Thursday, 12 January 2017

امیر شہر سے قاضی سے کوتوال سے ہم

اس خاکداں میں اب تک باقی ہیں کچھ شرر سے
دامن بچا کے گزرو یادوں کی رہ گزر سے
ہر ہر قدم پہ آنکھیں تھیں فرشِ راہ لیکن
وہ روشنی کا ہالا اترا نہ بام پر سے
کیوں جادۂ وفا پر مشعل بکف کھڑے ہو
اس سیلِ تیرگی میں نکلے گا کون گھر سے
کس دشت کی صدا ہو، اتنا مجھے بتا دو
ہر سُو بِچھے ہیں رستے، آؤں تو میں کدھر سے
اجڑا ہوا مکاں ہے یہ دل، جہاں پہ ہر شب
پرچھائیاں لپٹ کر روتی ہیں بام و در سے

شکیب جلالی

No comments:

Post a Comment