Friday, 30 January 2015
بچھڑ کے تجھ سے میسر ہوئے وصال کے دن
روشنی ختم ہوئی اہل نظر باقی ہیں
لفظ تو ہوں لب گفتار نہ رہنے پائے
وہ ساتھ لے گیا قول و قرار کا موسم
جو غم شناس ہو ایسی نظر تجھے بھی دے
بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا
ملے تھے خوف سے بچھڑے ہیں اعتماد کے ساتھ
کیا خبر تھی ہمیں یہ زخم بھی کھانا ہو گا
ادھر بھی سربکف میں ہوں ادھر بھی صف بہ صف میں ہوں
فن تشہیر سے کوئی بھی بیگانہ نہیں ملتا
بدن تو جل گئے سائے بچا لئے ہم نے
وہ برگ خشک تھا اور دامن بہار میں تھا
وقت کے تقاضوں کو اس طرح بھی سمجھا کر
Monday, 26 January 2015
غم ہے بے ماجرا کئی دن سے
نہیں نباہی خوشی سے غمی کو چھوڑ دیا
اک دل ہے جو ہر لمحہ جلانے کے لیے ہے
دل سے اب رسم و راہ کی جائے
ذات اپنی گواہ کی جائے
بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں
Friday, 23 January 2015
ٹوٹ بٹوٹ (بچوں کا اردو ادب)
منا اور لڈو (بچوں کا اردو ادب)
نہر میں آگ (بچوں کا اردو ادب)
کھیرا (بچوں کا اردو ادب)
نرالا شہر (بچوں کا اردو ادب)
عذرا کی گڑیا (بچوں کا اردو ادب)
راجا رانی (بچوں کا اردو ادب)
پانچ چوہے گھر سے نکلے (بچوں کا اردو ادب)
شریر لڑکا (بچوں کا اردو ادب)
Monday, 19 January 2015
اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا
قسمی کہ عشق جی سے مری تاب لے گیا
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مِژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا
آوے جو مصطبع میں تو سن لو کہ راہ سے
واعظ کو ایک جامِ مئے ناب لے گیا
کئی دن سلوک وداع کا مرے درپئے دل راز تھا
کبھو درد تھا، کبھو، داغ تھا، کبھو زخم تھا، کبھو دار تھا
دمِ صبح بزمِ خوش جہاں، شبِ غم سے کم نہ تھے مہرباں
کہ چراغ تھا سو تو دُور تھا، جو پتنگ تھا سو غُبار تھا
دلِ خستہ جو لہو ہو گيا، تو بَھلا ہوا کہ کہ کہاں تک
کبھو سوزينہ سے داغ تھا، کبھو دردِ غم سے فِگار تھا
زمیں چل رہی ہے کہ صبح زوال زماں ہے
کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے
کیا دل سے تیز قافلۂ اہل درد تھا
دل کو آمادۂ فریاد کیا تھا میں نے
کچھ نہیں ہے نہیں میں یا کچھ ہے
کچھ نہ ہونے کا ماجرا کچھ ہے
یعنی ہوتا ہے کچھ نہیں ہونا
یعنی ہونے سے ماورأ کچھ ہے
وقت جوکر ہے اپنی ٹوپی میں
ڈالتا کچھ، نکالتا کچھ ہے
ایک بوڑھے فقیر نے مجھ کو
کل بتایا ہے میرے سینے پر
ایک پاگل چُڑیل قابض ہے
اس لیے آج اپنے دوستوں کو
میں بتا دوں کہ آج سے آگے
باتوں باتوں میں ایک دو کی میں
Saturday, 17 January 2015
کوئے جاناں میں اور کیا مانگو
جز گماں اور تھا ہی کیا میرا
خود سے رشتے رہے کہاں ان کے
اب کسی سے مرا حساب نہیں
ذکر بھی اس سے کیا بھلا میرا
زخم امید بھر گیا کب کا
سب میں رہتے ہو مگر سب سے جدا لگتے ہو
بتوں کی یاد میں یاد خدا معلوم ہوتی ہے
