Friday, 30 January 2015

بچھڑ کے تجھ سے میسر ہوئے وصال کے دن​

بچھڑ کے تجھ سے میسر ہوئے وصال کے دن​
ہیں تیرے خواب کی راتیں، ترے خیال کے دن​
فراقِ جاں کا زمانہ گزارنا ہو گا​
فغاں سے کم تو نہ ہوں گے یہ ماہ و سال کے دن
ہر اِک عمل کا وہ کیا کیا جواز رکھتا ہے​
نہ بن پڑے گا جواب ایک بھی، سوال کے دن​

روشنی ختم ہوئی اہل نظر باقی ہیں​

روشنی ختم ہوئی، اہلِ نظر باقی ہیں​
جنہیں دستار میسر ہے، وہ سر باقی ہیں​
کاٹ لیتے ہیں کبھی شاخ، کبھی گردنِ دوست​
اب بھی چند ایک روایاتِ سفر باقی ہیں
اپنے ہمسایوں کا غم بھی ہے اور اپنا غم بھی ہے​
اس تگ و دو میں غنیمت ہے کہ گھر باقی ہیں​

لفظ تو ہوں لب گفتار نہ رہنے پائے​

لفظ تو ہوں، لبِ گفتار نہ رہنے پائے​
اب سماعت پہ کوئی بار نہ رہنے پائے​
کس طرح کے ہیں مکیں، جِن کی تگ و دو ہے یہی​
در تو باقی رہیں، دیوار نہ رہنے پائے​
اس میں بھی پہلوئے تسکین نکل آتا ہے​
ایک ہی صورتِ آزار نہ رہنے پائے​

وہ ساتھ لے گیا قول و قرار کا موسم​

نذرِ فیض​
وہ ساتھ لے گیا قول و قرار کا موسم​
تمام عمر ہے اب انتظار کا موسم​
حیات اب بھی کھڑی ہے اسی دوراہے پر​
وہی ہے جبر، وہی اختیار کا موسم​
ابھی تو خود سے ہی فارغ نہیں ہیں اہلِ جمال​
ابھی کہاں دلِ امیدوار کا موسم​

جو غم شناس ہو ایسی نظر تجھے بھی دے

جو غم شناس ہو، ایسی نظر تجھے بھی دے​
یہ آسماں غمِ دیوار و در تجھے بھی دے​
سخن گلاب کو کانٹوں میں تولنے والے​
خدا سلیقۂ عرضِ ہُنر تجھے بھی دے​
خراشیں روز چنے اور دل گرفتہ نہ ہو​
یہ ظرفِ آئینہ، آئینہ گر تجھے بھی دے​

بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا​

بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا​
چاہے جانے کے سبھی عیب و ہُنر رکھتا تھا​
لاتعلق نظر آتا تھا بظاہر، لیکن​
بے نیازانہ ہر اِک دل میں گزر رکھتا تھا​
اس کی نفرت کا بھی معیار جدا تھا سب سے​
وہ الگ اپنا اِک اندازِ نظر رکھتا تھا​

ملے تھے خوف سے بچھڑے ہیں اعتماد کے ساتھ​

ملے تھے خوف سے، بچھڑے ہیں اعتماد کے ساتھ​
گزار دیں گے اسی خوشگوار یاد کے ساتھ​
یہ ذوق و شوق فقط لطفِ داستاں تک ہے​
سفر پہ کوئی نہ جائے گا سِندباد کے ساتھ​
زمانہ جتنا بکھیرے، سنورتا جاؤں گا​
ازل سے میرا تعلق ہے خاک و باد کے ساتھ​

کیا خبر تھی ہمیں یہ زخم بھی کھانا ہو گا​

کیا خبر تھی ہمیں یہ زخم بھی کھانا ہو گا​
تُو نہیں ہو گا، تِری بزم میں آنا ہو گا​
ہم کہ اپنے کو حقیقت سے سوا جانتے ہیں​
ایک دن آئے گا اپنا بھی فسانہ ہو گا​
عرصۂ رزم و کمیں گاہ کی اب قید نہیں​
کون جانے کہ یہاں کون نشانہ ہو گا​

ادھر بھی سربکف میں ہوں ادھر بھی صف بہ صف میں ہوں

اِدھر بھی سربکف میں ہوں، اُدھر بھی صف بہ صف میں ہوں
میں کس کا ساتھ دوں، اس جنگ میں دونوں طرف میں ہوں
اگر دشمن سے میرا معرکہ ہوتا تو امکاں تھا
مِرا بچنا نہیں آساں کہ اب اپنا ہدف میں ہوں
غلط اندازے کر رکھے تھے میری خوشگمانی نے
نکل کر خود سے اب دیکھا تو تنہا ہر طرف میں ہوں

فن تشہیر سے کوئی بھی بیگانہ نہیں ملتا​

فنِ تشہیر سے کوئی بھی بے گانہ نہیں ملتا​
جریدوں میں مگر حرفِ حکیمانہ نہیں ملتا​
ہمارے عہد سے تم کوہکن تک اِک نظر ڈالو​
یہ کارِ عشق ہے، اِس میں محنتانہ نہیں ملتا​
یہ کیسا دشت، کیسی سرزمینِ بے روایت ہے​
یہاں تو زیرِ دام آنے پہ بھی دانہ نہیں ملتا​

بدن تو جل گئے سائے بچا لئے ہم نے​

بدن تو جل گئے، سائے بچا لئے ہم نے​
جہاں بھی دھوپ ملی، گھر بنا لئے ہم نے​
اس امتحان میں سنگین کس طرح اٹھتی​
دعا کے واسطے جب ہاتھ اٹھا لئے ہم نے​
کٹھن تھی شرطِ رہِ مستقیم، کیا کرتے​
ہر ایک موڑ پہ کتبے سجا لئے ہم نے​

وہ برگ خشک تھا اور دامن بہار میں تھا

وہ برگِ خُشک تھا اور دامنِ بہار میں تھا
نمُودِ نو کی بشارت کے انتظار میں تھا
مِری رفیقِ سفر تھیں حسد بھری نظریں
وہ آسمان تھا اور میرے اختیار میں تھا
بکھر گیا ہے تو اب دل نگار خانہ ہے
غضب کا رنگ اس اک نقشِ اعتبار میں تھا

وقت کے تقاضوں کو اس طرح بھی سمجھا کر​

وقت کے تقاضوں کو اِس طرح بھی سمجھا کر​
آج کی گواہی پر مت قیاسِ فردا کر​
تیرے ہر رویے میں بدگمانیاں کیسی​
جب تلک ہے دنیا میں، اعتبارِ دنیا کر​
جِس نے زندگی دی ہے، وہ بھی سوچتا ہو گا​
زندگی کے بارے میں اس قدر نہ سوچا کر​

Monday, 26 January 2015

غم ہے بے ماجرا کئی دن سے

غم ہے بے ماجرا کئی دن سے
جی نہیں لگ رہا کئی دن سے
بے شمیمِ ملال و حیراں ہے
خیمہ گاہِ صبا کئی دن سے
دل محلے کی اس گلی میں بھلا
کیوں نہیں غُل مچا کئی دن سے

نہیں نباہی خوشی سے غمی کو چھوڑ دیا

نہیں نباہی خوشی سے غمی کو چھوڑ دیا
تمہارے بعد بھی میں نے کئی کو چھوڑ دیا
ہوں جو بھی جان کی جاں وہ گمان ہوتے ہیں
سبھی تھے جان کی جاں اور سبھی کو چھوڑ دیا
شعور ایک شعورِ فریب ہے سو تو ہے
غرض کہ آگہی، ناآگہی کو چھوڑ دیا

اک دل ہے جو ہر لمحہ جلانے کے لیے ہے

اک دل ہے جو ہر لمحہ جلانے کے لیے ہے
جو کچھ ہے یہاں آگ لگانے کے لیے ہے
اک بات ہی کہنی ہے مجھے تجھ سے، بس اک بات
اس شہر میں تُو صرف گنوانے کے لیے ہے
ہر شخص مِری ذات سے جانے کے لیے تھا
تُو بھی تو مِری ذات سے جانے کے لیے ہے

دل سے اب رسم و راہ کی جائے

دل سے اب رسم و راہ کی جائے
لب سے کم ہی نباہ کی جائے
گفتگو میں ضرر ہے معنی کا
گفتگو، گاہ، گاہ کی جائے
ایک ہی تو ہوس رہی ہے ہمیں
اپنی حالت تباہ کی جائے

ذات اپنی گواہ کی جائے

ذات اپنی گواہ کی جائے
بند آنکھوں نگاہ کی جائے
ہم تو بس اپنی چاہ میں ہیں مگن
کچھ تو اس کی بھی چاہ کی جائے
ایک ناٹک ہے زندگی جس میں
آہ کی جائے، واہ کی جائے

بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں

بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں
کہ ان کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں
نہیں ترکِ محبت پر وہ راضی
قیامت ہے کہ ہم سمجھا رہے ہیں
یقیں کا راستہ طے کرنے والے
بہت تیزی سے واپس آ رہے ہیں

Friday, 23 January 2015

ٹوٹ بٹوٹ (بچوں کا اردو ادب)

فرمائش پر چند نظمیں بچگانہ اردو ادب کی سب کی نذر

ٹوٹ بٹوٹ

ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
 باپ تھا اس کا میر سلوٹ
 پیتا تھا وہ سوڈا واٹر
 کھاتا تھا بادام اخروٹ
 ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ

منا اور لڈو (بچوں کا اردو ادب)

منا اور لڈو
(بچوں کا اردو ادب) 

آہا آہا
 ہو ہو ہو
 منا ایک
 اور لڈو دو
 اک لڈو منے نے کھایا
 دوسرا منا دوڑا آیا

نہر میں آگ (بچوں کا اردو ادب)

