیں ہیں بے حساب اس کی ہمیں کیا کیا ملا
اجنبی چہروں میں پھر اک آشنا چہرہ ملا
پھر مجھے اس کے تعلق سے پتا اپنا ملا
اس چمن میں پھول کی صورت رہا میں چاک دل
اس چمن میں شبنم آسا میں سدا پیاسا ملا
مرے قریب سے گزرا اک اجنبی کی طرح
مِرے قریب سے گزرا اک اجنبی کی طرح
وہ کج ادا جو ملا بھی تو زندگی کی طرح
ملا نہ تھا تو گماں اس پہ تھا فرشتوں کا
جو اب ملا ہے تو لگتا ہے آدمی کی طرح
کِرن کِرن اتر آئی ہے روزنِ دل سے
کسی حسیں کی تمنا بھی روشنی کی طرح
مہتاب ہے نہ عکس رخ یار اب کوئی
مہتاب ہے نہ عکسِ رخِ یار اب کوئی
کاٹے تو کس طرح یہ شبِ تار اب کوئی
ممکن ہے دست و بازوئے قاتل تُو تھک بھی جائے
شاید تھمے نہ دیدۂ خوں بار اب کوئی
اہلِ جفا سے کہنا تراشیں صلیب و دار
شایانِ سرو قامتِ دلدار اب کوئی
کس پردۂ افلاک میں جانے ہے وہ پنہاں
عشق کو آگ کا دریا میں لکھوں کیسے لکھوں
Saturday, 8 February 2020
اس کی محبتوں کے تھے سارے سراب منفرد
دوریاں نہیں مٹتیں
کیوں سوگوں میں چھوڑ گئے ہو
یہ مسئلہ تو در و بام کا نہیں جانم
اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
مری بے خودی ہے وہ بے خودی کہ خودی کا وہم و گماں نہیں
میں خودی میں مبتلا خود کو مٹانے کے لیے
ذرہ بھی اگر رنگ خدائی نہیں دیتا
Friday, 7 February 2020
یہی اپنا سب سے بڑا المیہ ہے
تمہارے ہونٹوں سے جس کا گلہ نکلتا ہے
سازشوں کے دور میں موسم نے یوں جکڑا ہمیں
عین ممکن ہے مورخ بھی لکھے اندھا ہمیں
دوستی کی یہ ضروری شرط ہو جیسے کوئی
ہر قدم پر دوستوں نے دے دیا دھوکا ہمیں
جلتے خیموں میں ہماری نسل روندی جائے گی
یاد رکھے گی ہمارے بعد یہ دنیا ہمیں
موج در موج نظر آتا تھا سیلاب مجھے
ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی
یہ ہمسفر جو تمہیں بے خبر سا لگتا ہے
کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا
دیکھتا ہی رہا پیالہ مجھے
سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا
مٹی جب تک نم رہتی ہے
سامنے جی سنبھال کر رکھنا
عکس کو قید کہ پرچھائیں کو زنجیر کریں
بہت بھیڑ تھی جب اکیلے ہوئے
آندھی کی زد میں شام تمنا جلائی جائے
Thursday, 6 February 2020
اتنی ٹھنڈی آہ مت بھر ہوش کر پچھتائے گا
بارشیں کم ہوں تو سیلاب بھی کم آتے ہیں
ہم نے تو بے شمار بہانے بنائے ہیں
پناہ مانگ کے بوسیدہ کاغذات سے وہ
یہ ہتھیلی بھی مرے واسطے کیا لائی ہے
عشق لکھتے ہوئے کتنے ہی قلم ٹوٹے ہیں
نہ کوئی رابطہ میسج نہ کال خیر تو ہے
شعر کہنے کی للک اور لپک لے بیٹھی
مری چوڑی کھنکتی ہے زمانہ ہو گیا ہے
پھر اس کے بعد وہ روٹھا رہا نہیں مانا
میں نے ہونٹوں سے اسے دیکھا بہت
وقت کر دے نہ کہیں داغ میں تبدیل مجھے
میرے ہمدرد زمانے مجھے شرمندہ کر
کاغذ تھا میں دیے پہ مجھے رکھ دیا گیا
اپنی بربادی کا نوحہ مسعود منور
کس کو ہے کس سے محبت، کون کس کا یار ہے
عشق والوں نے تو پسپائی نہیں دیکھی ہے
ایسے موسم میں بھلا کون جدا ہوتا ہے
یاد اس کی اب تو رونق جاں بھی نہیں رہی
تیری جنت سے میں نکلا ہوں ستارے لے کر
خود سے مجھے ملا کے جدا ہو گیا تو بس
Wednesday, 5 February 2020
میری فردوس و گل ولالہ و نسریں کی زمیں
گو آنکھ سے دور جا چکا تو
سارا شہر بلکتا ہے
کچھ سوچ کے مرنا چاہا تھا کچھ سوچ کے جینا چاہا ہے
دل کسی صورت مگر آباد ہے
ہے آگہی کے بعد غم آگہی بہت
یہ رنگ ہجر کی شب جاگ کر نہیں آیا
Monday, 3 February 2020
وحشت تو کیا سوچ کے مجھ سے حصہ مانگنے آئی ہے
شہر میں چاروں طرف ایک سڑک جاتی ہے
شہر میں چاروں طرف ایک سڑک جاتی ہے
میں بھٹکتا ہوں، میرے ساتھ بھٹک جاتی ہے
جس الاؤ سے مجھے تم نے گزارا، مجھ پر
ہاتھ رکھو تو میری مٹی کھنک جاتی ہے
اتنا مانوس ہوں خود جا کے پکڑ لاتا ہوں
گھر کی ویرانی اگر راہ بھٹک جاتی ہے