عکس جاناں ہم شہید جلوہٴ جانانہ ہم
آشنا سے آشنا، بیگانہ سے بیگانہ ہم
تجھ کو کیا معلوم گزری کس طرح فرقت کی رات
کہہ پھرے اک اک ستارے سے تِرا افسانہ ہم
بند ہیں شیشوں میں لاکھوں بجلیاں پگھلی ہوئیں
کب ہیں محتاجِ شرابِ مجلسِ مے خانہ ہم
زمانہ خوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی
چراغِِ جاں کو نذرِ بادِ بے لحاظ کر کے بھی
غلام گردشوں میں ساری عمر کاٹ دی گئی
حصولِ جاہ کی روِش پہ اعتراض کر کے بھی
خجل ہوئی ہیں قامتیں، قیامتوں کے زعم میں
مذاق بن کے رہ گئیں ہیں قد دراز کر کے بھی
دام الفت سے چھوٹتی ہی نہیں
وہ بے وفا ہے ہمیشہ ہی دل دکھاتا ہے
لے لے سکون قلب بھی جو چاہے دے سزا مجھے
لیکن فصیلِ شہر سے اپنی نہ کر جدا مجھے
بجلی کی زد میں آشیاں، نوکِ سناں پہ ہے جگر
اب اور منتظر نہ رکھ، منزل مِری دکھا مجھے
دستک تھا دے رہا کوئی، دہلیز پر امنگ کی
میں ہی اسیرِ ذات تھا، خود ہی نہ در کھلا مجھے
چل نہ پائے رہگزر کے ساتھ ساتھ
منزلوں کے راہبر کے ساتھ ساتھ
وہ کسی اجڑے چمن کی یاد تھی
پتے پتے اور شجر کے ساتھ ساتھ
لحظہ لحظہ میں اسی آنگن میں تھا
قریہ قریہ اس نظر کے ساتھ ساتھ
Friday, 16 January 2015
چل عمر کی گٹھڑی کھولتے ہیں
اور دیکھتے ہیں
ان سانسوں کی تضحِیک میں سے
اس ماہ و سال کی بِھیک میں سے
اس ضرب، جمع، تفرِیق میں سے
کیا حاصل ہے، کیا لاحاصل
دکھ تو نہیں کہ تنہا مسافت میں مر گیا
اچھا ہوا میں تیری رفاقت میں مر گیا
حاکم خود اپنے عہدِ حکومت میں مر گیا
زندہ وہی رہا جو بغاوت میں مر گیا
کچھ نفرتوں کی نذر ہوا میرا یہ وجود
باقی جو بچ گیا تھا محبت میں مر گیا
دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتهی ہو
کوئی تو ہو جو مِری وحشتوں کا ساتهی ہو
میں اس سے جهوٹ بهی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتهی ہو
وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹهہرے
گلی گلی میری رسوائیوں کا ساتهی ہو
جو فیض سے شرف استفادہ رکھتے ہیں
کچھ اہلِ درد سے نسبت زیادہ رکھتے ہیں
رموزِ مملکتِ حرف جاننے والے
دلوں کو صورتِ معنی کشادہ رکھتے ہیں
شبِ ملال بھی، ہم رہروانِ منزلِ عشق
وصالِ صبحِ سفر کا ارادہ رکھتے ہیں
میں چپ رہا تو سارا جہاں تھا میری طرف
تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں تمام تیری حکایتیں ہیں
جز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
Thursday, 15 January 2015
تمام شب یونہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں
وہ اجنبی اجنبی سے چہرے
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہے
جب دھوپ مجھے پیکر آزار بناوے
دل نے جھیلے ہیں محبت میں وہ آزار کہ بس
یہ عشق بھی کیا ہے اسے اپنائے کوئی اور
ہر ایک لمحہ پہن کے صدیوں کی شال گزرا