نہر میں آگ
(بچوں کا اردو ادب) 

نہر میں اک دن
 لگ گئی آگ
 پُھوں پُھوں کرتا
 نکلا ناگ
 طوطا بولا
 ٹَیں ٹَیں ٹَیں

کھیرا (بچوں کا اردو ادب)

کھیرا
(بچوں کا اردو ادب) 

منے نے کھیرا، چاقو سے چیرا
 منے کی بہنیں
 منے کے بھائی
 منے کی خالہ، منے کی تائی
 منے کا نوکر

نرالا شہر (بچوں کا اردو ادب)

نرالا شہر
(بچوں کا اردو ادب) 

ایک نرالا شہر
 شہر کے اندر نہر
 نہر کے بیچ میں آگ
 آگ میں کالا ناگ

عذرا کی گڑیا (بچوں کا اردو ادب)

گڑیا
(بچوں کا اردو ادب) 

عذرا کی گڑیا
 سوئی ہوئی ہے
 گھنٹی بجاؤ
 اس کو جگاؤ

راجا رانی (بچوں کا اردو ادب)

راجا رانی
(بچوں کا اردو ادب) 

آؤ بچو سنو کہانی
 ایک تھا راجا
 ایک تھی رانی
 راجا بیٹھا بِین بجائے

پانچ چوہے گھر سے نکلے (بچوں کا اردو ادب)

پانچ چوہے
(بچوں کا اردو ادب) 

پانچ چوہے گھر سے نکلے
 کرنے چلے شکار
 ایک چوہا رہ گیا پیچھے
 باقی رہ گئے چار

شریر لڑکا (بچوں کا اردو ادب)

شریر لڑکا
(بچوں کا اردو ادب) 

ایک تھا لڑکا بڑا شریر
 نام تھا اس کا نور نذیر
 اک دن اس کا جی للچایا
گاؤں سے چل کر شہر کو آیا

Monday, 19 January 2015

اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا

اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا
قسمی کہ عشق جی سے مری تاب لے گیا
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مِژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا
آوے جو مصطبع میں تو سن لو کہ راہ سے
واعظ کو ایک جامِ مئے ناب لے گیا

کئی دن سلوک وداع کا مرے درپئے دل راز تھا

کئی دن سلوک وداع کا، مِرے درپئے دلِ راز تھا
کبھو درد تھا، کبھو، داغ تھا، کبھو زخم تھا، کبھو دار تھا
دمِ صبح بزمِ خوش جہاں، شبِ غم سے کم نہ تھے مہرباں
کہ چراغ تھا سو تو دُور تھا، جو پتنگ تھا سو غُبار تھا
دلِ خستہ جو لہو ہو گيا، تو بَھلا ہوا کہ کہ کہاں تک
کبھو سوزينہ سے داغ تھا، کبھو دردِ غم سے فِگار تھا

زمیں چل رہی ہے کہ صبح زوال زماں ہے

زمیں چل رہی ہے کہ صبحِ زوالِ زماں ہے
کہو اے مکینو! کہاں ہو، یہ کیسا مکاں ہے
پریشان چیزوں کی ہستی کو تنہا نہ سمجھو
یہاں سنگریزہ بھی اپنی جگہ اک جہاں ہے
کبھی تیری آنکھوں کے تِل میں جو دیکھا تھا میں نے
وہی ایک پَل محملِ شوق کا سارباں ہے

کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے

کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے 
رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے
جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیں 
ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے
کر دیا آج زمانے نے انہیں بھی مجبور
کبھی یہ لوگ مِرے دکھ کی دوا کرتے تھے

کیا دل سے تیز قافلۂ اہل درد تھا

کیا دل سے تیز قافلۂ اہلِ درد تھا
میں نے نظر اُٹھائی تو صحرا ہی گرد تھا
تا دُور رشکِ دشت تھا احوالِ شہرِ دوست
ہر آدمی بگولہ تھا، اور فرد فرد تھا
سب خانُماں خراب ہوئے خانُماں پرست
وہ دن گئے کہ قیس بیاباں نورد تھا

دل کو آمادۂ فریاد کیا تھا میں نے

دل کو آمادۂ فریاد کیا تھا میں نے
خوب آئے ہو، ابھی یاد کیا تھا میں نے
پھڑپھڑاتی ہے مِری روح بدن میں اب تک
اک پرندہ کبھی آزاد کیا تھا میں نے
چھوڑ آیا ہوں سمندر کی نگہبانی میں 
وہ جزیرہ جسے آباد کیا تھا میں نے

کچھ نہیں ہے نہیں میں یا کچھ ہے

کچھ نہیں ہے نہیں میں یا کچھ ہے
کچھ نہ ہونے کا ماجرا کچھ ہے
یعنی ہوتا ہے کچھ نہیں ہونا
یعنی ہونے سے ماورأ کچھ ہے
وقت جوکر ہے اپنی ٹوپی میں
ڈالتا کچھ، نکالتا کچھ ہے

ایک بوڑھے فقیر نے مجھ کو

ایک بوڑھے فقیر نے مجھ کو
کل بتایا ہے میرے سینے پر
ایک پاگل چُڑیل قابض ہے
اس لیے آج اپنے دوستوں کو
میں بتا دوں کہ آج سے آگے
باتوں باتوں میں ایک دو کی میں

Saturday, 17 January 2015

کوئے جاناں میں اور کیا مانگو

کوئے جاناں میں اور کیا مانگو
حالتِ حال یک صدا مانگو
ہر نفس تم یقینِ منعم سے
رزق اپنے گمان کا مانگو
ہے اگر وہ بہت ہی دل نزدیک
اس سے دوری کا سلسلہ مانگو

جز گماں اور تھا ہی کیا میرا

جُز گماں اور تھا ہی کیا میرا
فقط اک میرا نام تھا میرا
نکہتِ پیرہن سے اس گل کی
سلسلہ بے صبا رہا میرا
مجھ کو خواہش ہی ڈھونڈھنے کی نہ تھی
مجھ میں کھویا رہا خدا میرا

خود سے رشتے رہے کہاں ان کے

خود سے رشتے رہے کہاں ان کے
غم تو جانے تھے رائیگاں ان کے
مست ان کو گماں میں رہنے دے
خانہ برباد ہیں گماں ان کے
یار سُکھ نیند ہو نصیب ان کو
دکھ یہ ہے دکھ ہیں بے اماں ان کے

اب کسی سے مرا حساب نہیں

اب کسی سے مِرا حساب نہیں
میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں
خون کے گھونٹ پی رہا ہوں میں
یہ مِرا خون ہے شراب نہیں
میں سرابی ہوں میری آس نہ چھین
تو مِری آس ہے، سراب نہیں

ذکر بھی اس سے کیا بھلا میرا

ذکر بھی اس سے کیا بھلا میرا
اس سے رشتہ ہی کیا رہا میرا
آج مجھ کو بہت برا کہہ کر
آپ نے نام تو لیا میرا
آخری بات تم سے کہنا ہے
یاد یہ رکھنا تم کہا میرا

زخم امید بھر گیا کب کا

زخمِ امید بھر گیا کب کا
قیس تو اپنے گھر گیا کب کا
اب تو منہ اپنا مت دکھاؤ مجھے
ناصحو! میں سُدھر گیا کب کا
آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں
دل مری جان! مر گیا کب کا

سب میں رہتے ہو مگر سب سے جدا لگتے ہو

سب میں رہتے ہو مگر سب سے جدا لگتے ہو 
اور بت ہوں گے، مگر تم تو خدا لگتے ہو
تم جب آتے ہو تو، آرام بھی آ جاتا ہے 
درد بھی تم ہو مگر تم ہی دوا لگتے ہو
جانِ دل، جانِِ نظر، جانِ تمنّا تم ہو 
دل سے نکلی کسی عاشق کی دعا لگتے ہو

بتوں کی یاد میں یاد خدا معلوم ہوتی ہے

بتوں کی یاد میں، یادِ خدا معلوم ہوتی ہے 
نظر اپنی حقیقت آشنا معلوم ہوتی ہے
محبت میں جفا عینِ وفا معلوم ہوتی ہے 
خطا ان کی بھی، خود اپنی خطا معلوم ہوتی ہے
بہت مشکل ہے منزلِ عشق کی توبہ، ارے توبہ 
یہاں تو اِنتہا بھی ابِتدا معلوم ہوتی ہے

عکس جاناں ہم شہید جلوہٴ جانانہ ہم

عکسِ جاناں ہم، شہیدِ جلوہٴ جانانہ ہم
آشنا سے آشنا، بیگانہ سے بیگانہ ہم
تجھ کو کیا معلوم گزری کس طرح فرقت کی رات
کہہ پھرے اک اک ستارے سے تِرا افسانہ ہم
بند ہیں شیشوں میں لاکھوں بجلیاں پگھلی ہوئیں
کب ہیں محتاجِ شرابِ مجلسِ مے خانہ ہم

زمانہ خوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی

زمانہ خوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی
چراغِِ جاں کو نذرِ بادِ بے لحاظ کر کے بھی
غلام گردشوں میں ساری عمر کاٹ دی گئی
حصولِ جاہ کی روِش پہ اعتراض کر کے بھی
خجل ہوئی ہیں قامتیں، قیامتوں کے زعم میں
مذاق بن کے رہ گئیں ہیں قد دراز کر کے بھی

دام الفت سے چھوٹتی ہی نہیں

دامِ اُلفت سے چُھوٹتی ہی نہیں
زندگی تجھ کو بُھولتی ہی نہیں
کتنے طُوفاں اُٹھائے آنکھوں نے 
ناؤ یادوں کی ڈُوبتی ہی نہیں
تجھ سے مِلنے کی، تجھ کو پانے کی
کوئی تدبِیر سُوجھتی ہی نہیں

