Thursday, 12 January 2017

کبھی خوشبو کبھی آواز بن جانا پڑے گا

کبھی خوشبو کبھی آواز بن جانا پڑے گا
پرندوں کو کسی بھی شکل میں آنا پڑے گا
خدا حافظ، بلند آواز سے کہنا پڑے گا
پھر اس آواز سےآگے نکل جانا پڑے گا
خود اپنے سامنے آتے ہوئے حیران ہیں ہم
ہمیں اب اس گلی سے گھوم کر جانا پڑے گا
اسے یہ گھر سمجھنے لگ گئے ہیں رفتہ رفتہ
پرندوں سے قفس آزاد کروانا پڑے گا
اداسی وزن رکھتی ہے جگہ بھی گھیرتی ہے
ہمیں کمرے کو خالی چھوڑ کر جانا پڑے گا
تعارف کیلئے چہرہ کہاں سے لائیں گے ہم
اگر چہرہ بھی ہو تو نام بتلانا پڑے گا
یہ جنگل باغ ہے عادؔل یہ دلدل آبجو ہے
کہیں کچھ ہے جسے ترتیب میں لانا پڑے گا

ذوالفقار عادل

No comments:

Post a Comment