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی
تھی سے ہے تک
Wednesday, 14 January 2015
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہٰی! یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو، کہ مُدعا کیا ہے
غنچہ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں، منہ سے مجھے بتا کہ یُوں
پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا، کہ بِن کہے
اس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یُوں
رات کے وقت مَئے پیے، ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ کرے خدا کہ یُوں
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
حُورانِ خلد میں تِری صورت مگر ملے
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
ساقی گری کی شرم کرو آج، ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے، جس قدر ملے
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو بُرا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانئ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، اِنہیں کچھ نہ کہو
جو مئے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں
وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار، نقشِِ محبت ہی کیوں نہ ہو
ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گِلہ
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو
Tuesday, 13 January 2015
کبھی تو سوچنا یہ تم نے کیا کیا لوگو
یہ کس کو تم نے سرِ دار کھو دیا لوگو
ہوائے بُغض و خباثت چلی تو اپنے ساتھ
اڑا کے لے گئی انصاف کی قبا لوگو
دیا تھا صبحِ مسرت نے اِک چراغ ہمیں
اسی کو تم نے سرِ شام کھو دیا لوگو
گلہ نہیں ہے اگر میں تری نظر میں نہیں
ستارہ کوئی بھی اِس وقت اپنے گھر میں نہیں
تِری طرح مِری دنیا میں اِختیار کِسے
مِری طرح کوئی بے بس تِرے نگر میں نہیں
کِیا ہے فکرِ نشیمن سے برق نے آزاد
خدا کا شُکر کہ اَب میں کسی خطر میں نہیں
تم اس دور سے گزرے ہو ناں
وہ رُت، جس میں جل جاتی ہیں آنکھیں
تم پر بھی گزری ہے
وہ شب، جو مہتاب سے ٹپکے
آنسو آنسو، شبنم شبنم
وہ شب مجھ پر بھی اُتری ہے
دشمن ہو کوئی دوست ہو پرکھا نہیں کرتے
ہم خاک نشیں ظرف کا سودا نہیں کرتے
اک لفظ جو کہہ دیں تو وہی لفظ ہے آخر
کٹ جائے زبان بات کو بدلا نہیں کرتے
کوئی آ کے ہمیں ضرب لگا دے توالگ بات
ہم خود کسی لشکر کو پسپا نہیں کرتے
بدنام میرے پیار کا افسانہ ہوا ہے
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی
گزرتے وقت کی ہر موج ٹھہر جائے گی
بھٹکتے اَبر میں چہرہ کوئی بنا ہو گا
اداس راہ کوئی داستاں سُنائے گی
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی
حضور آپ کا بھی احترام کرتا چلوں
دينے والے مجھے موجوں کی روانی دے دے
لیے بیٹھا ہے دل اک عزم بے باکانہ برسوں سے