وہ بے وفا ہے ہمیشہ ہی دل دکھاتا ہے

وہ بے وفا ہے ہمیشہ ہی دل دُکھاتا ہے 
مگر ہمیں تو، وہی ایک شخص بھاتا ہے
نہ خوش گُمان ہو اِس پر تُو اے دلِ سادہ
سبھی کو دیکھ کے وہ شوخ مُسکراتا ہے
جگہ جو دل میں نہیں ہے مِرے لیے نہ سہی
مگر یہ کیا، کہ بھرِی بزم سے اُٹھاتا ہے

لے لے سکون قلب بھی جو چاہے دے سزا مجھے

لے لے سکون قلب بھی، جو چاہے دے سزا مجھے
لیکن فصیلِ شہر سے اپنی نہ کر جدا مجھے
بجلی کی زد میں آشیاں، نوکِ سناں پہ ہے جگر
اب اور منتظر نہ رکھ، منزل مِری دکھا مجھے
دستک تھا دے رہا کوئی، دہلیز پر امنگ کی
میں ہی اسیرِ ذات تھا، خود ہی نہ در کھلا مجھے

چل نہ پائے رہگزر کے ساتھ ساتھ

چل نہ پائے رہگزر کے ساتھ ساتھ
منزلوں کے راہبر کے ساتھ ساتھ
وہ کسی اجڑے چمن کی یاد تھی
پتے پتے اور شجر کے ساتھ ساتھ
لحظہ لحظہ میں اسی آنگن میں تھا
قریہ قریہ اس نظر کے ساتھ ساتھ

Friday, 16 January 2015

چل عمر کی گٹھڑی کھولتے ہیں

چل عمر کی گٹھڑی کھولتے ہیں

چل عمر کی گٹھڑی کھولتے ہیں
اور دیکھتے ہیں
ان سانسوں کی تضحِیک میں سے
اس ماہ و سال کی بِھیک میں سے
اس ضرب، جمع، تفرِیق میں سے
کیا حاصل ہے، کیا لاحاصل

دکھ تو نہیں کہ تنہا مسافت میں مر گیا

دکھ تو نہیں کہ تنہا مسافت میں مر گیا
اچھا ہوا میں تیری رفاقت میں مر گیا
حاکم خود اپنے عہدِ حکومت میں مر گیا
زندہ وہی رہا جو بغاوت میں مر گیا
کچھ نفرتوں کی نذر ہوا میرا یہ وجود
باقی جو بچ گیا تھا محبت میں مر گیا

دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتهی ہو

دیار نُور میں تِیرہ شبوں کا ساتهی ہو
کوئی تو ہو جو مِری وحشتوں کا ساتهی ہو
میں اس سے جهوٹ بهی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتهی ہو
وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹهہرے
گلی گلی میری رسوائیوں کا ساتهی ہو

جو فیض سے شرف استفادہ رکھتے ہیں

نذرِ فیض 

جو فیض سے شرفِ استفادہ رکھتے ہیں
کچھ اہلِ درد سے نسبت زیادہ رکھتے ہیں
رموزِ مملکتِ حرف جاننے والے
دلوں کو صورتِ معنی کشادہ رکھتے ہیں
شبِ ملال بھی، ہم رہروانِ منزلِ عشق
وصالِ صبحِ سفر کا ارادہ رکھتے ہیں

میں چپ رہا تو سارا جہاں تھا میری طرف

میں چپ رہا تو سارا جہاں تھا میری طرف
حق بات کی تو کوئی کہاں تھا میری طرف
میں مر گیا وہیں کہ صفِ قاتلاں سے جب
خنجر بدست تُو بھی رواں تھا میری طرف
اب پھر رہا ہوں جسم کے ٹکڑے لیے ہوئے
شاید ہجومِ چاراں گراں تھا میری طرف

تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ

تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ کیا سادہ ہیں، سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں
خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ
کیا خبر ان کو کہ دامن بھی بھڑک اٹھتے ہیں
جو زمانے کی ہواؤں سے بچاتے ہیں چراغ

یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں تمام تیری حکایتیں ہیں

یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تِری نذر کر رہا ہوں، یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
جو زندگی کے نئے سفر میں تجھے کسی روز یاد آئیں
تو ایک اک حرف جی اٹھے گا پہن کے انفاس کی قبائیں
اداس تنہائیوں کے لمحوں میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں

جز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے

جُز تِرے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
تُو کہاں ہے مگر اے دوست! پرانے میرے
تُو بھی خوشبو ہے مگر میرا تجسس بے کار
برگِ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے
شمع کی لَو تھی کہ وہ تُو تھا مگر ہجر کی رات
دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے

Thursday, 15 January 2015

تمام شب یونہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں

تمام شب یُونہی دیکھیں گی سُوئے در آنکھیں 
تجھے گنوا کے نہ سوئیں گی عمر بھر آنکھیں
طلوعِ صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جائیں کہیں
یہ دشتِ شب میں ستاروں کی ہمسفر آنکھیں
ستم یہ کم تو نہیں دل گرفتگی کے لیے
میں شہر بھر میں اکیلا، اِدھر اُدھر آنکھیں

وہ اجنبی اجنبی سے چہرے

وہ اجنبی اجنبی سے چہرے وہ خواب خیمے رواں دواں سے
بسے ہوئے ہیں ابھی نظر میں سبھی منظر دھواں دھواں سے
یہ عکسِ داغِ شکستِ پیماں، وہ رنگِ زخمِ خلوصِ یاراں
میں غمگساروں میں سوچتا ہوں کہ بات چھیڑوں کہاں کہاں سے
یہ سنگریزے عداوتوں کے، وہ آبگینے سخاوتوں کے
دلِ مسافر قبول کر لے، ملا ہے جو کچھ جہاں جہاں سے

کبھی یاد آؤ تو اس طرح

کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہیں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو

ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہے

ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہے
تو دير تک مرے گھر کا سکوت بولتا ہے
ہم ايسے خاک نشيں کب لُبھا سکيں گے اسے
وہ اپنا عکس بھی ميزانِ زر ميں تولتا ہے
جو ہو سکے تو يہی رات اوڑھ لے تن پر
بجھا چراغ اندھرے ميں کيوں ٹٹولتا ہے؟

جب دھوپ مجھے پیکر آزار بناوے

جب دھوپ مجھے پیکرِ آزار بناوے
سایہ بھی میری راہ میں دیوار بناوے
لوگوں پہ بھرم کھل بھی چکا اس کی کشش کا
اب خود کو وہ بےسود پراسرار بناوے
سر اپنا ہتھیلی پہ لیے سوچ رہا ہوں
کیوں مجھ کو تماشا تیرا بازار بناوے

دل نے جھیلے ہیں محبت میں وہ آزار کہ بس

ایسا ٹوٹا ہے تمناؤں کا پندار کہ بس
دل نے جھیلے ہیں محبت میں وہ آزار کہ بس
ایک لمحے میں زمانے میرے ہاتھوں سے گئے
اس قدر تیز ہوئی وقت کی رفتار کہ بس
تُو کبھی رکھ کے ہمیں دیکھ تو بازار کے بیچ
اس طرح ٹوٹ کے آئیں گے خریدار کہ بس

یہ عشق بھی کیا ہے اسے اپنائے کوئی اور

یہ عشق بھی کیا ہے اسے اپنائے کوئی اور 
چاہوں میں کسی اور کو یاد آئے کوئی اور 
اس شخص کی محفل کبھی برپا ہو تو دیکھو 
ہو ذکر کسی اور کا، شرمائے کوئی اور 
اے ضبطِ انا! مجھ کو یہ منظر نہ دکھانا 
دامن ہو کسی اور کا، پھیلائے کوئی اور 

ہر ایک لمحہ پہن کے صدیوں کی شال گزرا

ہر ایک لمحہ پہن کے صدیوں کی شال گزرا
لہو کا موسم بھی آپ اپنی مثال گزرا
حکایتِ ضبطِ ہجر بُنتے کہ اشک چُنتے
گزر گیا، جس طرح بھی عہدِ وصال گزرا
جو شب بھی آئی وہ حشر کے دِن کو ساتھ لائی
 وہ دن بھی گزرا وہ شامِ غم کی مثال گزرا

میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی

میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی

میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
میری تخلیق میرے فکر کی پہچان بھی ہے
میرے حرفوں میرے لفظوں میں ہے چہرہ میرا
میرا فن اب میرا مذہب میرا ایمان بھی ہے
میر و غالب نہ سہی، پھر بھی غنیمت جانو
میرے یاروں کے سِرہانے میرا دیوان بھی ہے

تھی سے ہے تک

تھی سے ہے تک

کہا میں نے
مجھے تم سے محبت ہے
مگر تم نے سہولت سے کہا ہنس کر
ذرا تم ہے بدل ڈالو
لکھو کہ تھی

Wednesday, 14 January 2015

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے​

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے​
آخر اس درد کی دوا کیا ہے​
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار​
یا الہٰی! یہ ماجرا کیا ہے​
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں​
کاش پوچھو، کہ مُدعا کیا ہے​

غنچہ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں

غنچۂ ناشگفتہ کو، دور سے مت دکھا، کہ یُوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں، منہ سے مجھے بتا کہ یُوں
پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا، کہ بِن کہے
اس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یُوں
رات کے وقت مَئے پیے، ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ کرے خدا کہ یُوں

تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے

تسکیں کو ہم نہ روئیں، جو ذوقِ نظر ملے
حُورانِ خلد میں تِری صورت مگر ملے
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
ساقی گری کی شرم کرو آج، ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے، جس قدر ملے

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو بُرا کہتے ہیں​
آج ہم اپنی پریشانئ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھیے کیا کہتے ہیں​
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، اِنہیں کچھ نہ کہو
جو مئے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں​

وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو

وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو​
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار، نقشِِ محبت ہی کیوں نہ ہو
ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گِلہ
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو

Tuesday, 13 January 2015

کبھی تو سوچنا یہ تم نے کیا کیا لوگو

کبھی تو سوچنا یہ تم نے کیا کِیا لوگو
یہ کس کو تم نے سرِ دار کھو دیا لوگو
ہوائے بُغض و خباثت چلی تو اپنے ساتھ
اڑا کے لے گئی انصاف کی قبا لوگو
دیا تھا صبحِ مسرت نے اِک چراغ ہمیں
اسی کو تم نے سرِ شام کھو دیا لوگو

گلہ نہیں ہے اگر میں تری نظر میں نہیں

گِلہ نہیں ہے اگر میں تِری نظر میں نہیں
ستارہ کوئی بھی اِس وقت اپنے گھر میں نہیں
تِری طرح مِری دنیا میں اِختیار کِسے
مِری طرح کوئی بے بس تِرے نگر میں نہیں
کِیا ہے فکرِ نشیمن سے برق نے آزاد
خدا کا شُکر کہ اَب میں کسی خطر میں نہیں

تم اس دور سے گزرے ہو ناں

تم اس دور سے گزرے ہو ناں
وہ رُت، جس میں جل جاتی ہیں آنکھیں
تم پر بھی گزری ہے
وہ شب، جو مہتاب سے ٹپکے
آنسو آنسو، شبنم شبنم
وہ شب مجھ پر بھی اُتری ہے

دشمن ہو کوئی دوست ہو پرکھا نہیں کرتے

دشمن ہو کوئی دوست ہو پرکھا نہیں کرتے
ہم خاک نشیں ظرف کا سودا نہیں کرتے
اک لفظ جو کہہ دیں تو وہی لفظ ہے آخر
کٹ جائے زبان بات کو بدلا نہیں کرتے
کوئی آ کے ہمیں ضرب لگا دے توالگ بات
ہم خود کسی لشکر کو پسپا نہیں کرتے

بدنام میرے پیار کا افسانہ ہوا ہے

بدنام میرے پیار کا افسانہ ہوا ہے
دیوانے بھی کہتے ہیں کہ دیوانہ ہوا ہے
رشتہ تھا تبھی تو کسی بے درد نے توڑا
اپنا تھا تبھی تو کوئی بے گانہ ہوا ہے
بادل کی طرح آ کے برس جائیے اِک دن
دل آپ کے ہوتے ہوئے ویرانہ ہوا ہے

کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی

گیت

کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی
گزرتے وقت کی ہر موج ٹھہر جائے گی

یہ چاند بیتے زمانوں کا آئینہ ہو گا
بھٹکتے اَبر میں چہرہ کوئی بنا ہو گا
اداس راہ کوئی داستاں سُنائے گی
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی

حضور آپ کا بھی احترام کرتا چلوں

حضور آپ کا بھی احترام کرتا چلوں 
ادھر سے گزرا تھا سوچا سلام کرتا چلوں
نگاہ و دل کی یہی آخری تمنّا ہے 
تمہاری زُلف کے سائے ميں شام کرتا چلوں
انہيں يہ ضِد کہ مجھے ديکھ کر کسی کو نہ ديکھ 
ميرا يہ شوق کہ سب سے کلام کرتا چلوں

دينے والے مجھے موجوں کی روانی دے دے

دينے والے مجھے موجوں کی روانی دے دے
پھر سے اک بار مجھے ميری جوانی دے دے
اب تو جام ہو، ساقی ہو ميرے پہلو ميں
کوئی تو شام مجھے ايسی سہانی دے دے
نشہ آ جائے مجھے تيری جوانی کی قسم
تُو اگر جام ميں بھر کے مجھے پانی دے دے

لیے بیٹھا ہے دل اک عزم بے باکانہ برسوں سے

لیے بیٹھا ہے دل اک عزمِ بے باکانہ برسوں سے
کہ اس کی راہ میں ہیں کعبہ و بُت خانہ برسوں سے
دِل سادہ نہ سمجھا، ماسوائے پاک دامانی 
نگاہِ یار کہتی ہے کوئی افسانہ برسوں سے
گریزاں تو نہیں تجھ سے مگر تیرے سوا دل کو
کئی غم اور بھی ہیں اے غم جاناناں! برسوں سے

دست منعم مری محنت کا خریدار سہی

دستِ منعم مری محنت کا خریدار سہی
کوئی دن اور میں رُسوا سرِ بازار سہی
پھر بھی کہلاؤں گا آوارۂ گیسوئے بہار
میں ترا دام خزاں لاکھ گرفتار سہی
جست کرتا ہوں تو لڑ جاتی ہے منزل سے نظر
حائلِ راہ کوئی اور بھی دیوار سہی

آیا نہ اگر نامہ و پیغام کسی کا

آیا نہ اگر نامہ و پیغام کسی کا
آخر ہے کوئی روز میں یاں کام کسی کا
دیں جان تو ہم غیر کو دو بوسہ ہستم ہے
لے جائے کوئی اور، ہوا نام کسی کا
اس چشم کی گردش سے ہو دل کیونکر نہ برباد
گھر چھوڑے ہے کب گردشِ ایام کسی کا

پھر دل سے آ رہی ہے صدا اس گلی میں چل

پھر دل سے آ رہی ہے صدا اس گلی میں چل
شاید ملے غزل کا پتا، اس گلی میں چل
کب سے نہیں ہوا ہے کوئی شعر کام کا
یہ شعر کی نہیں ہے فضا اس گلی میں چل
وہ بام و در وہ لوگ وہ رسوائیوں کے زخم
ہیں سب کے سب عزیز جدا اس گلی میں چل

تم ہی کہو کیا کرنا ہے

تُم ہی کہو کیا کرنا ہے

 جب دُکھ کی ندیا میں ہم نے
 جیون کی ناؤ ڈالی تھی
 تھا کتنا کَس بَل بانہوں میں
لہُو میں کتنی لالی تھی
 یُوں لگتا تھا دو ہاتھ لگے
 اور ناؤ پُورم پار لگی

میرا فن مرے دور کا فن مرے انسان کا فن

میرا فن 

میرے نقاد
میں جذباتی ہوں
میرے اشعار میں للکار ہے
میری نظموں میں
قصیدوں کا کہیں رنگ نہیں
میری غزلیں

Monday, 12 January 2015

غزل سن کر پریشاں ہو گئے کیا

غزل سن کر پریشاں ہو گئے کیا
کسی کے دھیان میں تم کھو گئے کیا
یہ بے گانہ روی پہلے نہیں تھی 
کہو تم بھی کسی کے ہو گئے کیا
نہ پُرسش کو، نہ سمجھانے کو آئے 
ہمارے یار ہم کو رو گئے کیا

چاند رکتا ہے نہ آتی ہے صبا زنداں کے پاس

چاند رکتا ہے نہ آتی ہے صبا زنداں کے پاس
کون لے جائے مِرے نامے مِرے جاناں کے پاس
اب بجُز ترک وفا کوئی خیال آتا نہیں
اب کوئی حِیلہ نہیں شائد دلِ ناداں کے پاس
چند یادیں نوحہ گر ہیں خیمۂ دل کے قریب
چند تصویریں جھلکتی ہیں صفِ مِژگاں کے پاس

اب لوگ جو دیکھیں گے تو خواب اور طرح کے

اب لوگ جو دیکھیں گے تو خواب اور طرح کے
اس شہر پر اتریں گے عذاب اور طرح کے
اب کے تو نہ چہرے ہیں نہ آنکھیں ہیں نہ لب ہیں
اس عہد نے پہنے ہیں نقاب اور طرح کے
اب کوچۂ قاتل سے بُلاوا نہیں آتا
قاصد ہیں کہ لاتے ہیں جواب اور طرح کے

یہ کس عذاب سے خائف مرا قبیلہ ہے

یہ کس عذاب سے خائف مِرا قبِیلہ ہے
کہ خون مَل کے بھی چہروں کا رنگ پِیلا ہے
یہ کیسی زہر بھری بارشیں ہوئیں اب کے
کہ میرے سارے گلابوں کا رنگ نِیلا ہے
ہو کس طرح سے محبت کی گفتگو کہ ابھی
مِرے لہو سے تِرا فرش و سقف گِیلا ہے

عشق کا شہر بھی دیکھو کیا نیرنگ بھرا ہے

عشق کا شہر بھی دیکھو کیا نیرنگ بھرا ہے
اب دیوانے کا دامن بھی سنگ بھرا ہے
اب یہ کُھلا ہے کتنی پرانی دُشمنیاں تھیں
یاروں میں ہر ایک کا خنجر زنگ بھرا ہے
میرے بدل جانے پر تُم کو حیرت کیوں ہے
میں نے یہ بہروپ تمہارے سنگ بھرا ہے

لباس دار نے منصب نیا دیا ہے اسے

لباسِ دار نے منصب نیا دیا ہے اسے
وہ آدمی تھا، مسیحا بنا دیا ہے اسے
مگر سکوتِ فلک بھی زمیں جیسا تھا
دعائے نِیم شبی نے بھی کیا دیا ہے اسے
وہ سب حروف کہ بے شکل تھے، سلامت ہیں
جو لفظ چہرہ نما تھا، مِٹا دیا ہے اسے

وفا کے بھیس میں کوئی رقیب شہر بھی ہے

وفا کے بھیس میں کوئی رقیبِ شہر بھی ہے
حذر، کہ شہر کا قاتل طبیبِ شہر بھی ہے
وہی سپاہِ سِتم خیمہ زن ہے چاروں طرف
جو میرے بخت میں تھا اب نصیبِ شہر بھی ہے
اُدھر کی آگ اِدھر بھی پہنچ نہ جائے کہیں
ہوا بھی تیز ہے، جنگل قریبِ شہر بھی ہے

