کبھی خوشبو کبھی آواز بن جانا پڑے گا
پرندوں کو کسی بھی شکل میں آنا پڑے گا
خدا حافظ، بلند آواز سے کہنا پڑے گا
پھر اس آواز سےآگے نکل جانا پڑے گا
خود اپنے سامنے آتے ہوئے حیران ہیں ہم
اسے یہ گھر سمجھنے لگ گئے ہیں رفتہ رفتہ
پرندوں سے قفس آزاد کروانا پڑے گا
اداسی وزن رکھتی ہے جگہ بھی گھیرتی ہے
ہمیں کمرے کو خالی چھوڑ کر جانا پڑے گا
تعارف کیلئے چہرہ کہاں سے لائیں گے ہم
اگر چہرہ بھی ہو تو نام بتلانا پڑے گا
یہ جنگل باغ ہے عادؔل یہ دلدل آبجو ہے
کہیں کچھ ہے جسے ترتیب میں لانا پڑے گا
ذوالفقار عادل
No comments:
Post a Comment