دست منعم مری محنت کا خریدار سہی
آیا نہ اگر نامہ و پیغام کسی کا
آخر ہے کوئی روز میں یاں کام کسی کا
دیں جان تو ہم غیر کو دو بوسہ ہستم ہے
لے جائے کوئی اور، ہوا نام کسی کا
اس چشم کی گردش سے ہو دل کیونکر نہ برباد
گھر چھوڑے ہے کب گردشِ ایام کسی کا
پھر دل سے آ رہی ہے صدا اس گلی میں چل
شاید ملے غزل کا پتا، اس گلی میں چل
کب سے نہیں ہوا ہے کوئی شعر کام کا
یہ شعر کی نہیں ہے فضا اس گلی میں چل
وہ بام و در وہ لوگ وہ رسوائیوں کے زخم
ہیں سب کے سب عزیز جدا اس گلی میں چل
تم ہی کہو کیا کرنا ہے
میرا فن مرے دور کا فن مرے انسان کا فن
Monday, 12 January 2015
غزل سن کر پریشاں ہو گئے کیا
چاند رکتا ہے نہ آتی ہے صبا زنداں کے پاس
اب لوگ جو دیکھیں گے تو خواب اور طرح کے
یہ کس عذاب سے خائف مرا قبیلہ ہے
عشق کا شہر بھی دیکھو کیا نیرنگ بھرا ہے
لباس دار نے منصب نیا دیا ہے اسے
وفا کے بھیس میں کوئی رقیب شہر بھی ہے
اک بوند تھی لہو کی سر دار تو گری
Sunday, 11 January 2015
آئے دن مل کے بچھڑتے ہو ادا اچھی ہے
پھرا کے اپنے رخ کو پھیر میں چلمن کے بیٹھے ہیں
کہتے ہیں کوئی مول نہیں دل کا مگر ہے
ملنے کی خوشی تھی تو بچھڑ جانے کا غم بھی
Saturday, 10 January 2015
آئینہ تھا، میں تھی اور اس کی نگاہوں کا حصار
دائمی ہے عشق اور اک دائمی آواز ہے
تو نے کس کی خاطر شعر کہے
سن میری سہیلی، بات تو سن
Friday, 9 January 2015
غروب مہر کا ماتم ہے گلستانوں میں
نسیمِ صبح بھی شامل ہے نوحہ خوانوں میں
جہاں تھے رقصِ طرب میں کبھی در و دیوار
بلائیں ناچ رہی ہیں اب ان مکانوں میں
اندھیری رات، بھیانک کھنڈر، مُہیب فضا
بھٹک رہا ہوں اجل کے سیہ خانوں میں
پھر کسی غم میں گرفتار نظر آتی ہو
کیوں کئی روز سے بے زار نظر آتی ہو
کیا کسی شوخ سہیلی نے تمہیں ٹوک دیا
یوں جو محجوب و دل فگار نظر آتی ہو
کس کی فرقت میں پریشاں ہیں تمہارے گیسو
ہجر میں کس کے عزا دار نظر آتی ہو
صبح نو ہم تو ترے ساتھ نمایاں ہوں گے
اور ہوں گے جو ہلاکِ شبِ ہجراں ہوں گے
صدمۂ زیست کے شکوے نہ کر اے جانِ رئیسؔ
بخدا یہ نہ تِرے درد کا داماں ہوں گے
میری وحشت میں ابھی اور ترقی ہو گی
تیرے گیسو تو ابھی اور پریشاں ہوں گے
ایسا بھی زندگی میں آتا ہے اک زمانہ
ہر چیز پر نگاہیں پڑتی ہیں عاشقانہ
باوصف خود پسندی یہ کربِ درد مندی
بیگانگی کے دعوے اور اس قدر یگانہ
تم بھی نہیں سمجھتے کتنے جمیل ہو تم
میری نظر سے پوچھو یہ رمزِ عاشقانہ
ڈھل گئی ہستئ دل یوں تری رعنائی میں
مادہ جیسے نکھر جائے توانائی میں
پہلے منزل پسِ منزل پسِ منزل اور پھر
راستے ڈوب گئے عالمِ تنہائی میں
ڈھونڈتا پھرتا ہوں خود اپنی بصیرت کی حدود
کھو گئی ہیں میری نظریں مِری بینائی میں
شروع عشق کا یا رب عجب زمانہ تھا
زمانے بھر سے مِرا طرز باغیانہ تھا
نظر نظر کو میسّر نئی تجلی تھی
قدم قدم پہ مُرتب نیا فسانہ تھا