اک بوند تھی لہو کی سر دار تو گری

اک بوند تھی لہو کی سرِ دار تو گری
یہ بھی بہت ہے خوف کی دیوار تو گری
کچھ مغبچوں کی جراًتِ رِندانہ کے نثار
اب کے خطیبِ شہر کی دستار تو گری
کچھ سر بھی کٹ گرے ہیں پہ کہرام تو مچا
یوں قاتلوں کے ہاتھ سے تلوار تو گری

Sunday, 11 January 2015

آئے دن مل کے بچھڑتے ہو ادا اچھی ہے

آئے دن مِل کے بچھڑتے ہو، ادا اچھی ہے
چاہنا ہی جو خطا ہے، تو سزا اچھی ہے
صبحِ غم اچھی نہ یہ شامِ بلا اچھی ہے
موت دونوں سے یقیناً، بخدا، آچھی ہے
سب دواؤں سے یہی ایک دوا اچھی ہے
ان کے کوچے میں جو آ جائے قضا، اچھی ہے

پھرا کے اپنے رخ کو پھیر میں چلمن کے بیٹھے ہیں

پھِرا کے اپنے رُخ کو پھیر میں چلمن کے بیٹھے ہیں
وہ سچ مچ ہم سے ناخوش ہو گئے یا بن کے بیٹھے ہیں
غضب کیا ہے جو اس کوچے میں اُس پُرفن کے بیٹھے ہیں
کسی کو کیا غرض، مالک ہیں اپنے من کے بیٹھے ہیں 
الٰہی! خیر دل کی، جان کی، چشمِ تماشا کی
بلا کی شان سے محفل میں وہ بن ٹھن کے بیٹھے ہیں

کہتے ہیں کوئی مول نہیں دل کا مگر ہے

کہتے ہیں کوئی مول نہیں دل کا، مگر ہے
ہلکا سا تبسّم ہے، اچٹتی سی نظر ہے
ہاں عشق نہیں مگر ان کو مگر اس کا اثر ہے
تسکین کی صورت نہ اِدھر ہے نہ اُدھر ہے
اپنے لیے آئینہ بنایا میرے دل کو
مجھ پہ یہ بڑا ہی کرمِ آئینہ گر ہے

ملنے کی خوشی تھی تو بچھڑ جانے کا غم بھی

ملنے کی خوشی تھی تو بچھڑ جانے کا غم بھی
دنیائے محبت میں کوئی چیز تھے ہم بھی
کم ہو گی کس دن یہ تیری مشقِ ستم بھی
اے حُسنِ سِتم کیش! کبھی مجھ پہ کرم بھی
وہ لطفِ مجسّم بھی، سراپائے کرم بھی
سب رُوپ اسی کے ہیں خدا بھی ہے صنم بھی

Saturday, 10 January 2015

آئینہ تھا، میں تھی اور اس کی نگاہوں کا حصار

آئینہ تھا، میں تھی اور اُس کی نگاہوں کا حصار
اِس رعایا کو مِلا یوں بادشاہوں کا حصار
دشت میں زادِ سفر اتنا ہی تھا میرے لئے
اشک تھے اور ساتھ تھا بس میری آہوں کا حصار
کیا کریں ہم کو تو بڑھنے ہی نہیں دیتا کہیں
گم شدہ منزل کا اور کچھ الجھی راہوں کا حصار

دائمی ہے عشق اور اک دائمی آواز ہے

دائمی ہے عشق اور اک دائمی آواز ہے 
میرے کانوں میں ابھی تک بس وہی آواز ہے
ساتھ میرے رات بھر جو جاگتی آواز ہے 
کون جانے یہ تو میری روح کی آواز ہے
ہجر کے لمحوں میں اب تک یہ خبر کب ہو سکی 
جاگتی ہوں میں یا کوئی جاگتی آواز ہے

تو نے کس کی خاطر شعر کہے

تُو نے کس کی خاطر شعر کہے
تُو جانتا ہے ہمزاد مرے
اے دل! میرے، ناشاد مرے
جس نام کے سارے حرفوں کو 
اور نظم کے سارے مصرعوں کو
اے دل! تُو نے سو بار لکھا

سن میری سہیلی، بات تو سن

سُن میری سہیلی، بات تو سُن
کٹی کیسے عمر کی رات تو سُن
اک شام کی لالی اوڑھ کے جب
اک یاد میں خود کو توڑ کے جب
میں آئینہ بن کر کھڑی رہی
گویا اس ہجر کے زیور میں
میں موتی بن کر جڑی رہی

Friday, 9 January 2015

غروب مہر کا ماتم ہے گلستانوں میں

غروبِ مہر کا ماتم ہے گلستانوں میں
نسیمِ صبح بھی شامل ہے نوحہ خوانوں میں
جہاں تھے رقصِ طرب میں کبھی در و دیوار
بلائیں ناچ رہی ہیں اب ان مکانوں میں
اندھیری رات، بھیانک کھنڈر، مُہیب فضا
بھٹک رہا ہوں اجل کے سیہ خانوں میں

پھر کسی غم میں گرفتار نظر آتی ہو

پھر کسی غم میں گرفتار نظر آتی ہو
کیوں کئی روز سے بے زار نظر آتی ہو
کیا کسی شوخ سہیلی نے تمہیں ٹوک دیا
یوں جو محجوب و دل فگار نظر آتی ہو
کس کی فرقت میں پریشاں ہیں تمہارے گیسو
ہجر میں کس کے عزا دار نظر آتی ہو

صبح نو ہم تو ترے ساتھ نمایاں ہوں گے

صبحِ نَو ہم تو تِرے ساتھ نمایاں ہوں گے
اور ہوں گے جو ہلاکِ شبِ ہجراں ہوں گے
صدمۂ زیست کے شکوے نہ کر اے جانِ رئیسؔ
بخدا یہ نہ تِرے درد کا داماں ہوں گے
میری وحشت میں ابھی اور ترقی ہو گی
تیرے گیسو تو ابھی اور پریشاں ہوں گے

ایسا بھی زندگی میں آتا ہے اک زمانہ

ایسا بھی زندگی میں آتا ہے اک زمانہ
ہر چیز پر نگاہیں پڑتی ہیں عاشقانہ
باوصف خود پسندی یہ کربِ درد مندی
بیگانگی کے دعوے اور اس قدر یگانہ
تم بھی نہیں سمجھتے کتنے جمیل ہو تم
میری نظر سے پوچھو یہ رمزِ عاشقانہ

ڈھل گئی ہستئ دل یوں تری رعنائی میں

ڈھل گئی ہستئ دل یوں تِری رعنائی میں
مادہ جیسے نکھر جائے توانائی میں
پہلے منزل پسِ منزل پسِ منزل اور پھر
راستے ڈوب گئے عالمِ تنہائی میں
ڈھونڈتا پھرتا ہوں خود اپنی بصیرت کی حدود
کھو گئی ہیں میری نظریں مِری بینائی میں

شروع عشق کا یا رب عجب زمانہ تھا

شروعِ عشق کا یا رب! عجب زمانہ تھا
زمانے بھر سے مِرا طرز باغیانہ تھا
نظر نظر کو میسّر نئی تجلی تھی
 قدم قدم پہ مُرتب نیا فسانہ تھا
حضور حسن بھی باوصفِ اعترافِ شکست
مِری نگاہ کا انداز جارحانہ تھا

دل کسی مست ناز تک پہنچے

دل کسی مستِ ناز تک پہنچے
یہ حقیقت مجاز تک پہنچے
سلسلہ کاش میری وحشت کا
تیری زُلفِ دراز تک پہنچے
جس طرف بھی سفر کِیا ہم نے
اسی فتنہ طراز تک پہنچے

شرح گرفتگی نہ اسیر محن سے پوچھ

شرحِ گرفتگی نہ اسیرِ محن سے پوچھ
یہ بات اپنی زلفِ شکن در شکن سے پوچھ
مردان حق کا عزم، شہیدان حق کا جرم
دل دادگانِ مسلکِ دار و رسن سے پوچھ
لذت کشانِ ساغر عشرت کو کیا خبر
رنجِ خمار، تلخئ کام و دہن سے پوچھ

ہوں مزے دار جفائیں تو مزہ آ جائے

ہوں مزے دار جفائیں تو مزہ آ جائے
زہرِِ غم خود وہ پلائیں تو مزہ آ جائے
جرم بن جائیں وفائیں تو مزہ آ جائے
دیں وہ گِن گِن کے سزائیں تو مزہ آ جائے
غیر نے بزم سجائی ہے بڑے دعوے سے
آپ تشریف نہ لائیں تو مزہ آ جائے

کوک ری کوئل کوک

کُوک ری کوئل کُوک

بدلی ہے، برسات نہیں ہے
ساون میں وہ بات نہیں ہے
روٹھ گئے ہیں اِندر راجا
برکھا رُت سے کہہ دو، آ جا
من میں سو گئی ہُوک
کُوک ری کوئل کُوک

Thursday, 8 January 2015

اے طائر لب بستہ آ مرغ خوش الحاں بن

اے طائرِ لب بستہ! آ، مرغِ خوش الحاں بن
یہ مردہ دلی تا کے، اٹھ، جانِ گلستاں بن
تقلید کے دیوانے! تقلید گدائی ہے
تحقیقی ہے سلطانی، ہم پایۂ سلطاں بن
اے پیرئ افسردہ! آ، درسِ جوانی لے
اے ملتِ مفتوحہ! اٹھ، فاتحِ دوراں بن