حضور حسن بھی باوصفِ اعترافِ شکست
مِری نگاہ کا انداز جارحانہ تھا
دل کسی مست ناز تک پہنچے
یہ حقیقت مجاز تک پہنچے
سلسلہ کاش میری وحشت کا
تیری زُلفِ دراز تک پہنچے
جس طرف بھی سفر کِیا ہم نے
اسی فتنہ طراز تک پہنچے
شرح گرفتگی نہ اسیر محن سے پوچھ
یہ بات اپنی زلفِ شکن در شکن سے پوچھ
مردان حق کا عزم، شہیدان حق کا جرم
دل دادگانِ مسلکِ دار و رسن سے پوچھ
لذت کشانِ ساغر عشرت کو کیا خبر
رنجِ خمار، تلخئ کام و دہن سے پوچھ
ہوں مزے دار جفائیں تو مزہ آ جائے
زہرِِ غم خود وہ پلائیں تو مزہ آ جائے
جرم بن جائیں وفائیں تو مزہ آ جائے
دیں وہ گِن گِن کے سزائیں تو مزہ آ جائے
غیر نے بزم سجائی ہے بڑے دعوے سے
آپ تشریف نہ لائیں تو مزہ آ جائے
کوک ری کوئل کوک
ساون میں وہ بات نہیں ہے
روٹھ گئے ہیں اِندر راجا
برکھا رُت سے کہہ دو، آ جا
من میں سو گئی ہُوک
کُوک ری کوئل کُوک
Thursday, 8 January 2015
اے طائر لب بستہ آ مرغ خوش الحاں بن
دور انديش مريضوں کی يہ عادت ديکھی
عشوؤں کو چین ہی نہیں آفت کئے بغیر
نور رگوں میں دوڑ جائے، پردۂ دل جلا تو دو
حسن افسردہ و پریشاں ہے خدا خیر کرے
دیر سے منتظر ہوں میں، بیٹھ نہ یوں حجاب میں
دیکھے گی مری حسرت دیدار کسی دن
دیکھے گی مری حسرتِ دیدار کسی دن
ہوتے ہوئے زینہ تری دیوار کسی دن
اندر سے مجھے کھود رہی ہے مری وحشت
نکلے گا یہیں سے مرا کردار کسی دن
وہ آنکھ غنیمت ہے خدا رکھے سلامت
مے خانہ تو ہو جائے گا مسمار کسی دن
پھول کلیوں تتلیوں کو، طائران شہر کو
پھول کلیوں، تتلیوں کو، طائرانِ شہر کو
کھا گئی کس کی نظر زندہ دلانِ شہر کو
رات کو بستر بنا کر خاک پر سوتے ہوئے
اوڑھ لیتا ہوں بدن پر آسمانِ شہر کو
چھپ نہیں سکتی حقیقت دودِ آتش کی طرح
روک سکتا ہے کہاں کوئی زبانِ شہر کو
اس کو کہتے ہیں اچانک ہوش میں آنے کا نام
رکھ دیا دانش کدہ، رِندوں نے مے خانے کا نام
حُور ہے رعنائِ نِسواں کا اک نقلی لباس
خُلد ہے، زاہد کے دانستہ بہک جانے کا نام
آپ پر بھی وار ہو دل کا، تو پوچھیں آپ سے
عشق بیماری کا غلبہ ہے کہ افسانے کا نام
اب کہاں اس کی ضرورت ہے ہمیں
ابھی سے طاق طلب پر نہ تو سجا مجھ کو
تجھ پہ اب بھی وہ مان باقی ہے
سوئے مے کدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
وہ نگاہ سے مے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی
گو ہوائے گلستاں نے میرے دل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی
یہ بجا کہ کلی نے کھِل کر کیا گلستان مُعطر
مگر آپ مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی
Tuesday, 6 January 2015
یوں اپنی بھول کی میں سزا کاٹنے لگا
جس کو گلے لگایا، گلا کاٹنے لگا
اب کے عجیب طرح کی بارش ہوئی یہاں
سیلِ وفا بھی راہِ وفا کاٹنے لگا
کس کشمکش میں تھا کہ میں دیوارِ عشق پر
لکھا پہ لکھ کے نام تِرا کاٹنے لگا