دور انديش مريضوں کی يہ عادت ديکھی

دور انديش مريضوں کی يہ عادت ديکھی
ہر طرف ديکھ ليا جب تيری صورت ديکھی
آئے اور اک نِگہِ خاص سے پھر ديکھ گئے
جبکہ آئے ہوئے بيمار ميں طاقت ديکھی
قوتيں ضبط کی ہر چند سنبھالے تھيں مجھے
پھر بھی ڈرتے ہوئے ميں نے تری صورت ديکھی

عشوؤں کو چین ہی نہیں آفت کئے بغیر

عشوؤں کو چین ہی نہیں آفت کئے بغیر
تم، اور مان جاؤ، شرارت کئے بغیر
اہلِ نظر کو یار دکھاتا رہِ وفا
اے کاش، ذکرِ دوزخ و جنت کئے بغیر
اب دیکھ اس کا حال، کہ آتا نہ تھا قرار
خود تیرے دل کو جس پہ عنایت کئے بغیر

نور رگوں میں دوڑ جائے، پردۂ دل جلا تو دو

نور رگوں میں دوڑ جائے، پردۂ دل جلا تو دو
دیکھنا رقص پھر مرا، پہلے نقاب اٹھا تو دو
رنگ ہے زرد کیوں مرا، حال ہے غیر کس لئے
ہو جو بڑے ادا شناس، اس کا سبب بتا تو دو
میرے مکاں میں تم مکیں، میں ہوں‌ مکاں سے بے خبر
ڈھونڈ ہی لوں گا میں تمہیں، مجھ کو مرا پتا تو دو

حسن افسردہ و پریشاں ہے خدا خیر کرے

حسن افسردہ و پریشاں ہے خدا خیر کرے
نوک مژگاں پہ چراغاں ہے خدا خیر کرے
سطح عارض کی دھڑکتی ہوئی رنگینی سے
دل کی ہر ضرب نمایاں ہے خدا خیر کرے
خیمہ زمزمۂ و حجلہ، عود و نَے میں
ریۂ گوشہ نشیناں ہے خدا خیر کرے

دیر سے منتظر ہوں میں، بیٹھ نہ یوں حجاب میں

دیر سے منتظر ہوں میں، بیٹھ نہ یوں حجاب میں
تاروں کی چھاؤں ہے، در آ میرے دلِ خراب میں
کس سے کہوں میں داستاں طولِ شب فراق کی
جاگ رہا ہوں ایک میں، سارا جہاں ہے خواب میں
اُس سے ڈرو وہ فتنۂ بزمِ حیات جسے
شیب میں ‌تابِ مے نہ ہو، عشق نہ ہو شباب میں

دیکھے گی مری حسرت دیدار کسی دن

دیکھے گی مری حسرتِ دیدار کسی دن

ہوتے ہوئے زینہ تری دیوار کسی دن

اندر سے مجھے کھود رہی ہے مری وحشت

نکلے گا یہیں سے مرا کردار کسی دن

وہ آنکھ غنیمت ہے خدا رکھے سلامت

مے خانہ تو ہو جائے گا مسمار کسی دن

پھول کلیوں تتلیوں کو، طائران شہر کو

پھول کلیوں، تتلیوں کو، طائرانِ شہر کو

کھا گئی کس کی نظر زندہ دلانِ شہر کو

رات کو بستر بنا کر خاک پر سوتے ہوئے

اوڑھ لیتا ہوں بدن پر آسمانِ شہر کو

چھپ نہیں سکتی حقیقت دودِ آتش کی طرح

روک سکتا ہے کہاں کوئی زبانِ شہر کو

اس کو کہتے ہیں اچانک ہوش میں آنے کا نام

اس کو کہتے ہیں اچانک ہوش میں آنے کا نام
رکھ دیا دانش کدہ، رِندوں نے مے خانے کا نام
حُور ہے رعنائِ نِسواں کا اک نقلی لباس
خُلد ہے، زاہد کے دانستہ بہک جانے کا نام
آپ پر بھی وار ہو دل کا، تو پوچھیں آپ سے
عشق بیماری کا غلبہ ہے کہ افسانے کا نام

اب کہاں اس کی ضرورت ہے ہمیں

اب کہاں اس کی ضرورت ہے ہمیں
اب اکیلے پن کی عادت ہے ہمیں
دیکھیے جا کر کہاں رکتے ہیں اب
تیری قربت سے تو ہجرت ہے ہمیں
سانس لیتی ایک خوشبو ہے جسے
وِرد کرنے کی اجازت ہے ہمیں

ابھی سے طاق طلب پر نہ تو سجا مجھ کو

ابھی سے طاقِ طلب پر نہ تُو سجا مجھ کو
ابھی تو کرنا ہے اس دل سے مشورہ مجھ کو
ابھی شبیہہ مکمل نہیں ہوئی تیری
ابھی تو بھرنا ہے اک رنگ ماورأ مجھ کو
کوئی نہ کوئی تو صورت نکل ہی آئے گی
ذرا بتاؤ تو درپیش مرحلہ مجھ کو 

تجھ پہ اب بھی وہ مان باقی ہے

تجھ پہ اب بھی وہ مان باقی ہے
ہاں، دلِ خوش گمان باقی ہے
برف جیسے بدن الاؤ میں
زندگی کا گمان باقی ہے
ایک سِسکی رکی تھی آنکھوں میں
اب بھی اُس کا نشان باقی ہے

سوئے مے کدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

سُوئے میکدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
وہ نگاہ سے مے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی
گو ہوائے گلستاں نے میرے دل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی
یہ بجا کہ کلی نے کھِل کر کیا گلستان مُعطر
مگر آپ مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی

Tuesday, 6 January 2015

یوں اپنی بھول کی میں سزا کاٹنے لگا

یوں اپنی بھول کی میں سزا کاٹنے لگا
جس کو گلے لگایا، گلا کاٹنے لگا
اب کے عجیب طرح کی بارش ہوئی یہاں
سیلِ وفا بھی راہِ وفا کاٹنے لگا
کس کشمکش میں تھا کہ میں دیوارِ عشق پر
 لکھا پہ لکھ کے نام تِرا کاٹنے لگا

دو گھڑی بیٹھ کے دو بات نہیں ہو سکتی

دو گھڑی بیٹھ کے دو بات نہیں ہو سکتی
کیا کبھی تجھ سے ملاقات نہیں ہو سکتی
اے محبت! نہ برا مان کہ اب اِس دل سے
پہلی چاہت سی مدارات نہیں ہو سکتی
دل کو ڈھارس تو میں دیتا ہوں مگر لگتا ہے
عمر بھر تجھ سے ملاقات نہیں ہو سکتی

نہ ساتھ ساتھ رہے ہر گھڑی حیا سے کہو

نہ ساتھ ساتھ رہے ہر گھڑی حیا سے کہو
کبھی تو کھل کے کوئی بات ہمنوا سے کہو
کہو کچھ ایسے کہ تا عمر دل کو یاد رہے
ذرا سی بات ہے کہنی ذرا ادا سے کہو
سناؤ کوئی کہانی اگر محبت کی
نہ انتہا کی سناؤ نہ ابتدا سے کہو

ہر اک قدم پہ رنگ فشانی سفر میں ہے

ہر اک قدم پہ رنگ فشانی سفر میں ہے
ہمراہ جب سے دلبرِ جانی سفر میں ہے
بچپن کے سارے خواب کچلنے پڑے جسے
آزردہ آج بھی وہ جوانی سفر میں ہے
راہِ وفا میں تُو نے عطا کی ہے جو مجھے
روشن وہ ایک ایک نشانی سفر میں ہے

جب کہ وجہ خوف مار آستیں کا شور ہے

بات اور بے بات پر وہ آن و ایں کا شور ہے
ہر نہیں پہ ہاں کا، ہر ہاں پر نہیں کا شور ہے
کھینچتا پھرتا ہوں دشمن پر خلا میں تیر کو
جب کہ وجہِ خوف، مارِ آستیں کا شور ہے
گھومتی ہے سر پہ چرخی چرخِ نیلی فام کی
اور نیچے سانس میں اٹکا زمیں کا شور ہے

فقیر ٹھہرا مقابل یہاں اکیلا میں

فقیر ٹھہرا مقابل یہاں اکیلا میں
چہار سمت ہے غولِ سگاں، اکیلا میں
گرا تو چرخ سبھی پر مگر سلیقے سے
تھا مختلف ہدفِ آسماں اکیلا میں
یہ خاک، چاک نیا مانگتی ہے، ڈھونڈتا ہوں
تجھے، اے کوزہ گرِ دو جہاں! اکیلا میں

اتنا طلسم یاد کے چقماق میں رہا

اتنا طلسم یاد کے چقماق میں رہا
روشن چراغ دور کسی طاق میں رہا
مخفی بھی تھا وصال کا وہ باب مختصر
کچھ دل بھی محو ہجر کے اسباق میں رہا
صحرا کے اشتراک پہ راضی تھے سب فریق
محمل کا جو فساد تھا عشاق میں رہا

دروغ و صدق کے ان واقعات کے اندر

دروغ و صدق کے ان واقعات کے اندر
میں خود گواہ تھا ہر واردات کے اندر
خراب حال ہوں لیکن مِرے گزشتہ کا
کمال دیکھ ذرا معجزات کے اندر
وہ اہرمن کہ جسے عاق کر دیا گیا تھا
دخیل کچھ ہے سوا کائنات کے اندر

ہوا اڑا کے مجھے شہرِ بے نشاں لے چل

ہوا! اُڑا کے مجھے شہرِ بے نشاں لے چل
جہاں مقیم ہیں سب میرے رفتگاں، لے چل
یہاں پہ ختم ہوئی سرحدِ یقیں، آگے
اب اِس مقام سے تُو طائرِ گماں! لے چل
ٹھہر تو اور برس دو برس گزارتے ہیں
نہیں پسند اگر عمرِ مہرباں! لے چل