دو گھڑی بیٹھ کے دو بات نہیں ہو سکتی
کیا کبھی تجھ سے ملاقات نہیں ہو سکتی
اے محبت! نہ برا مان کہ اب اِس دل سے
پہلی چاہت سی مدارات نہیں ہو سکتی
دل کو ڈھارس تو میں دیتا ہوں مگر لگتا ہے
عمر بھر تجھ سے ملاقات نہیں ہو سکتی
نہ ساتھ ساتھ رہے ہر گھڑی حیا سے کہو
کبھی تو کھل کے کوئی بات ہمنوا سے کہو
کہو کچھ ایسے کہ تا عمر دل کو یاد رہے
ذرا سی بات ہے کہنی ذرا ادا سے کہو
سناؤ کوئی کہانی اگر محبت کی
نہ انتہا کی سناؤ نہ ابتدا سے کہو
ہر اک قدم پہ رنگ فشانی سفر میں ہے
ہمراہ جب سے دلبرِ جانی سفر میں ہے
بچپن کے سارے خواب کچلنے پڑے جسے
آزردہ آج بھی وہ جوانی سفر میں ہے
راہِ وفا میں تُو نے عطا کی ہے جو مجھے
روشن وہ ایک ایک نشانی سفر میں ہے
جب کہ وجہ خوف مار آستیں کا شور ہے
ہر نہیں پہ ہاں کا، ہر ہاں پر نہیں کا شور ہے
کھینچتا پھرتا ہوں دشمن پر خلا میں تیر کو
جب کہ وجہِ خوف، مارِ آستیں کا شور ہے
گھومتی ہے سر پہ چرخی چرخِ نیلی فام کی
اور نیچے سانس میں اٹکا زمیں کا شور ہے
فقیر ٹھہرا مقابل یہاں اکیلا میں
چہار سمت ہے غولِ سگاں، اکیلا میں
گرا تو چرخ سبھی پر مگر سلیقے سے
تھا مختلف ہدفِ آسماں اکیلا میں
یہ خاک، چاک نیا مانگتی ہے، ڈھونڈتا ہوں
تجھے، اے کوزہ گرِ دو جہاں! اکیلا میں
اتنا طلسم یاد کے چقماق میں رہا
روشن چراغ دور کسی طاق میں رہا
مخفی بھی تھا وصال کا وہ باب مختصر
کچھ دل بھی محو ہجر کے اسباق میں رہا
صحرا کے اشتراک پہ راضی تھے سب فریق
محمل کا جو فساد تھا عشاق میں رہا
دروغ و صدق کے ان واقعات کے اندر
میں خود گواہ تھا ہر واردات کے اندر
خراب حال ہوں لیکن مِرے گزشتہ کا
کمال دیکھ ذرا معجزات کے اندر
وہ اہرمن کہ جسے عاق کر دیا گیا تھا
دخیل کچھ ہے سوا کائنات کے اندر
ہوا اڑا کے مجھے شہرِ بے نشاں لے چل
جہاں مقیم ہیں سب میرے رفتگاں، لے چل
یہاں پہ ختم ہوئی سرحدِ یقیں، آگے
اب اِس مقام سے تُو طائرِ گماں! لے چل
ٹھہر تو اور برس دو برس گزارتے ہیں
نہیں پسند اگر عمرِ مہرباں! لے چل
راکھ اڑی خیمہ گاہوں کی خون میں لتھڑے سر آئے
گلیوں میں گھمسان کا رن ہے معرکہ دست بدست ہے یاں
جسے بھی خود پر ناز بہت ہو آنگن سے باہر آئے
اک آسیب سا لہراتا ہے بستی کی شہ راہوں پر
شام ڈھلے جو گھر سے نکلے لوٹ کے پھر نہیں گھر آئے
نسبت کوئی گماں کی ہے میرے یقیں کے ساتھ
کرتا ہوں بات ہاں میں ہمیشہ نہیں کے ساتھ
لیلیٰ کو اپنے ناقہ و محمل رہے عزیز
رکھا ذرا سا شغل بھی صحرا نشیں کے ساتھ
گرتا ہے جس سبب یہ فلک، اس مثال کے
اسباب بے شمار ہیں میری زمیں کے ساتھ
تھم گئی وقت کی رفتار ترے کوچے میں
ایسے ثابت ہوا سیار ترے کوچے میں
منظرِ بام سرِ دید نہیں کھلتا ہے
کچھ ہے نا دید کا اسرار ترے کوچے میں
ہر طلبگار کو ہے حاصلِ گفتار سکوت
نہ ہے انکار نہ اقرار ترے کوچے میں
نہ ڈھونڈ عمر گزشتہ کے داغ پانی میں