راکھ اڑی خیمہ گاہوں کی خون میں لتھڑے سر آئے

قافلہ اترا صحرا میں اور پیش وہی منظر آئے 
راکھ اڑی خیمہ گاہوں کی خون میں لتھڑے سر آئے
گلیوں میں گھمسان کا رن ہے معرکہ دست بدست ہے یاں
جسے بھی خود پر ناز بہت ہو آنگن سے باہر آئے
اک آسیب سا لہراتا ہے بستی کی شہ راہوں پر
شام ڈھلے جو گھر سے نکلے لوٹ کے پھر نہیں گھر آئے

نسبت کوئی گماں کی ہے میرے یقیں کے ساتھ

نسبت کوئی گماں کی ہے میرے یقیں کے ساتھ
کرتا ہوں بات ہاں میں ہمیشہ نہیں کے ساتھ
لیلیٰ کو اپنے ناقہ و محمل رہے عزیز
رکھا ذرا سا شغل بھی صحرا نشیں کے ساتھ
گرتا ہے جس سبب  یہ فلک، اس مثال کے
اسباب بے شمار ہیں میری زمیں کے ساتھ

تھم گئی وقت کی رفتار ترے کوچے میں

تھم گئی وقت کی رفتار تِرے کوچے میں
ایسے ثابت ہوا سیار ترے کوچے میں
منظرِ بام سرِ دید نہیں کھلتا ہے
کچھ ہے نا دید کا اسرار ترے کوچے میں
ہر طلبگار کو ہے حاصلِ گفتار سکوت
نہ ہے انکار نہ اقرار ترے کوچے میں

نہ ڈھونڈ عمر گزشتہ کے داغ پانی میں

نہ ڈھونڈ عمرِ گزشتہ کے داغ پانی میں
جو خاک گھل گئی، کیسا سراغ پانی میں
طلسم ہے کسی سوراخ کا کہ بھرتا نہیں
ہزار ڈال کے رکھیے ایاغ پانی میں
ہے اس کے پاؤں میں چقماق کا اثر ایسا
ہوئے ہیں لمس سے پتھر چراغ پانی میں

کبھی قطار سے باہر کبھی قطار کے بیچ

کبھی قطار سے باہر کبھی قطار کے بیچ
میں ہجر زاد ہوا خرچ انتظار کے بیچ
بنا ہوا ہے تعلق سا استواری کا
مِرے طواف سے اس محور و مدار کے بیچ
کہ آتا جاتا رہے عکس حیرتی اس میں
بچھا دیا گیا آئینہ آر پار کے بیچ

ہے کام زمانے کو فقط قامت و قد سے

ہے کام زمانے کو فقط قامت و قد سے
سیرت رہی محروم یہاں داد و ستد سے
کرتا نہیں کم فاصلہ وہ اپنی طرف کا
بڑھنے کی اجازت نہیں مجھ کو مِری حد سے
ہلکان نہ بے کار ہو انکار میں اس کے
جو ذات کہ ہے ماورأ اثبات یا رد سے

محمل ہے مطلوب نہ لیلیٰ مانگتا ہے

محمل ہے مطلوب نہ لیلیٰ مانگتا ہے
چاک گریباں قیس تو صحرا مانگتا ہے
ہجر، سرِ ویرانۂ جاں بھی مُہر بلب
وصل، گلی کوچوں میں چرچا مانگتا ہے
اس آئینہ خانے کا ہر رقص کناں
اپنے سامنے اپنا تماشا مانگتا ہے

Monday, 5 January 2015

جی میں ہے یاد رخ و زلف سیہ فام بہت

 جی میں ہے یادِ رُخ و زلفِ سیہ فام بہت 

رونا آتا ہے مجھے ہر سحر و شام بہت 

دستِ صیاد تلک بھی نہ میں پہنچا جیتا 

بے قراری نے لیا مجھ کو تہِ دام بہت 

ایک دو چشمک ادھر گردشِ ساغر کہ مدام 

سر چڑھی رہتی ہے یہ گردشِ ایام بہت 

مالا والا بندی وندی جھومر وومر کیا

 مالا والا، بِندی وِندی، جھومر وومر کیا

زیور تیرا چہرہ تجھ کو زیور ویور کیا

کام زباں سے ہی لیتے ہیں سارے مہذب لوگ

طنز کا اک نشتر کافی ہے پتھر وتھر کیا

اول تو ہم پیتے نیٔں ہیں، گر پینا ٹھہرے

تیری آنکھوں سے پی لینگے ساغر واغر کیا

چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں

چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں
تمہاری بزم میں ہم بے زبان بیٹھے ہیں
یہ اور بات کہ منزل پہ ہم پہنچ نہ سکے
مگر یہ کم ہے کہ راہوں کو چھان بیٹھے ہیں
فغاں ہے درد ہے، سوز و فراق و داغ و الم
ابھی تو گھر میں بہت مہربان بیٹھے ہیں

اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہ دل فگار بن کر​

اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالۂ دل فگار بن کر​
مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمۂ نو بہار بن کر​
یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی​
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمہاری آنکھوں میں خار بن کر​
جہان والے ہمارے گیتوں سے جائزہ لیں گے سسکیوں کا​
جہان میں پھیل جائیں گے ہم بشر بشر کی پکار بن کر​

بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے

بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں، خضرؑ نہیں، راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے

اے باغباں یہ جبر ہے یا اختیار ہے

 اے باغباں! یہ جبر ہے یا اختیار ہے؟

مُرجھا رہے ہیں پُھول چمن میں بہار ہے

شاید اسی کا نام غمِ روزگار ہے 

وہ مل گئے تو اور بھی دل بے قرار ہے

میں صاحبِ چمن ہوں مجھے اعتبار ہے 

شامِ خزاں کے بعد ہی صبحِ بہار ہے

پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دئیے

پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دئیے
پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دئیے
نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو رو دئیے
غنچہ کسی نے شاخ سےتوڑا تو رو دئیے
اڑتا ہوا غبار سرِ راہ دیکھ کر
انجام ہم نے عشق کا سوچا تو رو دئیے

Sunday, 4 January 2015

خلاف جور و جفا حرف حق پہ اڑتے ہوئے

خلافِ جور و جفا حرفِ حق پہ اَڑتے ہوئے

صلیب دیکھ چکا تھا میں اپنی گڑتے ہوئے

بچھا کے پلکیں چنے تھے مری سماعت نے

کسی کے ہونٹوں سے باتوں کے پھول جھڑتے ہوئے

میں اپنی چشمِ تصور سے دیکھ سکتا تھا

نظر سے جسم پہ اس کے نشان پڑتے ہوئے

مجھے گھومنا نہيں چاک پر، مرے کوزہ گر

مجھے گھومنا نہيں چاک پر، مِرے کوزہ گر
مِرے ارتقاء سے نہ ہاتھ کر، مرے کوزہ گر
مجھے گھگھوؤں کی نہ شکل دے، مجھے بخش دے
مِرے خد و خال پہ رحم کر، مرے کوزہ گر
ميں تو آج بھی وہی خاک ہوں ترے پاؤں کی
تجھے کيا ملا مجھے روند کر، مرے کوزہ گر

صبح کی چوکھٹ پہ مہرِ لوحِ شب کیسے لگی

صبح کی چوکھٹ پہ مہرِ لوحِ شب کیسے لگی

بے در و دیوار گھر میں نقب کب کیسے لگی

یہ کہا تھا، وہ نہیں تم جو دکھاتے ہو مجھے

بات فرعونوں کو یہ سوئے ادب کیسے لگی

فیصلہ تو خیر میرے حق میں کیا ہوگا مگر

مجھ پہ فردِ جرم آخر بے سبب کیسے لگی

بپا یہ ظلم کسی حال میں نہیں کرتے

بپا یہ ظلم کسی حال میں نہیں کرتے
گھروں کے فیصلے چوپال میں نہیں کرتے
ہم اپنی نیکی سمجھتے تو ہیں تجھے لیکن
شمار نامۂ اعمال میں نہیں کرتے
محبت اپنی جگہ بام و در سے میرے عزیز
مگر یہ تجربہ بھونچال میں نہیں کرتے

کیا کچھ نہیں تھا بس میں مگر دل نہیں کیا

کیا کچھ نہیں تھا بس میں مگر دل نہیں کیا
کھونے کے خوف سے اسے حاصل نہیں کیا
خود پر حرام سمجھا ثمر کے حصول کو
جب تک شجر کو چھاؤں کے قابل نہیں کیا
محسوس کر لیا تھا بھنور کی تھکان کو
یونہی تو خود کو رقص پہ مائل نہیں کیا

پل بھر کا بہشت

پل بھر کا بہشت 

ایک وہ پَل جو شہر کی خُفیہ مُٹھی میں
جگنو بن کر
دھڑک رہا ہے
اس کی خاطر
ہم عمروں کی نیندیں کاٹتے رہتے ہیں

چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں

چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں
جہاں ترے پیروں کے
کنول گرا کرتے تھے
ہنسے تو دو گالوں میں
بھنور پڑا کرتے تھے
تری کمر کے بَل پر
ندی مڑا کرتی تھی

دل سوچ کا پنجرہ ہے

دل سوچ کا پنجرہ ہے
اک بار ہی کھلتا ہے
دل پیار کا سودا ہے
اک بار ہی ہوتا ہے

دل یاد کا بادل ہے
بے انت برستا ہے

افق پھلانگ کے امڈا ہجوم لوگوں کا

اُفق پھلانگ کے اُمڈا ہجوم لوگوں کا
کوئی منارے سے اُترا، کوئی منڈیروں سے
کسی نے سیڑھیاں لپکیں، ہٹائیں دیواریں
کوئی اَذاں سے اُٹھا ہے، کوئی جَرَس سُن کر
غُصیلی آنکھوں میں، پُھنکارتے حوالے لئے
گلی کے موڑ پہ آ کر ہوئے ہیں جمع سبھی

یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا

یہ کیسا عشق ہے اُردو زباں کا

یہ کیسا عشق ہے اُردو زباں کا
مزہ گُھلتا ہے لفظوں کا زباں پر، کہ جیسے پان میں مہنگا قوام گُھلتا ہے
یہ کیسا عشق ہے اُردو زباں کا
نشہ آتا ہے اُردو بولنے میں
گلوری کی طرح ہے منہ لگی سب اصطلاحیں، لطف دیتی ہیں

ہم تو کتنوں کو مہ جبیں کہتے

ہم تو کتنوں کو مہ جبیں کہتے
آپ ہیں اس لئے نہیں کہتے
چاند ہوتا نہ آسماں پر اگر
ہم کسے آپ سا حسیں کہتے
آپ کے پاؤں پھر کہاں پڑتے
ہم زمیں کو اگر زمیں کہتے

مسند پیر مغاں​

مسندِ پیرِ مغاں​

اُڑا کے بادِ فنا لے گئی ہے شہر کا شہر
 نہ بام و در رہے باقی نہ جسم و جاں میرے
 کسے کسے میں پکاروں کسے کسے روؤں
 تڑپ رہے ہیں شناسا کہاں کہاں میرے

 کسی کا کاسۂ سر ہے فضا میں سر گرداں
 کوئی نگارِ دل آرا و دو نیم ہو کے گرا

شہر نامہ​ وہ عجیب صبح بہار تھی

شہر نامہ​

وہ عجیب صبحِ بہار تھی
 کہ سحر سے نوحہ گری رہی
 مِری بستیاں تھیں دُھواں دُھواں
 مِرے گھر میں آگ بھری رہی

 مِرے راستے تھے لہو لہو
 مِرا قریہ قریہ فگار تھا

Saturday, 3 January 2015

تم کہتے ہو وہ پوچھے گا

تم کہتے ہو
وہ“ پوچھے گا”
”کتنی نمازیں پڑھیں تھیں کتنے روزے رکھے ؟“
اس کے علاوہ بھی کچھ باتیں، تم کہتے ہو
”ایسا ہو گا، اتنا ہو گا، یوں یوں ہو گا“
“جب سب کچھ معلوم ہے، ”تو پھر ڈرتے کیوں ہو؟

دل موج میں آیا تو کٹی جسم کی حد بھی

دل موج میں آیا تو کٹی جسم کی حد بھی 
منسوخ ہوئی صبحِ ازل، شامِ ابد بھی 
وحشت ہی نہیں، فاضلِ حیرت بھی ہوں میں دوست 
مجھ پاس ہے ”دل آئینہ خانے“ کی سند بھی
فی الحال تو جی جان سے دل محو ہے تجھ میں
اُکتایا، تو کر سکتا ہے تجھ حسن کو رد بھی 

تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے

فلمی گیت

تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے 
لہریں بھی ہوئیں مستانی سی 
تیری زلف کو چھو کر آج ہوئی
خاموش ہوا دیوانی سی
٭٭٭٭٭٭
یہ روپ کا کُندن دہکا ہوا
یہ جسم کا چندن مہکا ہوا
الزام نہ دینا پھر مجھ کو
ہو جائے اگر نادانی سی

یہ جگمگاتی وادیاں یہ گنگناتی ندیاں

یہ جگمگاتی وادیاں
یہ گنگناتی ندیاں
یہ سرسبز کھیتیاں
یہ سر بلند چوٹیاں
میری زمیں کا حسن ہیں
میرے وطن کی شان ہیں
یہ جگمگاتی وادیاں

بال بال دنیا پر اس کا ہی اجارہ ہے

بال بال دنیا پر اس کا ہی اجارہ ہے
وقت خالی ہاتھوں سے ہم نے بهی گزارا ہے
کُو بہ کُو برستا ہے،۔ یم بہ یم ابلتا ہے
خونِ آدمیت سے نقشِ لا سنوارا ہے
لے چلو چراغوں کو کر کے خون سے روشن
دشت کی سیاہی نے ہم کو بھی پکارا ہے

بے لوث اداؤں کی ہوا کیوں نہیں آتی

بے لوث اداؤں کی ہوا کیوں نہیں آتی
جو قلب سے اٹھتی تھی صدا کیوں نہیں آتی
پیغامِ خودی حرف کی جاگیر تھا، لیکن
اشعار سے اب ویسی ندا کیوں نہیں آتی
تن پر تو سجا رکھا ہے ملبوسِ شہانہ
آنکھوں میں مگر تیری حیا کیوں نہیں آتی

یہ آرزو ہے کہ لفظوں کو آئینہ کر دوں

نعتِ رسولِ مقبولؐ

یہ آرزو ہے کہ لفظوں کو آئینہ کر دوں
قدیم یاد کے مضمون کو نیا کر دوں
بنے بنائے قرینوں میں نعت کیوں لکھوں
میں کیوں نہ کوئی قرینہ نیا بنا کر دوں
میرے قصیدے کی تشبیب بھی ہو ثابت سی
کڑی کڑی سے ملا لوں تو سلسلہ کردوں

Thursday, 1 January 2015

کچھ غم جاناں کچھ غم دوراں دونوں میری ذات کے نام

کچھ غمِ جاناں کچھ غمِ دوراں دونوں میری ذات کے نام
ایک غزل منسوب ہے تجھ سے ایک غزل حالات کے نام
موجِ بلا دیوارِ سحر پر اب تک جو کچھ لکھتی رہی
میری کتاب زیست کو پڑھئے درج ہیں سب صدمات کے نام
صحرا زنداں طوق سلاسل آتشِ زہر اور دار و رسن
کیا کیا ہم نے دے رکھے ہیں آپ کے احسانات کے نام

علاج زخم دل ہوتا ہے غم خواری بھی ہوتی ہے

 علاجِ زخمِ دل ہوتا ہے غم خواری بھی ہوتی ہے

مگر مقتل کی میرے خوں سے گلکاری بھی ہوتی ہے

وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد

بہت سے فیصلوں میں اب طرفداری بھی ہوتی ہے

یہ ہے طرفہ تماشا کربلائے عصرِ حاضر کا

گھروں میں قاتلوں کے اب عزاداری بھی ہوتی ہے

دیار دل نہ رہا بزم دوستاں نہ رہی

دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی
اماں کی کوئی جگہ زیرِ آسماں نہ رہی
رواں ہیں آج بھی رگ رگ میں خون کی موجیں
مگر وہ ایک خلِش، وہ متاعِ جاں نہ رہی
لڑیں غموں کے اندھیروں سے کس کی خاطر ہم
کوئی کِرن بھی تو اس دل میں ضوفشاں نہ رہی

اے میرے زود رنج تو مسمار آ کے کر

اے میرے زود رنج تو مسمار آ کے کر
آ کھل کھلا کے سامنے یلغار آ کے کر
مدت سے کوئی کھیل تماشا نہیں ہوا 
جادو جگا نیا کوئی کردار آ کے کر
کچھ بھی نہیں یہ روز کے امکان کچھ نہیں 
اس شہرِِ ممکنات میں دیوار آ کے کر

جیسا نظر کا شوق تھا ویسا نہ کر سکا

جیسا نظر کا شوق تھا ویسا نہ کر سکا 
شہرِ کرشمہ ساز تماشا نہ کر سکا
دنیا نے گھول دیں مرے لہجے میں تلخیاں 
میں گفتگو کا شوق بھی پورا نہ کر سکا 
اک سبز روشنی تھی فضاؤں میں کھو گئی 
جانے کہاں میں کھو گیا پیچھا نہ کر سکا 

اک طرف یہ دل رکھنا اک طرف دیا رکھنا

اک طرف یہ دل رکھنا اک طرف دیا رکھنا
شام ہو تو کاموں کو صبح تک اٹھا رکھنا
زخم کھا کے سینے پر بھول تو نہیں جاتے 
پیار میں ضروری ہے زخم کا ہرا رکھنا
غم کے پھول کھلتے ہیں خواہشیں دبانے سے 
تم سے کہہ دیا کس نے خواہشیں دبا رکھنا

خاک میں رہتے ہوئے خاک اڑائی نہ گئی

خاک میں رہتے ہوئے خاک اڑائی نہ گئی 
ایسی وحشت تھی کہ تصویر بنائی نہ گئی
جانے کیا بول دیا حرفِ ملامت میں نے 
شہر والوں سے مری بات بھلائی نہ گئی 
چاہتا دل تھا بہت راکھ ہی کر دوں سب کچھ 
شہر اپنا تھا جسے آگ🔥 لگائی نہ گئی

میں تیرا نقش مکمل بنا نہیں سکتا

میں تیرا نقش مکمل بنا نہیں سکتا 
خیالِ یار برابر تو آ نہیں سکتا
یہ وقت لکھتا ہے کیا کیا عبارتیں دل پر 
جو پڑھ تو سکتا ہوں لیکن مٹا نہیں سکتا 
کمالِ ضبط سے یہ بارِ ہجر سہہ لوں گا
میں دل کے غار سے پتھر ہٹا نہیں سکتا 
عجیب طرح کی لذت ہے ہِجر و ہِجرت کی 
کہ درد اٹھتا ہے پر تلملا نہیں سکتا

مکیں کرتے نہیں لیکن مکاں محسوس کرتے ہیں

مکیں کرتے نہیں لیکن مکاں محسوس کرتے ہیں 
در و دیوار گھر کے سسکیاں محسوس کرتے ہیں 
کسی کے ہجر کو ہم نے برابر وصل سمجھا ہے 
 کسی کے وصل میں ہم دوریاں محسوس کرتے ہیں 
ہمارا کام ہے شعروں میں اپنا درد بھر دینا
یہاں کے لوگ ہی کم کم میاں محسوس کرتے ہیں