جو خاک گھل گئی، کیسا سراغ پانی میں
طلسم ہے کسی سوراخ کا کہ بھرتا نہیں
ہزار ڈال کے رکھیے ایاغ پانی میں
ہے اس کے پاؤں میں چقماق کا اثر ایسا
ہوئے ہیں لمس سے پتھر چراغ پانی میں
کبھی قطار سے باہر کبھی قطار کے بیچ
میں ہجر زاد ہوا خرچ انتظار کے بیچ
بنا ہوا ہے تعلق سا استواری کا
مِرے طواف سے اس محور و مدار کے بیچ
کہ آتا جاتا رہے عکس حیرتی اس میں
بچھا دیا گیا آئینہ آر پار کے بیچ
ہے کام زمانے کو فقط قامت و قد سے
سیرت رہی محروم یہاں داد و ستد سے
کرتا نہیں کم فاصلہ وہ اپنی طرف کا
بڑھنے کی اجازت نہیں مجھ کو مِری حد سے
ہلکان نہ بے کار ہو انکار میں اس کے
جو ذات کہ ہے ماورأ اثبات یا رد سے
محمل ہے مطلوب نہ لیلیٰ مانگتا ہے
چاک گریباں قیس تو صحرا مانگتا ہے
ہجر، سرِ ویرانۂ جاں بھی مُہر بلب
وصل، گلی کوچوں میں چرچا مانگتا ہے
اس آئینہ خانے کا ہر رقص کناں
اپنے سامنے اپنا تماشا مانگتا ہے
Monday, 5 January 2015
جی میں ہے یاد رخ و زلف سیہ فام بہت
جی میں ہے یادِ رُخ و زلفِ سیہ فام بہت
رونا آتا ہے مجھے ہر سحر و شام بہت
دستِ صیاد تلک بھی نہ میں پہنچا جیتا
بے قراری نے لیا مجھ کو تہِ دام بہت
ایک دو چشمک ادھر گردشِ ساغر کہ مدام
سر چڑھی رہتی ہے یہ گردشِ ایام بہت
مالا والا بندی وندی جھومر وومر کیا
مالا والا، بِندی وِندی، جھومر وومر کیا
زیور تیرا چہرہ تجھ کو زیور ویور کیا
کام زباں سے ہی لیتے ہیں سارے مہذب لوگ
طنز کا اک نشتر کافی ہے پتھر وتھر کیا
اول تو ہم پیتے نیٔں ہیں، گر پینا ٹھہرے
تیری آنکھوں سے پی لینگے ساغر واغر کیا
چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں
اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہ دل فگار بن کر
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
اے باغباں یہ جبر ہے یا اختیار ہے
اے باغباں! یہ جبر ہے یا اختیار ہے؟
مُرجھا رہے ہیں پُھول چمن میں بہار ہے
شاید اسی کا نام غمِ روزگار ہے
وہ مل گئے تو اور بھی دل بے قرار ہے
میں صاحبِ چمن ہوں مجھے اعتبار ہے
شامِ خزاں کے بعد ہی صبحِ بہار ہے
پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دئیے
Sunday, 4 January 2015
خلاف جور و جفا حرف حق پہ اڑتے ہوئے
خلافِ جور و جفا حرفِ حق پہ اَڑتے ہوئے
صلیب دیکھ چکا تھا میں اپنی گڑتے ہوئے
بچھا کے پلکیں چنے تھے مری سماعت نے
کسی کے ہونٹوں سے باتوں کے پھول جھڑتے ہوئے
میں اپنی چشمِ تصور سے دیکھ سکتا تھا
نظر سے جسم پہ اس کے نشان پڑتے ہوئے
مجھے گھومنا نہيں چاک پر، مرے کوزہ گر
مِرے ارتقاء سے نہ ہاتھ کر، مرے کوزہ گر
مجھے گھگھوؤں کی نہ شکل دے، مجھے بخش دے
مِرے خد و خال پہ رحم کر، مرے کوزہ گر
ميں تو آج بھی وہی خاک ہوں ترے پاؤں کی
تجھے کيا ملا مجھے روند کر، مرے کوزہ گر
صبح کی چوکھٹ پہ مہرِ لوحِ شب کیسے لگی
صبح کی چوکھٹ پہ مہرِ لوحِ شب کیسے لگی
بے در و دیوار گھر میں نقب کب کیسے لگی
یہ کہا تھا، وہ نہیں تم جو دکھاتے ہو مجھے
بات فرعونوں کو یہ سوئے ادب کیسے لگی
فیصلہ تو خیر میرے حق میں کیا ہوگا مگر
مجھ پہ فردِ جرم آخر بے سبب کیسے لگی
بپا یہ ظلم کسی حال میں نہیں کرتے
گھروں کے فیصلے چوپال میں نہیں کرتے
ہم اپنی نیکی سمجھتے تو ہیں تجھے لیکن
شمار نامۂ اعمال میں نہیں کرتے
محبت اپنی جگہ بام و در سے میرے عزیز
مگر یہ تجربہ بھونچال میں نہیں کرتے
کیا کچھ نہیں تھا بس میں مگر دل نہیں کیا
کھونے کے خوف سے اسے حاصل نہیں کیا
خود پر حرام سمجھا ثمر کے حصول کو
جب تک شجر کو چھاؤں کے قابل نہیں کیا
محسوس کر لیا تھا بھنور کی تھکان کو
یونہی تو خود کو رقص پہ مائل نہیں کیا
پل بھر کا بہشت
جگنو بن کر
دھڑک رہا ہے
اس کی خاطر
ہم عمروں کی نیندیں کاٹتے رہتے ہیں
چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں
دل سوچ کا پنجرہ ہے
افق پھلانگ کے امڈا ہجوم لوگوں کا
یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا
ہم تو کتنوں کو مہ جبیں کہتے
مسند پیر مغاں
شہر نامہ وہ عجیب صبح بہار تھی
Saturday, 3 January 2015
تم کہتے ہو وہ پوچھے گا
دل موج میں آیا تو کٹی جسم کی حد بھی
تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے
تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے
یہ جسم کا چندن مہکا ہوا
الزام نہ دینا پھر مجھ کو
ہو جائے اگر نادانی سی
یہ جگمگاتی وادیاں یہ گنگناتی ندیاں
یہ گنگناتی ندیاں
یہ سرسبز کھیتیاں
یہ سر بلند چوٹیاں
میری زمیں کا حسن ہیں
میرے وطن کی شان ہیں
یہ جگمگاتی وادیاں
بال بال دنیا پر اس کا ہی اجارہ ہے
وقت خالی ہاتھوں سے ہم نے بهی گزارا ہے
کُو بہ کُو برستا ہے،۔ یم بہ یم ابلتا ہے
خونِ آدمیت سے نقشِ لا سنوارا ہے
لے چلو چراغوں کو کر کے خون سے روشن
دشت کی سیاہی نے ہم کو بھی پکارا ہے
بے لوث اداؤں کی ہوا کیوں نہیں آتی
جو قلب سے اٹھتی تھی صدا کیوں نہیں آتی
پیغامِ خودی حرف کی جاگیر تھا، لیکن
اشعار سے اب ویسی ندا کیوں نہیں آتی
تن پر تو سجا رکھا ہے ملبوسِ شہانہ
آنکھوں میں مگر تیری حیا کیوں نہیں آتی
یہ آرزو ہے کہ لفظوں کو آئینہ کر دوں
قدیم یاد کے مضمون کو نیا کر دوں
بنے بنائے قرینوں میں نعت کیوں لکھوں
میں کیوں نہ کوئی قرینہ نیا بنا کر دوں
میرے قصیدے کی تشبیب بھی ہو ثابت سی
کڑی کڑی سے ملا لوں تو سلسلہ کردوں
Thursday, 1 January 2015
کچھ غم جاناں کچھ غم دوراں دونوں میری ذات کے نام
علاج زخم دل ہوتا ہے غم خواری بھی ہوتی ہے
علاجِ زخمِ دل ہوتا ہے غم خواری بھی ہوتی ہے
مگر مقتل کی میرے خوں سے گلکاری بھی ہوتی ہے
وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد
بہت سے فیصلوں میں اب طرفداری بھی ہوتی ہے
یہ ہے طرفہ تماشا کربلائے عصرِ حاضر کا
گھروں میں قاتلوں کے اب عزاداری بھی ہوتی ہے